[جناب جاوید احمد غامدی کی کتب، آڈیوز اور ویڈیوز سے اخذ و استفادہ پر مبنی مختصر سوال و جواب]
سوال: قرآن مجید کی روشنی میں عہد الست کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: ہم اس دنیا میں انسان کی حیثیت سے آئے ہیں۔ کیا ایسا ہوا کہ انسان کی آمد کے برسوں بعد یا صدیوں بعد انبیا علیہم السلام کا سلسلہ شروع کیا گیا اور انھوں نے آ کر لوگوں کو دین سے متعارف کرایا؟ قرآن مجید سے پتا چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ قالب عطا کرنے سے پہلے اپنے سامنے حاضر کیا، یعنی انسان کی اصل شخصیت کو اپنے سامنے حاضر کیا ؛ وہ شخصیت جو دکھائی نہیں دیتی، اور اس سے ایک عہد لیا۔
قرآن مجید نے اس واقعے کو اس طرح بیان کیا ہے:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۣ بَنِيْ٘ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰ٘ي اَنْفُسِهِمْﵐ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْﵧ قَالُوْا بَلٰيﵑ شَهِدْنَاﵑ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ. اَوْ تَقُوْلُوْ٘ا اِنَّمَا٘ اَشْرَكَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۣ بَعْدِهِمْﵐ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ. وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ.(الاعراف۷: ۱۷۲-۱۷۴)
’’ (اے پیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں، ( آپ ہی ہمارے رب ہیں )، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘
اب قیامت کے دن کوئی شخص بھی خدا کی معرفت اور اس کی توحید کے بارے میں کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا۔ یہ تصور اس کے اندر ودیعت کر دیا گیا ہے ۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت پہنچے یا نہ پہنچے؛ کوئی انسان جنگل میں ہو یا شہر میں؛ دور دراز دیہات میں ہو یا کسی ایسی جگہ پر جہاں شاید انبیا علیہم السلام کی ہدایت سے آشنا انسان کا قدم بھی ابھی نہ پہنچا ہو، تب بھی وہ جواب دہ ہے اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تمھارا پروردگار کون ہے اور کیا تمھیں اس معاملے میں کوئی شبہ تھا کہ وہ تنہا ہے، یگانہ ہے ، اس کا کوئی ہم سر نہیں ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے؟
سوال: عہد الست کا واقعہ ہماری یادداشت سے کیوں نکال دیا گیا ہے؟
جواب: یہ واقعہ ہماری یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، اس لیے کہ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اگر اس کی یاد باقی رہتی تو امتحان کی پوری اسکیم باطل ہو جاتی، لیکن یہ ہمارے شعور اور شخصیت کے نہاں خانے میں مدفون ہے؛ یہ ہماری روح کے اعماق میں اترا ہوا ہے ۔ یہ بالکل اسی طرح ہے، جس طرح ہم ماں کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے جو ہم میں سے ہر ایک کو پیش آتا ہے، مگر اس کی یاد ہمارے شعور سے محو ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جس وقت گرد و پیش کا ماحول اس کے بارے میں ہمیں متنبہ کرتا ہے تو ہم اسے بالکل اسی طرح قبول کرتے ہیں، جس طرح بچہ اپنی ماں کی مامتا کو قبول کرتا ہے؛ اسی طرح پہچان لیتے ہیں، جس طرح بچہ اپنی ماں کو پہچان لیتا ہے۔ اللہ کی معرفت ہمارے اندر اسی طریقے سے ودیعت کی گئی ہے اور اسے ہمارے اندر الہام کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہمیں اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
انبیا علیہم السلام اور ہمارا ماحول اس کی یاددہانی کراتے ہیں ۔ جب ہم اس کائنات اور اس کی معنویت کو دیکھتے ہیں تو عقل تقاضا کرتی ہے کہ اس کا خالق ہونا چاہیے، لہٰذا عقل بھی اسی کی یاددہانی کراتی ہے۔
سوال: کیا عہد الست کو انسانی یادداشت سے بھلا دینا اصول آزمایش کے خلاف نہیں ہے؟
جواب: یہ کوئی امتحان کا پرچہ نہیں ہے جسے بھلا دیا گیا ہے؛ یہ اصل میں ایک جواب ہے، جس کے واقعے کی یاد فراموش کرا دی گئی ہے۔ وہ جواب تو ہمارے وجود کے روئیں روئیں سے واضح ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تمھاری فطرت کے اندر وہ چیزیں رکھ دی گئی ہیں جن کی بنیاد پر تم سے امتحان لیا جا رہا ہے۔ دراصل، امتحان اس فطرت کو سمجھنے، اس کے مطابق عقلی فیصلے کرنے اور نتائج کو درست جگہ پر رکھنے کا نام ہے۔ یہ امتحان ہے۔ اگر امتحان یہ ہوتا کہ اچھا، وہ واقعہ یاد کر کے بتاؤ تو اسے امتحان نہیں کہہ سکتے۔
سوال: کیا عہد الست کا شعور انسانی جبلت میں موجود ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے انسانی شخصیت دی ہے تو یہ بھی بتا دیا ہے کہ یہ جسم کا کوئی لازمی تعامل نہیں ہے، یہ الگ سے ملی ہے، یعنی قرآن مجید نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ ہمارے جسم کا معاملہ بالکل الگ سے ہوا ہے۔ قرآن مجید نے ہمارے حیوانی وجود کو الگ سے بیان کیا ہے۔ اس کے بعد کہا کہ خاص وقت میں جا کر ہم نے تمھیں وہ اصل شخصیت دی، پھر اس اصل شخصیت کے ساتھ جو معاملات کیے، ان میں سے ایک عہد الست کا معاملہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو مخاطب کیا، اس کے سامنے ایک بات رکھی اور اس کا جواب لیا۔ اب، ظاہر ہے کہ جہاں یہ معاملہ پیش آیا، نہیں معلوم کہ وہ کیا عالم تھا، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کا اپنا معاملہ ہے جس میں وہ انسان کی اصل شخصیت سے بات کر رہا ہے۔ بلکہ سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۷۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ارادہ و اختیار دیا ، ہمارے امتحان کے بارے میں بھی پوچھا اور ہم نے اس کو خود قبول کیا تھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُﵧ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا.
’’ (اطاعت کا یہ تقاضا اُس ارادہ و اختیار کی بنا پر کیا جاتا ہے جو ہم نے انسان کو عطا فرمایا ہے)۔ ہم نے یہ امانت زمین اور آسمانوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی تو اُنھوں نے اُس کو اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور اُس سے ڈر گئے تھے، مگر انسان نے اُس کو اٹھا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا ہی ظالم اور جذبات سے مغلوب ہو جانے والا ہے۔‘‘
اب یہ قبولیت کیسے ہوئی؟ اس کی یاد کیوں محو کر دی گئی؟ یہ بالکل واضح ہے، اس لیے کہ اگر اس کی یاد قائم رکھی جاتی تو پھر امتحان نہیں ہو سکتا تھا، لہٰذا عہد لیتے اور امتحان میں ڈالتے وقت یاد تو محو کر دی گئی، مگر اس واقعے کا شعور ہمارے باطن میں رکھ دیا گیا ہے۔ اب ہم جدید نفسیات کی روشنی میں بھی جانتے ہیں کہ جو چیزیں درحقیقت ہمارے ہاں فراموش شدہ ہوتی ہیں، وہ ہمارے باطن میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان کا ظہور ہمارے رویوں میں ہوتا ہے؛ ہمارے طرز عمل میں ہوتا ہے؛ ہمارے ہاں عملی تکذیب یا عملی تصدیق کی شکل میں ہوتا ہے، تو اس واقعے کا ظہور بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے ساتھ قرآن مجید کے استدلال کا جو پہلو ہمیں متعلق کرتا ہے، وہ تین پہلوؤں سے متعلق ہے:
اولاً، انسان کا باطن، یعنی نفس کی غیر معمولی قبولیت ، بلکہ اس کی اشتہا اور اس کے اندر اس کی غیرمعمولی طلب۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مخلوق ہونےکے شدید ترین احساس کا جواب پائے۔ یہ احساس عہد الست ہی سے آیا ہے جو قبولیت پر مجبور کر رہا ہے۔
ثانیاً، عقلی استنباط و استنتاج، یعنی دنیا اور اس کی معنویت کو دیکھنا؛ اس کے نظم، اس کی ترتیب، اس کی اقلیدس و ریاضی کو دیکھنا۔ یہ عقلی داعیات کو مہمیز دیتا ہے، اور اس کے بعد نتیجے تک پہنچنے کے لیے، گویا پوری طاقت کے ساتھ دھکیلتا ہے۔
ثالثاً، انسانیت کی پوری تاریخ۔
دنیامیں یہی تین چیزیں بناے استدلال ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور مذہب کے وجود کے بارے میں تینوں پوری قوت کے ساتھ فیصلہ سنا دیتی ہیں۔
سوال: انسان کے مادی وجود اور جس وجود سے عہد الست لیا گیا، دونوں کا باہمی تعلق کیا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کا طریق کار بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ جو مادی کائنات ہے، اسی میں دریاؤں کے کنارے اور دلدلی مٹی سے میں نے انسان کو بنانا شروع کیا۔ پھر اس کا ایک پورا طریق کار بیان کیا ہے۔ پھر ایک مرحلے پر آ کر جب وہ ہر لحاظ سے درست ہو گیا، جسے قرآن مجید اپنی اصطلاح میں ’’تسویہ‘‘ کہتا ہے تو میں نے اس کے اندر انسانی شخصیت پھونک دی، جسے ﴿نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ﴾ [*]سے تعبیر کیا گیا ہے۔اس مرحلے میں انسانی شخصیت آئی؛ جب یہ شخصیت آئی تو اس نے اس کے اندر سوچنے، سمجھنے اور چیزوں کو بصیرت کے ساتھ دیکھنے کی صلاحیت پیدا کر دی۔
یہی بات انسان کی ابتدائی تخلیق کےبارے میں بیان کی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں بچہ مختلف مراحل سے گزر کر کم و بیش ۱۲۰ دنوں میں حیوانی وجود کے لحاظ سے مکمل ہو جاتا ہے تو پھر اسے انسانی شخصیت دی جاتی ہے۔ یہ جو حیوانی وجود ہے، اس کو تو ہم چھو سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں اور اس کا تجزیہ کر سکتے ہیں، لیکن ہم اپنی اصل شخصیت کوباطن کی نگاہ سے دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ غیر مرئی ہے، یعنی وہ ہمارے شعور اور احساس کی ایک بدیہی حقیقت ہے، جسے ہم جانتے ہیں، لیکن وہ زمین پر لا کر دکھانے کی چیز نہیں ہے۔
چنانچہ ان دونوں کا باہمی ربط و تعلق یہ ہے کہ ہماری وہ شخصیت جو اس جسم میں ڈالی گئی ہے، وہ دنیا سے اپنا تعلق پیدا کرنے کے لیے یا فلسفے کی اصطلاح میں خارج سے اپنا تعلق پیدا کرنے کے لیے اِس جسم کو میڈیم یا ذریعہ بناتی ہے ۔ جس وقت ہمارا یہ جسم، جو اس کا میڈیم یا ذریعہ بنتا ہے، ختم ہو جاتا ہے یا کسی شدید نقصان سے دوچار ہوجاتا ہے تو وہ کام کرنا بند کر دیتی ہے؛ وہ نکال لی جاتی ہے تو یہ جسم بالکل بے معنی ہو کے رہ جاتا ہے۔ لہٰذا ان کا باہمی تعلق اتنا تو ہم جانتے ہیں، مگر اس کے آگے فی الواقع کیا تعلق ہے اور اس کی کیا تفصیلات ہیں؟ اس کو جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۷ میں توجہ دلا دی ہےکہ ایسے حقائق بس تشبیہ دے کر کسی حد تک ہی سمجھائے جا سکتے ہیں؛ ان کی اصل حقیقت ، ہو سکتا ہے کہ قیامت میں ظاہر ہو اور ہم اسے دیکھ سکیں۔
سوال: کیا عہد الست کے موقع پر انسان اپنی تقدیر خود لکھوا کر آیا تھا؟
جواب: یہ بالکل خلاف عقل بات ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں، اور یہ فیصلے امتحان کے لیے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص پاؤں سے معذور ہو، اندھا یا بہرہ ہو تو یہ بھی اس کے لیے امتحان ہے، اس لیے کہ اپنی تقدیر میں خود معذوری لکھوا کر کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ اسے کسی قسم کی معذوری دے کر بٹھا دیا جائے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[*] ص ۳۸: ۷۲۔ الحجر ۱۵: ۲۹۔