HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

قرآن میں ’اہل البیت‘ سے مراد کیا ہے؟ (۱)

علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی

مرتب: ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

روایات کی تحقیق

 

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

(نوٹ: اصل تحریرعلامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کے قلم سے ہے جو ان کی تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ سورۂ احزاب سے ماخوذ ہے۔ البتہ بعض ضروری حوالوں کا اضافہ راقم خاک سارنے کیا ہے، بعض نوٹس بڑھائے ہیں اور اس کی تھوڑی تہذیب کردی ہے۔ مصنف اور مرتب کی عبارتوں میں فرق کرنے کے لیے ’غ‘ سے اشارہ کردیاہے۔ ڈاکٹرمحمدغطریف شہباز ندوی)

 

يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.  وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰي وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗﵧ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا. (الاحزاب۳۳: ۳۲- ۳۳ )
’’اے نبی کی بیویو، تم ایسی نہیں ہو، جیسی عورتوں میں سے کوئی عورت ہوتی ہے، اگر تم متقی رہو۔لہٰذا بولنے کی نزاکت نہ دکھانا، جس کا نتیجہ یہ ہو کہ بے ہودہ توقع باندھ لے وہ شخص کہ جس کے دل میں کچھ روگ ہو اور بھلی بات کہو۔ اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور (باہر نکل کر) زیب و زینت کی نمایش نہ کرو جیسے سابق زمانۂ کفر میں عورتیں اپنی نمایش کیا کرتی تھیں۔اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرنا۔ اے نبی کے گھر والو، (تمھیں یہ ہدایات دے کر) اللہ تو یہ ہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور فرمائے اور تمھیں خوب پاک صاف کر دے (تاکہ تمھاری پاکیزہ سیرت تمام عورتوں کے لیے نمونہ بنے)۔‘‘

منافقین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے بھی دشمن تھے اور عزت کے بھی لاگو تھے۔ ہو سکتا تھا کہ ان میں سے کوئی بدمعاش دیکھ بھال کر ایسے وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر آ دھمکے جب آپ باہر تشریف لے گئے ہوں اور آپ کی کسی حرم سے بات کرے۔ اور ایسے شخص کو اگر محسوس ہو جائے کہ کوئی عورت اس سے نرمی و نزاکت سے بات کر رہی ہے تو اسے امید بندھتی ہے کہ یہ میرے دام ہوس میں آ سکتی ہے، اس لیے اسے بے حیائی کے اقدامات کرنے کی جرأت ہو جاتی ہے،لیکن باوقار سخت اور روکھے پھیکے لہجے میں کوئی عورت بولتی ہے تو سمجھ لیتا ہے کہ یہ دام میں آنے والی نہیں ہے۔ یہ مایوسی اُسے آگے قدم بڑھانے سے روک دیتی ہے کہ :

 برو ایں دام بر مرغ دگر نہ … کہ عنقارا بلند ست آشیانہ

 اس لیے ازواج مطہرات کو ہدایت فرمائی گئی کہ کسی اجنبی سے نرم و نازک لہجہ میں بات نہ کریں، کیونکہ اگر وہ کوئی ایسا شخص ہو کہ جس کے دل میں نفاق یا بے حیائی کا روگ بیٹھا ہوا ہے تو وہ نرم و نازک اور نغمہ ریز لہجے میں بات سن کر خبیثانہ خام خیالی میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ ’قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا‘، یعنی تم سے ملنے کے لیے جو عورتیں آئیں، انھیں نصیحت کرو۔ بھلی باتوں کی تلقین کرو۔تیسری یہ کہ ’وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰي‘، ’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور (باہر نکل کر) زیب و زینت کی نمایش نہ کرو، جیسے سابق زمانۂ کفر میں عورتیں اپنی نمایش کیا کرتی تھیں‘‘۔

(تنبیہ)  ’ قَرْنَ‘ امر حاضر جمع مؤنث کا صیغہ ہے، ’قَارَ‘ ماضی ہے، ’يَقارُ‘ مضارع جیسے ’خاف یخافُ‘۔ اس کے معنی ہیں: ’’جمع ہونا، ایک جگہ رہنا‘‘۔ اسی سے ’قارَة‘ ہے، جو گول پہاڑی اور ٹیلے کے معنی میں ہے۔ اس ارشاد میں عطف تفسیری ہے، یعنی ’لَا تَبَرَّجْنَ‘ سے ’قَرْنَ‘ کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔

چوتھی یہ کہ ’وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ‘، ’’اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرنا‘‘۔

(تنبیہ) کسی عقل مند کو اس میں شبہ نہیں ہو سکتا کہ ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘، ’’(ا ے نبی کے گھر والو، (تمھیں یہ ہدایات دے کر) اللہ تو یہ ہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور فرمائے اور تمھیں خوب پاک صاف کر دے (تاکہ تمھاری پاکیزہ سیرت تمام عورتوں کے لیے نمونہ بنے)‘‘ میں خطاب ازواج مطہرات سے ہے اور ’’اَهْلَ الْبَيْتِ‘‘کی تفسیر سورۂ ہود میں گزر چکی ہے کہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو خطاب کر کے ’رَحْمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ‘ کہا تھا۔ فارسی اور اردو میں ’’اہل خانہ‘‘ بھی اس معنی میں بولا جاتا ہے۔ اس معنی و مفہوم میں یوں تو کوئی خفا نہیں، لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا جو ان سے اور ان کے فرزندوں ــــــ

حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما ــــــ سے عقیدت مندی میں حدود سے متجاوز اور غلو و افراط میں مبتلا ہے۔ ان لوگوں نے یہ غضب ڈھایا ہے کہ لفظ ’’اَهْلَ الْبَيْتِ‘‘ کو حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما اور ان کی ذریت کے لیے مخصوص کر لیا اور اس آیت میں ان ہی کو مراد بتایا اور ازواج مطہرات کو ’’اَهْلَ الْبَيْتِ‘‘ سے خارج قرار دیا ہے، حالاں کہ یہ قطعاً بے تکی بات ہے۔ جو اشخاص کسی شخص کے گھر میں اُس کی کفالت میں ہوتے ہیں، وہ اس کے اہل بیت ہیں۔ بیوی یا بیویاں، غیر شادی شدہ اولاد، زیر کفالت چھوٹے بہن بھائی والدین الگ نہ رہتے ہوں اور بوڑھے ہو جانے کی وجہ سے بیٹا ہی ان کی کفالت کر رہا ہو تو وہ بھی اس کے اہل بیت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اور شادی ہو جانے کے بعد جب بیٹا یا بیٹی یا بہن الگ گھر میں رہنے لگیں تو وہ اس کے اہل بیت سے خارج ہو جاتے ہیں، لیکن بیوی عمر بھر اپنے شوہر کے اہل بیت میں داخل اور اس لفظ کا سب سے بڑھ چڑھ کر مصداق ہو ا کرتی ہے۔ ہاں خلع یا طلاق کی وجہ سے الگ ہو جائے تو وہ اہل بیت سے نکل جاتی ہے۔

 حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں ــــــ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن ــــــ اپنے گھر بر کی ہو جانے سے پہلے آپ کے اہل بیت میں سے تھیں۔ حضرت فاطمہ شادی کے بعد حضرت علی کی اہل بیت ہو گئیں۔ اُن کے بیٹے اور بیٹیاں بھی حضرت علی کے ہی اہل بیت میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں ان حضرات کا شمار مجازاً ہی ہو سکتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ مکہ میں چونکہ بچپن سے ہی آپ کی کفالت میں تھے، اس لیے وہ آپ کے اہل بیت میں داخل تھے۔ شادی کے بعد وہ مستقل گھر والے (صاحب البیت) ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں نہیں رہے اور عام و معروف بات یہ ہی ہے۔ بیٹا جب تک الگ گھر نہیں بساتا اور باپ کی کفالت میں رہتا ہے، اپنے باپ کے اہل بیت میں شامل ہوتا ہے۔ چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی کفالت میں ہو تو اس کے اہل بیت میں سے ہوتا ہے، لیکن جب اس کا الگ گھر بس جائے تو اس کی مستقل حیثیت ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بیٹی شادی ہو جانے اور الگ گھر بار کی ہو جانے کے بعد باپ کے اہل بیت سے خارج ہو جاتی اور اپنے شوہر کی گھر والی اور اہل البیت بن جاتی ہے۔

 سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غالی عقیدت مندوں نے یہ عقیدہ تراش لیا کہ حضرت علی و حضرت فاطمہ کی ذریت میں بارہ امام ہیں اور وہ سب قطعاً معصوم ہیں۔ ان کا کوئی فعل گناہ نہیں یا ان سے کوئی گناہ سرزد ہونا ناممکن ہے۔ اس عقیدے کو لوگوں میں مقبول بنانے کے لیے انھوں نے اللہ کے ارشاد ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘کو بطور دلیل استعمال کیا اور بتایا کہ یہ آیت تطہیر ’’پنج تن پاک‘‘، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و فاطمہ و علی و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ چنانچہ اعمش نے عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی کوفی سے اور اس نے ابو سعید، یعنی مشہور کذاب ابن السائب کوفی رافضی کلبی سے روایت کی ہے۔ اس نے کہا:

 قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: نزلت ھذہ الاٰية في خمسة: في و في علي و حسن و حسین و فاطمة: ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ الخ. (تفسیر ابن کثیربحوالہ فتح القدیرمحمدبن علی الشوکانی ۴ /۲۷۹)

عوام میں جو لوگ قرآن کریم کی چند سورتیں ہی یاد رکھتے تھے اور سورۂ احزاب جیسی بڑی سورتیں انھیں یاد نہ تھیں، انھیں آسانی سے سمجھا لیا گیا کہ اس آیت میں خطاب علی و فاطمہ و حسن و حسین سے ہے، لہٰذا یہ حضرات پاک و معصوم ہیں۔ پھر ان کی نسل میں یہ پاکی و عصمت منتقل ہوئی ہے، مگر جن لوگوں کو سورۂ احزاب یاد تھی، انھیں یہ سمجھا لینا مشکل تھا۔ وہ یہ ماننے پر کیسے آمادہ ہو سکتے تھے کہ اس ارشاد میں خطاب علی و فاطمہ و حسن و حسین سے ہو، کیونکہ اس ارشاد کا محل اور سیاق و سباق یہی بتا رہا ہے کہ خطاب ازواج مطہرات سے ہے۔ اس مشکل کا حل انھوں نے یہ نکالا کہ متعدد صحابۂ کرام اور حضرت عائشہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرکے یہ حدیث گھڑدی کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں کو، یعنی علی و فاطمہ و حسن و حسین کو اپنے اہل بیت بتایا ہے۔ کذاب و دروغ باف لوگ اس جھوٹی حدیث کو مسلمانوں میں پھیلانے میں مصروف ہوگئے اور الفاظ بدل بدل کر اس کے مختلف و متعدد طرق کا صور اس قدر زور و شور سے پھونکا کہ اچھے خاصے اہل نظر بھی اس کے طرق کی کثرت کو دیکھ کر دھوکے میں آ گئے، (حالاں کہ کثرت طرق ہمیشہ صحت کا فائدہ نہیں دیتا، جیسا کہ علامہ زیلعی حنفی (متوفی ۷۶۲) کہتے ہیں کہ کثرت طرق ہمیشہ ہی قوت کا فائدہ نہیں دیتی، بلکہ اس کا عکس بھی ہوتا ہے (’قد لا یزید کثرة الطرق الاضعفًا‘ نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ ۱/ ۳۶۰،غ)۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ  نے اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے:

’’ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ سے ایک مرتبہ علی کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضور کی وہ بیٹی تھی جو آپ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔ اس کے بعد حضرت عائشہ نے یہ واقعہ سنایا کہ حضرت علی اور فاطمہ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دعا فرمائی کہ خدایا، یہ میرے اہل بیت ہیں۔ ان سے گندگی کو دور کر دے اور انھیں پا ک کر دے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمایئے)، حضور نے فرمایا: تم الگ رہو تم تو خیر ہو ہی۔ اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم، ترمذی، احمد، ابن جریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدثین نے ابو سعید خدری حضرت عائشہ حضرت انس حضرت ام سلمہ حضرت واثلہ بن اسقع اور بعض دوسرے صحابہ سے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا ان لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھیراتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن ۴ /۹۳)

 میں مولانا مودودی کی ذکر کردہ حدیث عائشہ اور نشان دادہ دیگر احادیث پر اِن شاء اللہ تعالیٰ کلام کروں گا، جس سے ان حدیثوں کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جائے گی۔

ا۔ ابن ابی حاتم کے حوالہ سے حضرت عائشہ کی طرف منسوب حدیث، جومولانا مودودی رحمہ اللہ  نے ذکر کی ہے، اس کی اسناد یہ ہے: ’قال: ثنا ابي ثنا سُرَیْج بن یونس أبوالحارث ثنا محمد بن یزید عن العوام بن حوشب عن عم له قال: دخلتُ مع أبي علی عائشة فسألتھا عن علي الخ‘، یعنی عوام بن حوشب کو یہ حدیث اپنے ایک چچا سے پہنچی ہے۔ اُس چچا کا بیان ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے ان سے علی کے متعلق پوچھا: یہ عوام بن حوشب کا ایک چچا کیا نام رکھتا تھا؟ کیسا تھا؟ ثقہ یا غیر ثقہ؟ اس کا کوئی سراغ نہیں لگ سکتا۔ اس مجہول و غیر معلوم شخص کی بات کوئی قیمت نہیں رکھتی اور جس حدیث کا راوی مجہول ہو، وہ پایۂ اعتبار سے ساقط ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھوٹا ہونے کے ساتھ احمق بھی تھا۔ یہ حدیث گھڑ کر اس نے بزعم خویش حضرت عائشہ سے یہ الزام رفع کرنے کی کوشش کی تھی کہ آپ علی رضی اللہ عنہ سے رنجش رکھتی تھیں۔

ب۔ رہی ابو سعید کی حدیث تو اس کی روایت عطیہ عوفی نے کی ہے اور عطیہ سے سلیمان بن مہران اعمش اور فضیل بن مرزوق نے۔ اعمش کی روایت یہ ہے :’عن الأعمش عن عطیة عن أبي سعید قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم نزلت ھذہ في خمسة: في و في علي و حسن و حسین و فاطمة ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ﴾ ‘ عطیہ کا بیان ہے کہ ابوسعید نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا یہ ارشاد پانچ اشخاص کے بارے میں ہے، یعنی میرے اور علی و حسن و حسین و فاطمہ کے بارے میں (ابن جریرالطبری۵ / ۲۲)۔ واللہ العظیم یہ قطعاً جھوٹ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات فرمائی ہو جو اس ارشاد الٰہی کے سیاق و سباق کے بالکل خلاف ہو (علاوہ ازیں ابوسعید،عطیہ عوفی اوراعمش، سب کے سب متہم راوی ہیں،غ )۔

اور فضیل بن مرزوق کی روایت یہ ہے: ’عن عطیة عن أبي سعید عن أم سلمة رضي اللّٰه عنها قالت: إن ھذہ الاٰية نزلت في بیتي ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ وأنا جالسة علی باب البیت فقلت: یا رسول اللّٰه، ألست من أھل البیت؟ فقال: إنك إلی خیر. أنت من أزواج النبي صلی اللّٰه علیه وسلم. قالت: و في البیت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم و علي و فاطمة و الحسن و الحسین ‘، ’’عطیہ نے ابو سعید سے اور ابو سعید نے حضرت ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت میرے گھر میں نازل ہوئی، اس وقت میں گھر کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ فرمایا: تم خیر کی طرف راجع ہو، تم نبی کی بیویوں میں سے ہو۔ اُس وقت گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی و فاطمہ و حسن و حسین تھے‘‘ (تفسیرابن جریرالطبری ۷/ ۲۲)۔

یہ بھی قطعاً دروغ و فروغ ہے۔ ہر شخص، جس نے قرآن پڑھا ہو، جانتا ہے کہ یہ ارشاد، یعنی ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ‘ مستقل آیت نہیں ہے، بلکہ آیت کا ٹکڑا ہے، اور الگ سے نازل نہیں ہوا، بلکہ پوری آیت کے ساتھ نازل ہوا ہے۔ حضرت ام سلمہ ایسی غلط بات کیسے کہہ سکتی تھیں!

اور ان دونوں روایتوں کی اسناد میں ابو سعید سے مراد حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مشہور صحابی نہیں ہیں، بلکہ یہ ابو سعید مشہور کذاب ابن السائب کوفی رافضی ہے، جس کے کذاب ہونے پر تمام اہل علم متفق ہیں، یہاں تک کہ متعدد اہل علم نے اسے کافر قرار دیا ہے۔ اس کا نام محمد تھا۔ اس کے غلو اور دروغ بافی کا اندازہ اس بیان سے لگائیے کہ کہتاہے : ایک بار میں ایسا بیمار پڑا کہ میری یادداشت ضائع ہو گئی۔ جو کچھ یاد تھا، سب بھول گیا۔ تب میں آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے میرے منہ میں لعاب دہن ڈالا تو یادداشت بالکل عود کر آئی: ’مرضت مرضة فنسیت ماکنت أحفظ فأتیت اٰل محمد فتفلوا في في فحفظت ما کنت نسیت‘۔ اسی کذاب نے کہا ہے: ’کان جبریل یوحي إلی النبي صلی اللّٰه علیه وسلم فقال النبي لحاجته و جلس علي فأوحٰی إلی علي‘ (یعنی ایک بارجبریل وحی لے کرآئے تورسول اللہ کوحاجت پیش آگئی آپ اس کوپوراکرنے کے لیے اٹھ گئے، علی بیٹھے ہوئے تھے توجبریل نے علی کووحی دے دی )(دیکھیے :تہذیب التہذیب ۹/  ۱۵۸،غ)۔

عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی کوفی اس کذاب کا خاص شاگرد ہے۔ یہ بھی غالی رافضی تھا۔ اس نے کچھ حدیثیں حضرت ابو سعید خدری سے سنی تھیں۔ ان کی وفات کے بعد اس نے ابن السائب کلبی کی شاگردی اختیار کی۔ ابن السائب کلبی کی کنیت ابو النضر معروف تھی، مگر عطیہ عوفی نے اس کی کنیت ابو سعید قرار دے لی اور رفض و تشیع کی جو باتیں اور آیات قرآن کی جو غلط و گمراہ کن تفسیر اس سے سنتا تھا، دوسروں سے یہ کہہ کر بیان کرتا تھا کہ ’حدثنا أبو سعید بکذا‘،’’ہم سے ابو سعید نے یہ بیان کیا‘‘ (حوالہ ٔبالا)  تاکہ سننے والے یہ سمجھیں کہ عطیہ نے یہ بات حضرت ابو سعید خدری سے سنی ہے، کیونکہ اگر صاف صاف یوں کہتا کہ ’’ہم سے ابن السائب کلبی نے بیان کیا‘‘ تو عام اہل علم کلبی کو کذاب جاننے کی وجہ سے اس کی بات قبول نہ کرتے۔ عطیہ بھی اگرچہ گم راہ تھا، لیکن وہ اپنے استاد کلبی کی طرح خود جھوٹ نہ گھڑتا تھا، بس جھوٹ کی روایت کرنے اور تلبیس کے ساتھ کلبی کی بیان کردہ جھوٹی باتوں کو پھیلانے پر ہی اکتفا کیے ہوئے تھا اور یہ اس احمق کی نری خوش فہمی تھی، کیونکہ ازروے حدیث صحیح دوسرے شخص کی بیان کی ہوئی جھوٹی بات کو جان بوجھ کر بدون تردیدنقل کرنے والا بھی جھوٹا ہے اور جس طرح  وہ شخص دوزخی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹی بات گھڑے، اسی طرح وہ بھی دوزخی ہے جو جان بوجھ کر کسی کذاب کی گھڑی ہوئی حدیث بدون تردید بیان کرے۔

عطیہ اور کلبی کے متعلق یہ بات ہر وہ شخص جانتا ہے جو واقعی علم حدیث رکھتا ہو۔ مولانا مودودی نے ’’ابوسعید خدری‘‘ لکھا ہے۔ اگر ’’خدری‘‘ کا اضافہ موصوف نے عطیہ کی روایت میں غلط فہمی کی بنا پر کر دیا ہے، یہ خیال کر کے کہ جب اس روایت کاراوی ’’ابو سعید‘‘ ہے تو یہ ابو سعید خدری ہی ہوں گے تو یہ جہل و بد احتیاطی ہے۔ موصوف پر لازم تھا کہ حدیث جاننے والوں سے اس کی تحقیق کر لیتے یا کم از کم ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں عطیہ عوفی اور ابن السائب الکلبی کا تذکرہ دیکھ لیتے۔ اور اگر جان بوجھ کر لفظ ’’خدری‘‘ کا اضافہ کر دیا ہے تو یہ دجل و تلبیس اور مغالطہ بازی ہے۔[*]

ج ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے منسوب روایت کی، جسے مولانا مودوی نے ابن ابی حاتم کے حوالہ سے درج کیا ہے، حقیقت واضح کی جا چکی ہے۔ دوسری حدیث جس کی تخریج ابن جریر و مسلم نے کی ہے، یہ ہے:’عن زکریا عن مصعب بن شیبة عن صفیة بنت شیبة قالت: قالت عائشة رضي اللّٰه عنها: خرج النبي صلی اللّٰه علیه وسلم ذات غداة و علیه مرط مرحل من شعر أسود فجاء الحسن فأدخله معه، ثم جاء الحسین فأدخله معه، ثم جاءت فاطمة فأدخلھا معه، ثم جاء علي فأدخله معه، ثم قال: ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ ‘، ’’زکریا بن ابی زائدہ نے مصعب بن شیبہ بن جبیر بن شیبہ سے مصعب نے اپنے باپ کی پھوپھی صفیہ بنت شیبہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ایک دن سویرے ہی سویرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کالی کملی اوڑھے ہوئے، جس پر کجاوہ کے نقش بنے ہوئے تھے، نکلے۔ تو حسن آگئے۔ آپ نے انھیں کملی میں داخل کر لیا، پھر حسین آ گئے، انھیں بھی اسی میں داخل کر لیا، پھر فاطمہ آ گئیں، انھیں بھی اس میں لے لیا، پھر علی آ گئے، انھیں بھی اسی میں داخل کر لیا۔ پھر اللہ کا یہ ارشاد پڑھا:’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ‘۔اس حدیث کا راوی مصعب بن شیبہ متکلم فیہ ہے۔ ائمۂ رجال کے اس کے بارے میں اقوال یہ ہیں:

(امام احمد): ’روی أحادیث مناکیر‘ (اس نے متعدد غلط حدیثیں روایت کی ہیں)۔

(ابوحاتم): ’لا یعدونه و لیس بقوي‘ (اہل علم اسے اچھا نہیں سمجھتے، قوی نہیں ہے)۔

(نسائی): ’منکر الحدیث‘۔ ’في حدیثه شيء‘ (غلط بیان شخص ہے۔ اس کی بیان کردہ حدیث میں ضعف ہے)۔

(ابن عدی): ’تکلموا في حفظه‘ (اس کی یادداشت کے بارے میں اہل علم نے کلام کیا ہے)۔

اور یحییٰ بن معین و عجلی نے اسے ثقہ بتایا ہے (تہذیب التہذیب ۱۰ / ۱۴۷)۔

 ان اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مصعب بن شیبہ صوم و صلوٰۃ کا پابند اور غیر فاسق تھا۔ اسی وجہ سے ابن معین و عجلی نے اسے ثقہ قرار دیا ہے، مگر ضعیف الحفظ ہونے کی وجہ سے روایت حدیث میں اس سے غلط بیانیاں سرزد ہوئی ہیں، اسی لیے اسے منکر الحدیث بتایا گیا ہے۔ دوسری علت اس میں یہ ہے کہ صفیہ بنت شیبہ مصعب کے دادا جبیر بن شیبہ کی بہن تھی۔ مصعب نے اپنے باپ کی اس پھوپھی سے کوئی حدیث نہیں سنی، لہٰذا مصعب کی صفیہ سے روایت منقطع ہے۔ معلوم نہیں کہ دراصل مصعب نے یہ حدیث کس سے سنی تھی اور وہ شخص کیسا تھا۔ پس اول تو مصعب ضعیف شخص ہے، پھر اس کی یہ روایت منقطع ہے، لہٰذا یہ صحیح نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصعب نے حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب حدیث کسی سے سنی ہو گی، جو اسی مضمون کی حامل ہے۔ مصعب نے غلطی سے اسے حدیث عائشہ بنا دیا ہے، یعنی ام سلمہ کی بجائے عائشہ  کا ذکر کر دیا ہے۔ الغرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اس حدیث کی نسبت درست نہیں ہے۔

د۔اب حدیث انس کا مطالعہ کیجیے۔ حماد بن سلمہ کا بیان ہے: ’ أخبرنا علي بن زید عن أنس بن مالک قال: إن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم کان یمر بباب فاطمة رضي اللّٰه عنها ستة أشھر إذا خرج إلی صلاة الفجر یقول: الصلاة یا أھل البیت ﴿اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (اخرجه أحمد من حدیث عفان و اخرجه الترمذی من حدیث عبد بن حمید عن عفان) ‘، ’’علی بن زیدبن جدعان نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۶ ماہ تک جب نماز فجر کے لیے نکلتے تو حضرت فاطمہ کے گھر کے دروازے پر گزرتے ہوئے فرمایا کرتے: اے اہل بیت، نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ یہ کہہ کر اللہ کایہ ارشاد پڑھتے: ’اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا‘۔‘‘ اس کا راوی علی بن زید بن جدعان ہے، جو جھوٹا اور رافضی شخص تھا۔ اسی نے حضرت معاویہ کے متعلق یہ حدیث گھڑی تھی: ’’جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قتل کر دینا‘‘۔ تمام اہل علم اس کے غیر ثقہ ہونے پر متفق ہیں۔ تفصیل کے لیے ’’تہذیب التہذیب‘‘ وغیرہ ملاحظہ ہو:  علی بن زیدبن جدعان: ابن سعدکہتے ہیں: ’فیه ضعف لایحتج به‘، احمدنے کہا: ’لیس بشيء، ضعیف الحدیث، یحيٰ: ضعیف، ضعیف في کل شییء، عجلی: کان یتشیع لابأس به، جوزجانی: واهي الحدیث ضعیف لایحتج به أبوزرعه: لیس بقوي‘(۲ /۱۶۴)۔

معنی کے اعتبار سے دیکھیے تو ۶ ماہ کا ذکر کوئی تک نہیں رکھتا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کافی طویل عمر پائی ہے اور بکثرت لوگوں نے ان سے حدیثیں سنی ہیں، مگر علی بن زید کے علاوہ اور کسی نے بھی حضرت انس سے یہ حدیث روایت نہیں کی۔ یہ حدیث علی بن زید کی ہی گھڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت انس کی طرف اس کی نسبت غلط ہے۔

ه۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب حدیث کثیر الطرق ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اس کے آٹھ طریق ذکر کیے ہیں (دیکھیے :ابن کثیر ۶ / ۴۱۱، تحقیق: سامی بن محمدسلامہ،دارالطیبہ للنشر والتوزیع )، لیکن ان میں سے ایک طریق بھی درجۂ صحت کو نہیں پہنچتا۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[*] یہ خرافات اصل میں ابن جریرنے نقل کی ہیں، وہیں سے ابن کثیرنے لی ہیں اوربعض پر تبصرے بھی کیے ہیں۔ بعد کے تمام تفسیری ذخیرہ کے یہی دوماخذہیں۔ مولانامودودی کامرجع بھی اصلاً ابن کثیر ہی ہے، اس لیے صرف مولانا کو قصوروار نہیں ٹھیرایا جاسکتا۔ہمارے خیال میں بنیادی غلطی روایات کومتن قرآن پر حاکم بنادینے کے اصول کی ہے۔غ


B