HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : کوکب شہزاد

حضرت یوسف علیہ السلام نوجوانوں كے لیے مشعل راه

اللہ تعالیٰ نے جب سے حضرت آدم علیہ السلام كوتخلیق كیا، اس وقت سے ذریت آدم كی ہدایت كے لیے انبیا كو بھیجنا شروع كیا تاکہ وه آدم كی اولاد كو صحیح راستہ دکھا سكیں۔

اس دنیا كو بنانے كا اصل مقصد جو قرآن پاك كو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے، وه یہ ہے کہ آدم کی اولاد کی آزمایش کی جائے کہ ان میں کون بہترین اعمال کرتا ہے اور کون اپنے نفس کا غلام بن کر دنیا میں فساد مچاتا ہے۔ سورۂ ملك میں الله تعالیٰ نے فرمایا کہ بڑی ہی بابركت ہے وه ذات جس نے موت اور زندگی كو پیدا كیا تاکہ وه تمھیں آزما كردیكھے کہ تم میں سے كون بہترین عمل كرنے والا ہے اور كون اپنے اختیار كا غلط فائده اٹھا تا ہے اور دنیا میں فساد پھیلاتاہے۔

الله تعالیٰ ہر نبی کو کسی نہ کسی طرح کے مشکل حالات میں ڈال کر ان میں استقلال اور ثابت قدمی پیدا کرتے اور ان آزمایشوں کے ذریعے سے ان میں کردار کی مضبوطی پیدا کرتے تھے۔

اس مضمون میں ہم حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمایشوں، ان کے صبر واستقلال اور ان کے ہر موقع پر الله تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا ذکر کریں گے تاکہ نوجوان ان کی زندگی سے رہنمائی حاصل کریں اور جذباتی لمحوں میں الله تعالیٰ کی مدد کا سہارا لے سكیں۔

سورۂ یوسف میں الله تعالیٰ نے ان کی پوری تفصیل بیان کی ہےاور ان کی زندگی کے واقعات كو ’احسن القصص‘، یعنی بہترین واقعہ قرار دیا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے کردار کو ہم نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنانا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ان کو جسمانی تشدد، ذہنی اذیت اور کردار کشی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن انھوں نے بڑے استقلال کے ساتھ آزمایشوں کا سامنا کیا او ر اللہ تعالیٰ سے کسی مشکل پر کوئی گلہ نہیں کیا۔ آزمایشوں میں کامیابی کے بعد الله تعالیٰ نے ان پر انعامات کی بارش کی تو انھوں نے سجدۂ شکر ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ الله تعالیٰ نے جتنی ان کی آزمایش کی، اس سے کئی گناہ زیادہ نعمتیں دیں۔ انھیں عظیم الشان منصب اور عزت عطا کی۔ یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ اپنے بندوں کی آزمایش میں کامیابی پر انعامات کی بارش کرتے ہیں۔ اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہر مشكل گھڑی میں الله تعالیٰ سے جڑے رہنا چاہیے۔

حضرت یوسف علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اورحضرت یعقوب علیہ السلام كے بیٹے تهے۔  حضرت یعقوب علیہ السلام كے گیاره بیٹے تهے، جن میں حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیا مین ایک ماں سے تھے اور باقی سب دوسری ماں سے تھے۔ حضرت یوسف بہت ہی سلجھےہوئے مہذب انسان تهے، جس كی وجہ سے ان کے والد حضرت یعقوب ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان میں وه پیغمبری کے آثار دیکھتے تھے اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دیتے تھے، جس کی وجہ سے باقی بھائی ان سے بہت حسد کرنے لگے تھے۔

ایک دن حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والدحضرت یعقوب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ابا جان، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ حضرت یعقوب چونکہ نبی تھے اور انھیں ہوسکتا ہے کہ ان کے بارے میں اندازه بھی ہو کہ وہ مستقبل میں نبی بنیں گے، اس لیے انھوں نے حضرت یوسف سے کہا کہ اپنے اس خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ وہ پہلے ہی تم سے حسد کرتے ہیں۔

حضرت یوسف کے بھائیوں کے دلوں میں یہ بات کھٹکتی تھی کہ ابا جان یوسف سے بہت پیار کرتے ہیں، ہم سے اتنا پیار نہیں کرتے تو ہم کیوں نہ یوسف کو راستے سے ہٹا دیں۔ اس طرح ابا جان کی ساری محبت ہمیں مل جائے گی۔

ایک دن سب مل کر بیٹھے اور یوسف علیہ السلام سے نجات حاصل کرنے کے لیے مشورے کرنے لگے۔ ان میں سے بیش تر کی راےتھی کہ حضرت یوسف کوجان سے مار دیا جائے اورپھر توبہ کرکے صالح بن جائیں گے۔ اس طرح وه اپنے والد کی نگاہوں میں پسندیده بن جائیں گے اور ان کی ساری توجہ ہمیں مل جائے گی۔ ان دس بھائیوں میں ایک نسبتاً بہتر تها۔ غالباً اس کا نام یہودا تھا۔ اس نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو۔ اسے کسی کنویں میں پھینک دیتے ہیں۔ پانی کی تلاش میں کوئی قافلہ آئےگا اور اسے نکال کر لے جائے گااور اس طرح تمھارا مقصد بھی پورا ہوجائے گا۔ سب بھائی اس بات پر متفق ہو گئے۔ وہ سب مل کر اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے اور ان سے کہنے لگے کہ ابا جان، کیا بات ہے کہ یوسف کے معاملے میں آپ ہم پر اعتماد نہیں کرتے۔ ہم سب کا ارادہ ہے کہ کل سب مل کر گهومنے پهرنے جائیں گے اور کچھ کھیل کود بھی کریں گے۔ آپ یوسف کو ہمارے ساتھ جانے دیں۔ وہ ہمارے ساتھ کھیلے کودے گا اور ہم اچھی طرح اس کا خیال رکھیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یوسف کے بھائی اس سے کینہ رکھتے ہیں، یہ نہ ہو کہ یوسف کو کوئی نقصان پہنچادیں۔ حضرت یعقوب نے انھیں ٹالنے کے لیے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ تم یوسف کو ساتھ لے جاؤ اور اپنے کھیل کود میں لگے رہو اور یوسف کو کوئی بھیڑیا کھا جائے۔ حضرت یعقوب کے بیٹوں نے اصرار کیا تو حضرت یعقوب نے انھیں حضرت یوسف کو لے جانے کی اجازت دے دی۔ اپنے پروگرام کے مطابق وه حضرت یوسف کو اپنے ساتھ لے گئے اور انھیں کنویں میں پھینک دیا۔ ایک قافلے کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھوں نے حضرت یوسف کو کنویں میں دیکھا تو انھیں وہاں سے نکالااور غلاموں کی منڈی میں بیچ دیا۔ منڈی سے مصر کے ایک بڑے عہدے دار نے انھیں خرید لیااور ان کی شخصیت کی وضع قطع اور وقار دیکھ کر اپنی بیوی سے کہا کہ کیوں نہ ہم اسے اپنا بیٹا بنا کر اپنے گھر میں رکھیں۔ یہاں ان کی ایک نئی آزمایش شروع ہوگئی۔ ان کی آزمایش کے اسی پہلو کو حقیقتاً ہم نوجوانوں کے لیے مثال بنانا چاہتے ہیں۔ ان كی شخصیت كا سب سے عظیم پہلو یہ ہے کہ انھوں نے ہر امتحان میں مثبت رویہ رکھا اور ہر امتحان میں اس كے مثبت پہلوؤں پر نظر رکھی اور استقامت اور ثابت قدمی سے آگے بڑهتے گئے۔

 حضرت یوسف تھوڑے بڑ ے ہوئے تو بہت ہی خوش شكل اور با وقار شخصیت كے مالك بنے۔ عزیز مصر كی بیوی ان كو پسند كرنے لگی۔

ایک دن جب عزیز مصر گھر میں نہیں تھا، حضرت یوسف کے بارے میں زلیخا کی نیت خراب ہوگئی اور اس نے حضرت یوسف كو اپنے قریب آنے كو کہا۔ حضرت یوسف نے جب محسوس کیا کہ زلیخا کی نیت اچھی نہیں تو انھوں نے کہا کہ میں اس بات سے الله کی پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے مالک کے ساتھ خیانت كروں، لیکن زلیخا اپنے جذبات میں اندھی ہوچکی تھی۔ اس نے حضرت یوسف سے کہا کہ بس آجاؤ۔ حضرت یوسف اس سے بچنے کے لیے دروازے کی طرف لپکے اور زلیخا نے ان کو پیچھے سے کھینچا تو حضرت یوسف کا قمیص پیچھے سے پھٹ گیا۔ حضرت یوسف اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے کہ اے الله، میں اپنے آقا کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرنا چاہتا تو اس گھڑی میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ بنده جب خود استقلال اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے اور پھر الله تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے تو الله اس کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ جب دروازه کھلا تو زلیخا نے اپنے میاں کو سامنے کھڑا پایا۔ اس نے یک دم اپنی چال بدلی اور الٹا حضرت یوسف کومورد الزام ٹھیرانا شروع کردیااور کہا کہ جو عزیزمصر کی بیوی كے ساتھ برا کرنا چاہے، اس كی سزا تو بس قید ہونی چاہیے۔

حضرت یوسف نے اپنےمالک سےکہا کہ میں آپ سے بے وفائی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ آپ کی بیوی جھوٹ بول رہی ہے۔ وہاں ایک بہت ہی سمجھ دار آدمی کھڑا تھا۔ اس نے کہا کہ اگر یوسف کا کرتا آگے سے پھٹا ہے تو یوسف قصور وار ہے اور اگر کرتا پیچھے سے پھٹا ہے تو قصور وار زلیخا ہوگی۔ جب دیکھا گیا تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ اس بزرگ نے کہا کہ اے زلیخا، بے شک، تو ہی قصور وار ہے۔ غرض یہ بات پورے شہر میں پھیل گئی کہ عزیز مصر کی بیوی اپنے غلام پر ڈورے ڈال رہی ہے۔

زلیخا نے جب اپنے بارے میں یہ باتیں سنیں تو ایک دعوت کا اہتمام کیا اور اس میں شہر کی معزز خواتین كو مدعو کیا اور حضرت یوسف کو ان کے سامنے سے گزرنے کو کہا۔ ان بیگمات نے جب حضرت یوسف کی پاکیزگی اور وقار دیکھا تو مبہوت ره گئیں اور اپنی اداؤں کے جال میں ان کو متاثر کرنے کی کوشش کرنے لگیں اور حضرت یوسف سے کہنے لگیں کہ اگر تم نے ہماری بات نہ مانی تو ہم اپنے ہاتھ کاٹ لیں گی اور انھوں نے اسی طرح کیا۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام نے الله تعالیٰ سے دعا کی کہ اے الله، مجھے ان خواتین کی چالوں سے بچا۔ ان كی باتیں مان کر برائی میں پھنسنے سے بہتر ہے کہ میں جیل میں چلا جاؤں۔ الله تعالیٰ نے حضرت یوسف کی دعا کو قبول کیا اور شہرکے معزز لوگوں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ اس فتنے سے بچنے کے لیےحضرت یوسف کو کچھ عرصے کے لیے جیل بھیج دیا جائے۔ اس نازک موقع پرجس طرح انھوں نے خود کو بچایا اور الله تعالیٰ سے مدد کی درخواست کی تو الله تعالیٰ نے بھی ان كی خاص مدد کی۔ قرآن مجید میں ہے کہ اگر یوسف الله کی برهان نہ دیکھتے تو ضرور بہک جاتے۔ حضرت یوسف جب جیل میں آئے تو ان کے ساتھ دو نوجوان بھی جیل میں آئے اور انھوں دیکھا کہ یوسف بہت پاکیزہ طبیعت کے حامل اور عبادت گزار ہیں تو ان دونوں نے کہا: یوسف، ہم نے خواب دیکھے ہیں۔ آپ ہمیں ان کی تعبیر بتائیں۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ اے یوسف، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں اپنےآقا کے لیے انگور نچوڑتا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ پرندے میرے سر سے روٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ آپ بہت بھلے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ اے سچے آدمی، براے مہر بانی ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں تمھارا کھانا آنے سے پہلے پہلے تم دونوں کو تمھارے خواب کی تعبیر بتاؤں گا۔ اس موقع پر حضرت یوسف علیہ السلام نے سوچا کہ یہ دونوں میری بات کو انتہائی توجہ سے سن رہے ہیں تو کیوں نہ میں انھیں الله کے دین کی طرف بلاؤں۔ حضرت یوسف نے انھیں ایمان لانے کی دعوت دی اور کہا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو اور الله تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ بتوں کی پوجا نہ کیا کرو۔ تمھیں ایک دن الله تعالیٰ کے حضور جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب کتاب دینا ہے۔

حضرت یوسف نے پہلے آدمی سے کہا، جس نے بتایا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔ تمھارے خواب کی تعبیر یہ ہے  کہ تم آزاد ہوجاؤ گے اور بادشاه کے بہت قریبی مصاحب بنو گے اور دوسرے سے کہا، جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے سر پر روٹیاں ہیں جنھیں پرندے نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔ تمھارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تمھیں پھانسی ہوگی اور تم اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔ پہلے والے سے، جس کے بارے میں انھوں نے بتایا تھا کہ تم آزاد ہوکر بادشاہ کے مصاحب بنو گے، فرمایا کہ تم بادشاہ سے میرا ذکر کرنا کہ میں بے گناہ جیل میں پڑا ہوا ہوں، میرے معاملے کو دیکھیں۔

بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ سات دبلی گائیں ہیں جوسات موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سات ہری بالیاں ہیں اور سات خشک بالیاں۔ بادشاہ نے ہر ایک سے اس خواب کی تعبیر پوچھی، لیکن کوئی بھی اس کی تعبیر نہ بتا سکا۔ آخر اس قیدی کو جو آزا د ہوا تھا، اسے حضرت یوسف کا خیال آیا۔ وہ بادشاہ سے اجازت لے کر حضرت یوسف کے پاس آیا اور کہا: اے سچے انسان، مجھے بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاؤ۔

حضرت یوسف نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ مصر میں سات سال خوب اناج اگے گا اور اگلے سات سال بہت قحط پڑے گا۔ قحط کے ان سالوں میں تم وہی کھاؤ گے جو تم نے بچا کر رکھا ہوگا۔ پھر ایک سال خوب ہریالی ہوگی اور اناج کی بہتات ہوگی۔ بادشاہ کو جب اپنے خواب کی تعبیر معلوم ہوئی تو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام کی آزادی کا پروانہ جاری کیا۔

حضرت یوسف نے کہا کہ میں اس وقت تک جیل سے باہر نہیں نکلوں گا جب تک اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی کہ میں ان خواتین کے معاملے میں بے قصور ہوں جن کی وجہ سے میں جیل میں آیاہوں اور ان کی وجہ سے میں کئی سال جیل میں رہا۔ اس بات کی تحقیق کی جائے کہ قصور وار کون ہے؟ میں یا وہ خواتین جنھوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ لہٰذا تحقیق سے پوری طرح واضح ہوگیا کہ حضرت یوسف بے قصور ہیں اور سارا فتنہ ان خواتین کا ہے۔ زلیخا نے بھی اعتراف کر لیا کہ یوسف فرشتوں کی طرح پاک اور معصوم ہے۔ میں نے یوسف پر غلط الزام لگایا تھا۔

حضرت یوسف تمام الزامات سے بڑی شان اور وقار سے آزاد ہو گئے۔ بادشاه نے انھیں اپنی سلطنت میں بڑے بڑے عہدوں کی پیش کش کی۔ حضرت یوسف نے بادشاه سے کہا کہ آپ مجھے مالیات کے شعبے کا نگران بنا دیجیے۔ میں ایمان دار بھی ہوں اور الله تعالیٰ نے مجھے علم سے بھی نواز رکھا ہے۔

حضرت یوسف نے قحط شروع ہونے سے پہلے والے سالوں میں یہ حکمت عملی اپنائی کہ جو اناج استعمال ہو، اس کے علاوه جو اناج بچ جائے، اسے بالیوں میں ہی رہنے دیا جائے تاکہ ان پر کیڑا نہ لگے اور ان کو قحط کے زمانے میں استعمال کیا جائے۔ اس طرح حضرت یوسف کی حکمت عملی سے نہ صرف مصر، بلکہ آس پاس کے علاقوں کے لوگ بھوكے مر نے سے بچ گئے۔

قحط کی وجہ سے مصر اور اس کے آس پاس کے علاقے بری طرح سے متاثر ہو ئے۔ حضرت یوسف کے بھائی اور خاندان والے کنعان میں رہتے تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ مصر کی حکومت لوگوں کو راشن دے رہی ہے تو حضرت یوسف کے بھائی بھی اناج لینے کے لیے آئے۔ حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا، لیکن ان پر کچھ ظاہر نہ کیا اور ان کی رقم بھی ان کے غلے میں واپس رکھ دی، البتہ انھیں نصیحت کی کہ آیندہ اپنے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے کر آناتاکہ ان کا راشن بھی میں تم کو دے سکوں۔ اصل میں حضرت یوسف علیہ السلام کو اندیشہ تھا کہ ان کے سوتیلے بھائی بنیامین کے ساتھ بھی وہی سلوک نہ کریں جو انھوں نے میرے ساتھ کیا تھا۔

حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام بنیامین کو بھیجنا نہیں چاه رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اباجان، آپ دیکھیں کہ انھوں نے ہمارے پیسے بھی واپس لوٹا دیے ہیں۔ بیٹوں کے بے حد اصرار پر اور زائد راشن ملنے کی امید پر حضرت یعقوب نے بنیامین کو بھائیوں کے ساتھ مصر بھیج دیا۔

حضرت یوسف نے اپنے چھوٹے بھائی بنیامین کو چپکے سے بتادیا کہ میں یوسف ہوں اور اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔ حضرت یوسف کا دل چاہ رہا تھا کہ وه بنیامین کو اپنے پاس روک لیں، لیکن مصر کے قانون کے مطابق وه ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ حضرت یوسف کو اپنے بھائی کو روکنے کی ایک تدبیر الله تعالیٰ نے یہ سجھائی کہ انھوں نے تمام بھائیوں کے کجاووں میں اناج رکھ دیا اور بنیامین کے اناج میں ناپنے کا پیمانہ بھی رکھ دیا۔

جب حضرت یوسف کے بھائیوں کا قافلہ جانے لگا تو ایک ملازم نے پکارا کہ اے قافلہ والو، تم چور ہو۔ انھوں نے پوچھا کہ تمھارا کیا کھویا ہے؟ ملازم نے کہا کہ شاہی پیمانہ کھوگیاہے۔ تمھیں تلاشی دینی ہوگی۔ ان سے پوچھا گیا کہ تمھارے ہاں چوری کی سزا کیا ہوتی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہمارے ہاں کنعان میں جو چوری کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ حضرت یوسف کنعان میں چور کی اس سزا سے واقف تھے۔ چنانچہ سب کی تلاشی لی گئی تو ناپنے کا پیمانہ بنیامین کے اناج سے نكل آیا۔ چنانچہ بنیامین کو روک لیا گیا۔

حضرت یوسف کے بھائیوں نےکہا کہ اگر یہ چور ہے تو اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ بھائیوں کی یہ بات سن کر حضرت یوسف بہت آزردہ خاطر ہوئے، لیکن چپ رہے۔ بھائیوں نے کہا کہ ہم تو بنیامین کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہم نے تو اپنے ابا جان سے وعده کیا ہے کہ ہم بنیامین کو ضرور لے کر آئیں گے۔ یوسف کے کھونے کی وجہ سے ابا جان ہم سے ناراض ہیں اور بیمار رہتے ہیں۔ اب تو وه ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ آپ ہم میں سے کسی کو روک لیں۔ حضرت یوسف نے کہا: استغفرالله، میں گناہ گار کے علاوہ کسی اور کو روکوں۔ ان میں ایک بھائی جس کا نام غالباً یہودا تھا، اس نے کہا کہ میں تو بنیامین کو لیے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ تم لوگ جاؤ اور ابا جان کو صورت حال سے آگاه کرو۔

حضرت یعقوب کو آکر انھوں نے بتایا کہ بنیامین نے چوری کی ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے حکمران نے اسے روک لیا ہے اور ہمارے ساتھ اسے نہیں بھیجا۔ آپ بےشک قافلے کے دوسرے لوگوں سے تصدیق کرلیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام بہت رنجیده خاطر ہوئے اور بنیامین کے ساتھ ساتھ یوسف علیہ السلام کو بھی یاد کرکے رونے لگے۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے کہ اے الله، مجھے صبر کی توفیق عطا کر اور مجھے امید ہے کہ تو میرے تمام بیٹوں کو خیریت کے ساتھ میرے پاس لائے گا۔

غلہ ختم ہونے پر ان کے بھائی ایک مرتبہ پھر حضرت یوسف کے پاس مصر گئے اور کہا کہ اے بہترین انسان، ہمارا غلہ ختم ہوگیا ہے اور ہمارے پاس پونجی بھی کم ہے۔ آپ ہم پر احسان کیجیے اور ہمیں زائد غلہ د ے دیجیے۔

حضرت یوسف نے جب ان کی لجاجت دیكھی تو ان سے کہا کہ تمھیں یاد ہے کہ تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ کیا تم یوسف ہو؟ تم عظیم انسان ہو۔ ہمیں معاف کردو۔ ابا جان تو تمھاری یاد میں رو رو کر نابینا ہوگئے ہیں۔ حضرت یوسف نے کہا کہ جاؤ، میں نے تم سب کو معاف کیا۔ تم میرا یہ قمیص لے جاؤ اور اسے اباجان کی آنکھوں پر ڈال دینا، ان کی بینائی واپس آجائے گی اور گھر کے تمام افراد کو یہاں لےآؤ اور یہاں آباد ہوجاؤ۔

الله کی شان دیکھیں کہ اس نے رشتوں میں کتنی طاقت رکھی ہے۔ جونہی قافلہ مصر سے چلا، حضرت یعقوب نے گھر والوں سے کہا کہ اگر تم مجھے دیوانہ نہ سمجھو تو مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔ گھر کے لوگوں نے کہا کہ یوسف کی یاد نے تمھیں دیوانہ بنا دیا ہے اور ہمیں تو لگتاہے کہ تم یوسف کو یاد کرکرکے ہلاک ہوجاؤ گے۔

جونہی قافلہ کنعان پہنچا، انھوں نے یوسف علیہ السلام کا کرتا حضرت یعقوب کی آنکھوں پرڈالا تو حضرت یعقوب کی بینائی واپس آگئی۔ حضرت یعقوب نے فرمایا کہ میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے۔

پورا خاندان مصر پہنچا۔ حضرت یوسف نے اپنے والدین اور خاندان والوں کا استقبال کیا۔ گیارہ بھائی اور ماں باپ حضرت یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ حضرت یوسف نے اپنے والدین کو بڑی تعظیم کے ساتھ اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور کہا: ابا جان، یہ میرے اس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔

ان کی شخصیت کا ایک خوب صورت پہلو یہ بھی ہے کہ تمام آزمایشوں کے بعد انھیں کامیابیاں ملیں تو اپنے والد سے ملاقات ہونے پر انھوں نےکسی مشکل کا ذکر نہیں کیا، بلکہ الله تعالیٰ کے انعامات کا ہی ذکر کیا اور کہا کہ الله تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے کنویں سے نکالا، عورتوں کے معاملے میں بدنامی سےبچایا اور غلامی سے نکال کر بر سر اقتدار لایا۔ ان کی شخصیت کا باکمال پہلو یہ بھی تھا کہ جن بھائیوں کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں، انھوں نے ان سب کو نہ صرف معاف کردیا، بلکہ ان سب کو اپنے ساتھ شاہی محل میں رکھا، بلکہ انھیں پرآسایش زندگی بھی دی۔

اس پورے واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد اپنے بچوں کو یہ تربیت دینا ہے کہ کسی بھی مشکل پر ہمت نہ ہاریں، استقلال اور ثابت قدم رہیں تو آسمانوں سے اللہ تعالیٰ کی مدد آتی ہے۔ الله تعالیٰ کی مدد اترنے کا قانون یہی ہے کہ پہلے بنده مشکلات پر ثابت قدمی دکھاتا ہے، پھر الله تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں۔

اس واقعہ میں جذباتی رنگ اور رومانس پیدا کرنے کے لیے کچھ ایسے واقعات بیان کیے جاتے ہیں جن سے قرآن مجید کا کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً یہ کہا جاتا ہے کہ زلیخا یوسف علیہ السلام کی یاد میں رو رو کر اندھی ہوگئی تھی۔ حضرت یوسف جب جیل سے باہر آئے تو انھوں نے زلیخا کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا، جس سے اس کی بینائی واپس آگئی اور زلیخا پھر سے جوان ہوگئی اور حضرت یوسف نے اس سے شادی کر لی۔ یہ محض مبالغہ آرائی ہے۔ ان باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ایسی باتیں بیان کرنی چاہییں۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B