HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

موت ایک دروازہ!!

معاذ بن نور


[جناب جاوید احمد غامدی کی ویڈیوز کی ٹرانسکرپشن پر مبنی سوال و جواب]

سوال: کیا دوسری دنیا میں داخلے کے لیے موت ایک دروازہ ہے؟

جواب: انسان جس وقت اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو یہ عمل اپنے اندر بعض تکلیف دہ پہلو رکھتا ہے۔ یعنی ایک تو یہ پہلو ہے کہ دنیا چھوڑ کر جانا ہے کہ اب اس دنیا میں میرا معاملہ ختم ہوا۔ اس سے ذہن پر بھی (تکلیف) گزرتی ہے، جس کے کچھ آثار نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بعض تکالیف اور بیماریاں ہیں جو مرگ تک پہنچاتی ہیں، یہ بھی بعض مواقع پر بہت تکلیف دہ ہوجاتی ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا کہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے آپ کافی دن بیمار رہے، جس کی وجہ سے آپ کو بہت تکلیف ہوئی۔

پھر خود موت ایک دروازہ ہے، جس سے داخل ہوکر ہم دوسری دنیا میں جا نکلتے ہیں۔ یہ جانا اور نکلنا بجاے خود ایک تکلیف دہ عمل ہے۔ اسی طرح جیسے بچہ دنیا میں آتا ہے تو بچے اور ماں کو بہت تکلیف دہ عمل سے گزرنا ہوتا ہے؛ دونوں کے لیے زندگی و موت کا مرحلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

 اسی طرح کی صورت حال آپریشن کے وقت بھی ہوتی ہے یا اس وقت جب ہم کوئی معرکہ سرانجام دینے نکلتے ہیں۔ خوف کی کیفیت بھی ہوتی ہے اور یہ بھی (محسوس ہونے) لگتا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ بہت سے لوگ جن کو ایڈوینچر کا شوق ہوتا ہے، وہ پہلے پہلے اس صورت حال سے گزرتے ہیں۔

یہی صورت حال (موت کے وقت انسان کے) ہاں بھی ہوتی ہے، یعنی اس وقت جو ایک تاریک جگہ پر آپ جا رہے ہیں، آگے کیا چیز ہے، تو اس وقت ایک گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’ضغطة القبر[1]کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔

 یہ گھٹن بھی ایک آزمایش ہے، جس طرح کہ بیماری آزمایش ہے اور اس سے کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہر شخص کو اس مرحلے سے گزرنا ہے، خواہ یہ اطمینان بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارا تھوڑا بہت عمل مقبول ہو جاے گا۔ اللہ سے اچھی امید رکھنی چاہیے، تاہم اندیشہ تو ہوتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔

(https://youtu.be/QRzh6u1vvsU?si=_n-F5L-vq1skHrYl)

ـــــــــــــــ


کیا ایمان باللہ کا مطلب آخری درجے کا یقین ہے؟

 

سوال: کیا ایمان باللہ کا مطلب آخری درجے کا یقین ہے؟

جواب:  ایمان، دین اور مذہب، اس معاملے میں جو کچھ بھی ہم مانتے اور کرتے ہیں، وہ گمان غالب ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ جب تک کوئی چیز براہ راست مشاہدے میں نہ آ جائے، انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے اس کو یقین کا درجہ نہیں دے سکتا۔ یہ (ایمان تو) عقلی استنباط ہوتا ہے۔

 پیغمبر بھی (اللہ سے خبر پانے کے بعد لوگوں کے سامنے) جو استدلال پیش کرتے ہیں، وہ عقلی استنباط ہی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو ہدایت دی ہے، اس میں بھی بار بار عقلی استدلال ہی کیا ہے۔

عقلی استدلال میں آپ بڑی حد تک اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ یہ بات اسی طرح ہے، لیکن وہ یقین حاصل ہو جائے، جیسے کہ میں اس کرسی یا میز کو دیکھ رہا ہوں، یہ نہ اللہ کا مطالبہ ہے اور نہ کسی انسان کے بس کی چیز ہے۔

 اتنی بات، البتہ صحیح ہے کہ جب ایک مرتبہ عقلی اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور ایک گمان غالب سے انسان زندگی شروع کرتا ہے تو اس کا رب اس کے ساتھ ایسے معاملات کرتا ہے کہ آہستہ آہستہ یقین کے قریب کی کیفیت یا اس کے بعض مناظر بھی اس کے سامنے آجاتے ہیں۔ (تاہم یہ) اتنے ہی آتے ہیں، جتنے اس دنیا کے اندر آنے ضروری ہیں۔

بس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گمان غالب کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ گمان غالب ہی کی بنیاد پر ہم بہت سے علوم کو حاصل کرتے ہیں، ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے ہیں، اپنے (جسم کے) آپریشن کرا ڈالتے ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی (آخری درجہ میں) یقینی نہیں ہوتی۔ اس گمان غالب ہی پر دنیا چل رہی ہے۔

اللہ نے بھی اس (گمان غالب) سے زیادہ مطالبہ نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی یہ سنت بیان کی ہے کہ میں کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتا جو انسان کی حد وسع سے بڑھ کر ہو۔ انسان کے لیے عقلی معاملات میں یہی حد وسع ہے کہ وہ گمان غالب اختیار کرے۔ چنانچہ دیکھیے کہ بڑے مدح کے موقع پر کہا ہے کہ ’الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ[2]، یعنی انھیں اس کا گمان غالب ہے کہ وہ ایک دن اپنے رب سے ملاقات کریں گے‘‘۔

(https://youtu.be/9wR2P9sxMCc?si=nb8zgT8qA3KY6Aik)

ـــــــــــــــ


کیا قرآن کے مطابق فرشتے ارادہ و اختیار رکھتے ہیں؟

 

سوال: کیا قرآن کے مطابق فرشتے ارادہ و اختیار رکھتے ہیں؟

جواب: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی جن تین مخلوقات کا بتایا ہے، وہ تین مخلوقات با شعور مخلوقات ہیں۔ ان کے پاس ارادہ بھی ہے، اختیار بھی ہے۔ فرشتے سب سے برتر مخلوق ہیں، اس کے بعد جنات اور پھر ہم انسان ہیں۔ (ان تینوں کو) شعور بھی دیا گیا ہے اور مختلف صلاحیتیں بھی دی گئی ہیں۔

ہمیں اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے غیاب میں ڈال دیا ہے۔ ہمیں دنیا کا اقتدار دے دیا ہے اور ہمارے اندر خلاف ورزیوں کی طرف بہت زیادہ میلان رکھ دیا ہے۔ اسی کو بیان کیا ہے: ’فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا‘۔ ہمیں اس امتحان میں ڈال کر اس کے تقاضے سے بعض چیزیں ہمارے اندر رکھی گئی ہیں اور بعض ہمارے ماحول میں فراہم کردی گئی ہیں۔ اس لیے (فرشتوں کے برعکس) ہم اپنے ارادہ و اختیار کا اچھا استعمال بھی کرتے ہیں اور برا استعمال بھی کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں پھر جزا و سزا بھی بیان کی گئی ہے۔

فرشتوں کے پاس، یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ و اختیار بھی ہے (اور) وہ باشعور مخلوق ہے۔ کبھی جبریل امین کے تعارف میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آخری سورتوں میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ پڑھیے۔ یعنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی غیر معمولی شخصیت ہے کہ آپ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔

آپ دیکھیے کہ آغاز میں جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے اپنی یہ اسکیم رکھی کہ میں نے ایسی مخلوق بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کو میں زمین کا اقتدار دے دوں گا تو فرشتوں نے باقاعدہ شعوری اور عقلی سوال کیا کہ اگر آپ اس طریقہ سے کسی کو زمین کا اقتدار دے دیں گے (تو وہ زمین میں فساد کرے گا)۔

یعنی فرشتوں کو زمین کا اقتدار نہیں دیا گیا (بلکہ انسان کو دیا گیا)۔ (انسان کو اقتدار) دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں براہ راست حکم نہیں دیتے۔ ہم (فرشتوں کی طرح) روز ان کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہوتے اور زمین کے اوپر اب قیامت تک جو ہم (انسان) چاہتے ہیں، وہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی مداخلت کرتے ہیں، ورنہ بالعموم انسان جو چاہتا ہے، وہ کرتا ہے۔ عمارتیں بناتا ہے، اپنے خاندانوں کی حکومتیں قائم کرتا ہے، بڑے مظالم کا ارتکاب بھی کرتا ہے، لیکن ہر وقت مداخلت نہیں ہوتی۔

 اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور جنات کو تو یہ اقتدار دیا ہے، فرشتوں کو نہیں دیا۔ اس لیے جب فرشتوں کو اقتدار ہی نہیں دیا تو ان سے کسی غلطی کا صدور بھی نہیں ہوتا۔ غلطی کے تو اسباب ہوتے ہیں۔ یعنی مجھے مال و دولت سے محروم کیا ہے تو میں چوری اور غبن بھی کر سکتا ہوں، جو مجھے نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایسے حالات ہی درپیش نہیں ہیں تو میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اس لیے فرشتوں کا معاملہ ان کے حالات اور میلانات کے لحاظ سے ہے، ورنہ وہ باشعور مخلوق ہیں؛ سمجھتے ہیں، سوالات کرتے ہیں، چیزوں کو دیکھتے ہیں اور تمام امور سے پوری طرح واقف ہیں۔

سوال: فرشتوں کے پاس ارادہ و اختیار نہیں تھا تو ان کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟

جواب: (انسان کو) سجدہ کرتے وقت بھی ان کو اختیار حاصل تھا۔ فرشتے سارے کے سارے جھک گئے تو اللہ نے ان کی تعریف کی۔ دراصل وہاں آدم کو یہی تو دکھایا گیا کہ فرشتے سب سے برتر مخلوق ہیں، لیکن اللہ کے حکم پر (ابلیس کی طرح) ان کی انانیت آڑے نہیں آئی اور انھوں نے اپنا سر جھکا دیا ہے۔

سوال: ہم تو اپنے آپ کو فرشتوں سے برتر سمجھتے ہیں؟ کیا ہم اشرف المخلوقات نہیں؟

جواب: قرآن مجید نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی، نہ کسی حدیث میں ایسی بات ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ ہم نے بہت سی مخلوقات پر انسان کو فضیلت دی ہے[3]  لیکن یہ کہ انسان فرشتوں سے بھی برتر ہے، یہ کہاں کہا گیا ہے؟ فرشتوں کو (جو آدم کو) کو سجدہ کرنے کا کہا گیا، وہ (آدم کی) کسی برتری کی وجہ سے نہیں کہا گیا، وہ ایک برتر مخلوق کو اللہ کے حکم کی پیروی کرنے کے لیے کہا گیا۔ اسی لیے تو امتحان بنا اور ابلیس نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ خلقت کے لحاظ سے میں برتر ہوں تو آپ نے کیسے مجھے (انسان کو سجدہ کرنے کا) یہ حکم دے دیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں کہا اس کے جواب میں کہ تم (خلقت کے لحاظ سے) برتر نہیں ہو (اس لیے) عجیب حماقت میں مبتلا ہو، (بلکہ) فرمایا کہ تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی، استکبار کیا۔

سوال: دنیا میں جب انسان نہیں تھے تو اس وقت فرشتے اللہ نے کیوں تخلیق کیے؟ اللہ کا کیا مقصد تھا؟

جواب: یہ اللہ تعالیٰ کی کائنات ہے، اس نے بنائی ہے۔ اس میں (اللہ تعالیٰ کے) کیا کیا مقاصد ہیں، اس کا احاطہ میری یا آپ کی عقل کیسے کر سکتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جب کائنات بنائی گئی تو اس کا نظم فرشتوں ہی کے سپرد کیا گیا۔ اسی لیے تو انھوں نے جواب میں یہ کہا ہے کہ ہم تو تسبیح و تقدیس کر رہے، جو حکم آپ دیتے ہیں ہم وہ بجا لاتے ہیں، پھر اس (انسان) کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

کائنات اس وقت بھی فرشتوں ہی کے حوالے کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذمہ داریاں دی ہیں، معلوم نہیں کہ وہاں کیا کیا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ ہم نے تو ایک سوال کیا تھا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو ہمیں جواب دیا گیا کہ ’وَمَا٘ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا‘(بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵)، یعنی تمھیں اپنے حدود میں رہنا چاہیے۔

 ہمارا علم تو ہمارے حواس کے مشاہدات سے بنیاد قائم کرتا ہے۔ یہی مشاہدات ہیں جو تاریخ کا حصہ بننے کے بعد اجماع و تواتر اور اخبار آحاد سے منتقل ہو کر ہمارا علم بنتے ہیں، اس سے ہم عقلی استنباط کر لیتے ہیں۔ بس ہمارے علم کے حدود یہی ہیں۔ یہ اللہ کی عنایت ہوتی ہے کہ وہ اپنے انبیا کے ذریعے سے اپنی کتابوں میں کچھ مزید معلومات دے دیں۔ بس وہ ہم آپ کو بتا دیتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر اپنی طرف سے عقلی گھوڑے دوڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

(https://youtu.be/qnMzfB-7WbA?si=sU9rumOMoydjtLa3)

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً قبر میں ایک نوعیت کی تنگی ہوتی ہے، جس سے اگر کوئی شخص بچا ہوتا تو سعد بن معاذ ضرور بچ جاتے (مسند اسحاق، رقم ۱۱۱۴)۔

یعنی عام لوگوں کےلیے جو کیفیت کچھ دیر تک رہتی ہے، اُن کے لیے اُس میں بھی کمی کر دی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ سیدنا سعد کے لیے بڑی تحسین کا جملہ ہے کہ جب اُن جیسی غیرمعمولی شخصیت بھی نہیں بچ سکی تو تابہ دیگراں چہ رسد۔ مطلب یہ ہے کہ موت کے دروازے سے گزر کر قبر میں داخل ہونا بجاے خود ایک سخت مرحلہ ہے، جو ہر نیک و بد کو لازماً پیش آتا ہے۔ چنانچہ موت سے پہلے بیماری یا تکلیف جس طرح کسی کے اچھا یا برا ہونے کا پیمانہ نہیں ہوتی، اُسی طرح قبر کی تنگی بھی اِس کا پیمانہ نہیں ہوتی۔ اِس کی مثال ولادت سے پہلے درد زہ کی ہے، جس سے سیدہ مریم جیسی خاتون کو بھی دوچار ہونا پڑا۔ چنانچہ یہ کوئی عذاب نہیں، بلکہ موت کے بعد اِس مرحلے کے لیے عام قانون اور محض اُس کیفیت کا بیان ہے جو داخل ہوتے وقت محسوس ہوتی ہے۔ ایمان والوں کے لیے اِس کے بعد راحت ہی راحت ہے، جس کا ذکر پیچھے متعدد روایتوں میں ہو چکا ہے۔ یہ بات، البتہ ملحوظ رہے کہ ’قبر‘ کے لفظ سے یہاں بھی وہی غیرمرئی قبر مراد ہے، جس میں لوگ قیامت کے دن تک سوتے رہیں گے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جس دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی تدفین ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی قبر پر بیٹھے ہوئے فرمایا تھا کہ قبر کی آزمایش سے اگر کوئی شخص بچا ہوتا تو سعد بن معاذ ضرور بچ جاتے ۔چنانچہ ایک مرتبہ تو اُنھیں بھی بھینچا گیا ہے، مگر پھر نرمی کردی گئی ( المعجم الكبير، طبرانی، رقم ۱۰۸۲۷) ۔

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُنھی کی طرف گئے تھے۔آپ جب اُن کی نماز جنازہ سے فارغ ہوئے اور اُنھیں قبر میں دفناکر اینٹیں برابر کر دی گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تسبیح کی اور ہم سب بھی دیر تک تسبیح کرتے رہے۔ پھر آپ نے تکبیر کہنا شروع کیا تو ہم نے بھی تکبیر کہی۔چنانچہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول، آپ نے اِس موقع پر یہ تسبیح اور پھر تکبیر کیوں کہی؟ آپ نے فرمایا کہ اِس نیک بندے پر قبر تنگ ہوگئی تھی ، یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ نے اِسے اِس کے لیے کشادہ کردیا ہے۔ اِنھی جابر رضی اللہ عنہ سے ایک طریق میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ جس دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور اُن کی تدفین ابھی جاری تھی، اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے لیے عرش الہٰی ہل گیا ہے اور آسمان کے دروازے اِس کے لیے کھول دیے گئے ہیں اور اِن کے جنازے میں ستر ہزار فرشتے شریک ہوئے ہیں۔ تاہم قبر میں اِس پر بھی کچھ سختی ہوئی، لیکن اب وہ اِس سے دور کر دی گئی ہے (یہ جس قانون کے تحت ہوتا ہے، اُس کی وضاحت اوپر کر دی گئی ہے) (احمد، رقم ۱۴۸۷۳)۔

[2]۔ البقرہ ۲: ۴۶۔ ’الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ‘، ’’ جنھیں خیال ہے کہ اُنھیں اپنے پروردگار سے ملنا ہے اور اُن کو اُسی کی طرف پلٹ کر جانا بھی ہے۔ ‘‘

[3]۔ بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰۔ ’وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْ٘ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا‘، ’’ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ہے اور خشکی اور تری میں اُن کو سواری عطا فرمائی ہے اور اُن کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اُنھیں نمایاں فضیلت دی ہے۔‘‘ 

B