بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
فَاسْتَفْتِهِمْ اَلِرَبِّكَ الْبَنَاتُ وَلَهُمُ الْبَنُوْنَ ١٤٩ اَمْ خَلَقْنَا الْمَلٰٓئِكَةَ اِنَاثًا وَّهُمْ شٰهِدُوْنَ ١٥٠ اَلَا٘ اِنَّهُمْ مِّنْ اِفْكِهِمْ لَيَقُوْلُوْنَ ١٥١ وَلَدَ اللّٰهُﶈ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ١٥٢ اَصْطَفَي الْبَنَاتِ عَلَي الْبَنِيْنَ ١٥٣ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ ١٥٤ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ١٥٥ اَمْ لَكُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِيْنٌ ١٥٦ فَاْتُوْا بِكِتٰبِكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ١٥٧
(یہ اب بھی نہیں مانتے) تو اِن سے پوچھو،[92] کیا تیرے پروردگار کے لیے بیٹیاں ہیں اور اِن کے لیے بیٹے؟[93] یا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایااور یہ اُس وقت دیکھ رہے تھے؟ سن لو، حقیقت یہ ہے کہ یہ محض اپنی من گھڑت سے کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے اولاد ہوئی ہے اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ کیا اللہ نے بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں پسند کر لیں؟[94] تمھیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسے حکم لگاتے ہو؟ پھر کیا تم ہوش سے کام نہیں لیتے؟[95] یا تمھارے پاس (کتاب الٰہی کی) کوئی واضح حجت ہے؟ تو لاؤ اپنی کتاب ، اگر تم سچے ہو۔[96]۱۴۹- ۱۵۷
وَجَعَلُوْا بَيْنَهٗ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَبًاﵧ وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّةُ اِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ١٥٨ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ١٥٩ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ ١٦٠ فَاِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ ١٦١ مَا٘ اَنْتُمْ عَلَيْهِ بِفٰتِنِيْنَ ١٦٢ اِلَّا مَنْ هُوَ صَالِ الْجَحِيْمِ ١٦٣
اِنھوں نے خدا کے اور جنوں کے درمیان بھی رشتہ بنا رکھا ہے، اور جنوں کو خوب معلوم ہے کہ نافرمانی کریں گے تو وہ بھی یقیناً پکڑے ہوئے آئیں گے ـــــ اللہ پاک ہے اُن باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں[97] ـــــ اللہ کے برگزیدہ بندے ہی (اُس کی پکڑ سے) محفوظ رہیں گے۔ سو تم اور تمھارے معبود، تم اِن پر صرف اُنھی کو فریفتہ کر سکتے ہو جو (اپنے کرتوتوں کی بنا پر) جہنم میں پڑنے والے ہیں۔۱۵۸- ۱۶۳
وَمَا مِنَّا٘ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ ١٦٤ وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ ١٦٥ وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ ١٦٦
(یہ ہمیں خدا کی بیٹیاں بناتے ہیں؟ ہرگز نہیں[98])، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا ایک معین مقام ہے[99] اور ہم جو ہیں، ہم تو خدا کے حضور صف بستہ رہنے والے ہیں اور ہم تو (ہمہ وقت) اُس کی تسبیح میں لگے رہتے ہیں۔[100] ۱۶۴- ۱۶۶
وَاِنْ كَانُوْا لَيَقُوْلُوْنَ ١٦٧ لَوْ اَنَّ عِنْدَنَا ذِكْرًا مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ ١٦٨ لَكُنَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ ١٦٩ فَكَفَرُوْا بِهٖ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ١٧٠
یہ لوگ[101] کہا کرتے تھے کہ اگر پہلوں کی یاددہانی[102] ہمارے پاس ہوتی تو ہم خدا کے خاص بندے ہوتے۔[103] لیکن (وہ اِن کے پاس آگئی تو) اِنھوں نے اُس کا انکار کر دیا۔ سو عنقریب جان لیں گے کہ اب اِس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ۱۶۷- ۱۷۰
وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَ ١٧١ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ١٧٢ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ ١٧٣ فَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰي حِيْنٍ ١٧٤ وَّاَبْصِرْهُمْ فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ ١٧٥
(تم خدا کے رسول ہو اور ) رسول کی حیثیت سے اپنے بھیجے ہوئے بندوں کے بارے میں ہمارا یہ فیصلہ پہلے ہی صادر ہو چکا ہے کہ مدد کے حق دار وہی ہوں گے ۔ اور یقیناً ہمارا لشکر ہی غالب رہنے والا ہے۔[104] سو کچھ دنوں کے لیے اِن سے اعراض کرو اور اِنھیں دیکھتے رہو کہ عنقریب یہ بھی دیکھ لیں گے۔۱۷۱- ۱۷۵
اَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُوْنَ ١٧٦ فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَآءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ ١٧٧ وَتَوَلَّ عَنْهُمْ حَتّٰي حِيْنٍ ١٧٨ وَّاَبْصِرْ فَسَوْفَ يُبْصِرُوْنَ ١٧٩
پھر کیا یہ ہمارے عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں؟ سو جب وہ اِن کے صحن میں اترے گا تو بڑی ہی بری ہوگی اُن لوگوں کی صبح[105] جنھیں اُس سے خبردار کر دیا گیا۔ (اِس لیے چھوڑ دو) اور کچھ دنوں کے لیے اِن سے اعراض کرو اور دیکھتے رہو کہ عنقریب یہ بھی دیکھ لیں گے۔ ۱۷۶- ۱۷۹
سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ١٨٠ وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ ١٨١ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٨٢
تیرا پروردگار، عزت کا مالک، اُن سب باتوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں اور اُس کے پیغمبروں پر سلامتی ہے[106] اور شکر اللہ ہی کے لیے ہے، جہانوں کا پروردگار۔[107] ۱۸۰- ۱۸۲
[92]۔ اصل میں لفظ ’فَاسْتَفْتِهِمْ‘ آیا ہے۔ سورہ کے شروع میں ملائکہ اور جنات کی الوہیت کی تردید کے بعد بعینہٖ اِسی لفظ سے آیت ۱۱ میں کلام کا رخ قریش کی تہدید و وعید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے مضمون کی طرف مڑ گیا تھا۔ انبیا علیہم السلام کی تاریخ سے اُس پر استدلال کے بعد اب آخر میں ’عود علي البدء‘ کے طریقے پر اُسی الوہیت کے مسئلے کو پھر لے لیا ہے جس کی تردید سے سورہ شروع ہوئی تھی۔
[93]۔ مطلب یہ ہے کہ اول تو خدا کی طرف بیٹوں اوربیٹیوں کی نسبت ہی ایک شدید قسم کی حماقت ہے، لیکن اِنھوں نے حماقت پر حماقت یہ کی ہے کہ خدا کے لیے وہ چیز پسند کی ہے جو اپنے لیے کبھی پسند نہیں کرتے۔
[94]۔ یعنی تمھارے زعم کے مطابق اور اپنے لیے وہ چیز گوارا کر لی کہ تمھارے لیے انتخاب کا موقع ہو تو کبھی گوارا نہ کرو۔ یہ مخاطب کے مسلمات سے اُس کی حماقت پر متنبہ کرنے کا اسلوب ہے۔ اِس سے کسی کی تحقیر مقصود نہیں ہے۔
[95]۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات تو بادنیٰ تامل سمجھ میں آسکتی ہے۔ پھر دھیان کیوں نہیں کرتے؟
[96]۔ اِس سے واضح ہوا کہ خدا کے بارے میں کوئی بات یا عقل و فطرت کے مسلمات کی بنیاد پر کہی جا سکتی ہے یا خود خدا کی کسی کتاب کی بنیاد پر۔ اِسے من گھڑت سے کہنے کی جسارت کسی شخص کو بھی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ صریح افترا علی اللہ ہے۔
[97]۔ یہ جملۂ معترضہ ہے جو فوری تردید کے لیے اصل سلسلۂ کلام کے بیچ میں آگیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... اِس سے اِس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ بات ایسی گھنونی ہے کہ متکلم کو اُس کی تردید کے لیے معاملے میں اتنا توقف بھی گوارا نہیں کہ اُس کی بات پوری ہو لے۔‘‘ (تدبرقرآن۶/ ۴۹۹)
[98]۔ یہ کلام کے بیچ میں جبریل امین نے اُن سب حماقتوں کی تردید کر دی ہے جن کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ گویا جن کو معبود بنایا گیا تھا، اُنھی کے گل سرسبد نے بتا دیا کہ خدا کے مقابلے میں اُن کی حیثیت کیا ہے۔
[99]۔ یعنی خدا کی اولاد اور اُس کی خدائی میں شریک ہونا تو درکنار، ہمارا حال تو یہ ہے کہ اپنے حدود سے باہر پر نہیں مار سکتے۔ خدا نے جو مقام ہمارے لیے متعین کر دیا ہے، بس وہی ہمارا مقام ہے۔ ہماری یہ مجال نہیں ہے کہ اُس سے ذرہ برابر تجاوز کریں۔
[100]۔ یعنی جو باتیں تم خدا کے بارے میں کہہ رہے ہو، اُس کو اُن سے پاک قرار دینے میں سرگرم رہتے ہیں۔ یہ اُن کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔ سورہ کے شروع میں یہی چیز ’فَالتّٰلِيٰتِ ذِكْرًا‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔
[101]۔ یعنی قریش مکہ، جو سورہ کے مخاطب ہیں۔
[102]۔ اِس سے خدا کی کتاب مراد ہے۔ اصل میں اِس کے لیے لفظ ’ذِكْر‘ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ خود قرآن کے لیے جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ اِس سے اِس حقیقت کو ظاہر کرنا مقصود ہے کہ خدا کی کتابیں اصلاً اِسی یاددہانی کے لیے نازل کی گئی ہیں۔
[103]۔ یہی بات سورۂ فاطر (۳۵) کی آیت ۴۲ میں بھی نقل ہوئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دوسری قوموں کی طرح ہم اُس یاددہانی کو ہرگز نہ جھٹلاتے، بلکہ اُس کی پیروی کرتے اور خدا کے خاص بندے بن کر دکھاتے۔
[104]۔ یہ اُس سنت الہٰی کا حوالہ ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ رسولوں کے مخالفین اُن کو کبھی مغلوب نہیں کر سکتے۔ اللہ اپنے رسولوں کی لازماً مدد کرتا ہے اور وہ غالب ہو کر رہتے ہیں اور اُن کے مخالفین باز نہ آئیں تو لازماً صفحۂ ہستی سے مٹا دیے جاتے ہیں۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس کے لیے اگر ضرورت ہو تو اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنے فرشتوں کے لشکر بھی اتارتا ہے۔ آیت میں اِسی کو ’جُنْدَنَا‘(ہمارا لشکر) کہا ہے۔
[105]۔ یہ لفظ اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ عرب میں غارت گری کا اصلی وقت صبح کا وقت ہی ہوتا تھا۔ ’واصباحا‘ کے نعرے میں اِس کا یہی مفہوم ملحوظ ہے۔
[106]۔ اوپر یہی بشارت ہر پیغمبر کے لیے وارد ہوئی ہے۔ یہاں خاص طور پر اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔
[107]۔ اِس لیے کہ یہ اُسی کی عدالت ہے جو اِس طرح ظاہر ہوتی اور اہل ایمان کے لیے اُس عدل کامل کے ظہور کی شہادت بن جاتی ہے جو آخرت میں ظاہر ہونے والا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ