[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت سعد بن خولہ قریش کی شاخ بنو عامر بن لوئی سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے قرشی اور عامری کی نسبتوں سے جانے جاتے ہیں۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ وہ ایران سے یمن میں آئے، پھر بنو عامر کے حلیف بن گئے۔ کچھ کہتے ہیں کہ وہ بنو عامر کے آزاد کردہ (مولی ) تھے۔ دو مختلف روایتوں میں بنو عامر بن لؤی کے حضرت وہب بن سعد یا اسی قبیلے کے حضرت ابور ہم بن عبد العزیٰ کو ان کا آزاد کنندهہ بتایا گیا ہے (انساب الاشراف ۲۵۵/۱)۔ حضرت سعد بن خولہ کی والدہ حضرت وہب کے والد سعد بن ابو سرح کی باندی تھیں۔ بخاری اور مسند احمد کی روایات میں نام حضرت سعد بن خولہ کے بجاے سعد بن عفرا نقل ہوا ہے۔ ابن حجر کہتے ہیں : اگرچہ کہا گیا ہے کہ خولہ ان کی والدہ کا نام اور عفرا ان کا لقب تھا یا ان میں سے ایک ان کی دادی کا نام تھا، لیکن یہ بات فہم سے قریب تر ہے کہ خولہ ان کے والد کا اور عفر اوالدہ کا نام تھا ( فتح الباری ۱۸۸/۴)۔
ابو سعید حضرت سعد بن خولہ کی کنیت تھی ، شاید یہی وجہ ہے کہ ابن الحق نے بنو عامر بن لؤی کے حلیف کے طور پر سعید کے مبہم نام سے ان کا ذکر کیا ہے (السیرۃ النبویۃ، ابن الحق ۲۸۵)۔ ابن جوزی نے بھی مہاجرین حبشہ میں ان کا شمار سعید بن خولہ کے نام سے کیا ہے۔
کتب صحابہ میں حضرت سعد بن خولی کا ذکر بھی کیا گیا ہے ۔ ان کے حالات زندگی وہی بتائے گئے ہیں جو حضرت سعد بن خولہ کے ہیں۔ ابن مندہ کے خیال میں یہ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ ابو نعیم اصفہانی ان کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں: یہ ایک ہی صحابی ہیں جن کی ولدیت میں معمولی لفظی اختلاف کیا گیا ہے۔ ابن سعد کی یہ عبارت اس بات کی تائید کرتی ہے : موسیٰ بن عقبہ ، محمد بن الحق اور محمد بن عمر نے نام سعد بن خولہ بتایا، جب کہ ابو معشر انھیں سعد بن خولی کے نام سے یاد کرتے ہیں (الطبقات الکبری، رقم ۸۰)۔
حضرت سعد بن خولہ کا شمار اسلام کی طرف سبقت کرنے والے صحابہ میں شمار ہوتا ہے، اگرچہ ابن الطلق اور ابن ہشام کی مرتبہ فہارس سابقین میں ان کا نام نہیں دیا گیا۔
حضرت سعد بن خولہ ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔ بنو عامر کے حضرت ابو سبرہ بن ابور ہم، حضرت عبداللہ بن مخرمہ، حضرت عبد اللہ بن سہیل، حضرت سلیط بن عمرو، حضرت سکران بن عمرو، حضرت مالک بن زمعہ اور حضرت حاطب بن عمروان کے ہم سفر تھے۔
حضرت سعد بن خولہ ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو مشرکین مکہ کے اسلام کی افواہ سن کر حبشہ سے جلد لوٹ آئے اور مکہ میں داخل ہو گئے۔ بنو عامر بن لؤی کے حضرت عبداللہ بن مخرمہ ، حضرت عبداللہ بن کیل حضرت ابو بیرونی اور ہم ان کی اہلیہ حضرت ام کلوم بہت سہیل، حضرت سکران بن عمرہ اور ان کی سبیل ا حضرت اور ہم اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ بھی مکہ واپس آگئیں ۔ ان اصحاب نے مکہ ہی سے مدینہ ہجرت کی اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے ماسواے حضرت سکران کے، جنھوں نے ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں وفات پائی اور حضرت عبد اللہ بن سہیل کے، جنھیں ان کے والد سہیل بن عمرو نے بیڑیوں سے جکڑ کر قید کر لیا۔
حضرت سعد بن خولہ مدینہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت کلثوم بن ہرم کے مہمان ہوئے۔
حضرت سعد بن خولہ نے جنگ بدر میں شرکت کی (بخاری، کتاب المغازی، باب ۱۳)۔ واقدی کا یہ قول محل نظر ہے کہ تب ان کی عمر پندرہ برس تھی، ابن سعد کی بتائی ہوئی پچیس برس کی عمر درست لگتی ہے۔ بنو عامر بن لوکی کے حضرت ابو سبرہ بن ابور ہم، حضرت عبد اللہ بن مخرمہ ، حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت عمیر بن عوف اور حضرت حاطب بن عبدالعزیٰ نے بھی غزوہ فرقان میں مشرکین مکہ سے قتال کیا۔ حضرت سعد بن خولہ جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
مشہور روایت کے مطابق حضرت سعد بن خولہ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں وفات پائی۔ اس روایت کو درست نہیں مانا گیا کہ ان کا انتقال کے ھ میں ہوا۔ واقدی کہتے ہیں: آخری وقت حضرت سعد بن خولہ نے مکہ میں سکونت اختیار نہ کی تھی، بلکہ کسی ضرورت کے تحت وہاں آئے تھے۔
یہ روایت درست نہیں لگتی کہ حضرت سعد بن خولہ نے مدینہ ہجرت نہ کی تھی اور مکہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اس بات پر اہل تاریخ کا اتفاق ہے کہ حضرت سعد نے جنگ بدر میں شرکت کی جو ان کے ہجرت کرنے کے بعد ہوئی۔
حضرت سعد بن خولہ کی وفات کے وقت ان کی اہلیہ حضرت سبیعہ بنت حارث حاملہ تھیں، ان کی وفات کے فوراً ( پندرہ یا پچیس دن بعد، نسائی، رقم ۳۵۳۸، ۳۵۳۹) بعد بچے کی ولادت ہوئی ۔ جب وہ نفاس سے پاک ہو گئیں تو نکاح کا پیغام دینے والوں کے لیے بناؤ سنگار کر لیا۔ اس اثنا میں بنو عبد الدار کے حضرت ابو السنابل بن بعکک آئے اور کہا: کیا بات ہے، تم رشتہ مانگنے والوں کے لیے تیار بیٹھی ہو ؟ اللہ کی قسم، تم نکاح نہیں کر سکتی جب تک چار ماہ دس دن کی عدت پوری نہیں کر لیتی۔ حضرت سبیعہ نے اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: وضع حمل کے بعد تو حلال ہو گئی ہے اور حسب خواہش نکاح کرنے کے لیے آزاد ہے (بخاری، رقم ۳۹۹۱۔ مسلم ، رقم ۳۷۱۵۔ ابوداؤد، رقم ۲۳۰۶۔ نسائی، رقم ۳۵۴۸ احمد ، تم ۲۷۴۳۵ - الحجم الکبیر، طبرانی ، رقم ۷ ۲۰۲۰ السفن الکبری، باقی در قم ۱۵۴۶۸۔ صحیح ابن حبان در قم ۴۲۹۴)۔ چنانچہ حضرت سمیعہ نے حضرت ابوالسنابل کا رشتہ چھوڑ کر اپنی قوم کے ایک نوجوان سے بیاہ کر لیا (نسائی، رقم ۳۵۴۹)۔
حضرت سبیعہ کو اختتام عدت کا حکم دے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان الہی نافذ فرمایا:’ واولات الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ‘ ، ’’ اور حمل والیاں ، ان کی عدت یہ ہے کہ اپنے حمل سے فارغ ہو جائیں“ (الطلاق ۶۵: ۴)۔ اس حکم کا حاملہ مطلقہ اور حاملہ بیوہ پر یکساں اطلاق ہو گا، اگرچہ کچھ فقہا نے ان دونوں میں فرق کیا ہے۔
حجتہ الوداع ( فتح مکہ : ترندی) کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص شدید بیمار ہو گئے۔ حضرت سعد جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند نہیں فرماتے کہ آدمی اس جگہ جامرے جہاں سے ہجرت کر چکا ہے ، اس لیے کہا: یارسول اللہ ، مجھے خدشہ ہے کہ سعد بن خولہ کی طرح اس سر زمین میں جان دے دوں گا جہاں سے ہجرت کی تھی۔ آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے شفادے دے (بخاری، رقم ۲۷۴۲۔ مسلم ، رقم ۳۲۲۰۔ احمد ، رقم ۱۴۴۰)۔ آپ نے اپنا دست مبارک حضرت سعد کی پیشانی پر رکھا، ان کے چہرے، سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا اور دعافرمائی : اللہ ، اس کے جسم اور قلب کو تندرست کر دے اور اس کی بیماری دور کر دے ۔ آپ نے انھیں تسلی دی کہ تم ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہو گے۔ عجب نہیں، تیری عمر دراز ہو اور تجھ سے کئی لوگوں (اہل ایمان ) کو فائدہ ہو اور کچھ آدمیوں (کافروں او یہ کی ہجرت کی ضرر پہنچے۔ آپ نے دعا مانگی: اے اللہ ، میرے صحابہ کی تحمیل کرنا، (ماسواے جہاد یا حج کے قیام کے انھیں الٹے پاؤں مکہ واپس نہ لوٹانا۔ آپ نے اس بات پر غم کا اظہار کیا کہ حضرت سعد بن خولہ مصیبت زدہ رہے کہ ن ہو گئے (بخاری، رقم ۱۳۹۵- مسلم در قم ۳۲۱۸۔ بیقی، رقم ۱۲۵۶۵ - المعجم الاوسط، روں اور مرتدوں کو تم سے ہے کہ مکہ میں فوت ہو۔ ابوداؤد، رقم ۲۸۶۴۔ ترندی، رقم ۲۱۱۶ - احمد ، رقم ۶ ۱۵۲۴- السنن الکبری: طبرانی، رقم ۱۱۴۷۔ صحیح ابن حبان، رقم ۲۰۲۶) ۔ آپ نے دعا فرمائی (مسند احم کی روایت میں دو دفعہ اللہ سعد بن عفرا (خولہ) پر رحم کرے (بخاری، رقم ۲۷۴۲۔ احمد ، رقم ۱۴۸۸)۔
حضرت سعد بن ابی وقاص کی بیماری اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کی روایت بیان کرتے ہوئے مسلم، بخاری، مالک، طبرانی، بیہقی اور عبد الرزاق نے صراحت کی کہ یہ واقعہ حجتہ الوداع کے وقت پیش آیا؟ ابوداؤد نے وقت کا تعین نہیں کیا، جب کہ ترمذی، بیہقی کی ایک اور شاشی کی ایک روایت میں فتح مکہ کا سال بتایا گیا ہے۔ مسند احمد اور صحیح ابن حبان میں دونوں روایتیں موجود ہیں۔ مکہ رمضان ھ میں فتح ہوا، فتح کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص بیمار پڑ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں مکہ چھوڑ کر حسین اور طائف روانہ ہوئے، پھر جعرانہ سے عمرہ ادا کرنے کے بعد ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو ان کے مرض کی شدت بڑھ چکی تھی (طبقات ابن سعد ، رقم ۳۹۔ احمد ، رقم ۱۶۵۸۴۔ السنن الکبری، بیہقی، رقم ۱۷۷۸۵) ۔ حجۃ الوداع آپ نے دو سال بعد ۱۰ھ میں ادا فرمایا۔ اس روایت میں بیان کردہ ترتیب نقل کرنے کے بعد طحاوی نے فیصلہ کیا کہ فتح مکہ کی روایت درست ہے ( شرح مشکل الآثار ۲۲۰/۱۳)۔ آٹھویں صدی ہجری کے مورخ تقی الدین فاسی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ۱۰ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر جب حضرت سعد بن ابی وقاص شدید بیمار ہوئے کہ انھیں مکہ میں اپنی جان جانے کا خدشہ ہوا تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سال دو سال پہلے حضرت سعد بن خولہ کی مکہ میں وفات کا ذکر کر کے رنج و غم کا اظہار کیا ہو اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی ہو ( العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین ۵۳۴/۴)۔
حضرت علاء بن حضرمی کی روایت ہے کہ مہاجر طواف افاضہ کے بعد مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کرے (بخاری، رقم ۳۹۳۳۔ مسلم، رقم ۳۲۷۶) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا: تم میں جس کی مقدرت میں مدینہ میں مرنا ہو، مدینہ ہی میں جان دے ، میں یہاں مرنے والے کے حق میں گواہی دوں گا ترندی در قم ۳۹۱۷۔ ابن ماجه ، رقم ۳۱۱۲۔ السنن الکبری ، نسائی، رقم ۱۹۷۱ - احمد ، رقم ۵۴۳۷) مر نا تو کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا، لیکن اگر ایک شخص مدینہ میں مقیم رہے اور وہاں سے نہ نکلے تو غالب امکان ہے کہ وہیں دم دے گا۔ کچھ بعید نہیں کہ آپ کا یہ فرمان مہاجرین کے لیے مخصوص ہو، کیونکہ ان کے لیے واپس مکہ جا کر مر نا ان کی ہجرت کے منافی ہو سکتا تھا، اسی لیے مہاجرین آخری وقت مدینہ میں گزار نا پسند کرتے تھے ، حضرت عمر نے دعا کی : اے اللہ ، مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور میری موت تیرے رسول کے شہر میں آئے۔
حضرت سعد بن خولہ کی وفات کے بعد جنم لینے والے بچے کے علاوہ ان کی اور اولاد نہ ہوئی۔ مطالعہ مزید : کتاب المغازی ( واقدی)، السیرۃ النبویۃ ( ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ( ابن سعد)، معرفۃ الصحابۃ (ابو نعیم اصفہانی)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، انساب الاشراف (بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر، البدایۃ والنہایۃ ( ابن کثیر)، الاصابۃ فی تميز الصحابۃ (ابن حجر)، العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین ( تقی الدین فاسی )۔
ـــــــــــــــــــــــــ