HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید میں اختلاط مرد وزن کے احکام (۶)

مختلف تعبیرات کی تفہیم اور تجزیہ

 

سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۵۹ تا ۶۱ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا.  لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِي الْمَدِيْنَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَا٘ اِلَّا قَلِيْلًا. مَّلْعُوْنِيْنَﵑ اَيْنَمَا ثُقِفُوْ٘ا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا
’’ اے نبی، تم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور سب مسلمانوں کی عورتوں کو ہدایت کر دو کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کریں۔ اِس سے اس کا زیادہ امکان ہے کہ ان کی شناخت ہوجائے اور پھر ان کو ستایا نہ جائے۔اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اگر منافق اور وہ جن کے دلوں میں روگ ہے اور مدینے میں شرانگیزی کرنے والے باز نہ آئے تو ہم تمھیں ان کے خلاف سخت اقدام کا حکم دیں گے اور پھر وہ مدینے میں تمھارے ساتھ زیادہ دن نہیں ٹھیرنے پائیں گے۔ یہ پھٹکارے ہوئے ہوں گے اور جہاں بھی پائے جائیں گے، انھیں پکڑ لیا جائے گا اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘

شان نزول کی روایات میں ان آیات کا پس منظر یہ بیان کیا گیا ہے کہ کچھ اوباش لوگ رات کے وقت مدینے کی گلیوں میں نکل آتے اور قضاے حاجت کے لیے نکلنے والی خواتین کو باندیاں سمجھ کر یا تو ان کے متعلق بے ہودہ تبصرے کرتے یا ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیا کرتے تھے، البتہ جن خواتین کے جسم کسی بڑی چادر سے ڈھکے ہوئے ہوتے، ان سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ اس تناظر میں مذکورہ آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ، آپ کی بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین کو ان اوباش عناصر کی فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ تدبیر بیان کی گئی کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک بڑی چادر لے کر اپنے جسم پر ڈال لیا کریں تاکہ ان کے لباس کی یہ خاص وضع انھیں دوسری خواتین سے ممتاز کر دے اور اوباش لوگ انھیں زبانی یا جسمانی طور پر اذیت پہنچانے کی جسارت نہ کر سکیں۔

سدی کا بیان ہے:

كان أناس من فساق أهل المدينة بالليل حين يختلط الظلام يأتون إلى طرق المدينة فيتعرضون للنساء، وكانت مساكن أهل المدينة ضيقة فإذا كان الليل خرج النساء إلى الطرق فيقضين حاجتهن، فكان أولئك الفساق يتبعون ذالك منهن، فإذا رأوا امرأة عليها جلباب قالوا: هذه حرة فكفوا عنها، وإذا رأوا المرأة ليس عليها جلباب قالوا: هذه أمة فوثبوا عليها. (تفسیر ابن ابی حاتم ۱۰ / ۳۱۵۵)
’’اہل مدینہ میں سے کچھ بدکردار لوگ رات کو اندھیرا پھیل جانے پر مدینہ کے راستوں میں آجاتے تھے اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے۔ اہل مدینہ کے گھر تنگ ہوتے تھے، اس لیے رات کے وقت خواتین راستوں کی طرف نکل جاتیں اور قضاے حاجت کرتی تھیں۔ یہ بدکردار لوگ ان کا پیچھا کرتے تھے۔ اگر وہ کسی عورت کو چادر میں ملبوس دیکھتے تو کہتے کہ یہ آزاد عورت ہے اور اس سے تعرض نہیں کرتے تھے، لیکن ایسی عورت کو دیکھتے جس پر چادر نہیں تو کہتے کہ یہ باندی ہے اور اس کے پیچھے پڑ جاتے۔“

ابو صالح نے بیان کیا ہے:

قدم النبي صلی اللّٰه علیه وسلم المدينة على غير منزل، فكان نساء النبي صلی اللّٰه علیه وسلم وغيرهن إذا كان الليل خرجن يقضين حوائجهن. وكان رجال يجلسون على الطريق للغزل. فأنزل الله: ﴿يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ يقنعن بالجلباب حتى تعرف الأمة من الحرة. (تفسیر الطبری ۲۰ / ۳۲۶)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان کے گھر نہیں تھے (جن میں بیت الخلا ہوں)۔ چنانچہ آپ کی ازواج اور دیگر خواتین رات کے وقت قضاے حاجت کے لیے گھر سے باہر جاتی تھیں اور کچھ لوگ راستوں پر بیٹھ کر ان کے متعلق تبصرے کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی اور انھیں ہدایت کی کہ وہ ایک بڑی چادر سے اپنا جسم ڈھانپ لیں تاکہ آزاد عورت باندی سے ممتاز ہو جائے۔“ 

مجاہد فرماتے ہیں:

﴿يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ﴾ قال: يتجلببن فيعلم أَنهن حرائر فلا يعرض لهن فَاسق بأذى من قول ولا ريبة. (تفسیر الطبری ۲۰ / ۳۲۵)
’’آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی چادر اپنے اوپر ڈال لیں تاکہ یہ پتا چل جائے کہ وہ آزاد عورتیں ہیں اور کوئی فاسق زبان یا چھیڑ چھاڑ سے انھیں اذیت نہ پہنچا سکے۔“

آثار سے واضح ہے کہ مومن خواتین کو امتیاز کے لیے جو طریقہ بتایا گیا، وہ اصل میں یہی تھا کہ باندیوں کے معمول کےبرخلاف جو صرف شلوار قمیص پہن کر باہر نکل سکتی تھیں، صاحب شرف خواتین ایک بڑی چادر لے کر اس سے اپنے جسم کو ڈھانپ لینے کا بھی اہتمام کریں۔ گویا یہ بنیادی طور پر جسم کو مجموعی طور پر ڈھانپنے کی ہدایت تھی، اس میں خصوصاً‌ چہرے کو چھپانے کی پابندی عائد کرنا پیش نظر نہیں تھا۔ اسی پہلو سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ باندیوں کو اپنا سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں دیتے تھے تاکہ ان میں اور آزاد خواتین میں اشتباہ پیدا نہ ہو۔ سیدنا انس کی روایت ہے:

رأى عمر جَارِيَة مقنعة فضربها بدرته وَقَالَ: القي القناع لَا تشبهين بالحرائر.(سیوطی، الدر المنثور ۶ / ۶۶۰)
’’سیدنا عمر نے ایک باندی کو سر پر اوڑھنی لیے ہوئے دیکھا تو اسے درہ لگایا اور کہا کہ یہ دوپٹہ اتار دو۔ آزاد عورتوں کی مشابہت اختیار نہ کرو۔

اس سے واضح ہے کہ آیت میں امتیاز کے لیے جو حکم دیا گیا، وہ یہی تھا کہ خواتین کے جسم اور سر کسی بڑی چادر کے ساتھ ڈھکے ہوئے ہوں۔

صحابہ وتابعین کے آثار میں چادر کو جسم پر ڈالنے کے بعد اس کا کچھ حصہ چہرے پر ڈال لینے کی مختلف شکلیں بھی بتائی گئی ہیں، تاہم ان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ چہرے کو جزوی طور پر چھپانا اس ہدایت سے ضمنی اور استنباطی طور پر تو اخذ کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ حکم کا اصل اور براہ راست مقصود نہیں ہے۔ یہ آثار حسب ذیل ہیں:

ایک صورت یہ ہے کہ پورے چہرے کو چادر میں چھپا کر صرف ایک آنکھ کو دیکھنے کے لیے ننگا رکھا جائے۔ یہ صورت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، محمد بن کعب القرظی اور عبیدہ سلمانی سے منقول ہے۔ مثلاً‌ ابن عباس فرماتے ہیں:

يغطين وجوههن من فوق رؤوسهن بالجلابيب ويبدين عينًا واحدة.(الدر المنثور ۶ / ۶۵۹)
’’وہ اپنے سر کے اوپر سے چادر کو کھینچ کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔

ابن عباس نے اس کی دوسری صورت یہ بیان کی کہ چادر کو سر پر ڈال کر پیشانی پر باندھ لیا جائے:

وادناء الجلباب: أَن تقنع وتشده على جبينها.(الدر المنثور ۶ / ۶۶۱)
’’چادر لٹکانے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اسے سر پر ڈال کر اپنی پیشانی پر باندھ لے۔

ایک اور صورت یہ ہے کہ چادر کو پیشانی پر باندھ کر ناک پر ڈال دیا جائے جس سے آنکھیں تو ننگی رہیں، لیکن چہرے کا زیادہ تر حصہ چھپ جائے۔ یہ صورت بھی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے۔

عکرمہ اور سعید بن جبیر نے اس کی صورت یہ بیان کی ہے کہ خواتین چادر کو اپنی پیشانی پر باندھ کر اس طرح لٹکا لیں کہ ان کے سینے کا اوپر کا حصہ بھی چھپ جائے (تفسیر ابن ابی حاتم ۱۰ / ۳۱۵۵)۔ عکرمہ کہتے ہیں:

تدني الجلباب حتى لا يرى ثغرة نحرها.(الدر المنثور ۶ / ۶۶۱)
’’چادر کو لٹکا لے، یہاں تک کہ سینے کا اوپر کا حصہ دکھائی نہ دے۔

حسن بصری سے اس کا طریقہ یہ منقول ہےکہ چادر سے آدھے چہرے کو چھپا لیا جائے (قرطبی، الجامع لاحکام القرآن ۱۷/ ۲۳۰) ۔

اس تناظر میں جمہور اہل علم جو سورۂ نور کی روشنی میں خواتین کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کو جائز قرار دیتے ہیں، آیت جلباب سے ایسا کوئی حکم اخذ نہیں کرتے جس کا تعلق اختلاط مرد وزن کے عمومی حدود و آداب سے ہو، بلکہ اسے ایک غیر محفوظ ماحول میں فتنے اور شر سے بچنے کے لیے ایک حفاظتی تدبیر کے طور پر بیان کرتے ہیں جس کی ایک امکانی صورت چہرے کو یا اس کے کچھ حصے کو چھپا لینا بھی ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے جمہور مفسرین کا زاویۂ نظر دو نکتوں سے واضح ہوتا ہے:

ایک یہ کہ وہ آیت کے الفاظ ’يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ‘ کا مفہوم یا تو صرف یہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی چادر لے کر جسم پر ڈال لی جائے اور یا اس جملے کی دونوں تفسیروں کا بلا ترجیح ذکر کر دیتے ہیں جو عربیت کی رو سے ممکن ہیں: پہلی یہ کہ اس کا مطلب کوئی چادر لے کر اپنے اوپر ڈال لینا ہے اور دوسری یہ کہ اس سے مراد اوڑھی ہوئی چادر کو اپنے چہرے پر لٹکا لینا ہے۔ مفسرین کا ان دونوں احتمالات کو ذکر کر دینا اور کسی ایک کو لازمی طور پر ترجیح دینا اسی وجہ سے ہے کہ وہ اس حکم کو اصلاً‌ چہرے کو چھپانے کا کوئی حکم نہیں سمجھتے۔

دوسرا یہ کہ وہ دوسری تفسیر، یعنی چادر کو چہرے پر لٹکانا مراد لینے کی صورت میں بھی اس کا حتمی مصداق ایسا متعین نہیں کرتے جس کی رو سے چہرے کو چھپانا لازم ہو، بلکہ ان مختلف صورتوں کا ذکر کر دیتے ہیں جو صحابہ و تابعین کے آثار میں نقل ہوئی ہیں، کیونکہ ان میں سے جو بھی صورت اختیار کر لی جائے، حکم کا مقصد، یعنی بے پردہ خواتین یا باندیوں وغیرہ سے امتیاز حاصل ہو جاتا ہے۔

مثلاً‌ امام طبری نے سیاق کلام اور تفسیری روایات کی روشنی میں آیت کا مدعا یوں واضح کیا ہے:

يقول تعالىٰ ذكره لنبيه محمد صلى الله عليه وسلم: يا أيها النبيّ قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنـين، لا يتشبهن بـالإماء فـي لباسهنّ إذا هن خرجن من بيوتهنّ لحاجتهنّ، فكشفن شعورهنّ ووجوههنّ، ولكن ليدنين عليهنّ من جلابيبهنّ، لئلا يعرض لهنّ فاسق، إذا علم أنهنّ حرائر بأذى من قول. ثم اختلف أهل التأويل في صفة الإدناء الذي أمرهنّ الله به، فقال بعضهم: هو أن يغطين وجوههنّ ورؤوسهنّ، فلا يبدين منهنّ إلا عينًا واحدة. .... وقال آخرون: بل أمرن أن يشددن جلابيبهنّ على جباههنّ. ..... وقوله: ﴿ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ يقول تعالىٰ ذكره: إدناؤهنّ جلابيبهنّ إذا أدنينها عليهنّ أقرب وأحرى أن يعرفن ممن مررن به، ويعلموا أنهنّ لسن باماء، فيتنكَّبوا عن أذاهنّ بقول مكروه، أو تعرّض بريبة.(تفسیر الطبری ۲۰ / ۳۲۴-  ۳۲۵)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ جب اپنی ضرورتوں کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو ان کا لباس باندیوں جیسا نہ ہو اور ان کے بال اور چہرے ننگے نہ ہوں، بلکہ اپنے اوپر اپنی چادر ڈال کر نکلیں تاکہ کوئی فاسق یہ جاننے پر کہ وہ آزاد عورتیں ہیں، ان کے ساتھ زبان سے چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ پھر علماے تفسیر کا اس میں اختلاف ہے کہ چادر لٹکانے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے۔ بعض نے کہا کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے چہروں اور سروں کو چادر سے ڈھانپ لیں اور اپنی صرف ایک آنکھ ننگی رکھیں۔ دوسرے اہل علم نے کہا کہ نہیں، بلکہ انھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنی پیشانیوں پر باندھ لیا کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد: ’ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیں گی تو اس سے وہ جن کے پاس سے گزریں گی، ان کے لیے یہ پہچان لینا آسان ہوگا کہ یہ باندیاں نہیں ہیں۔ یوں وہ انھیں کوئی بری بات کہہ کر یا چھیڑ چھاڑ کر کے اذیت نہیں پہنچائیں گے۔“

طبری کے کلام سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک یہاں ادناء جلباب کی کوئی خاص شکل متعین کرنا اہم نہیں، چنانچہ وہ اس کی وہ دونوں صورتیں بلا ترجیح ذکر کر رہے ہیں جو تفسیری اقوال میں بیان ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک ہدایت کا اصل مقصد چہرے کے پردے کے ضمن میں کوئی پابندی بیان کرنا نہیں، بلکہ ایسا انداز لباس اختیار کرنا ہے جس سے خواتین خود کو اوباشوں کی زبانی یا جسمانی اذیت سے محفوظ رکھ سکیں۔

یہی زاویۂ نظر زمخشری کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے اور وہ ادناء جلباب کی کسی خاص شکل پر اصرار کرنے اور اس سے چہرے کے پردے کا وجوب اخذ کرنے کے بجاے حکم کے اصل مقصد کو واضح کرنے اور ادناء جلباب کی مختلف ممکنہ صورتیں بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

قوله: ﴿ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ﴾ أي أولى وأجدر بأن يعرفن فلا يتعرّض لهن ولا يلقين ما يكرهن. فإن قلت: ما معنى ﴿مِنْ﴾ في ﴿مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ﴾؟ قلت: هو للتبعيض. إلا أن يكون معنى التبعيض محتمل وجهين، أحدهما: أن يتجلببن ببعض ما لهنّ من الجلابيب، والمراد أن لا تكون الحرة متبذلة في درع وخمار، كالأمة والماهنة ولها جلبابان فصاعدًا في بيتها. والثاني: أن ترخي المرأة بعض جلبابها وفضله على وجهها تتقنع حتى تتميز من الأمة. وعن ابن سيرين: سألت عبيدة السلماني عن ذالك فقال: أن تضع رداءها فوق الحاجب ثم تديره حتى تضعه على أنفها. وعن السديّ: تغطي إحدى عينيها وجبهتها، والشقّ الآخر إلّا العين، وعن الكسائي: يتقنعن بملاحفهنّ منضمة عليهنّ، أراد بالانضمام معنى الإدناء.(الکشاف ۳ / ۵۶۰)
’’ ’ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ طریقہ اس میں زیادہ مددگار ہے کہ ان کی شناخت ہو جائے اور ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ یا ناپسندیدہ طرز عمل اختیار نہ کیا جا سکے۔ اگر تم پوچھو کہ ’مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ‘ میں ’مِنْ‘کی دلالت کیا ہے؟ میں کہوں گا کہ یہ تبعیض کے لیے ہے، البتہ تبعیض کا مصداق دو میں سے ایک ہو سکتا ہے: ایک یہ کہ خواتین کےپاس جو چادریں ہیں، ان میں سے کوئی چادر لے کر خود پر ڈال لیں، یعنی آزاد عورت باندی اور خادمہ کی طرح صرف قمیص یا اوڑھنی کے معمول کے لباس میں باہر نہ نکلے، جب کہ اس کے پاس گھر میں دو یا زیادہ چادریں پڑی ہوں۔ دوسرا یہ کہ عورت اپنی چادر کا کچھ حصہ اپنے چہرے پر ڈال کر اسے چھپا لے تاکہ باندی سے ممتاز ہو جائے۔ ابن سیرین نے عبیدہ سلمانی سے اس کی صورت پوچھی تو انھوں نے کہا کہ اپنی چادر کو ابرو کے اوپر رکھ کر (سر کے گرد) گھمائے، یہاں تک کہ اپنی ناک پر بھی رکھ دے۔ سدی نے اس کی شکل یہ بتائی کہ اپنی پیشانی اور ایک آنکھ کو چھپا لے اور دوسری آنکھ کو چھوڑ کر چہرے کے باقی آدھے حصے کو بھی چھپا لے۔ کسائی نے کہا کہ عورتیں اپنی بڑی چادروں سے اپنے جسم کو چھپا لیں اور وہ ان کے گرد لپٹی ہوئی ہوں۔ کسائی کی مراد یہ ہے کہ ادناء کا مطلب چادر کو خود پر لپیٹ لینا ہے۔“

ابو حیان کا انداز نظر بھی یہی ہے۔ لکھتے ہیں:

ومن في: ﴿مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ﴾ للتبعيض، ﴿وعَلَيْهِنَّ﴾: شامل لجميع أجسادهن، أوْ عَلَيْهِنَّ: على وجوههن، لأن الذِي كان يبدو منهن في الجاهلية هو الوجه. ذالِكَ أَدْنىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ: لتسترهن بالعفة فلا يتعرض لهن، ولا يلقين بما يكرهن لأن المرأة إذا كانت في غاية التستر والإنضمام لم يقدم عليها، بخلاف المتبرجة، فإنها مطموع فِيها. (البحر المحیط ۸ / ۵۰۴)
’’’مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ‘ میں ’مِنْ‘تبعیض کے لیے ہے۔ ’عَلَيْهِنَّ‘ کا مطلب یہ ہے کہ چادر ان کے پورے جسم کو ڈھانپ لے یا دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ چادر ان کے چہروں کو چھپا لے، کیونکہ جاہلیت میں خواتین کا چہرہ ہی ننگا ہوتا تھا ’ذالِكَ أَدْنىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ‘ کا مطلب یہ ہے کہ ستر کے اہتمام کی وجہ سے ان کا پاک دامن ہونا معلوم ہو جائے اور ان سے تعرض نہ کیا جائے اور نہ انھیں ناپسندیدہ رویے کا سامنا کرنا پڑے، کیونکہ عورت نے جب انتہائی درجے کے ستر کا اور اپنے جسم کو ڈھانپنے کا اہتمام کیا ہوگا تو اس کی طرف کوئی نہیں بڑھے گا، بخلاف اس کے جو زیب وزینت کی نمایش کرنے والی ہو، کیونکہ اس سے لوگوں کی غلط توقع قائم ہو سکتی ہے۔“

امام قرطبی نے بھی اسی زاویے سے آیت کے مفہوم کو واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

لما كانت عادة العربيات التبذّل، وكنّ يكشفْن وجوههنّ كما يفعل الإماء، وكان ذالك داعية إلى نظر الرجال إليهن، وتشعب الفكرة فيهن، أمر اللّٰه رسوله صلى اللّٰه عليه وسلم أن يأمرهن بإرخاء الجلابيب عليهن إذا أردن الخروج إلى حوائجهن، ..... واختلف الناس في صورة إرخائه؛ فقال ابن عباس وعَبيدة السَّلْمانيّ: ذالك أن تلوِيه المرأة حتى لا يظهر منها إلا عين واحدة تُبصر بها. وقال ابن عباس أيضًا وقتادة: ذالك أن تلويه فوق الجبين وتشدّه، ثم تعطِفه على الأنف، وإن ظهرت عيناها لكنه يستر الصدر ومعظم الوجه. وقال الحسن: تغطّي نصف وجهها.(الجامع لاحکام القرآن ۱۴ / ۲۴۳)
’’چونکہ عرب کی خواتین معمول کے لباس میں باہر نکلا کرتی تھیں اور باندیوں کی طرح اپنے چہرے کھلے رکھتی تھیں جس سے مردوں میں ان کی طرف دیکھنے کی ترغیب پیدا ہوتی اور ان کے بارے میں طرح طرح کے خیالات دل میں پیدا ہوتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ خواتین کو بوقت حاجت باہر نکلتے ہوئے اپنے جسم پر چادریں ڈال لینے کی ہدایت کریں۔ چادر کو چہرے پر ڈالنے کی شکل سے متعلق اہل علم نے مختلف باتیں کہی ہیں۔ ابن عباس اور عبیدہ سلمانی نے کہا کہ عورت اس طرح چادر کو چہرے پر لپیٹ لے کہ دیکھنے کے لیے صرف اس کی ایک آنکھ ننگی ہو۔ ابن عباس کا دوسرا قول جو قتادہ سے بھی مروی ہے، یہ ہے کہ چادر کو پیشانی کے اوپر لپیٹ کر باندھ لے اور پھر اس کو ناک پر اس طرح لٹکا دے کہ چاہے اس کی دونوں آنکھیں دکھائی دیں، لیکن سینہ اور چہرے کا زیادہ تر حصہ چھپ جائے۔ حسن نے کہا کہ عورت اپنا آدھا چہرہ چھپا لے۔“

علامہ بقاعی نے ’جلباب‘ کے مختلف مفاہیم اور ان سب کے آیت میں مراد ہونے کی گنجایش کو یوں واضح کیا ہے:

والجلباب: القميص، وثوب واسع دون الملحفة تلبسه المرأة، والملحفة ما ستر اللباس، أو الخمار وهو كل ما غطى الرأس، وقال البغوي: الجلباب: الملاءة التي تشتمل بها المرأة فوق الدرع والخمار، وقال حمزة الكرماني: قال الخليل: كل ما تستتر به من دثار وشعار وكساء فهو جلباب، والكل يصح إرادته هنا، فإن كان المراد القميص فإدناؤه إسباغه حتى يغطي يديها ورجليها، وإن كان ما يغطي الرأس فإدناؤه ستر وجهها وعنقها، وإن كان المراد ما يغطي الثياب فإدناؤه تطويله وتوسيعه بحيث يستر جميع بدنها وثيابها، وإن كان المرأد ما دون الملحفة فالمراد ستر الوجه واليدين.  (نظم الدرر ۱۵ / ۴۱۱-  ۴۱۲)
’’جلباب کا مطلب قمیص بھی ہوتا ہے، ایسا وسیع کپڑا بھی جو بڑی چادر سے کچھ چھوٹا ہو اور عورت اسے اوڑھ لے۔ بڑی چادر وہ ہوتی ہے جو لباس کو بھی چھپا دے۔ اسی طرح جلباب اوڑھنی کو بھی کہتے ہیں، یعنی ہر وہ چیز جو سر کو ڈھانپ دے۔ بغوی نے کہا ہے کہ جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو عورت قمیص اور اوڑھنی کے اوپر لے لیتی ہے۔ حمزہ کرمانی نے خلیل سے نقل کیا ہے کہ ہر وہ کپڑا جو جسم کے ساتھ متصل یا جسم سے الگ ہو یا چادر جس سے عورت جسم کو چھپائے، جلباب ہے۔ آیت میں یہ سب معانی مراد ہو سکتے ہیں۔ اگر اس سے مراد قمیص ہو تو اس کو لٹکانے کامطلب یہ ہوگا کہ وہ اتنی لمبی ہو کہ اس سے عورت کے ہاتھ اور پاؤں چھپ جائیں۔ اگر اس سے مراد سر کی اوڑھنی ہے تو اس کو یوں لٹکایا جائے گا کہ عورت کا چہرہ اور گردن چھپ جائے۔ اگر مراد لباس کو چھپا لینے والی چادر ہے تو اس کو لٹکانے کی صورت یہ ہوگی کہ وہ اتنی لمبی اور وسیع ہو کہ اس میں عورت کا پورا بدن اور اس کے کپڑے چھپ جائیں۔ اگر اس سے مراد ملحفہ سے چھوٹی چادر ہے تو مطلب یہ ہو گا کہ اس سے چہرے اور ہاتھوں کو چھپا لیا جائے۔“ 

ابن عاشور لکھتے ہیں:

والجلابيب: جمع جلباب وهو ثوب أصغر من الرداء وأكبر من الخمار والقِناع، تضعه المرأة على رأسها فيتدلى جانباه على عذارَيْها وينسدل سائره على كتفها وظهرها، تلبسه عند الخروج والسفر. وهيئات لبس الجلابيب مختلفة باختلاف أحوال النساء تبينها العادات. والمقصود هو ما دل عليه قوله تعالىٰ: ﴿ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾.(التحریر والتنویر ۲۲ / ۱۰۶- ۱۰۷)
’’جلابیب، جلباب کی جمع ہے۔ یہ بڑی چادر سے کچھ چھوٹا اور اوڑھنی یا دوپٹے سے بڑا کپڑا ہوتا ہے جسے عورت اپنے سرپر ڈال لیتی ہے اور اس کے دونوں پلو اس کے رخساروں پر لٹک جاتے ہیں، جب کہ باقی ساری چادر اس کے کندھوں اور پشت پر لٹک جاتی ہے۔ یہ چادر عورت گھر سے نکلتے ہوئے یا سفر میں اوڑھتی ہے۔ جلباب اوڑھنے کے طریقے مختلف خواتین کے احوال کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں جن کا تعین ان کے عرف اور عادت سے ہوتا ہے۔ اس سے مقصود وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ اس سے ان کی شناخت میں آسانی ہوگی اور انھیں اذیت نہیں پہنچائی جائے گی۔“

بیش تر مفسرین کے ہاں اس آیت کے تحت یہی اسلوب ملتا ہے (دیکھیے: شوکانی، فتح القدیر۔ ماوردی، النکت والعیون۔ ابن عطیہ، المحرر الوجیز۔ ابن الجوزی، زاد المسیر۔ ابوالسعود، ارشاد العقل السلیم۔ ابن جزی، التسہیل لعلوم التنزیل) اور ان کے اس زاویۂ نظر کا حاصل یہ ہے کہ ادناء جلباب کا مقصد جسم کو مجموعی طور پر چادر سے ڈھانپ لینا ہے، لیکن اس کی کوئی متعین شکل جس میں چہرے کو لازماً‌ چھپایا گیا ہو، یہاں مقصود نہیں، بلکہ حسب موقع باقی چہرے کو چھپا کر ایک آنکھ کو بھی ننگا رکھا جا سکتا ہے اور چادر کو پیشانی پر باندھ کر باقی چہرے کو کھلا بھی چھوڑا جا سکتا ہے۔

جمہور مفسرین میں سے جن اہل علم نے یہاں ادناء جلباب کی اس صورت کو جس میں چہرے کو چھپا لیا جاتا ہے، مقصد کے اعتبار سے ترجیح دی ہے، وہ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ چہرہ اصل میں ان اعضا میں شامل نہیں جن کو چھپانا واجب ہے، تاہم فتنے کے ماحول میں جب خواتین اس کو بھی چھپانے کا اہتمام کریں گی تو یہ ان کو شرانگیزی سے محفوظ رکھنے میں زیادہ مددگار ہوگا۔

ابن عجیبہ ’’البحر المدید‘‘ میں لکھتے ہیں:

وكان الفتيان يتعرّضون للإماء، إذا خرجن بالليل لقضاء حاجتهنّ في النخيل والغَيْضات، وكن يخرجن مختلطات مع الحرائر، فربما تعرّضوا للحُرّة، يحسبونها أَمَة، فأُمِرن أن يخالفن بزيهنّ عن زي الإماء بلباس الجلابيب، وستر الرؤوس والوجوه، فلا يطمع فيهنّ طامع. قال ابن عباس رضي الله عنه: أمر الله تعالىٰ نساء المؤمنين أن يغطين رؤوسهن ووجوههن بالجلابيب، ويُبدين عينًا واحدة. قلت: وقد مرَّ في سورة النور أن الوجه والكفين ليس بعورة، إلا لخوف الفتنة. (البحر المدید ۴ / ۴۶۲)
’’باندیاں جب رات کو قضاے حاجت کے لیے کھجور کے باغات یا نشیبی زمینوں کی طرف نکلتیں تو نوجوان لڑکے ان سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے۔ باندیاں چونکہ آزاد خواتین کے ہمراہ نکلتی تھیں، اس لیے بسا اوقات لڑکے کسی آزاد عورت کو باندی سمجھ کر اس سے تعرض کرتے تھے۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ آزاد عورتوں کی وضع قطع باندیوں کی وضع قطع سے مختلف ہو اور وہ چادریں خود پر ڈال کر سروں اور چہروں کو چھپا لیں تاکہ کوئی ان سے غلط توقع وابستہ نہ کرے۔ ابن عباس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان خواتین کو حکم دیا ہے کہ وہ چادروں سے اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ ننگی رکھیں۔ میں کہتا ہوں کہ سورۂ نور میں یہ گزر چکا ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کو چھپانا لازم نہیں، مگر جب فتنے کا خوف ہو۔“

امام رازی لکھتے ہیں:

وقوله: ﴿ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ قيل: يعرفن أنهن حرائر فلا يتبعن ويمكن أن يقال المراد يعرفن أنهن لا يزنين لأن من تستر وجهها مع أنه ليس بعورة لا يطمع فيها أنها تكشف عورتها فيعرفن أنهن مستورات لا يمكن طلب الزنا منهن. (التفسیر الکبیر ۲۵ / ۱۸۳- ۱۸۴)
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ خواتین کے آزاد ہونے کی شناخت ہو جائے اور ان کا پیچھا نہ کیا جائے۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ خواتین بدکاری نہیں کرتیں، کیونکہ جو عورت اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے ہوگی، اگرچہ چہرے کو چھپانا لازم نہیں، اس کےمتعلق کوئی یہ توقع بھی نہیں کرے گا کہ وہ اپنی شرم گاہ برہنہ کرے گی۔ اس سے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ پردہ دار عورتیں ہیں اور ان سے زنا کی توقع نہیں کی جا سکتی۔“

ابن عادل نے بھی ’’اللباب فی علوم الکتاب“ میں رازی کی یہ عبارت بعینہٖ نقل کی ہے:

ويمكن أن يقال: المراد يعرفن أنهن لا يَزْنينَ لأن من تستر وجهها مع أنه ليس بعورة لا يطمع فيها أنها تكشف عورتها فيُعْرَفْنَ أنهنَّ مستوراتٌ لا يمكن طلب الزنا منهن. (۱۵ / ۵۸۹)

جمہور اہل علم اس حکم اور سورۂ نور میں ذکر کردہ ہدایات کے باہمی تعلق کو بھی اسی پہلو سے واضح کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ بتاتے ہیں کہ اس ہدایت اور سورۂ نور کی ہدایت کے مابین کوئی منافات یا تعارض نہیں، کیونکہ آیت نور میں چہرے کو کھلا رکھنے کی تصریحاً‌ اجازت دی گئی ہے، جب کہ آیت جلباب میں چہرے کو چھپانے کی کوئی پابندی بیان نہیں کی گئی، بلکہ اس کا مقصود محض ایسا انداز لباس اختیار کرنا ہے جس سے شریف اور باکردار خواتین اور باندیوں وغیرہ میں امتیاز پیدا ہو جائے اور یہ کہ چہرے کو چھپانا اس کا کوئی لازمی تقاضا نہیں۔ چنانچہ امام ابن القطان الفاسی فرماتے ہیں:

فإن قيل: هذا الذي ذهبت إليه من أن المرأة معفوٌّ لها عن بدوّ وجهها وكفيها، وإن كانت مأمورة بالستر جهدها يظهر خلافه من قوله تعالىٰ: ﴿يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَﵧ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا فالجواب أن نقول: يمكن أن نفسر هذا الإِدناء تفسيرًا لا يناقض ما قلناه، وكذالك بأن يكون معناه: يُدنين عليهن من جلابيبهن (ما لا) يظهر معه القلائد والقرطة، مثل قوله: ﴿وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ فإن (الإِدناء) المأمور به مطلق بالنسبة إلى كل ما يطلق عليه أنه إدناء؛ فإذا حملناه على واحد ما يُقال له عليه إدناء يقضي به عن عهدة الخطاب، (إذ) لم يطلب به كل إدناء، فإنه إيجاب بخلاف النهي والنفي.(احکام النظر فی احکام النظر بحاسۃ البصر ۲۱۳)
’’اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ راے جو تم نے اختیار کی ہے کہ عورت کو اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کی اجازت ہے، اگرچہ حتی الامکان اسے جسم کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے تو اس کے خلاف بات ظاہر ہوتی ہے: يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں چادر لٹکانے کا ایسا طریقہ مراد لیا جا سکتا ہے جو ہماری راے کے مخالف نہ ہو۔ اسی طرح یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی چادروں کو خود پر اس طرح ڈال لیں کہ ان کے گلے کے ہار اور کانوں کی بالیاں دکھائی نہ دیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں یہی صورت مراد ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چادر لٹکانے کی ہدایت مطلق ہے اور لٹکانے کی کوئی بھی صورت اختیار کر لی جائے، حکم کی تعمیل ہو جاتی ہے۔ سو جب ہم اس کو مختلف ممکنہ صورتوں میں سے کسی ایک صورت پر محمول کر لیں گے تو حکم پر عمل کی ذمہ داری ادا ہو جائے گی، کیونکہ یہاں لٹکانے کی ہر ہر صورت مطلوب نہیں ہے۔ یہ ایجابی حکم ہے (جس کی کسی بھی صورت پر عمل ہو سکتا ہے)، بخلاف نہی اور نفی کے حکم کے (جس میں ہر ہر صورت سے بچنا مقصود ہوتا ہے)۔‘‘

ابن حزم بھی اس ہدایت کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کی راے میں جلباب کو عورت کے سارے جسم کو ڈھانپ لینا چاہیے، البتہ چہرہ اور ہاتھ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ لکھتے ہیں:

فأمرهن اللّٰه تعالىٰ بالضرب بالخمار على الجيوب، وهذا نص على ستر العورة والعنق والصدر. وفيه نص على إباحة كشف الوجه؛ لا يمكن غير ذالك أصلًا .... عن أم عطية قالت: .... قلت: يا رسول اللّٰه، إحدانا لا يكون لها جلباب قال: لتلبسها أختها من جلبابها. قال علي: وهذا أمر بلبسهن الجلابيب للصلاة والجلباب في لغة العرب التي خاطبنا بها رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم هو ما غطى جميع الجسم لا بعضه .... فهذا ابن عباس بحضرة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم رأى أيديهن؛ فصح أن اليد من المرأة والوجه ليسا عورة، وما عداهما ففرض عليها ستره.(المحلیٰ ۲ / ۲۴۸)
’’اللہ تعالیٰ نے خواتین کو حکم دیا ہے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈال لیں۔ یہ اس بات کی تصریح ہے کہ عورت کی شرم گاہ اور گردن اور سینے کو چھپانا لازم ہے اور اسی سے یہ بھی واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ چہرے کو کھلا رکھنا جائز ہے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مطلب نہیں ہو سکتا۔ ...ام عطیہ کہتی ہیں کہ ...میں نے کہا کہ یا رسول اللہ، ہم میں سے کسی کے پاس بعض اوقات بڑی چادر نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی بہن اس کو اپنی چادر کے اندر جگہ دے دے۔ اس حدیث میں خواتین کو نماز کے لیے چادر اوڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ عربی زبان میں، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مخاطب فرمایا، جلباب ایسی چادر کو کہتے ہیں جو جسم کے کچھ حصے کو نہیں، بلکہ سارے جسم کو ڈھانپ لے. ....۔ (ایک واقعہ نقل کر کے لکھتے ہیں)، دیکھو ابن عباس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں خواتین کے ہاتھوں کو دیکھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ عورت کے ہاتھوں اور چہرے کو چھپانا لازم نہیں۔ البتہ ان کے علاوہ سارے جسم کو چھپا کر رکھنا اس پر فرض ہے۔“

شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:

ولما کانت الحاجات متنازعة محوجة إلی المخالطة وجب أن یجعل ذالک علی مراتب بحسب الحاجات فشرع النبي صلی اللہ علیه وسلم وجوهًا من السنن .... الثاني أن تلقی علیھا جلبابھا ولا تظھر مواضع الزینة إلا لزوجھا أو لذي محرم .... فرخص في ما یقع به المعرفة من الوجه وفي ما یقع به البطش في غالب الأمر وھو الیدان واوجب ستر ما سوی ذالك إلا من بعولتھن والمحارم وما ملکت أیمانھن من العبید. (حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۱۹۲- ۱۹۳)
’’چونکہ عورتوں کی معاشرتی ضروریات میل جول اور اختلاط کا تقاضا کرتی ہیں، اس لیے لازم تھا کہ ضروریات کے مطابق اس کے مختلف مراتب طے کیے جائیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے متعدد طریقے مقرر فرمائے ہیں....۔ ان میں سے دوسرا ضابطہ یہ ہے کہ عورت خود پر چادر ڈال کر رکھے اور زینت کے مقامات کو شوہر یا محرم رشتہ داروں کے علاوہ کسی کے سامنے نمایاں نہ کرے....۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے چہرے کو، جس سے عورت کی پہچان ہوتی ہے، اور ہاتھوں کو، جن سے عموماً‌ چیزیں پکڑی جاتی ہیں، کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، جب کہ ان کے علاوہ باقی اعضا کو شوہروں، محرم رشتہ داروں اور ان کے زیر ملکیت غلاموں کے علاوہ باقی لوگوں سے چھپا کر رکھنا واجب ٹھیرایا ہے۔“

اس سے واضح ہوتا ہے کہ شاہ صاحب بھی ’ادناء جلباب‘ کا ایسا مفہوم مراد لیتے ہیں جس میں چہرے کو چھپانا لازم نہیں۔ قرآن مجید کے فارسی ترجمہ ’’فتح الرحمٰن‘‘ میں شاہ صاحب نے ادناء جلباب کا جو ترجمہ کیا ہے، اس سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ لکھتےہیں:

’’ای پیغامبر، بگو بہ زنان خود ودختران خود وبزنان مسلمانان کہ فرو گذارند برخود چادر ہائے خود را۔‘‘ (طبع مجمع الملک فہد ۶۲۰)

علامہ آلوسی اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

أن وجه الحرة عندنا ليس بعورة فلا يجب ستره ويجوز النظر من الأجنبي إليه إن أمن الشهوة مطلقًا وإلا فيحرم ..... وظاهر الآية لا يساعد على ما ذكر في الحرائر فلعلها محمولة على طلب تستر تمتاز به الحرائر عن الإماء أو العفائف مطلقًا عن غيرهن فتأمل.(روح المعانی ۱۱ / ۲۶۴- ۲۶۵)
’’ہمارے نزدیک آزاد عورت کا چہرہ پوشیدہ اعضا میں شامل نہیں، اس لیے اس کو چھپانا واجب نہیں اور غیر محرم اگر شہوت کی کیفیت میں نہ ہو تو عورت کے چہرے کو دیکھ سکتا ہے، البتہ حالت شہوت میں یہ حرام ہے.....۔آیت جلباب کا ظاہری مفہوم آزاد عورتوں سے متعلق مذکورہ بیان سے ہم آہنگ نہیں۔ اس کا محمل غالباً‌ یہ ہے کہ عورت ایسے طریقے سے اپنے جسم کو چھپائے کہ اس سے آزاد عورت اور باندی یا پاک دامن خواتین اور بدکردار خواتین کا امتیاز ہو جائے، (یعنی چہرے کو لازماً‌ چھپانا اس آیت کا مدعا نہیں)۔“ 

الشیخ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں:

إن قوله تعالىٰ: (يدنين عليهن من جلابيبهن) لا يستلزم ستر الوجه لغة ولا عرفًا، ولم يرد باستلزامه ذالك دليل من كتاب ولا سنة ولا إجماع، وقول بعض المفسرين: إنه يستلزمه معارض بقول بعضهم: إنه لا يستلزمه. كما قال صاحب ’’أضواء البيان‘‘ رحمه الله. وبهذا سقط الاستدلال بالآية على وجوب ستر الوجه. (https://www.al-qaradawi.net/node/4053)
’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے چہرے کو چھپانا نہ لغوی مفہوم کے اعتبار سے لازم ٹھیرتا ہے اور نہ عرف کے اعتبار سے۔ اس کے لازم ہونے کی کتاب یا سنت یا اجماع سے کوئی دلیل موجود نہیں۔ بعض مفسرین کا یہ کہنا کہ اس آیت سے چہرے کا چھپانا ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ صاحب ’’اضواء البیان‘‘ نے کہا ہے، ان دوسرے مفسرین کے قول کے معارض ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ اس سے ثابت نہیں ہوتا۔ یوں اس آیت سے چہرے کو چھپانے کے وجوب پر استدلال ساقط ہو جاتا ہے۔“

آیت جلباب سے وجوب حجاب کا استنباط

وجوب حجاب کے قائل اہل علم نے آیت جلباب سے چہرے کو چھپانے کا وجوب اخذ کرنے کے لیے مختلف استدلالات پیش کیے ہیں:

مثلاً‌ ایک استدلال یہ ہے کہ خواتین کے ستر کے احکام تو سورۂ نور میں بیان ہو چکے تھے، اس لیے آیت جلباب میں اس سے زائد کوئی پابندی ہونی چاہیے جو چہرے کو چھپانا ہی ہو سکتی ہے، ورنہ ستر اور حجاب ایک ہی چیز قرار پائیں گے (غلام رسول سعیدی، تبیان القرآن ۹ / ۵۵۹)۔

مولانا مفتی تقی عثمانی اور کئی دیگر اہل علم نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ یہ حکم آیت حجاب ہی کی توسیع ہے جو اس سے پہلے مذکو ر ہے، البتہ وہاں اس کا ذکر ازواج مطہرات کے پاس آنے جانے کے حوالے سے ہوا ہے، جب کہ یہاں اسی حکم کو عام معاشرت تک وسیع کرتے ہوئے تمام مسلمان خواتین کو حجاب کا پابند کر دیا گیا ہے (مولانا محمد تقی عثمانی، آسان ترجمۂ قرآن ۱۳۰۵-  ۱۳۰۷) ۔

ایک اور استدلال علامہ شنقیطی نے یوں بیان کیا ہے کہ آیت میں چونکہ ازواج مطہرات کا بھی ذکر ہے جن پر چہرے کا پردہ واجب ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، اس لیے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عام خواتین کو بھی اسی کی پابندی کا حکم دیا جا رہا ہے۔ لکھتے ہیں:

وجوب احتجاب أزواجه وسترهن وجوههن لا نزاع فيه بين المسلمين، فذكر الأزواج مع البنات ونساء المؤمنين يدل على وجوب ستر الوجوه بإدناء الجلابيب كما ترى.(اضواء البیان ۶ / ۶۴۵)
’’مسلمانوں کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب اور اپنے چہرے کو چھپانا واجب تھا۔ چنانچہ یہاں آپ کی بیٹیوں اور مسلمانوں کی خواتین کے ساتھ ازواج کا ذکر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان پر بھی چادروں کو چہرے پر لٹکا کر چہرے کو چھپانا واجب ہے۔‘‘

آیت جلباب کے حوالے سے جمہور اہل علم کا زاویۂ نظر اور استدلال واضح ہو جانے کے بعد ان تمام استدلالات کی کم زوری واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ یہ آیت تعامل اور اختلاط کے آداب بیان کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک غیر محفوظ ماحول میں خواتین کے لیے خود حفاظتی کی ایک تدبیر بیان کرنے کے لیے آئی ہے، جس میں چہرے کو چھپانا یا کھلا رکھنا اصلاً‌ موضوع نہیں۔ ہدایت کا مقصد یہ تھا کہ شریف خواتین دور سے ہی پہچانی جائیں اور اوباش لوگ ان کے قریب آنے اور چھیڑ چھاڑ کرنے کی جسارت نہ کریں۔ اس کے لیے جسم کا کسی بڑی چادر میں لپٹا ہوا ہونا ہی کافی تھا اور خاص طور پر چہرے کو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ مزید برآں شان نزول کی روایات کے مطابق اوباشوں کی طرف سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات بنیادی طور پر رات کے وقت رونما ہوتے تھے جب خواتین کو اپنے ضروری حوائج کے لیے گھر سے نکلنا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اندھیرے میں خاص طور پر چہرے کو چھپا کر رکھنے کی ہدایت کا کوئی محل نہیں بنتا، کیونکہ وہ تو پہلے ہی اندھیرے میں چھپا ہوا ہوتا تھا۔

یوں یہ ہدایت نہ تو سورۂ نور کے احکام میں کوئی ترمیم یا اضافہ کر رہی ہے اور نہ معنوی طور پر گذشتہ آیت میں ازواج نبی کے لیے حجاب کے حکم کے ساتھ مربوط ہے۔ یہ تینوں احکام مستقل نوعیت کے ہیں اور اپنا الگ الگ محل رکھتے ہیں۔ سورۂ نور کی ہدایات کا محل محفوظ ماحول میں خواتین کے لیے اظہار زینت کے حدود وآداب مقرر کرنا ہے جس میں انھیں فطری طور پر کھلے اعضا، یعنی چہرے اور ہاتھوں کی زینت کو بھی ظاہر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ آیت حجاب کا روے سخن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کی طرف ہے اور اس پابندی کا تعلق ان کی خصوصی اور امتیازی حیثیت سے ہے۔ آیت جلباب کا موضوع نہ اخفاے زینت کا کوئی عمومی ضابطہ بیان کرنا ہے اور نہ خواتین اور اجنبی مردوں کے مابین کوئی مستقل پردہ حائل کرنا اس سے مقصود ہے۔ یہ انھیں فتنے کے ماحول میں لباس کی ایسی وضع قطع اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہے جس سے وہ اپنے ناموس اور اپنی عرفی شناخت کی حفاظت کر سکیں۔ اس کی شکلیں خواتین کے اپنے اپنے ذوق اور ماحول کی ضروریات کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک صورت چہرے کو چھپا لینا بھی ہو سکتی ہے، تاہم یہ اس ہدایت کا بنیادی مقصود نہیں ہے۔

جاوید احمد غامدی کا نقطۂ نظر

جاوید احمد غامدی صاحب نے اس بحث میں جمہور اہل علم کے موقف اور استدلال کی تائید کی ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا، جمہور اہل علم قرآن مجید کی سورۂ نور اور سورۂ احزاب میں وارد ہدایات کی تعبیر اس طرح کرتے ہیں کہ سورۂ نور اس باب میں شریعت کے عمومی حکم کا ماخذ قرار پاتی ہے جس کی رو سے خواتین کو چہرے اور ہاتھ پاؤں کو کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ جہاں تک سورۂ احزاب کی ہدایات کا تعلق ہے تو ان کی تشریح جمہور فقہا ان کے مخصوص سیاق کے حوالے سے کرتے ہیں۔ چنانچہ آیت حجاب ان کے نزدیک خاص طور پر امہات المومنین پر عائد کی گئی پابندی کو بیان کرتی ہے جو عام مسلمان خواتین سے متعلق نہیں ہے، جب کہ آیت جلباب کا مدعا خواتین پر چہرے کے پردے کو لازم قرار دینا نہیں، بلکہ اس میں خواتین کو غیر محفوظ ماحول میں اپنی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تدبیر اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جاوید احمد غامدی نے بھی بعینہٖ یہی موقف اور یہی طرز استدلال اختیار کیا ہے۔ چنانچہ سورۂ نور کی ہدایت کا مدعا واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’عورتوں کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ زیب و زینت کی کوئی چیز اپنے قریبی اعزہ اور متعلقین کے سوا کسی شخص کے سامنے ظاہر نہ ہونے دیں۔ اِس سے زیبایش کی وہ چیزیں، البتہ مستثنیٰ ہیں جو عادتاًکھلی ہوتی ہیں۔ یعنی ہاتھ، پاؤں اور چہرے کا بناؤ سنگھار اور زیورات وغیرہ۔ اِس کے لیے اصل میں ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کے جو الفاظ آئے ہیں، اُن کا صحیح مفہوم عربیت کی رو سے وہی ہے جسے زمخشری نے ’إلا ما جرت العادة والجبلة علی ظھورہ والأصل فیه الظھور‘ کے الفاظ میں بیان کر دیا ہے، یعنی وہ اعضا جنھیں انسان عادتاً اور جبلی طور پر چھپایا نہیں کرتے اور وہ اصلاً کھلے ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘(میزان ۴۶۷)

آیت حجاب کے نزول کا واقعاتی سیاق واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب نے لکھا ہے:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب کی رعایت سے اور خاص آپ کی ازواج مطہرات کے لیے بھی اِس سلسلہ کی بعض ہدایات اِسی سورۂ  احزاب میں بیان ہوئی ہیں۔ عام مسلمان مردوں اور عورتوں سے اِن ہدایات کا اگرچہ کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن بعض اہل علم چونکہ اِن کی تعمیم کرتے ہیں، اِس لیے ضروری ہے کہ اِن کی صحیح نوعیت بھی یہاں واضح کر دی جائے۔
سورہ پر تدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے وہی اشرار اور منافقین جن کا ذکر اوپر ہوا ہے، جب رات دن اِس تگ و دو میں رہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے متعلق کوئی اسکینڈل پیدا کریں تاکہ عام مسلمان بھی آپ سے برگشتہ اور بدگمان ہوں اور اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ بھی بالکل برباد ہو کر رہ جائے تو اللہ تعالیٰ نے اِس فتنے کا سدباب اِس طرح کیا کہ پہلے ازواج مطہرات کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو دنیا کے عیش اور اُس کی زینتوں کی طلب میں حضور سے الگ ہو جائیں اور چاہیں تو اللہ و رسول اور قیامت کے فوزو فلاح کی طلب گار بن کر پورے شعور کے ساتھ ایک مرتبہ پھر یہ فیصلہ کر لیں کہ اُنھیں اب ہمیشہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ اِس کے بعد فرمایا کہ وہ اگر حضور کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو اُنھیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کی رفاقت سے جو مرتبہ اُنھیں حاصل ہوا ہے، اُس کے لحاظ سے اُن کی ذمہ داری بھی بہت بڑی ہے۔ وہ پھر عام عورتیں نہیں ہیں۔ اُن کی حیثیت مسلمانوں کی ماؤں کی ہے۔ اِس لیے وہ اگر صدق دل سے اللہ و رسول کی فرماں برداری اور عمل صالح کریں گی تو جس طرح اُن کی جزا دہری ہے، اِسی طرح اگر اُن سے کوئی جرم صادر ہوا تو اُس کی سزا بھی دوسروں کی نسبت سے دہری ہو گی۔ اُن کے باطن کی پاکیزگی میں شبہ نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ اُنھیں لوگوں کی نگاہ میں بھی ہر طرح کی اخلاقی نجاست سے بالکل پاک دیکھنا چاہتا ہے۔.....
اِس کے بعد بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشرار اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے۔ چنانچہ اِسی سورہ میں آگے اللہ تعالیٰ نے نہایت سختی کے ساتھ چند مزید ہدایات اِس سلسلہ میں دی ہیں۔
فرمایا ہے کہ اب کوئی مسلمان بن بلائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں داخل نہ ہو سکے گا۔ لوگوں کو کھانے کی دعوت بھی دی جائے گی تو وہ وقت کے وقت آئیں گے اور کھانا کھانے کے فوراً بعد منتشر ہو جائیں گے، باتوں میں لگے ہوئے وہاں بیٹھے نہ رہیں گے۔
آپ کی ازواج مطہرات لوگوں سے پردے میں ہوں گی اور قریبی اعزہ اور میل جول کی عورتوں کے سوا کوئی اُن کے سامنے نہ آئے گا۔ جس کو کوئی چیز لینا ہو گی، وہ بھی پردے کے پیچھے ہی سے لے گا۔‘‘ (میزان ۴۷۳ - ۴۷۴)

آیت جلباب کا مفہوم اور محل واضح کرتے ہوئے غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’عام حالات میں آداب یہی ہیں، لیکن مدینہ میں جب اشرار نے مسلمان شریف زادیوں پر تہمتیں تراشنا اور اِس طرح اُنھیں تنگ کرنا شروع کیا تو سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، آپ کی بیٹیوں اور عام مسلمان خواتین کو مزید یہ ہدایت فرمائی کہ اندیشے کی جگہوں پر جاتے وقت وہ اپنی کوئی چادر اپنے اوپر ڈال لیا کریں تاکہ دوسری عورتوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کے بہانے سے اُن پر تہمت لگانے کے مواقع پیدا کرکے کوئی اُنھیں اذیت نہ دے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو یہ اشرار اُن کے درپے آزار ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو فوراً کہہ دیتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم کرنا چاہی تھی۔.....
اِن آیتوں میں ’اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ‘ کے الفاظ اور اِن کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ کوئی پردے کا حکم نہ تھا، بلکہ مسلمان عورتوں کے لیے الگ شناخت قائم کر دینے کی ایک وقتی تدبیر تھی جو اوباشوں اور تہمت تراشنے والوں کے شرسے مسلمان عورتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اختیار کی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِسی نوعیت کی بعض مصلحتوں کے پیش نظر عورتوں کو تنہا لمبا سفر کرنے اور راستوں میں مردوں کے ہجوم کا حصہ بن کر چلنے سے منع فرمایا۔ لہٰذا مسلمان خواتین کو اگر اب بھی اِس طرح کی صورت حال کسی جگہ درپیش ہو تو اُنھیں ایسی کوئی تدبیر دوسری عورتوں سے اپنا امتیاز قائم کرنے اور اپنی حفاظت کے لیے اختیار کر لینی چاہیے۔‘‘ (میزان ۴۷۱ - ۴۷۲)

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B