HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اسلام اور جدید ریاست

ہمارے ملک میں اسلامی نظام کا نعرہ اپنی کشش اور طاقت سے محروم ہو چکا ہے۔ اس کا سبب ہماری سیاسی تاريخ ہے۔ بھٹو صاحب کے خلاف چلائی گئی تحریک میں اسلامی نظام اور نظام مصطفیٰ کا نعرہ بلند ہوااور یہ تحریک توانا تر ہوئی ، لیکن اس تحریک کا خاتمہ ضیاء الحق صاحب کے مارشل لاء کی صورت میں ہوا۔ ضیاء الحق صاحب نے اسلامی قانون کو نافذ کرنے کی جو مسا‏عی کیں، ان کا نقد حاصل یہ تھا کہ یہ نعرہ بے جان ہو کر رہ گیا۔

ضیاء الحق کی اس سعی پر تنقید کی گئی ہے۔ اس کی خامیاں بھی زیر بحث آ چکی ہیں، لیکن اس کے ساتھ جو دوسری حقیقت مشہود ہوئی، وہ یہ تھی کہ علما کے پاس جو کچھ تھا، وہ صرف یہ کہ معیشت ، معاشرت ، سیاست اور جرائم کی سزاؤں کے حوالے سے شریعت کے دیے ہوئے احکام بیان کردیں یا فقہا نے ان احکام کے اطلاق، تفریع اور تعلیل پر جو کام کیا ہے، اسے سامنے لے آئیں۔اس سارے علم اور نظام ریاست میں جو فاصلہ ہے، اسے پاٹنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں۔

جدید ریاست، جیسا کہ پاکستان ہے، ایک قومی ریاست ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ۹۷ فی صد ہے ۔ غیر مسلم آبادی کے لیے ’اقلیت‘ کا لفظ اپنے پورے معنی میں لاگو ہوتا ہے۔ قانون سازی یا نظام ریاست میں ان کا کردار عملاً کوئی موثر حیثیت نہیں رکھتا۔نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی حقیقت میں مسلمانوں کا ملک ہے، لیکن اس میں ریاستی ڈھانچا خالصتاً قومی ریاست کا ہے۔

قومی ریاست کا مطلب یہ ہے کہ اس خطۂ ارض میں جو لوگ نسلوں سے آباد ہیں یا جنھیں کسی متعلقہ قومی ادارے نے اس خطے کا شہری مان لیا ہے، وہ اس کے شہری ہیں۔ شہری اور ریاست کا یہ تعلق نظریاتی ، مذہبی ، لسانی، نسلی یا ثقافتی نہیں ہے۔ یہ چیز یں موجود ہیں، لیکن ریاست کا ان سے کچھ لینا دینانہیں ہے، یعنی ریاست ان کی قیم نہیں ہے۔ البتہ اسے اس کا اہتمام کرنا ہے کہ فرد کے ان تعارفوں میں کسی دوسرے کو مزاحم نہ ہونے دےیا ان میں سے کسی چیز کو بنیاد بنا کر تشدد یا استبداد کی فضا پیدا کرنے والوں کا ہاتھ روکے۔ گویا اس ریاست کا نظریہ صرف حسن انتظام ہے ، مادی ترقی ہے اور انسانی حقوق کی حفاظت ہے۔ مذکورہ روؤں کی نفی تو نہیں کی جاتی، لیکن اس انتظام کا نتیجہ یہی ہوگاکہ یہ سب امتیازات پاکستانیت کے تعارف میں آہستہ آہستہ فنا ہو جائیں یا کچھ ثقافتی مظاہر کی صورت میں سماج میں جگہ بنا لیں۔

ایک بڑا سوال حاکمیت کا ہے۔ اصولاً ہماری ریاست میں حاکمیت عوام کی ہے۔ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے سے، یعنی جمہوریت۔اگرچہ ۷۳ء کے دستور میں حاکمیت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے، لیکن انسان کو اس کا نائب مان کر حاکمیت کو پھر انسان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ جمہوریت کے مذکورہ نعرے کے ساتھ دستور میں درج اس عبارت کا تعلق تضادکا ہے ، لیکن ہمارے ملک میں علما ایک بہت طاقت ور پریشر گروپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے اصرار اور دباؤ کے سبب سے یہ عبارت دستور کا حصہ تو ہے، لیکن اس کے کوئی معنوی اثرات ظاہر نہیں ہوئے اور نہ ظاہر ہونے کا کوئی امکان ہے۔ لہٰذا عملاً ریاست ہی حاکمیت کی حامل ہے۔ ریاست کے شہریوں کو ریاست کی مشین کے پرزوں کی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ انگریزوں کے دیے ہوئے ادارے اور تخلیق کردہ اشرافیہ ہی کو اقتدار حاصل ہےاور جو نئے خاندان بعد میں اس اشرافیہ میں شامل ہوئے ہیں، وہ بھی اسی اشرافیہ کے صوری اور معنوی اخلاف ہیں۔چنانچہ اس ریاستی ڈھانچے کا کسی نظریے یا مذہب سے تعلق اسی قدر ہوگا جس قدروہ اس ڈھانچے کی بقا یا استحکام میں کارآمد ہے۔قومی ریاست اپنے شہریوں کو بہتر سے بہتر احوال حیات کی نوید سناتی ہے اوراصلاً یہی اس کا نظریہ ہے۔ اس کے علاوہ کسی نظریے یا مذہبی ہدایت کی اسے ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ریاست کےداخلی اور خارجی اہداف کیا ہیں اور اس کا قانون کن اہداف کو حاصل کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے؟ اوپر ہم نے بیان کیا ہے کہ یہ عملاً ایک جغرافیائی وحدت ہے؛ عملاً کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں آباد انسانوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے اور ان کا، کم زور ہی سہی، مذہب اسلام سے تعلق ہے اور وہ اسلام کے حوالے سے ایک ریاست کے قیام کا تصور بھی رکھتے ہیں، لیکن واقعےمیں یہ ایک علاقے میں آباد انسانوں کا وطن ہے ۔ اس ریاست کی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ یہ آبادی پاکستانی ہونے کی شناخت میں ڈھل جائے ۔ ہمارے سرکاری نصاب کی پاکستان سے متعلق کتابیں اس کی ثقافتی تاریخ کا سراغ بیان کرنے میں گہری دل چسپی لیتی ہوئی نظر آتی ہیں، اس کی وجہ پاکستانیت کی شناخت معرض ظہور میں لانا ہے۔

اس کا قانون بنیادی طور پر اس کے انتظامی ڈھانچے کی حفاظت کا ضامن ہے۔ ضمناً انسانوں کی انسانوں پر تعدی کی صورت میں تھوڑا بہت انصاف بھی فراہم کر دیتا ہے۔ مغرب کے تہذیبی ، سیاسی اور معاشی دباؤ کی وجہ سے کچھ نہ کچھ انسانی حقوق کی بات کرتا بھی نظر آتا ہے۔ ان تینوں ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کسی مذہب کی طرف رجوع عقیدے کے زور پر تو ہو سکتا ہے،ریاست کے وجود اور بقا کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح ریاست سے باہر دوسری ریاستوں سے اس کے تعلق کی بنیاد بقاے باہمی کے اصول اور اپنی آباد ی کی فلاح و بہبودکی غرض سے ہے۔ یہاں بھی کسی اور نظریے یا ہدایت کی ضرورت نہیں ہے۔

یہی معاملہ معیشت ، معاشرت اور سیاست کے دائروں کا ہے۔ یہاں بھی ہدف صرف یہ ہے کہ ریاست ایک کامیاب ریاست ہو۔ زندگی آزار دنیوی سے نجات پائے اور آسایشوں سے پرلطف ہو اور آرایشوں سے مزین ہو جائے۔ حس اخلاق اسی ہدف کی خادم ہو اور حس جمال انھی لذتوں پر قربان ہو جائے۔

 ریاست کی فطری ذمہ داری کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا بندوبست کرے، یعنی ان کے خلاف ہونے والے ہر اقدام کا سد باب کرے ۔ خواہ یہ اقدام ریاست کے اندر سے اٹھایا گیا ہو یا باہرسے۔ ریاست کواپنی طاقت سے اس کی سرکوبی کرنی ہے، لیکن ریاست کا کام یہاں تک محدود نہیں رہا۔ اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کے لیے ان کے بنیادی حقوق کے مطابق زندگی گزارنے کے اسباب پیدا کرے اور ان حقوق کے خلاف اٹھی ہوئی کوئی انگلی بھی برداشت نہ کی جائے۔ اسی طرح ریاست اس بات کی بھی ذمہ دار ہے کہ ملک میں معیار زندگی بہتر سے بہتر ہو۔ معیشت کی ترقی ، معاشرت کی بہبود اور سہولیات زندگی کی فراہمی میں ریاست کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے۔

 کوئی نظریہ ہو یا مذہب ریاست کے ان فرائض میں کوئی رخنہ قابل قبول نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلام اور اس ریاست میں تعلق کی نوعیت کیا ہے؟

اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اسلام ایک نظام ہے اور وہ انسان کی انفرادی زندگی ہی نہیں، اس کی اجتماعی زندگی کے لیے بھی ایک مکمل ہدایت نامہ ہے۔ اس نقطۂ نظر کے تحت ’اسلامی ریاست‘ کی اصطلاح متعارف ہوئی اور بہت سی کتابیں بھی اس نقطۂ نظر کے اثبات اور اس کے عملی پہلوؤں کی توضیح میں لکھی گئیں۔ اس سارے لٹریچر کا حاصل یہ ہے کہ جدید ریاست کو قبول کرتے ہوئے اس میں قانون سازی شریعت کے مطابق ہو، یعنی اس میں اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کی سب سے واضح مثال اسلامک بینکنگ ہے۔ بینک جو کام کر رہا ہے، وہ کرے ، لیکن اس کا کوئی مالی معاملہ سود کے حکم کے تحت نہ آئے۔

اس کا دوسرا جواب یہ ہےکہ اسلام اصلاً فرد کو مخاطب کرتا ہے، ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ لہٰذا ریاست کی طرف سے کسی مذہب کے نفاذ کا کوئی محل نہیں ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کو اپنے اپنے عقیدے کے مطابق جینے کا حق دے۔ اس کی اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ مسلمان اگر حکمران ہوں گے تواسلام کی رو سے ان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جو انھیں ادا کرنی ہیں۔ مثال کے طور پر انھیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکومت کی سطح پر اہتمام کرنا ہے۔ یا نماز باجماعت کا اہتمام بھی سرکاری سطح پر ہوگا، وغیرہ۔

ان سطور کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ جدید ریاست اور اسلام کے تعلق کا سوال نمایاں کیا جائے تاکہ مسلم فکر کا یہ باب بھی اپنی تکمیل کے مراحل طے کرے۔بطور خاص اس نکتے پر غور ہو کہ جیسےفرد کا خدا سے تعلق ’بندگی‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیا اسی طرح اس کی اجتماعی زندگی کے لیے بھی کوئی تعبیر ہے؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B