HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۸)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت عبداللہ بن شہاب رضی اللہ عنہ

نام و نسب

حضرت عبد اللہ بن شہاب کا اصل نام عبد الجان بن شہاب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل فرما کر عبد الله بن شہاب کر دیا۔ ان کے دادا کا نام عبد اللہ بن حارث تھا۔ قبیلہ کے جد زہرہ بن کلاب ان کے سکڑ دادا تھے۔ حضرت عبد الله بن شہاب مشہور فقیہ و محدث ابن شہاب زہری کے نانا (دادا: ابن حجر) تھے۔ زہری کے پر دادا کا نام بھی عبداللہ بن شہاب تھا۔ بنو خزاعہ کے عتبہ بن مسعود کی بیٹی ان دونوں کی والدہ تھیں۔ دونوں اجداد کو ممیز کرنے کے لیے نانا کو عبد اللہ اکبر اور پر دادا کو عبد اللہ اصغر کہا جاتا ہے۔ ابن سعد کا بیان اس کے بر عکس ہے، وہ پر دادا کو عبد اللہ اکبر اور نانا کو عبد اللہ اصغر قرار دیتے ہیں۔ ابو مخرمہ حضرت عبد اللہ بن شہاب کی کنیت تھی۔

ایمان و اسلام

حضرت عبد اللہ بن شہاب اسلام کے ابتدائی دور میں نور ایمان سے منور ہوئے۔

ہجرت حبشہ

حضرت عبد اللہ بن شہاب اکبر (ابن عبد البر، ابن اثیر اصغر : ابن سعد ) نے حضرت جعفر بن ابو طالب کے قافلے کے ساتھ حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں حصہ لیا۔ ابن الحق اور ابن ہشام نے حضرت عبداللہ بن شہاب کو

مہاجرین حبشہ میں شمار نہیں کیا۔

حبشہ سے رجوع

حضرت عبداللہ بن شہاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل مکہ لوٹ آئے (اسد الغابۃ ۱۸۴/۳)۔ بلاذری کہتے ہیں : حضرت عبد اللہ حضرت جعفر بن ابو طالب کے قافلے کے ساتھ حبشہ

گئے اور انھی کے ساتھ حبشہ سے مدینہ ہجرت کی۔

جنگ احد

حضرت عبداللہ بن شہاب کے پر دادا عبد اللہ بن شہاب اصغر نے جنگ احد میں مشرکوں کا ساتھ دیا۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے چار مشرکوں عبداللہ بن شہاب ( عبد اللہ بن حمید اسدی: ابن اثیر )، ابی بن خلف جمھی، ابن قمیئہ (یا قمئہ ) تیمی اور عقبہ بن ابی وقاص نے باہمی عہد کیا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سامنا ہوا توان کی جان لے لیں گے یا خود مر جائیں گے۔ ابتدائی شکست کے بعد کفار کا غلبہ ہوا تو عبد اللہ بن شہاب پکارتا ہوا آیا: مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا پتا بتاؤ، اگر وہ بچ گئے تو میں نہ بچوں گا۔ مشہور روایت میں یہ قول ابی بن خلف سے منسوب کیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن شہاب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روے مبارک (ابن الحق، ابن عبدالبر، ابن اثیر۔ پیشانی: ابن ہشام ، ابن کثیر ) زخمی کیا۔ ابن قمیئہ نے رخسار مبارک پر زخم لگائے، آپ کے خود کی کڑیاں چہرہ مبارک کی جلد میں گھس گئیں، اس نے تلوار بھی سونتی، لیکن وار نہ کر سکا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے اپنے ہاتھ سے اس کا وار روکا۔ عتبہ نے چار پتھر پھینک کر سامنے کا داہنا نچلا دانت شہید کیا اور لب مبارک شق کر دیا۔ ابی بن خلف نے حملہ کرنے کے لیے بھالا اٹھایا، لیکن آپ نے اس سے چھین کر اسی کی (یا حضرت زبیر بن عوام یا حضرت حارث بن صمہ سے نیزہ لے کر اس کی ) انی اسے چھوئی اور وہ مکہ جہنم رسید ہو گا جاتے جاتے دوسرے روز جہنم ر ہو گیا۔ عبد الله اصغر نے بعد یا ، بعد میں اسلام قبول کر لیا۔ زہری سے پوچھا گیا : کیا آپ کے جد نے جنگ بدر میں حصہ لیا تو انھوں جواب دیا : ہاں دوسری، یعنی مشرکوں کی جانب سے۔ انھوں نے داد ایا نا نا ہونے کی وضاحت نہیں کی۔

سن وفات میں اختلاف

مشہور روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن شہاب نے ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں وفات پائی۔ ابن سعد کی ایک روایت کے مطابق زندگی نے انھیں حبشہ و مدینہ ، دونوں ہجرتوں کی مہلت نہ دی۔ ایک شاذر دایت کے مطابق وہ مکہ فتح ہونے کے بعد مکہ میں فوت ہوئے۔ بلاذری کے خیال میں ان کا انتقال عہد عثمانی میں ہوا۔

مطالعه مزيد : السيرة النبويۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبری ( ابن سعد )، انساب الاشراف ( بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر )، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ( ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ابن اثیر )، السيرة النبويۃ ( ابن کثیر )، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ( ابن حجر )۔

________


حضرت اربد بن حمیر رضی اللہ عنہ

اربد، سوید یازید

حضرت ار بد بن خمیر (ابن سعد ، مکتبہ الخانجی۔ ابن عبد البر ) کے مختلف نام اربد بن حمیرہ (ابن سعد، دار الفکر)، اربد بن جبیر ( ابن حجر)، اربد بن مخشی، اربد بن حمزه، سوید بن حمیر ، سوید بن مخشی، زید بن مخشی (شاذ) روایت کیے گئے ہیں۔ وہ بنو اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتے تھے اور بنو عبد شمس کے حلیف تھے۔ ابو مخشی حضرت ارباد کی کنیت تھی۔

ابن سعد دوسر انقطہ نظر بھی پیش کرتے ہیں : حضرت سوید بن مخشی ( یا عدی) الگ شخصیت ہیں، جن کا تعلق بنوطے سے تھا اور ان کا حلف و پیمان بھی بنو عبد شمس سے تھا۔

ہجرت حبشہ

ابن الحلق کی روایت ہے کہ حضرت ارید کو ہجرت حبشہ کی سعادت حاصل ہوئی (ابن اثیر، ابن حجر )۔ ابن ہشام اور ابن جوزی نے مہاجرین حبشہ کی فہرست میں حضرت اربد بن حمیر کا نام شامل نہیں کیا۔

ہجرت مدینہ

ابن الحلق کی روایت کے مطابق حضرت اربد بن حمیر کا قبیلہ بنو غنم بن دوران بن اسد بن خزیمہ تھا۔ اس قبیلے کے میں صحابہ نے اکٹھے مدینہ ہجرت کی اور قبا میں حضرت مبشر بن عبد المندر کے ہاں مقیم ہوئے۔ ان اصحاب کے نام یہ ہیں : حضرت عبداللہ بن جحش ، حضرت ابو احمد بن بخش، حضرت از بد بن حمیر ، حضرت عکاشه بن محسن ، حضرت عمرو بن محسن ، حضرت شجاع بن وہب، حضرت عقبہ بن وہب ، حضرت منتقد بن نباته ، حضرت سعید بن رقیش ، حضرت زید بن رقیش ، حضرت محرز بن نضلہ ، حضرت قیس بن جابر ، حضرت مالک بن عمرو، حضرت صفوان بن عمر و، حضرت تکلیف بن عمرو، حضرت ربیعہ بن اکثم، حضرت زبیر بن عبیدہ، حضرت تمام بن عبیده، حضرت کتبر و بن عبید و اور حضرت محمد بن عبد اللہ بن جحش۔ صحابیات میں سے حضرت زینب بنت جحش، حضرت حمنہ بنت بخش، حضرت ام حبیب بنت بخش، حضرت آمنہ بنت رقیش اور حضرت سخبرہ بنت تمیم شریک ہجرت تھیں۔

جنگ بدر

حضرت ارید نے جنگ بدر میں شرکت کی (ابن الحق ، ابن جوزی، ابن اثیر، ابن حجر)۔ ابن ہشام نے السیرۃ النبویۃ“ کی شرکائے بدر کی فہرست میں حضرت اربد بن حمیر کا نہیں ، البتہ حضرت ابو مخشی طائی ( سوید بن مخشی) کا نام شامل کیا۔ ابن کثیر نے البدایۃ والنہایۃ میں ذکر من شهد بدرًا من المسلمین کی سرخی لگا کر حرف السین کے آخر میں حضرت سوید بن مخشی ابو مخشی طائی کا نام درج کیا اور وضاحت کی : کہا جاتا ہے کہ ان کا نام اربد بن حمیر تھا۔ قاضی سلیمان منصور پوری نے اصحاب بدر میں حضرت اربد کا نام شامل نہیں کیا، البتہ حضرت سوید بن مخشی کا نام اس کتاب میں بھی موجود ہے۔

بعد کی زندگی

حضرت اربد بن حمیر کی جنگ بدر کے بعد کی مدنی زندگی، ان کے اہل و عیال اور سن وفات کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔ مورخین نے حضرت سوید بن مخشی کے بارے میں ، اگر وہ الگ شخصیت ہیں، وضاحت کی ہے کہ وہ نغز واحد میں شریک ہوئے۔

مطالعۂ مزيد : السيرة النبويۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر ) ، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ( ابن اثیر )، الاصابۃ في تمييز الصحابۃ ( ابن حجر )۔


__________


حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ

نسب

حضرت شجاع بن وہب ( ابن حجر - ابو وہب : ابن عبد البر، ابن اثیر) کا تعلق بنو اسد بن خزیمہ کی شاخ بنو غنم بن دوران سے تھا۔ ان کے دادا کا نام ربیعہ بن اسد تھا۔ غنم بن دوران ان کے ساتویں اور اسد بن خزیمہ نویں جد تھے۔ خزیمہ بن مدرکہ پر ان کا سلسلۂ نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرے سے جا جاملتا ہے۔ کنانہ بن خزیمہ آپ کے چودھویں جد تھے۔

ایام جاہلیت میں حضرت شجاع کا خاندن بنو عبد شمس کے حرب بن امیہ کا حلیف تھا۔

حضرت شجاع بن وہب کی کنیت ابو وہب تھی۔

قبول اسلام

حضرت شجاع بن وہب کا شمار اسلام کی طرف سبقت کرنے والے صحابہ میں ہوتا ہے۔

ہجرت حبشہ

سیر صحابہ کے مصنفین ابن عبد البر، ابن اثیر اور ابن حجر نے حضرت شجاع بن وہب کو مہاجرین حبشہ میں شمار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں شامل تھے۔ بنو عبد شمس کے حلفا میں سے حضرت عبد اللہ بن جحش ، حضرت قیس بن عبد اللہ اور حضرت معیقیب بن ابو فاطمہ ان کے ہم سفر تھے۔ ابن ہشام، ابو نعیم اصفہانی، ابن جوزی اور ابن کثیر نے حضرت شجاع بن وہب کا نام مہاجرین حبشہ کی فہرست میں شامل نہیں کیا۔

ہجرت مدینہ

حضرت شجاع بن وہب نے مشرکین مکہ کے ایمان لانے کی افواہ سنی تو حبشہ سے لوٹ آئے۔ چند برس ان کا قیام مکہ میں رہا، اس دوران میں کفار کا جور و ستم جاری رہا۔ نبوت کے تیرھویں سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت کرنے کا اذن عام دے دیا۔ حضرت شجاع بن وہب کے قبیلے بنو غنم بن دور ان کے میں صحابہ پر مشتمل قافلے نے اکٹھے سفر ہجرت کیا۔ حضرت شجاع کے علاوہ حضرت عبد اللہ بن جحش ، حضرت از بد بن حمیر ، حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت عقبہ بن وہب ، حضرت منقذ بن نباته ، حضرت محرز بن نضلہ اور حضرت صفوان بن عمر و شریک سفر ہجرت تھے۔ مدینہ کی نواحی بستی قبا میں حضرت مبشر بن عبد المنذر کے گھر ان کا قیام ہوا۔

مواخات

ر ربیع الاول ۱۴ار نبوی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی مدینہ تشریف لے آئے۔ ہجرت کے پانچ ماہ بعد آپ نے مہاجرین و انصار کو حضرت انس بن مالک کے گھر میں جمع کر کے اخوت اسلامی کا وعظ فرمایا اور انصار و مہاجرین کو فرد افردا ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا۔ اسے مواخات ( بھائی چارہ ) کہتے ہیں۔ آپ نے حضرت اوس بن خولی کو حضرت شجاع بن وہب کا انصاری بھائی قرار دیا۔

غزوات

حضرت شجاع بن وہب نے اپنے بھائی حضرت عقبہ بن وہب کے ساتھ جنگ بدر میں حصہ لیا۔ بنو عبد شمس کے حلیفوں میں سے حضرت عبداللہ بن جحش، حضرت عکاشہ بن محصن، حضرت ابوسنان بن محصن ، حضرت محرز بن نضلہ ، حضرت یزید بن رقیش اور حضرت ربیعہ بن اکثم بھی شرکائے معرکہ فرقان تھے۔ حضرت شجاع نے جنگ احد اور باقی تمام غزوات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔

سریۂ عکاشہ


ربیع الاول ۶ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عکاشہ بن محصن اسدی کی قیادت میں چالیس اصحاب کا ایک سریہ مدینہ سے مسجد کی طرف جانے والے راستے پر واقع بنواسد بن خزیمہ کے چشمے عمر یا عمرہ) کی طرف روانہ فرمایا۔ حضرت شجاع بن وہب اسدی اور حضرت ثابت بن اقرم بلوی اس میں شامل تھے۔ حضرت عکاشہ بن محصن تیز رفتاری کے ساتھ عمر پہنچے، لیکن اس اثنا میں بنو اسد کے افراد چو کئے ہو گئے اور اپنے گھر خالی کر کے نکل گئے۔ حضرت عکاشہ نے حضرت شجاع بن وہب کو ان کی کھوج کے لیے بھیجا۔ چوپایوں کے قدموں کے نشانات نظر آنے پر اہل مرید ان پر چلتے ہوئے آگے بڑھے۔ انھیں بنواسد کا اک شخص وتا ہوا ملا اس نے جان بخشی کے وعدے پر بتایا کہ میرے چیرے اپنے اونٹ لے کر اپنے علاقے کے بلند مقام پر چلے گئے ہیں۔ اس کی نشان دہی پر حضرت عکاشہ ایک میلے پر پہنچے اور وہاں موجود اونٹوں کو ہانک کر مدینہ لے آئے۔ ان کی تعداد سو یا دو سو تھی۔ بنو اسد کے افراد وہاں بھی نہ ملے۔

سریۂ شجاع بن وہب


بنو ہوازن کی اسلام دشمنی حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کا اظہار فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین میں بھی ہوا۔ یہیں وجہ ہے کہ ربیع الاول ۸ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت شجاع بن وہب کی قیادت میں چو میں مجاہدوں کا ایک دستہ بنو ہوازن کی شاخ بنو عامر بن طلوح کے ایک جتھے کی سرکوبی پر مامور فرمایا، جو مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر رکبہ کے مقام کے پاس صحراے سی میں جمع تھا۔ حضرت شجاع دن کو چھپتے ہوئے اور رات کو یلغار کرتے ہوئے ایکا یک ان پر جاپڑے اور غلبہ پا کر بہت سے اونٹ اور بھیڑ بکریاں چھین لائے۔ اس سر یہ میں پندرہ دن صرف ہوئے۔ مال غنیمت کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ہر ایک سپاہی کو پندرہ پندرہ اونٹ ملے تھے ، دیگر اسباب و سامان اس کے علاوہ تھا۔ میں بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر شمار کیا جاتا تھا۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ چند قیدی بھی ان کے ہاتھ آئے اور امیر سریہ نے ایک گوری چٹی باندی اپنے پاس رکھی۔ قیدیوں کے اہل خانہ انھیں چھڑانے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر سریہ سے مشورہ کر کے امیر لوٹادیے۔ حضرت شجاع نے باندی کی قیمت ادا کر دی تو وہ ان کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہو گئی اور ان کی شہادت تک ان کے ساتھ رہی، اس سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔

سفارت نبوی

ذی الحجہ ۶ ھ یا ھ : صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپس آئے تو عرب و عجم کے پڑوسی حکمرانوں کو اسلام کی دعوت دینے کا فیصلہ فرمایا۔ آپ نے آٹھ (طبری: چھ) صحابہ کو سفیر منتخب کر کے ان حکمرانوں کی طرف روانہ فرمایا ، شام کے عرب نصرانیوں کے حاکم حارث بن ابو شمر عنسانی کی طرف حضرت شجاع بن وہب اسدی، شاه ایران خسرو پرویز کی طرف حضرت عبداللہ بن حذافہ ، قیصر روم کی طرف حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی، شاہ حبشہ نجاشی کی طرف حضرت عمرو بن امیہ ضمری، اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کی طرف حضرت حاطب بن ابو بلتعہ، یمامہ کے رئیس ہو زہ بن علی کی جانب حضرت سلیط بن عمرو عامری، عمان کے رؤسا جیفر بن جلندی اور عباد بن جلندی کی طرف حضرت عمرو بن العاص اور بحرین میں بنو عبد القیس کے حکمران منذر بن ساوی کی طرف حضرت علاء بن حضرمی آپ کے سفیر تھے ۔ تمام سفرا کو جمع کر کے آپ نے خصوصی خطبہ دیا اور فرمایا: تمھار اسفر بہت اہم ہے ، بنی اسرائیل کی طرح میرے احکام کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی حواریوں کو ایسا حکم دیا تھا، کچھ خوشی سے بجالائے، کچھ نے ناپسند کیا۔ صحابہ نے یقین دلایا : آپ جہاں چاہیں ہمیں بھیج دیں، ہم آپ کا فرمان بجالائیں گے (المعجم الکبیر ، طبرانی، رقم ۱۶۴۴۴)۔

آخری غسانی حاکم حارث کے پاس

حضرت شجاع بن وہب کو روانہ کرنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خط لکھوایا اور مہر لگا کر ان کے حوالے کیا: "محمد رسول اللہ کی جانب سے حارث بن ابو شمر کے نام۔ اس شخص پر سلامتی ہو جو راہ راست پر چل کر ایمان لے آیا اور تصدیق کی۔ میں تمھیں دعوت دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ، تبھی تمھاری سلطنت تمھارے پاس رہے گی“۔

حضرت شجاع نخلستان دمشق، غوطہ پہنچے تو دربان کو قیصر روم ہر قل کی مہمان نوازی کے لیے کھانے اور تحائف تیار کرنے میں مشغول پایا جو ایرانی افواج کا حملہ پسپا کرنے کے بعد حمص سے ایلیا جارہا تھا۔ حضرت شجاع حارث کے محل کے دروازے پر دو تین دن ٹھیرے رہے اور دربان کو بتایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں۔ اس نے جواب دیا: آپ حاکم سے نہیں مل سکتے جب تک وہ فلاں دن باہر نہ آئیں۔ اس اثنا میں حاکم کے رومی دربان مری (دوسری روایت : مرا) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کے بارے میں دریافت کیا۔ حضرت شجاع نے آپ کی صفات اور دعوت دین کے بارے میں بتایا تو اس پر رقت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گیا۔ اس نے بتایا کہ اس نے انجیل پڑھ رکھی ہے اور اس میں آنے والے نبی کی بعینہ یہی صفات پائی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ شام میں آئیں گے ، لیکن ان کا ظہور کھالیں دباغت کرنے والی سر زمین عرب میں ہوا۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں اور ان کی نبوت کی تصدیق کرتا ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ ایمان لانے پر حارث مجھے قتل کرادے گا۔ مری اب حضرت شجاع بن وہب کی عزت افزائی اور خاطر تواضع کرنے لگا۔ اس نے حارث کی طرف سے مایوسی کا اظہار کیا اور بتایا کہ وہ قیصر سے ڈرتا ہے۔

جس دن حارث بن شمر نے تاج پہن کر دربار سجایا تو حضرت شجاع کو بلایا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط دیا تو اس نے پڑھ کر پھینک دیا اور بولا : کون میری سلطنت مجھ سے چھین سکتا ہے ؟ میں ایسا کرنے والے پر یلغار کر دوں گا۔ اگر وہ یمن میں ہوا تو وہاں پہنچ جاؤں گا۔ لوگوں کو روکے رکھو ، وہ رات تک دربار میں بیٹھارہا، فوجی تیاریوں کا جائزہ لیا اور گھوڑوں کو نعل لگوانے کا حکم دیا۔ پھر قیصر کو خط لکھ کر قاصد رسول کے آنے اور اپنے ارادے کی اطلاع کی۔ جس وقت خط ہر قل کو ملا، وہ ایلیا میں تھا اور اس کے پاس حضرت دحیہ کلبی بیٹھے تھے۔ قیصر نے جواب بھیجا: فوج کشی کا نہ سوچو، قاصد کو جانے دو اور ایلیا میں مجھ سے ملاقات کرو۔ حارث بن شمر کو جب خط کا جواب ملا، حضرت شجاع وہیں تھے۔ اس نے حضرت شجاع کو بلا کر پوچھا: تم اپنے صاحب کے پاس کب واپس جاؤ گے ؟ انھوں نے کہا: کل۔ حارث نے ان کو سو مشتقال (ایک مثقال کا موجودہ وزن سواچار گرام - CalcProfi.com کے مطابق ۶۴۲، ۳ گرام سونا دینے کا حکم دیا اور دربان مری نے جیب خرچ اور کپڑوں کا ایک جوڑا تحفے میں دیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میر اسلام پہنچانا اور بتانا میں آپ کے دین کا پیرو ہوں۔ حضرت شجاع نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام روداد سنائی تو آپ نے فرمایا : مری نے سچ کہا اور حارث کی سلطنت برباد ہو گی۔ ابن سعد اور ابن کثیر نے صراحت کی ہے کہ حارث ایمان نہ لا یا، البتہ کچھ اہل سیر کا خیال ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا، لیکن اپنا اسلام چھپائے رکھا المنتظم فی تواریخ الملوک والام ۸۰۸-۸۰۹۔ عیون الاثر في فنون المغازی والشمائل والسیر ۳۵۶-۳۵۷ - السيرة الحلبية ۱۰۸۵)۔

حارث بن ابو شمر فتح مکہ کے سال (۸ھ میں فوت ہوا۔

دوسری روایات

حضرت شجاع بن وہب کے سفارتی سفر کی مشہور روایت یہی ہے جو ہم نے بیان کی، تاہم تمام تاریخی واقعات کی طرح اس سے مختلف روایتیں بھی موجود ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب الیہ کا نام منذر بن حارث بن ابو شمر ، جبلہ بن ایم ، جبلہ بن حارث بن ابو شمر بتایا گیا ہے ، حتی کہ زہری کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن حذافہ کے بجاے حضرت شجاع بن وہب مکتوب نبوی لے کر شاہ ایران کسری کے پاس گئے۔ کسری کا نام لینے کے بعد انھوں نے وہ ساری تفصیل نقل کر دی جو حضرت عبداللہ بن حذافہ کے حالات زندگی میں بیان ہوئی (دلائل النبوۃ، بیرقی ۳۸۸/۴ - السيرة البنوية، ابن کثیر ۵۱۲/۴)۔

عہد صدیقی

زمانہ جاہلیت میں عرب قبائل کسی قومی مالیاتی نظم کے پابند نہ تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد زکوۃ کا نظام قائم ہوا تو انھیں اپنی آزادی سلب ہوتی نظر آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں وہ زکوۃ ادا کرتے رہے، لیکن آپ کی وفات کے بعد ان کی خود رائی عود کر آئی۔ مدینہ آکر انھوں نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر سے درخواست کی نمازیں ہم پڑھتے ہیں، زکوۃ ہم کو معاف کر دو۔ ان کے صاف انکار پر وہ آمادہ جنگ ہو گئے۔ منع زکوۃ کے ساتھ مدعیان نبوت نے بھی شورش برپا کر دی۔ چنانچہ حضرت ابوبکر کا ابتدائی دور ان فتنوں کو فرو کرنے میں صرف ہو گیا۔ ارتداد کی جنگوں میں جنگ یمامہ اہم جنگ تھی جو ا اه (۷۳۳ء) میں جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی ۔ چالیس ہزار عربوں نے یہ کہہ کر اس کا ساتھ دیا کہ قبائل ربیعہ کا کذاب ہمیں قبائل مصر کے صادق و امین سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں برپا ہونے والے اس معرکے میں حضرت شجاع بن وہب نے بھر پور حصہ لیا اور داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

وفات اور حلیہ

جنگ یمامہ (۱۱ھ) میں شہادت کے وقت حضرت شجاع بن وہب کی عمر چالیس برس سے اوپر تھی۔ حضرت شجاع دبلے، لمبے اور خمیدہ کمر تھے۔ ان کی عائلی زندگی کے بارے میں معلومات موجود نہیں۔

روایت حدیث

حضرت شجاع بن وہب سے کوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید : کتاب المغازی (واقدی)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، معرفۃ الصحابۃ (ابو نعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر )، تاریخ دمشق الكبیر (ابن عساکر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفة الصحابۃ ( ابن اثیر، الکامل فی التاریخ ( ابن اثیر، عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل والسیر ( ابوافتح بن سید الناس)، السیرة النبویۃ ( ابن كثیر ) ، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، اعلام السائلین عن كتب سید المرسلین ( محمد بن طولون)، السیرة الحلبیۃ (نور الدین حلبی) Wikipedia۔

 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B