HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

بچوں کو نفرت کی تعلیم

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’دوسروں کے بارے میں بہت سےگمانوں سے بچو ،کچھ گمان گناہ ہوتےہیں‘‘۔[1]

بسا اوقات دوسروں سے نفرت، بلکہ محبت بھی محض بے حقیقت گمان کی بنا پر کی جاتی ہے۔ پھر یہ گمان ورثے کی طرح اگلی نسل کو منتقل کر دیے جاتےہیں۔ یہ طرز عمل بچوں میں تنقیدی شعور پیدا نہیں ہونے دیتا۔ ہر فرد اور ہر بچے کو یہ حق ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں فیصلہ اپنےشعور اور تجزیے کی بنیاد پر کرے۔

سیاست و سماج میں گروہی سطح پر نفرت گروہی مفادات کے تحت پیدا کی جاتی ہے۔ 

عام آدمی پراپیگنڈا کے اثر سے اس کا اسیر ہو جاتا ہے اور تاثر کو حقیقت باور کر لیتاہے۔ پھر اسے اگلی نسل کو منتقل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے۔ کسی وجہ سےاپنے تاثر کو آگے منتقل کرنا ضروری بھی ہو تو بھی بچوں کو بہرحال اس کا حق ہے کہ وہ خود اس بارے میں اپنی معلومات اور اپنے تجزیے کی بنیاد پر راے قائم کریں۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے ہر سماج میں سیاسی اور گروہی تعصبات سے غیر وابستہ عام افراد ہمیشہ اکثریت میں ہوتے ہیں۔ بنیادی انسانی احساسات اور اقدار کے معاملات میں مختلف سماجوں کی یہ اکثریت کم و بیش یکساں رویوں کی حامل ہوتی ہے۔ ذاتی اور خاندانی بہبود ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہ جنگ اورنفرت کے کھیل کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے، مگر یہ گروہی طور پر منظم نہیں ہوتے، اس لیے ان کا اثر سیاسی دائروں میں اُس طرح سامنے نہیں آتا، جس طرح  منظم گروہوں کا نظر آتا ہے، جودرحقیقت سب مل کر بھی اس اکثریت کے مقابلے میں اقلیت ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ عام آدمی کے ووٹ اور پیسے کو سیاسی پراپیگنڈا کے زور پر، خوف کی نفسیات میں مبتلا کر کے گروہی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کر لیا جاتاہے، مگر خوف اور ہیجان کی مصنوعی حالت دور ہوتے ہی اس کی اولین فطری ترجیحات فوراً لوٹ آتی ہیں اوروہ درست جگہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

اس فکر کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کہ سماج کی بنیاد اور اس کی حقیقی پہچان وہ عام آدمی ہوتے ہیں جو گروہی اور نظریاتی تحریکوں سے غیر وابستہ اور فرقہ داریت سے دور رہ کر دن رات ایک عام آدمی کی پرامن اور مفید زندگی بسرکرتے ہیں۔ وہ کسی خبر کا حصہ نہیں بنتے، اس لیےکہ خبر غیر معمولی واقعہ سے بنتی ہے، جب کہ یہ معمول کے کام کرتے ہیں۔ کاروبارحیات معمول کےکاموں سےچلتاہے۔ دنیا کے ہر سماج میں ہر لحظہ معمول کے ہزاروں واقعات نہ ہو رہے ہوں تو نظام حیات یک لخت برباد ہو کر رہ جائے۔ کروڑوں اربوں عام لوگ معمول کے مطابق اپنے کام دھندے نہ کریں تو سماج ایک قدم نہیں چل سکتا۔ عام لوگوں کی معمول کی معاشی اور سماجی سرگرمیاں ہی ہیں جن کے بل پر کچھ لوگ غیر معمولی کام کر کے نمایاں ہوتے رہتے ہیں۔

قوموں کے درمیان برتاؤ اور قوموں کی تاریخ کے مطالعہ میں اسی نکتے کو نہ سمجھنے سے بڑے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سیاست ایسی ہی غیر معمولی خبروں کی تلاش میں رہتی ہے۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں واقعات کو نظروں سے اوجھل کر دیتی ہے جن میں انسانیت اور بقاے باہمی جھلکتی ہے اور ان واقعات کو چن چن کر اکٹھا کرتی ہے جو نفرت کا بیانیہ بن سکتے ہیں۔ 

برصغیر میں ہم اسی سیاست بازی کا شکار ہوئے، پھر اس منتخب تاریخ کو نصاب کا حصہ بنا کر آیندہ نسلوں کو یقین دلا دیا کہ ماضی میں بس یہ چند واقعات ہی اصل حقیقت تھے۔

سیاسی اقلیت جو منظم ہو کر کاروبار سیاست و حکومت سنبھالتی ہے، اسے اس اکثریت کی ترجیحات کو اپنا منشور بنانا چاہیے۔ جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے حصول کے بعد عام لوگوں کی اس اکثریت کے پاس موقع ہے کہ وہ خود کو سیاسی گروہوں کے گروہی مفادات اور رقابتوں کی بھینٹ نہ چڑھنے دے، اپنے خرچ پر اپنی تباہی نہ خریدنے دے، بلکہ انھیں اپنی زندگی کے حقیقی ایجنڈے پر عمل کرنے پرمجبور کرے، اور یہ سوچ کر مجبور کرے کہ دوسرے سماج کا عام آدمی بھی بالکل اسی کی طرح کا عام آدمی ہے، جس کا مقصد زندگی، اچھی زندگی بسر کرنا اوربچوں کے لیے اچھے مستقبل کی کوشش کرنا ہے۔ نفرت کا کاروبار اس کا مفاد ہے اور نہ اس کی ترجیح ۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1] الحجرات ۴۹: ۱۲۔

B