علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی
مرتب: ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
طریق اول: امام احمد کہتے ہیں :
حدثنا عبد اللّٰه بن نمیر ثنا عبد المالک بن أبي سلیمان عن عطاء بن أبي رباح ثني من سمع أم سلمة رضي اللّٰه عنها تذکر أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم کان في بیته فاتته فاطمة ببرمة فیھا خزیرة فدخلت علیه بھا فقال لھا: ادعي زوجك و ابنیك فجاء علي و حسن و حسین فدخلوا علیه فجلسوا یأکلون من تلك الخزیرة و ھو علی منامة وکان تحته کساء خیبري و أنا في الحجرة أصلي فأنزل اللّٰه عزوجل ھذہ الاٰية ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ فأخذ فضل الکساء فغطاھم به ثم أخرج یدہ فالوی بھا إلی السماء ثم قال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي و خاصتي فاذھب عنھم الرجس و طھرھم تطھیرًا». فادخلت رأسي البیت فقلت: وأنا منکم یا رسول اللّٰه، فقال: «إنك إلی خیر، إنك إلی خیر».
’’...یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تھے کہ حضرت فاطمہ ایک طبق لے کر آئیں جس میں خزیرہ (حلیم کی طرح کاایک قسم کا کھانا) تھا۔ آپ نے ان سے کہاکہ اپنے شوہر علی اور بیٹوں حسن و حسین رضی اللہ عنہم کو بلوا لو، حضرت فاطمہ نے علی سے کہاکہ آپ اور دونوں بیٹوں کو لے کرآئیں ۔جب سب آگئے اورآپ اپنے بستر پر بیٹھے تھے جس پر ایک خیبری چادر بچھی ہوئی تھی۔ میں اندرنمازپڑھ رہی تھی اس وقت اللہ نے یہ آیت نازل کی: ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘ تو آپ نے چادرکا نکلا ہوا حصہ لے کر ان پر ڈال دیا اور دعا فرمائی کہ خدایا، یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ ان سے گندگی کو دور کر دے اور انھیں پا ک کر دے۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس کمرہ میں سر نکال کر عرض کیا: میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائیے)۔ حضور نے فرمایا تم توخیرکی طرف راجع ہو، تم توخیرکی طرف راجع ہو۔‘‘
اس حدیث کا راوی اول جس نے عطاء بن ابی رباح سے یہ حدیث بیان کی تھی، مجہول ہے۔ آخر عطاء نے اس کا نام کیوں ذکر نہیں کیا (کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے)۔ ظاہر ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
طریق ثانی: ابن جریر طبری نے کہا ہے:
حدثنا أبوكریب ثنا مصعب بن المقدام ثنا سعید بن زربی عن محمد بن سیرین عن أبي ھریرة عن أم سلمة قالت: جاءت فاطمة إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم ببرمة لھا قد صنعت فیھا عصیدة تحملھا علی طبق فوضعتھا بین یدیه فقال: «أین ابن عمك و ابناك»؟ فقالت: في البیت فقال: «ادعیھم» فجاءت إلی علي فقالت: اجب رسول اللّٰه أنت و ابناک. فلما رأھم مقبلین مدیدہ إلی کساء کان علی المنامة فمدہ و بسطه و أجلسھم علیه ثم أحذ بأطراف الکساء الأربعة بشماله فضمه فوق رءوسھم و أومأ بیدہ الیمنی إلی ربه فقال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي فاذھب عنهم الرجس و طھرھم تطھیرًا».(ترجمہ بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ وہی ہے جواوپرگزرا۔ غ)
یہ حدیث ابو کریب کو جس کا نام محمد بن العلاء ہے،مصعب بن مقدام نے سنائی تھی۔ جو یوں تو عبادت گزار شخص تھا، لیکن روایت حدیث میں قابل اعتماد نہ تھا۔ اس کے متعلق ائمۂ حدیث کے اقوال ملاحظہ ہوں (ساجی) ’ضعیف الحدیث کان من العباد‘ (امام احمد)’کان رجلًا صالحًا رأیتُ له كتابًا فإذا ھو کثیر الخطأ‘(ابن المدینی) ’ضعیف‘ (تہذیب التہذیب ۱۰/ ۱۵۰) اور معصب نے یہ حدیث سعید بن زربی بصری سے سنی تھی، جو قطعاً ناقابل اعتمادشخص تھا۔ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں اس کے متعلق علماے حدیث کے یہ اقوال درج ہیں :
(ابن معین) ’لیس بشيء‘ (امام بخاری)’عندہ عجائب‘ (ابوداؤد) ’ضعیف‘(نسائی) ’لیس بثقة‘ (ابوحاتم) ’عندہ عجائب من المناكیر‘ (ابن حبان) ’کان ممن یروی الموضوعات عن الاثبات علی قلة روایته‘، یعنی یہ ایسا شخص تھا کہ جھوٹی حدیثوں کی ثقہ و معتمد لوگوں کی طرف نسبت کرکے روایت کرتا تھا۔ (ابو احمد الحاکم) ’منکر الحدیث جدًّا‘ (۴ / ۲۵)۔ چنانچہ یہ حدیث اس نے امام محمد بن سیرین، پھر حضرت ابوہریرہ کی طرف منسوب کر دینے کا جرم کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے عطاء بن ابی رباح والی حدیث جو ہم نے پہلے ذکر کی ہے، کسی سے سن لی تھی۔ کچھ الفاظ بدل کر اسی کو محمد بن سیرین، پھر ابوہریرہ کی طرف غلط منسوب کر کے روایت کر ڈالا۔ نہ حضرت ام سلمہ نے یہ حدیث بیان فرمائی تھی نہ حضرت ابو ہریرہ نے، نہ محمد بن سیرین نے، بلکہ یہ سراسر اسی راوی سعید بن زربی کی تصنیف ہے۔
طریق ثالث:
قال ابن جریر: حدثنا ابن حمید ثنا عبد اللّٰه بن عبد القدوس عن الأعمش عن حکیم بن سعد قال: ذکرنا علی بن أبي طالب عند أم سلمة رضي اللّٰه عنها فقالت: في بیتي نزلت ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ الخ﴾ جاء رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم إلی بیتي فقال: «لاتأذني لأحد
» فجاءت فاطمة فلم استطع أن أحجبھا عن أبیھا ثم جاء الحسن فلم استطع أن أحجبه عن جده و أمه ثم جاء الحسین فلم استطع أن أحجبه ثم جاء علي فلم أستطع أن أحجبه. فاجتمعوا فجلّلھم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم بکساء کان علیه ثم قال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي فأذھب عنھم الرجس و طھرھم تطھیرًا». فنزلت ھذہ الاٰية حین اجتمعوا علی البساط. فقلت: یا رسول اللّٰه، وأنا؟ قالت: فواللّٰه ما انعم و قال: «إنك علی خیر».
’’حکیم بن سعد نے بتایاکہ ہم نے علی بن ابی طالب کاذکرام سلمہ رضی اللہ عنہاکے پاس کیا، وہ بولیں: یہ آیت’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ الخ‘ میرے گھر میں نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھ سے کہاکہ کسی کواندرآنے کی اجازت نہ دینا۔ پھرفاطمہ آگئیں، مجھ سے یہ نہ ہوسکاکہ ان کوان کے باپ سے دور رکھوں، پھرحسن آگئے، مجھ سے یہ نہ ہوسکاکہ ان کوان کے نانا سے اور ماں سے دور رکھوں، پھرحسین آگئے، مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور رکھوں، پھرعلی آگئے مجھ سے یہ نہ ہوسکاکہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوررکھوں تو جب یہ سب لوگ ایک بسترپر جمع ہوگئے تو آپ نے ان کوایک چادراڑھادی اوران کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ، یہ میرے اہل بیت ہیں، ان کو پاک کر دے اور ان سے گندگی کو دور کردے تویہ آیت نازل ہوئی: ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا الخ‘، میں نے کہا: اور میں یارسول اللہ؟ کہتی ہیں کہ بخدا، آپ نے کیا ہی بات کی کہ کہا: ’تم توخیرکی طرف راجع ہو‘۔‘‘ (غ)
اس کا راوی عبداللہ بن عبدالقدوس تمیمی مجروح و غیر ثقہ ہے۔ ابن معین نے اس کے متعلق کہا ہے کہ ’لیس بشيء رافضي خبیث‘۔ نسائی کہتے ہیں: ’ضعیف، لیس بثقة‘۔ ابن عدی فرماتے ہیں: ’عامة ما یرویه في فضائل أھل البیت‘ (تہذیب التہذیب ۵ /۲۶۵، حرف العین، دار الفکر، غ)۔ یہ حدیث اس راوی نے یا تو خود گھڑی تھی یا اور کسی دروغ باف سے سنی اور اعمش کی طرف غلط منسوب کر دی تھی۔ نہ یہ اعمش کی بیان کی ہوئی ہے، نہ حکیم بن سعد کی۔
طریق رابع:
قال أحمد: حدثنا محمد بن جعفر ثنا عوف عن أبي المعدل عن عطیة الطفاوي عن أبیه قال: ان أم سلمة قالت: بینما رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم في بیتي یومًا إذ قالت الخادم: ان فاطمة و علیًا بالسدة. فقال صلی اللّٰه علیه وسلم لي: «قومي فتنحي عن أھل بیتي» فقمت فتنحیت في البیت قریبًا فدخل علي و فاطمة و معھما الحسن و الحسین و هما صبیان صغیران فأخذ الصبیین فوضعھما في حجرہ فقبلھما و اعتنق علیًا بإحدی یدیه و فاطمة بالید الأخری فقبل فاطمة و قبل علیًا و اغدف علیھم خمیصة سوداء و قال: «اللّٰھم إلیك لا إلی النار. أنا و أھل بیتي» فقلت: و أنا یا رسول اللّٰه؟ قال: «و أنت».
’’ام سلمہ کہتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر پر تھے کہ خادم نے بتایا کہ فاطمہ اورعلی چبوترہ پر ہیں، آپ نے مجھ سے کہا: کھڑی ہوجاؤ اورمیرے اہل بیت سے الگ رہو، تو میں الگ ہو کر پاس ہی کھڑی ہوگئی۔ علی اور فاطمہ اور حسن و حسین آئے جوچھوٹے بچے تھے، آپ نے دونوں بچوں کو گودی میں بٹھا لیا اور دونوں کو چوما ایک دست شفقت علی پر اور دوسرا فاطمہ پر رکھا اور ان دونوں کو چوما اور ان سب کو ایک کملی میں داخل کر لیا اور فرمایا: اے اللہ، میں اور میرے گھروالے ہم سب تیری طرف رجوع کرتے ہیں آگ کے نہیں۔ تو میں نے کہا: اور میں اے اللہ کے رسول؟ فرمایا کہ ہاں، تم بھی۔ اس میں چونکانے والی بات یہ بھی ہے کہ پہلے حضرت ام سلمہ کو اپنے گھر والوں سے الگ رہنے کا حکم دیا، پھرشامل بھی کرلیا کیوں ؟غ‘‘
اس حدیث کی اسناد میں ابو المعدل اور اس کا شیخ عطیہ الطفاوی اور اس کا باپ سب مجہول ہیں ۔ ان میں سے جس نے بھی یہ حدیث گھڑی ہے، وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانات کیسے سادہ تھے۔ اس نے خیال کر لیا تھا کہ آپ کا مکان بھی جس میں حضرت ام سلمہ رہتی تھیں، ایسا ہی عالی شان ہو گا، جیسے امیروں کے محلات ہوتے ہیں ،تبھی تو اس نے سدہ کا ذکر کیا ہے۔ محل کے دروازے پر دونوں کواڑوں کے پاس جو پختہ چبوترہ ہوتا ہے، جس پر دربان بیٹھتے ہیں، اسے سدہ کہتے ہیں ۔
طریق خامس: سنن ترمذی میں ہے :
حدثنا محمود بن غیلان ثنا أبو أحمد الزبیري ثنا سفیان عن زبیدہ عن شھر بن حوشب عن أم سلمة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم جلل علی الحسن و الحسین و علی و فاطمة کساء ثم قال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي و خاصتي أذھب عنھم الرجس و طھرھم تطھیرًا». فقالت أم سلمة: وأنا معھم یا رسول اللّٰه؟ قال: «إنك علی خیر». (أبواب المناقب، فضل فاطمة)(اس کا ترجمہ بھی اوپروالی روایات سے ملتاجلتاہے،غ )
اس کے بعد ترمذی نے لکھا ہے ’ھذا حدیث حسن صحیح و ھو أحسن شيء روی في ھذا الباب‘ ترمذی نے اپنی اصطلاح میں حسن اس حدیث کو کہا ہے جومتعدد طرق سے مروی ہو، لیکن اسے صحیح کہنا غلط ہے۔ اس کی اسناد میں راوی اول شہر بن حوشب ہے جو ضعیف و ناقابل اعتماد شخص تھا۔(شہربن حوشب: شہربن حوشب الاشعری الشامی مولاے اسماء بنت یزیدالسکن کثیرالحدیث تابعی ہیں ، مگر ان کی توثیق و تضعیف میں ائمہ مختلف ہیں ۔ ابن المدینی، امام احمد، بخاری، ابن معین، یعقوب بن سفیان، یعقوب بن شیبہ ثقہ بتاتے ہیں اور شعبہ، ابن عون، ابراہیم بن الجوزجانی موسیٰ بن ہارون، نسائی، ساجی، حاکم و بیہقی وغیرہم ضعیف۔ ابن حبان فرماتے ہیں: ’کان ممن یروی عن الثقات المعضلات وعن الاثبات المقلوبات‘۔ ابن عدی کہتے ہیں: ’وعامة ما یرویه شهر من الحدیث فیه من الإنکار مافیه، و شهر لیس بقوي في الحدیث وهو ممن لایحتج بحدیثه ولا یتدین به‘۔ صالح بن محمدکا قول ہے: ’روی عنه الناس ولم یوقف منه علی کذب وکان یشك إلا أنه روی أحادیث ینفرد بها لم یشاركه فیها أحد و روی عنه عبد المجید بن بهرام أحادیث طوالًا عجائب ویروی عن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم أحادیث في القراءات لایأتی بها غیرہ‘۔ (علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی منتہی الآراب شرح مسندعمرالخطاب، مسنداحمد ۲ / ۱۲۱)
خود ترمذی نے اسے ضعیف بتایا ہے۔ چنانچہ ابواب الطہارہ میں ’’الاذنان من الراس‘‘ میں اس حدیث کے متعلق جو شہر نے ابوامامہ باہلی سے روایت کی ہے۔ کہا ہے: ’ھذا حدیث لیس اسنادہ بذاك‘ (یعنی اس حدیث کی اسناددرست نہیں )شہر بن حوشب نے براہ راست حضرت ام سلمہ سے یہ حدیث نہیں سنی۔ چونکہ روافض نے حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب کر کے یہ حدیث لوگوں میں پھیلا دی تھی، شہر نے بھی وہ سن لی اور اس کی روایت بھی کر ڈالی۔ پس اس حدیث کی اسناد میں ’عن أم سلمة‘ کا مطلب یہ ہے کہ شہر بن حو شب نے حضرت ام سلمہ کے متعلق بیان کیا۔
طریق سادس:
قال الترمذي حدثنا قُتَبیة نا محمد بن سلیمان بن الأصهاني عن یحیی بن عبید عن عطاء بن أبي رباح عن عمر بن أبي سلمة ربیب النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لما نزلت ھذہ الاٰية علی النبي صلی اللّٰه علیه وسلم: ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ أتی بیت أم سلمة فدعا فاطمة و حسنًا و حسینًا فجللھم بکساء و علی خلف ظھره فجلّله بکساء ثم قال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي فأذھب عنھم الرجس وطھرھم تطھیرًا». قالت: أم سلمة و أنا معھم یا نبي اللّٰه؟ قال: «أنت علی مکانك و أنت علی خیر». (تفسیر سورۂ احزاب و مناقب اہل البیت)(اس کا ترجمہ بھی اوپروالی روایات سے ملتاجلتاہے،غ )
اس کا راوی محمد بن سلیمان بن الاصبہانی ضعیف و کثیر الحظا ہے (تہذیب التہذیب ۹ / ۱۲۸، غ) اور یہ حدیث مرسل ہے، کیونکہ عمر بن ابی سلمہ ۲ھ میں پیداہوئے اور جب سورۂ احزاب نازل ہوئی، اس وقت عمر بن ابی سلمہ تین سال کے تھے۔ جب ابن الاصبہانی نے قتیبہ بن سعید سے یہ حدیث بیان کی تھی، اس وقت اسے اس کا خیال نہ تھا کہ میری بیان کردہ یہ حدیث مرسل ہے۔ بعد میں احساس ہوا تو اس نے یہ علت دور کر لی، چنانچہ عبدالرحمٰن بن صالح سے یہ حدیث بیان کی تو اسناد میں ’عن أمه‘ کا اضافہ کر دیا، یعنی بتایا کہ عمر بن ابی سلمہ کو یہ حدیث اپنی والدہ حضرت ام سلیمہ سے پہنچی ہے۔ ابن جریر طبری نے اس طریق سے اس کی تخریج کی ہے۔ پھر بھی سمجھتا ہوں کہ ’’عمر بن ابی سلمہ‘‘ کا ذکر بھی اس کی اسناد میں غلط اضافہ ہے، کیونکہ حدیث ام سلمہ کے طریق اول میں جو روایت ہم درج کر آئے ہیں، وہ عطاء بن ابی رباح کی ہی ہے۔ اس میں ہے کہ عطاء نے کہا: ’حدثني من سمع أم سلمة‘ پس اگر فی الواقع عطاء نے عمر بن ابی سلمہ سے یہ حدیث سنی ہوتی تو نام ذکر کرتے ’حدثني من سمع أم سلمة‘ نہ کہتے۔ الغرض اس حدیث کا یہ طریق بھی صحیح نہیں ہے۔
طریق سابع:
قال ابن جریر: حدثنا أبوکریب ثنا خالد بن مخلدثني موسی بن یعقوب ثني ھاشم بن ھاشم بن عتبة بن أبي وقاص عن عبد اللّٰه بن وھب زمعة قال: أخبرتنی أم سلمة رضي اللّٰه عنها أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم جمع علیًا و فاطمة و الحسن و الحسین تحت ثوبه ثم جأر إلی اللّٰه ثم قال: «ھؤلاء أھل بیتي». فقلت: یا رسول اللّٰه، أدخلني معھم. فقال: «أنت من أھلي».
اس حدیث کا راوی موسیٰ بن یعقوب زمعی مجروح شخص ہے۔ علی بن المدینی نے اسے ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث بتایا ہے۔ نسائی کہتے ہیں: ’لیس بالقوي‘، امام احمد نے کہا ہے: ’لا یعجبني حدیثه‘ (تہذیب التہذیب ۳۳۷، حرف المیم، المجلد العاشر، دارالفکر، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۸۴ء،غ )
طریق ثامن:
عطیہ عوفی کی روایت ’عن أبي سعید من أم سلمة‘ ہے جو بیان کی جا چکی ہے اور میں بتا چکا ہوں کہ یہ ابو سعید خدری کی حدیث نہیں ہے، بلکہ ابو سعید ابن السائب الکلبی کی گھڑی ہوئی حدیث ہے۔
دیکھا آپ نے، اب نصف النہار کے سورج کی طرح یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب حدیث بھی قطعاً بے اصل ہے۔ اس حدیث کے طریق کی اسانید پر ہی میں نے کلام کیا ہے۔ نفس مضمون کے لحاظ سے بھی اس کے تمام طرق باہم متعارض اور ’یکذِّب بعضُھا بعضًا‘ کے مصداق ہیں، جیسا کہ ظاہر ہے۔ ممکن ہے کوئی سادہ لوح شخص یہ کہے کہ حدیث ضعیف اگر متعدد طریق سے مروی ہو تو وہ حدیث حسن کے مرتبہ کو پہنچ جاتی ہے، جیسا کہ اہل علم نے تصریح کی ہے اور اس قاعدہ کے مطابق یہ حدیث ام سلمہ حسن اور لائق استدلال ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قاعدہ اگر ہے تواس وقت ہے، جب کہ حدیث ضعیف کے متعدد طرق باہم متعارض نہ ہوں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث کے طرق متعارض ہیں ۔ علاوہ بریں بہ اجماع مفسرین و محدثین ازواج مطہرات کے متعلق یہ آیات جن میں سے ایک آیت میں ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ‘ ارشاد ہوا ہے، غزوۂ بنی قریظہ کے بعد ذی الحجہ ۵ھ میں نازل ہوئی تھیں۔ اس وقت حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما اگر پیدا ہو گئے تھے تو چلنے کے لائق نہ تھے۔ حضرت حسن کی پیدایش بعض نے رمضان ۳ھ بتائی ہے اور حضرت حسین ان سے ایک سال چھوٹے تھے۔ پس اس آیت کے نزول کے وقت حسن ۲ سال ۳ ماہ کے تھے اور قتادہ یہ کہتے ہیں کہ حسن ہجرت سے چار سال اور ساڑھے نو ماہ بعد پیدا ہوئے تھے۔ اس قول کے مطابق حضرت حسن اواخر ذی الحجہ ۵ھ میں پیدا ہوئے اور حضرت حسین ہنوز پیدا ہوئے ہی نہ تھے۔
و۔حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب حدیث شداد بن ابی عمار سے مروی ہے۔ شداد سے اوزاعی و کلثوم محار بی نے روایت کی ہے۔ اوزاعی سے محمد بن مصعب اور ولید بن مسلم نے، محمد بن مصعب کی حدیث امام احمد نے تخریج کی ہے۔ کہتے ہیں:
حدثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعی ثنا شداد بن عمار قال: دخلنا علی واثلة بن الاسقع رضي اللّٰه عنه وعندہ قوم قذکروا علیًا رضي اللّٰه عنه فشتموہ فشتمته معھم. فلما قاموا قال لي: شتمت ھذا الرجل؟ قلت: قدشتموہ فشتمته معھم. قال: ألا أخبرك بما رأیت من رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم له قلت: نعم، قال: أتیت فاطمة رضي اللّٰه عنها أسئلها عن علي قالت: توجه إلی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم فجلست انتظرہ. حتی جاء رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم و معه علي و حسن و حسین اٰخذ کل واحد منھما بیدہ حتی دخل فادنی علیًا و فاطمة و أجلسھما بین یدیه و أجلس حسنًا و حسینًا کل واحد منھما علی فخذہ ثم لف علیھم ثوبه اوکسائه ثم تلاھذہ الاٰية: ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ وقال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي و أھل بیتي أحق». (مسند الامام احمدبن حنبل۴ / ۱۰۷، المکتب الاسلامی)
’’شداد کہتا ہے کہ میں حضرت واثلہ کے پاس گیا۔ کچھ اور لوگ بھی ان کے پاس تھے، حضرت علی کا ذکر آ گیا تو انھوں نے علی کو گالیاں دیں ،میں نے بھی علی کو ان کے ساتھ مل کر برا کہا۔ جب وہ لوگ اٹھ گئے تو واثلہ نے مجھ سے کہا کہ تو نے علی کو برا کیوں کہا؟ میں نے کہا: یہ لوگ بھی انھیں برا کہہ رہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ لگ گیا۔ واثلہ نے کہا: میں تجھے اس نوازش کا قصہ سناؤں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کے لیے دیکھی ہے؟ میں نے کہا: ضرور بتائیے۔ واثلہ نے کہا: میں ایک دن علی کی تلاش میں ان کے گھر گیا۔ فاطمہ سے پوچھا، بولیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ہیں ۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھ گیا، تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، علی بھی ساتھ تھے اور حسن و حسین بھی۔ دونوں بچوں نے آپ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ اندر آ کر آپ نے علی و فاطمہ کو نزدیک کر کے اپنے سامنے بٹھایا اور دونوں صاحب زادوں کو ران پر بٹھا لیا، پھر ان پر اپنا کپڑا یا کمبل لپیٹ کر یہ آیت پڑھی اور فرمایا: خدایا، یہ میرے اہل بیت ہیں ۔ اور میرے اہل بیت زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
ولید بن مسلم کی روایت بھی یہ ہی ہے۔ اس کی تخریج ابن جریر نے کی ہے۔ اس میں اس کے بعد اضافہ ہے کہ واثلہ نے بیان کیا: ’فقلت: یا رسول اللّٰه، و أنا من أھلك؟ قال: «و أنت من أھلي». قال: واثلة و انھا من ارجی ما ارتجی‘۔ میں نے عرض کیا کہ میں بھی آپ کے اہل میں ہوں ؟ فرمایا اور تو بھی میرے اہل میں سے ہے۔ واثلہ نے کہا کہ آپ کا میرے حق میں یہ ارشاد میری سب سے بڑی امید ہے، یعنی اس کی برکت سے مجھے آخرت میں جنت حاصل ہو گی۔
کلثوم محاربی کی روایت ابن جریر نے تخریج کی ہے:
عن شداد بن أبي عمار قال: إني لجالس عند واثلة بن الاسقع إذ ذکروا علیًا فشتموہ فلما قاموا قال: اجلس حتی أخبرك عن ھذا الذي شتموہ. إني عند رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم إذ جاء علي و فاطمة وحسن و حسین فألقی علیھم کساء له ثم قال: «اللّٰھم ھؤلاء أھل بیتي، اللّٰھم أذھب عنھم الرجس و طھرھم تطھیرًا». قلت: یا رسول اللّٰه، و أنا؟ قال: «و أنت». قال: فو اللّٰه انھا لا وثق عمل عندي.
اوزاعی و کلثوم کی روایت میں یہ اختلاف ہے کہ اوزاعی کی روایت کے مطابق واثلہ حضرت علی کے گھر ان کے منتظر تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حسن و حسین کے ساتھ تشریف لے آئے اور گھر میں داخل ہو کر چاروں پر کمبل ڈال کر دعاے تطہیر فرمائی۔ اور کلثوم کی روایت کے مطابق واثلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، وہیں یہ چاروں حضرات آ گئے، تب آپ نے ان پر کمبل ڈال کر دعا فرمائی۔ اوزاعی و کلثوم کی روایتوں کا یہ اختلاف یہ معنی رکھتا ہے کہ بمصداق دروغ گو را حافظ نباشد۔ شداد نے اوزاعی سے کچھ بیان کر دیا تھا اور کلثوم سے کچھ، کیونکہ شداد نے حضرت واثلہ سے یہ حدیث نہیں سنی، نہ حضرت واثلہ نے یہ بیان کی۔ آخر وہ اَن ہونی بات کیوں بیان کرتے۔ یہ اول سے آخر تک شداد کی ہی تصنیف ہے۔ اور یہ یقیناً کوئی دروغ باف شخص تھا۔ اوزاعی و کلثوم کے اختلاف کے علاوہ اس حدیث پر یہ سوالات وارد ہوتے ہیں :
۱۔ حضرت واثلہ بن اسقع ۹ھ میں سفر تبوک کی تیاری کے زمانہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔ اور اس سے کئی سال پہلے پردہ کا حکم آ چکا تھا، پھر واثلہ حضرت علی کے گھر جا کر کیسے بیٹھ سکتے تھے؟
۲۔ واثلہ ایک اجنبی شخص تھے، ان کے سامنے حضرت فاطمہ بے پردہ کیوں ہوتیں ؟
۳۔ جب واثلہ کے پاس بیٹھے ہوئے لوگ علی کو گالیاں بک رہے تھے تو واثلہ نے انھیں اس گناہ عظیم سے باز رہنے کی نصیحت کیوں نہیں کی۔ جو قصہ واثلہ نے شداد کو سنایا، وہی سب کو سنا سکتے تھے۔
(نیز اس روایت کے مطابق توواثلہ بھی اہل بیت میں سے شمارہونے چاہییں؟ پھران روایتوں کے ماننے والے ان کواہل بیت میں شامل کیوں نہیں کرتے ؟غ)
یہ واضح رہے کہ شداد نام کے دو شخص ہیں، دونوں ہم عصر تھے ــــــ ایک شداد بن عبداللہ ابو عمار دمشقی۔ یہ شخص ثقہ تابعی ہے (تہذیب التہذیب ۴ / ۲۷۲) دوم شداد بن عمار یا شداد بن ابی عمار یہ دروغ باف و کذاب ہے۔ اوزاعی نے اسے اپنی روایت میں شداد بن عمار کہا ہے اور کلثوم محاربی نے شداد بن ابی عمار۔
یہ تو اُن حضرات صحابہ کی طرف منسوب حدیث کی تحقیق ہوئی جن کا مولانا مودودی نے نام لکھا ہے۔ رہے وہ بعض صحابہ جن کا نام نہیں لکھا تو وہ تین ہیں: ایک ابو الحمراء۔ دوم زید بن ارقم۔ سوم حضرت سعد بن ابی وقاص۔ ناظرین ان سے مروی روایات کا بھی مطالعہ کر لیں ۔
ز۔’قال ابن جریر: حدثنا سفیان بن وکیع ثنا أبو نعیم ثنا یونس عن أبي إسحاق قال: أخبرني أبوداؤد عن أبي الحمراء قال: رابطت المدینة سبعة أشھر علی عهد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم رأیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم إذا طلع الفجر جاء إلی باب علي و فاطمة فقال: «الصلاة الصلاة. ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾»: ابوداؤد نابینا کذاب کا بیان ہے کہ ابو الحمراء صحابی نے بتایا کہ عہد نبوی میں، میں سات ماہ مدینہ میں ٹھیرا۔ میں نے دیکھا کہ صبح صادق طلوع ہو جانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی و فاطمہ کے گھر کے دروازے کی طرف آ کر فرماتے: نماز، نماز، پھر یہ آیت پڑھتے...۔ یہ سراسر جھوٹی حدیث ابوداؤد نابینا کذاب کی گھڑی ہوئی ہے: حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے:’رواہ ابوداؤد الاعمی، ھو نفیع ابن الحارث کذاب‘ (ابن کثیر ۴۱۱)۔
ح۔امام مسلم نے فضائل علی میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی ہے۔ زید رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت یزید بن حیان نے اور یزید سے ابوحیان اور سعید بن مسروق نے کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم پر خطبہ دیا۔ اس میں فرمایا تھا: ’أنا تارك فیكم ثقلین أولھما کتاب اللّٰه فیه الھدی والنور فخذوا بکتاب اللّٰه واستمسکوا به ثم قال: و أھل بیتي اذكر كم اللّٰه فی اھل بیتی‘ لفظ تین بار فرمایا تھا۔ زید بن ارقم سے یہ حدیث سن کر حصین بن سبرہ نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت نہیں ہیں ؟ بقول ابوحیان زید نے کہا: وہ بھی ہیں، مگر آپ کے اصل اہل بیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، یعنی آل علی و آل عقیل و آل جعفر و آل عباس... اور بقول سعید بن مسروق زید نے کہا: ’’آپ کی بیویاں اہل بیت نہیں ہیں ، کیونکہ بیوی کا شوہر سے رشتہ اٹوٹ نہیں ہوتا۔ شوہر طلاق دے دے تو وہ اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ اہل بیت وہ ہیں جن سے رشتہ اٹوٹ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت وہ ہیں جن پر صدقہ حرام ہے‘‘، مگر یہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی ذاتی راے ہے، جس کی پشت پر نہ صرف یہ کہ کوئی نقل و عقلی دلیل نہیں، بلکہ قرآن و کلام عرب اور عرف عام سے اس کا غلط ہونا ثابت ہے۔
ط۔’قال ابن جریر: حدثنا ابن المثنی ثنا أبوبکر الحنفي ثنا بکیربن مسمار سمعت عامر بن سعد قال: قال سعد: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم حین نزل علیه الوحي فأخذ علیًا و ابنیه و فاطمة فأدخلھم تحت ثوبه وقال: «ربي ھؤلاء أھلي و أھل بیتي»‘۔(یعنی سعدبن ابی وقاص نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب وحی نازل ہوئی، (یعنی آیت تطہیر)توآپ نے علی اوران کے دونوں بیٹوں کواورفاطمہ کواپنے کپڑے کے نیچے داخل کرکے فرمایا: اے اللہ، یہ میرے گھروالے اوراہل بیت ہیں، غ)۔
یہ حدیث بکیربن مسمار کی تصنیف کی ہوئی ہے۔ یہ کذاب رافضی شخص تھا۔
(بکیرکے بارے میں ائمۂ رجال کی راے :(تہذیب التہذیب میں ہے:’قال البخاري: فیه نظر وقال العجلي ثقة وقال النسائي: لیس به بأس وقال ابن عدي: مستقیم الحدیث‘۔ ۴۳۴ (حرف الباء)، المجلد الاول، دارالفکر، بیروت، طبع ۱۹۸۴ء)۔
یعنی بخاری تواس کوثقہ خیال نہیں کرتے، عجلی کام چلاؤ قرار دیتے ہیں اور نسائی نے بھی کام چلاؤ ہی قرار دیا ہے۔ صرف ابن عدی نے ٹھیک قراردیاہے۔ظاہرہے کہ امام بخاری کے مقابلہ میں ان حضرات کا اس کوثقہ قراردینامحل نظرہے۔غ)
یہ حدیثیں مولانا مودودی نے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں دیکھیں، لیکن نہ موصوف نے خود ان کی تحقیق کی، نہ اہل علم سے پوچھ کر انھیں سمجھنے کی کوشش کی۔ واللّٰه ھو الموفق للصواب۔
آخرمیں اس بحث سے متعلق صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ مولاناامین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کا ایمان افروزتبصرہ بھی پیش کرنے کوجی چاہتاہے۔فرماتے ہیں :
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ہونے کا شرف اصلاً آپ کی ازواج مطہرات کوحاصل ہے۔یہ آیت اِس باب میں نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے۔قرآن میں اس کی نظیریں بھی موجودہیں ۔یہاں ’اہل بیت‘ سے ازواج نبی (رضی اللہ عنہم) کے سوا کسی اور کو مراد لینے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دوسروں کی شمولیت اس میں ہوسکتی ہے تو اصلاً نہیں، بلکہ تبعاً و ضمناً ہو سکتی ہے۔ اس وجہ سے ان غالی فرقوں کی منطق ہماری سمجھ میں نہیں آتی جواصل کے تو منکر ہیں، لیکن فروع پر بڑاطوفان کھڑاکرتے ہیں۔‘‘ (۶/ ۲۲۳)
ـــــــــــــــــــــــــ