[جناب جاوید احمد غامدی کی تحریروں، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی مختصر سوال و جواب]
سوال: دین اور مذہب کا لفظی معنی کیا ہے؟
جواب: دین کے بارے میں اگر اس اعتبار سے غور کیا جائے کہ یہ لفظ بنا کیسے ہے؟ تو بنیادی طور پر یہ ’دَانَ يَدِيْنُ‘، یعنی اطاعت سے ہے۔ چنانچہ قرآن مجید نے خاص طور پر ’اطاعت‘ کے لیے اس لفظ کو الگ سے استعمال کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کسی نقطۂ نظر کو اختیار کرتے ہیں تو آپ اس کے سامنے اپنی مرضی سے دست بردار ہوتے ہیں؛ اس کی برتری اورتفوق مانتے ہیں اور آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس چیز کے سامنے سرنگوں ہو رہے ہیں۔ خود ’اسلام‘ کے معنی بھی یہی ہیں۔ اسلام کا مطلب ہے: ’أسلمت نفسي إلیك‘ (میں نے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دیا)، تو یہ لفظ اصلاً اطاعت سے پیدا ہوا ہے اور پھر ترقی کرتے کرتے نظام اطاعت کے معنی میں استعمال ہونے لگ گیا۔ ہر مذہب ایک نظام اطاعت ہے۔ اسی طرح آپ مذہب سے اوپر اٹھ جائیں توجو ازم آپ بناتے ہیں، وہ بھی ایک نظام اطاعت بن جاتے ہیں۔ کبھی وہ اطاعت کسی دنیوی یا مادی اتھارٹی کی بنیاد پر ہوتی ہے اور کبھی مابعد الطبیعیاتی اتھارٹی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ چونکہ اس میں انسان کسی بالا تر چیز کو مانتا ہے اور اس کے سامنے سر جھکا دیتا ہے تو اس لیے یہ لفظ موزوں ہو گیا۔
’مذہب‘ سے مراد چلنے کا راستہ ہے، یعنی جس طرح عربی زبان میں ’ذَهَبَ يَذْهَبُ‘ استعمال ہوتا ہے، اسی سے بنا ہوا یہ لفظ ہے، گویا یہ چلنے کا راستہ ہے۔ جیسے ’سنت‘ کا لفظ ہے۔ لفظ ’سنت‘ اصطلاح بھی ہے اور یہ طریقے کے معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ جب یہ ’طریقے‘ کے معنی میں استعمال ہو تو اللہ تعالیٰ کے طریقے کو بھی ’سنت‘ سے تعبیر کریں گے اور خلفاے راشدین کے طریقے کو بھی ’سنت‘ سے تعبیر کریں گے ۔ جب یہ لفظ خاص اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوتا ہے تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے جو مستقل بالذات احکام ملے ہیں، ان کے لیے بھی یہ استعمال کیا جاتا ہے ۔
لفظوں کا استعمال اسی طریقے سے مختلف مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ بعض اوقات وہ اپنے لغوی مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں ، بعض اوقات ان کے اندر عرف کچھ خاص شرائط پیدا کر دیتا ہے اور بعض اوقات کسی خاص علم و فن میں استعمال ہوتے ہوتے وہ اصطلاح بن جاتے ہیں۔ ان کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے، لیکن فیصلہ کن چیز لوگوں کا استعمال ہے۔
سوال: دین اور مذہب میں کیا فرق ہے؟
جواب: یہ حقیقت ہے کہ جہاں تک استعمالات کا تعلق ہے، یہ دونوں لفظ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ استعمال کے لحاظ سے ان میں فرق بھی واقع ہوا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید نے ’دین‘ کا لفظ استعمال کیا۔ وہ چیز جس کو اللہ کی ہدایت کہا جاتا ہے، اس کو ’دین حق‘ کہا، لیکن جب قرآن نے اس کو استعمال کیا تو کیا ’ دین حق‘ کے لیے خاص کر دیا؟ جب قرآن مجید نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے پیش کی گئی ہدایت کے تقابل میں قریش کے دین کا ذکر کیا تو اس میں بھی ’دین‘ ہی کا لفظ استعمال کیا۔ چنانچہ قرآن مجیدکی ایک مختصر سی سورہ ، جسے عام طور پر پڑھا جاتا ہے، اس کی آخری آیت ہے: ’لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ ‘ ’’تمھارے لیے تمھارا دین ہے، میرے لیے میرا دین ہے‘‘ (الکافرون۱۰۹: ۶)۔ اس لیے جو لوگ کہتے ہیں کہ ’دین‘ کوئی اور چیز ہوتی ہے اور ’مذہب‘ کوئی اور چیز ہوتی ہے؛ Religion’ ‘ کا ترجمہ ’مذہب‘ کرنا چاہیے؛ دین تو نظام زندگی کا نام ہے، تو یہ بالکل بے بنیاد باتیں ہیں۔
یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں کہ:
الفاظ اپنی ابتدا میں کیا تھے؟
ان کے استعمالات کیا رہے ہیں؟
زبان میں الفاظ کہاں سے پیدا ہوئے؟
اور وہ اپنے پس منظر میں کن مراحل سے گزرے؟
یہ تو اصل میں زبان کی تاریخ کا مطالعہ ہے اور ان کی علمی اہمیت ہوتی ہے، لیکن لفظ کے معنی اور استعمال کا تعلق عرف سے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لفظ اپنے اندر بڑی جامعیت رکھتا ہو اور وقت کے ساتھ وہ محدود مفہوم میں استعمال ہونے لگ جائے؛ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بہت محدود مفہوم کے لیے وضع کیا گیا ہو اور وقت کے ساتھ وہ بہت وسعت کے ساتھ استعمال ہونے لگ جائے، اس لیے لوگ، بالعموم مذہبی پہلو سے یا الہٰیاتی پہلو سے یا ما بعد الطبیعیات وجود میں لا کر جب دنیا کے معاملات کا اس سے رشتہ قائم کرتے تھے تو عربی زبان میں اس کے لیے لفظ ’دین‘ استعمال ہوتا تھا۔
قریش بھی اپنے نقطۂ نظر کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے، اس کو کچھ پیغمبروں سے منسوب کرتے تھے اور اپنے پروردگار کی ہدایت کا بھی ایک تصور رکھتے تھے، اس کےمجموعے پر وہ ’دین‘ کا لفظ بولتے تھے۔ قرآن مجید نے اسی لفظ کو اختیار کیا ہے۔ یہ لفظ نہ قرآن کی ایجاد ہے ، نہ اس نے اس کو کوئی اصطلاح بنایا ہے، مگر اس نے ’دین حق‘ کی تعبیر ضرور اختیار کی ہے اور ایک صفت ساتھ لگا دی ہےتاکہ یہ معلوم ہو کہ دین وہ بھی ہوتے ہیں جو لوگ پیدا کر لیتے ہیں، وہ بھی ہوتے ہیں جن میں بہت بدعات داخل کر لی جاتی ہیں اور وہ بھی ہوتے ہیں جن کو لوگ اپنے طور پر بناتے ہیں اور ان کو اللہ کا دین قرار دے دیتے ہیں، اس لیے ا ستعمال کے لحاظ سے ’دین حق‘ وہ دین یا ہدایت ہے جو اب پروردگار کی طرف سے آ گئی ہے۔
اسی طرح دیکھیے کہ سورۂ یوسف میں، جب سیدنا یوسف علیہ السلام نے چاہا کہ وہ اپنے بھائی کو اب ان لوگوں کے ساتھ نہ جانے دیں تو ا س موقع پر قرآن مجید نے صورت حال کی تعبیر کی ہے اور یہ کہا ہے کہ یوسف کے لیے یہ کسی طرح مناسب نہیں تھا کہ وہ بادشاہ کے دین کے لحاظ سے اپنے بھائی کو اس طرح روک لیں:
مَا كَانَ لِيَاْخُذَ اَخَاهُ فِيْ دِيْنِ الْمَلِكِ. (یوسف ۱۲: ۷۶)
’’بادشاہ کے قانون کی رُو سے وہ اپنے بھائی کو روکنے کا مجاز نہ تھا۔‘‘
یعنی بادشاہ کا دین، ظاہر ہے کہ وہ قانون بھی تھا، وہ ریاست کا نظم بھی تھا اور جو وہاں پر دینی تصورات یا اخلاقی تصورات تھے، وہ بھی رائج تھے۔ چونکہ یہ لفظ بڑی وسعت کے ساتھ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے، اس لیے اس کے استعمالات کو ہی ملحوظ رکھنا چاہیے۔
ہم نے یہ دیکھا کہ لفظ ’دین‘ عربی زبان سے چلا اور ’دین اسلام‘ کی تعبیر عام طور پر زبانوں پر آ گئی ، لیکن خود اس دین میں فقہی یا شرعی معاملات لوگوں نے اپنے اپنے طریقے پر سمجھنے شروع کر دیے ، لہٰذا وہاں پر لفظ ’مذہب‘ استعمال ہونے لگ گیا، مثلاً ’مذهب أبي حنيفة‘، ’مذهب مالك‘ اور ’مذهب شافعي‘۔ یہ سبھی تعبیریں ایک مدرسۂ فکر کے لیے استعمال ہونے لگ گئیں۔ اسی طرح جو بعض دوسرے فرقے پیدا ہو گئے، جیسے علم کلام اور فلسفےکے مباحث نے پیدا کر دیے، ان کے لیےبھی لفظ ’مذہب‘ استعمال ہونے لگ گیا۔
چنانچہ اس میں اصل چیز یہ ہوتی ہے کہ کسی زمانے میں کوئی لفظ کس مدعا کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ’مذہب‘ اور ’دین‘ کے استعمال کا فیصلہ زبان یا عرف کرتا ہے۔ عربی زبان میں ’مذہب‘ کا لفظ دین کے لیے استعمال ہی نہیں ہوتا تھا۔ پہلے ’دین‘ ہی کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔ وہ قریش کا دین تھاتو اس کے لیے بھی ’دین‘ ؛ بادشاہ کا دین تھا تو اس کے لیے بھی ’دین‘ اور اللہ کا دین آیا تو اس کے لیے بھی ’دین‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ اس کے لیے قرآن مجید نے ’الدِّيْن‘، یعنی ’دین حق‘ کی تعبیر اختیار کی ہے، لیکن بعد میں مذہب کے اندر پیدا ہونے والے مختلف گروہوں کی جانب سے پیش کی گئی مختلف تعبیرات کے لیےبھی ’مذہب‘ کا لفظ استعمال ہونے لگ گیا۔
ہمارے ہاں، خاص طور پر فارسی اور اردو پس منظر میں ’مذہب‘ بالکل ’دین‘ کے ہم معنی استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم ’دین‘ اور ’مذہب‘ ایک ہی مفہوم میں بولتے ہیں، اس وجہ سے قرآن مجید کی بنیاد پر یہ کہنا کہ دین اور مذہب، دونوں الگ الگ ہیں، اردو زبان بولنے والوں کے لحاظ سے یہ بات قابل قبول نہیں ہے، لیکن تاریخی پس منظر میں دیکھیں تو قرآن مجید نے ’دین‘ کا لفظ ایک جامع تعبیر کے طور پر اختیار کیا ہے، خواہ و ہ قریش کا دین تھا ، خواہ وہ مصریوں کا دین تھا، خواہ وہ اللہ کا دین ہے، اور اس دین کے اندر جو مختلف نقطہ ہاے نظر پیدا ہو جاتے ہیں، بعد کے لوگوں نے فرق پیدا کرنے کے لیے ان کے لیے ’مذہب‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہر دور میں لوگ کیسے لفظ کو استعمال کرتے ہیں اور کس مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کا کوئی تعلق اس سے نہیں ہے کہ دین کوئی اور چیز ہے اور مذہب کوئی اور چیز ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ