HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

حیات امین احسن (۴)

با ب ۵

جماعت اسلامی سے علیحدگی

قیام پاکستا ن کے بعد مولانا مودودی کی یہ راے بن گئی کہ مسلم لیگ کی ذمہ داری پاکستا ن بنانا تھا، مگر اس ملک کو چلانے کی وہ اہل نہیں۔ایک اسلامی ریاست کو چلانے کے لیے جیسے افراد درکار ہیں،وہ جماعت اسلامی ہی کے پاس ہیں، اس لیے اقتدار جماعت کو ملنا چاہیے۔ پاکستانی عوام دل وجان سے نفاذ اسلام چاہتے ہیں،چنانچہ جماعت کے حکومت میں آنے میں اب کوئی رکاوٹ نہیں۔جماعت کے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں امین احسن کی راے مختلف تھی۔وہ اسے قبل از وقت اور جماعت کے مقصد کے لیے سخت مضر سمجھتے تھے، مگر جماعت ان کی قائل نہ ہوئی۔ اس ضمن میں امین احسن نے ایک انٹرویو میں بتایا:

’’مولانا مودودی صاحب اورمیر ے درمیان ایک ذوق و فکر کا اختلاف شروع ہی سے رہا ہے، لیکن یہ کوئی ایسا اختلاف نہیں تھا کہ میں ان کے ساتھ تعاون نہ کر سکوں۔ جماعت کی مجلس شوریٰ میں میری رائے بہت موثر تھی۔ اس بنا پر میں، صحیح یا غلط، یہ محسوس کرتا تھا کہ میں جماعت کی پالیسی کو بحیثیت مجموعی کسی غلط راہ پر جانے سے روک سکتا ہوں۔ اس لیے اس ذوق و فکر کے اختلاف کے باوجود جماعت سے میرا جو تعلق قائم ہو گیا تھا میں نے اسے برقرار رکھنا چاہا۔
قیام پاکستان کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ مولانا مودودی صاحب میں کچھ ایسی تبدیلیاں ہو گئی ہیں جو بالآخر گمراہ کن نتائج تک منتہیٰ ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ جوجتھہ بندی قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اب جلد سے جلد اس جتھہ بندی کی قیمت وصول کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری چیز یہ تھی کہ ان کے بعض معتقدین نے انھیں یہ باور کرا دیا کہ اب اس ملک کے عوام مسلم لیگی قیادت کو آپ کی قیادت سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے لوگوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ خیال واقعی مولانا کے اندر جڑ پکڑ گیا ہے اور وہ ایسا سمجھنے لگے ہیں۔ تیسری چیز یہ تھی کہ ان کے بعض غالی عقیدت مندوں نے انھیں یہ باور کرا دیا کہ تحریکیں صرف اصول اور نظریات پر نہیں چلا کرتیں، بلکہ اس کے لیے شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے، اور شخصیت آپ سے آپ نہیں بنتی، بنائی جاتی ہے۔ اس لیے جب تک ہم آپ کے لیے وہ تمام لوازم اختیار نہیں کریں گے جو شخصیت بنانے کے لیے ضروری ہیں تب تک یہ کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا مودودی صاحب پر ان کے ساتھیوں کا یہ جادو بھی کارگر ہو گیا تھا۔
میرے علم میں جب یہ باتیں آئیں تو مولانا سے مختلف ملاقاتوں میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ محض ایک وسوسہ ہے کہ اس ملک کے عوام آپ کی قیادت سے مسلم لیگ کی قیادت کو بدلنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت دور کی چیز ہے، اس کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔ میں نے یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ تحریکیں شخصیت سے چلتی ہیں، لیکن شخصیت مصنوعی طور پر نہیں بنائی جاتی، بلکہ خدمت سے آپ سے آپ بنتی ہے۔ آپ جو خدمت کر رہے ہیں یہی خدمت آپ کو بنائے گی اور اگر اس مقصد کے لیے مصنوعی طریقے اختیار کیے گئے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے لیے وہ تمام چیزیں اختیار کی جائیں گی جو موجودہ زمانے میں لیڈری کے لوازم و خصوصیات میں سمجھی جاتی ہیں اور جنھیں آپ حرام سمجھتے ہیں۔
مولانا مودودی صاحب میری یہ باتیں حسب عادت نہایت توجہ سے سنتے اور مجھے اطمینان دلاتے کہ میں ایسی غلط فہمی میں نہیں ہوں، مگر حقیقت میں وہی سب کچھ ہونے لگا جس کی طرف میں ان کو توجہ دلاتا رہا تھا۔ چنانچہ لیڈروں والے سارے لوازم اختیار کیے گئے، ہر قدم پر تصویریں لی جانے لگیں۔ جہاں جاتے وہاں پہلے سے اطلاع پہنچ جاتی کہ استقبال کیا جائے، اسٹیشن پر لوگ آئیں اور خیر مقدم کے نعرے لگیں۔ ان چیزوں سے میرا یہ احساس قوی ہو گیا کہ گاڑی اب اسی راستے پر چل نکلی ہے۔ تاہم کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو مجھے مجبور کردیتی کہ میں جماعت سے الگ ہو جاتا۔ میں اپنے آپ کو شوریٰ میں ایک موثر وجود سمجھتا تھا اور میرا خیال تھا کہ میں ان شاء اللہ جماعت کو بحیثیت مجموعی کسی غلط راستے پر جانے نہیں دوں گا۔ بالآخر پنجاب کے پہلے الیکشن کا مرحلہ پیش آ گیا۔
اس وقت میری اور میرے بعض ہم خیال دوستوں کی رائے یہ تھی کہ فی الوقت الیکشن میں حصہ لینا جماعت کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔ لیکن چونکہ مولانا مودودی صاحب کا ذہن الیکشن لڑنے کے لیے پوری طرح تیار ہو چکا تھا، اس لیے ہم شدت کے ساتھ اس کی مخالفت بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ الیکشن میں مولانا مودودی صاحب ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت سے میدان میں اتر گئے اور ان کے وہ ساتھی جو ایسے ہی کسی موقع کے انتظار میں تھے، الیکشن میں پوری طرح سرگرم عمل ہو گئے۔[1]؎ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ الیکشن میں شریک ہوکر جماعت نے ان تمام اخلاقی و مذہبی اصولوں کو پامال کر دیا جن کا وہ اب تک اعلان کرتی رہی تھی۔ بحیثیت ایک سیاسی جماعت وہ کوئی کامیابی نہ حاصل کر سکی۔ بلکہ جتنے لوگ جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے میدان میں اترے تھے ان میں سے شاید کوئی صاحب بھی اپنی ضمانت واپس نہیں لے سکے۔
اخلاقی حیثیت سے جماعت نے جن سنگین غلطیوں کا ارتکاب کیا ان کی وجہ سے جماعت میں ایک شدید قسم کا بحران پیدا ہو گیا کہ ہم کس لیے اٹھے تھے، ہمارے دعوے کیا تھے، آج تک کیا اعلان کرتے رہے اور کس طرح ایک ہی آزمایش میں سب کچھ کھو کر رکھ دیا۔ اس بحران کے نتیجہ میں جب ایک بددلی سی پیدا ہوئی تو مجلس شوریٰ نے غالباً ۱۹۵۶ ء کے اوائل میں چند ارکان پر مشتمل ایک جائزہ کمیٹی مقرر کی تھی جس کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ وہ تمام حالات کا جائزہ لے کر مفصل رپورٹ شوریٰ میں پیش کرے۔ لیکن امیر جماعت مولانا مودودی صاحب اس جائزہ کمیٹی کی تشکیل پر بہت برہم ہوئے اور انھوں نے دوسرے اعتراضات کے علاوہ یہ اعتراض بھی کیا کہ اس کمیٹی کو مرکزی تنظیم کے محتسب کی حیثیت دی گئی ہے، حالانکہ اس میں بعض ارکان بہت ناپسندیدہ ہیں۔ چنانچہ یہ کمیٹی مولانا مودودی صاحب کے مسلسل مطالبے کی بنا پر توڑ دی گئی۔ پھر مجلس شوریٰ نے چار سینئر ارکان غازی عبد الجبار، شیخ سلطان احمد، حکیم عبد الرحیم اشرف اور مولانا عبد الغفار حسن صاحب پر مشتمل ایک اور کمیٹی مقرر کی جس کے سپرد بھی یہی کام کیا گیا۔
اس جائزہ کمیٹی نے پورے ملک کا دورہ کیا، ہر جگہ ارکان جماعت کے بیانات لیے اور کئی مہینوں کی محنت شاقہ کے بعد ایک رپورٹ مرتب کی۔ جب یہ رپورٹ مرتب ہو کر امیر جماعت کو ملی تو بدقسمتی سے امیر جماعت نے اسے اپنے خلاف ایک چارج شیٹ سمجھ لیا۔ تاہم جب شوریٰ میں یہ رپورٹ پیش ہوئی تو شوریٰ نے، جس کے صدر مولانا مودودی صاحب تھے، متفقہ طور پر جائزہ کمیٹی کے ارکان کی خدمات کو سراہا، ان کا شکریہ ادا کیا اور چار شقو ں پر مشتمل ایک قرار داد منظور کی جس میں یہ اعتراف کیا گیاکہ کچھ غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن وہ ایسی غلطیاں نہیں ہیں جن پر قابو نہ پایا جا سکے، آیندہ احتیاط کی ضرورت ہے اس قرار داد کی ایک نہایت اہم شق یہ تھی کہ عام انتخابات کی سرگرمیوں سے فی الحال صرف نظر کر کے معاشرے کی اصلاح پر زیادہ زور دیا جائے، کیونکہ اسلامی خطوط پر معاشرے کی اصلاح ہی بالآخر ملک میں صحیح سیاسی تبدیلی کا ذریعہ بن سکے گی۔ اس قرار داد کو متفقہ طورپر منظور کر لینے کے بعد مجلس شوری کا اجلاس دعا و درود پڑھ کر ختم کر دیا گیا۔
اس قرار داد کو منظور کر لینے کے بعد میرے نزدیک مجلس شوریٰ نے اس بحران پر جو انتخابات میں حصہ لینے سے پیدا ہو گیا تھا، قابو پا لیا تھا۔ لیکن مولانا مودودی صاحب نے اس قرار داد کو دل سے نہیں مانا۔ نیز یہ خلش بھی ان کے دل سے نہیں نکلی کہ جائزہ کمیٹی کی رپورٹ ان کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔ چنانچہ شوریٰ کے اجلاس کے ختم ہونے کے کچھ ہی دن بعد انھوں نے جائزہ کمیٹی کے چاروں ارکان کو ایک نوٹس بھیج دیا کہ چونکہ آپ حضرات ایک نادانستہ سازش کے مرتکب ہوئے ہیں، اس لیے شوریٰ سے استعفیٰ دیں، ورنہ میں آپ کے حلقے کے ارکان کو لکھوں گا کہ وہ آپ کو واپس بلا لیں۔
میں گذشتہ کئی برسوں سے محسوس کر رہا تھا کہ مولانا مودودی صاحب شورائیت کو، جو اسلامی نظام کی بنیادی خصوصت ہے، جماعتی معاملات میں اہمیت نہیں دیتے، لیکن اس واقعہ نے میرے اعتماد کو بالکل ہی متزلزل کر دیا۔ کیونکہ مولانا مودودی صاحب کا یہ اقدام دستور جماعت ہی نہیں، عدل و انصاف کے ابتدائی تقاضوں کے احترام سے بھی خالی تھا۔ چنانچہ میں نے اس صریح ناانصافی اور جماعتی مصالح کے لحاظ سے مہلک فیصلہ پر ان کی توجہ دلانے کی کوشش کی اور ان کے سامنے یہ واضح کیا کہ آپ کا یہ فیصلہ ہر پہلو سے غلط ہے۔ اس لیے جن کو آپ کے احکام پہنچ گئے ہیں انھیں واپس لیجیے اور جن تک نہیں پہنچے انھیں روک دیجیے، ورنہ یہ چیز بڑے حادثے پر منتہیٰ ہو گی۔ مولانا مودودی صاحب مجھے تسلی دیتے رہے کہ اس پر غور کیا جائے گا، لیکن عملاً وہ اسی پر مصر رہے۔ تب میں نے ان کو ایک مفصل خط لکھا جس میں میں نے ان کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرائی کہ امیر جماعت کی حیثیت سے ان کا یہ اقدام دستور ہی کے نہیں عدل و انصاف کے بھی خلاف ہے۔
میرا یہ خط ایک تاریخی خط ہے جو اس زمانے میں پریس میں بھی آ گیا تھا اور جسے پڑھ کر(شام کے) عمر بہاء الامیری نے، جو اس زمانے میں پاکستان کے سفیر ہوا کرتے تھے، کہا تھا ’قد کتبت ھذا الكتاب کما یکتب القاضي قضاء ولکن فیه بعض الخشونة‘(آپ نے خط ایسے لکھا ہے جیسے قاضی اپنا فیصلہ لکھتا ہے، لیکن ذرا تلخ ہے) مولانا مودودی صاحب نے مجھے اس خط کا کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ اگلے روز نہایت عجیب و غریب انداز سے جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئے۔
کچھ عرصہ سے، مولانا مودودی صاحب نے شوریٰ کے اجلاسوں میں یہ طرز عمل اختیار کر رکھا تھا کہ جب کبھی وہ اپنے موقف کو دلائل کے ذریعے منوانے میں ناکام رہتے تو فوراً استعفیٰ کی دھمکی دے دیتے۔‘‘[2] ؎(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ۵۱)

عبدالرشید عراقی لکھتے ہیں :

’’مولانا امین احسن اصلاحی کم گو،فعال،سنجیدہ، مگر سرگرم اورنبض شناس تھے۔ان کی پیشانی کی شکنیں ہمہ وقت معنی خیز نتائج کی متلاشی ہوتی تھیں۔وہ ۱۷ سال جماعت اسلامی سے وابستہ رہے اور ہر نازک موقعہ پر جماعت کی عظمت ووقار کے لیے سینہ سپر رہے۔ان کی اصابت رائے کا یہ عالم تھا کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ اور ارکان جماعت اسلامی ان کے مشوروں کی قدر کرتے تھے۔سنجیدگی کے ساتھ بے باکی اور صاف گوئی مولانا کاامتیاز تھا۔پروفیسرحکیم عنایت اللہ نسیم سوہدری مرحوم نے، جو جماعت اسلامی سے کئی سال تک وابستہ رہے اور ماچھی گوٹھ کے اجتماع کے بعد جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوئے،مجھ سے کئی بار اس بات کا تذکرہ کیا کہ: جب مولانا مودودی نے امارت سے اپنا استعفیٰ پیش کیا تو مولانا امین احسن اصلاحی ایک دم غصے میں آگئے اور مولانا مودودی سے فرمایا:’ہم آپ کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، کانٹوں کی مالا ہے۔ ہم آپ کو گریبان سے پکڑیں گے۔اگر اس راہ پرآپ چل نہیں سکتے تھے تو جماعت کی بنیاد کیوں رکھی تھی؟‘‘ (سہ ماہی تدبر،اپریل۱۹۹۸ ء، ۸۹)
’’وہ اس سے پہلے شوریٰ کے اجلاسوں میں کئی بار استعفیٰ کی دھمکی دے چکے تھے اور اس کا مقصد شوریٰ کو مرعوب کرنا اور دیگر ارکان کو یہ تاثر دینا ہوتا تھا کہ اختلاف کرنے والے حضرات امیر جماعت کی دل شکنی کا باعث بن رہے ہیں۔ چنانچہ اس دفعہ جب انھوں نے استعفیٰ دیا تو جماعت کی مجلس شوریٰ نے بالاتفاق یہ طے کیا کہ استعفیٰ کو نہایت خفیہ رکھا جائے، لیکن مرکزی اسٹاف نے اسے نہایت دھوم دھام سے اخبارات میں شائع کرا دیا اور جگہ جگہ عام ارکان کو یہ تاثر بھی دیا گیا کہ درحقیقت میری کوئی گستاخی ہے جو جماعت کے لیے اس حادثے کا باعث بنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ جماعت کے بیشتر حلقوں میں جائزہ کمیٹی کے ارکان اور ان سے ہمدردی رکھنے والے دیگر حضرات کے خلاف بہتان طرازیوں کی ایک مکروہ مہم شروع ہو گئی۔
اس استعفیٰ پر غور کرنے کے لیے مجلس شوری کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں چند ایسے ارکان جن کی رکنیتیں اس عرصہ میں معطل کر دی گئی تھیں،جو شریک نہیں تھے۔ اس شوریٰ نے امیر جماعت پر غیرمشروط اعتماد کا اظہار بھی کیا اور امیر جماعت کو خوش کرنے کے لیے پالیسی میں بھی مداخلت کر دی جس کا اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔ میں اس شوریٰ میں شریک نہیں تھا چونکہ میں امیر جماعت پر شوریٰ کے غیر مشروط اظہار اعتماد کو، امیر جماعت کے ان تمام فیصلوں کی توثیق سمجھتا تھا، جو انھوں نے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف کیے اس لیے میں نے اس دوران میں جماعت سے استعفیٰ دے دیا۔ میرے استعفیٰ کے بعد چودھری غلام محمد صاحب جو اس وقت قائم مقام امیر بنائے گئے تھے مولانا باقر خان صاحب کے ساتھ مجھے ملے اور مجھے یہ یقین دلایا کہ اس شوریٰ کے اظہار اعتماد کا مطلب ہرگز ہرگز امیر جماعت کے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف اقدامات کی توثیق نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ دسمبر کی شوریٰ کی قرارداد اپنی جگہ قائم ہے۔ نیز یہ کہ امیرجماعت جائزہ کمیٹی کے ارکان کو بھیجے گئے نوٹس کو نہ صرف واپس لیں گے، بلکہ ان سے معافی بھی مانگیں گے۔ ان حضرات کی ان یقین دہانیوں کے بعد میں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ یہ حضرات ان وعدوں میں سے کسی بھی وعدے میں سچے ثابت نہیں ہوئے۔
شوریٰ کی اس قرار داد کے بعد مولانا مودودی صاحب نے اپنے اس استعفیٰ کو جس میں کہا گیا تھا کہ یہ کسی بھی صورت میں واپس نہیں ہو گا، صرف تین ہی دن کے بعد واپس لے لیا۔ لیکن جائزہ کمیٹی کے ارکان کے بارے میں وہ اپنے اسی فیصلے پر جمے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ چاروں اراکین شوریٰ الگ کیے گئے اور ان کے ساتھ ہی کئی دوسرے حضرات نے بھی بد دل ہو کر جماعت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ شوریٰ ختم ہو گئی جو مولانا مودودی صاحب کے نقطۂ نظر سے اختلاف کر سکتی تھی۔ صرف وہ لوگ رہ گئے جن کا خیال یہ تھا کہ دین لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، لیکن اس زمانے میں اسے مولانا مودودی صاحب ہی نے سمجھا ہے۔
اگرچہ ایسی خوشامدی اور جی حضوری قسم کی شوریٰ سے کسی اختلاف کی توقع رکھنا عبث تھا پھر بھی مولانا مودودی صاحب نے کسی متوقع سرکشی سے بچنے کے لیے جماعت میں اسلامی شورائیت کے نظام کو بدل کر ایک آمرانہ اور ڈکٹیٹرانہ نظام نافذ کر دیا۔ چنانچہ ماچھی گوٹھ کے اجتماع ارکان میں انھوں نے مختلف طریقوں سے دستور میں ایسی ترامیم کرائیں جن کی رو سے شوریٰ کو عاملہ کی بجائے ایک مشاورتی کونسل کی حیثیت دے دی گئی۔ چند ماہ بعد اس نئی شوریٰ کا اجلاس کوٹ شیر سنگھ میں ہوا اور اس میں مولانا مودودی صاحب نے اپنے لیے ان اختیارات کا مطالبہ کیا جو حالت جنگ میں کسی فوج کے سپہ سالار کو حاصل ہوتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انھیں یہ اختیارات نہ دیے گئے تو وہ جماعت کی امارت سے استعفیٰ دے دیں گے۔ میں نے ان کی اس رائے پر تنقید کی تھی، لیکن شوریٰ نے ان کے استعفیٰ کی دھمکی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ میں شوریٰ کے اس اجلاس سے اٹھ کر چلا آیا اور بعد میں دستور میں وہ تمام ترامیم کر دی گئیں جن کے بعد جماعت کا جمہوری او ر شورائی نظام ایک آمرانہ اور ڈکٹیٹرانہ نظام میں بدل گیا۔ ترمیم شدہ دستور کے مطابق چند ارکان پر مشتمل عاملہ بنائی گئی جسے بظاہر وسیع اختیارات دیے گئے، لیکن عملاً یہ تمام اختیارات امیر جماعت کی ذات میں مرتکز کردیے گئے، کیونکہ اس دستور کے مطابق اب امیر جماعت عاملہ کی اکثریت کی رائے کے پابند نہیں تھے اور وہ ساری عاملہ یا عاملہ کے چندارکان کو جب چاہیں معزول کر سکتے تھے۔
جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو مجھ پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اب جماعت کا دستور، نظام، پالیسی ہر چیز بدل چکی ہے۔ یہ جماعت اقامت دین کے لیے اٹھی تھی اور اس کے لیڈروں نے اسے اٹھا کر غلط راستے پر ڈال دیا۔ ان کی انتہائی آرزو بس یہی تھی کہ کسی طرح اسمبلی کی چند سیٹوں پر قبضہ کر لیں۔ شہادت حق اور اقامت دین کے نعرے کھوکھلے ہو چکے تھے۔ میں نے اس کے اندر رہ کر اصلاح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔ میرے لیے یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ میں امیر جماعت کے ان اقدامات کو جو انھوں نے جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف کیے، خاموشی سے برداشت کر لیتا۔ اگر میں اس ظلم اور ناانصافی پر خاموش رہتا تو میرا ضمیر مردہ ہو جاتا اور میری روح خدا سے شرمندہ ہوتی۔ اس دوران میں کچھ لوگوں نے مصالحت کی کوششیں کیں، لیکن جب وہ بھی مایوس ہو گئے تو میں نے استعفیٰ دے دیا۔ اور آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ یہ استعفیٰ[3]؎ واپس لینے کے لیے نہیں ہے۔ مولانا مودودی صاحب میرے پاس آئے اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنا استعفیٰ واپس لیں۔ میں نے کہا : مولانا میں نے تو عرض کر دیا ہے کہ یہ استعفیٰ واپس لینے کے لیے نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کو اچھی طرح جان لیا اور آپ نے مجھے اچھی طرح جان لیا۔ اب ہم شاید کبھی بھی مجتمع نہیں ہو سکیں گے۔ ’ھذا فراق بیني و بینك ‘۔ مولانا مودودی صاحب اٹھ کر چلے گئے اور جماعت سے میری علیحدگی ہو گئی۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل۱۹۹۸ء، ۴۸- ۵۳)

اس کے بعد انٹرویو کرنے والے صاحب ڈاکٹر منصورالحمید نے سوال کیا کہ آپ کے استعفیٰ دینے کا فوری سبب کیا چیز بنی ؟امین احسن کا جواب تھا:

’’مولانامودودی صاحب نے ایک خط چودھری غلام محمد صاحب کو لکھا اور اس میں میرے متعلق یہ لکھا کہ میں نے جتنی ناز برداری مولانا اصلاحی کی کی ہے اتنی کسی اور کی نہیں کی۔ لیکن کچھ عرصہ سے مولانا کا رویہ یہ ہے کہ وہ میرے خاص احباب پر برابر دل شکن فقرے کستے رہتے ہیں۔ اس خط کو مجھے بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن مولانا مودودی صاحب نے اس کی ایک نقل مجھے بھی بھیج دی۔ اسے پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں نے استعفیٰ دینے میں دیر لگائی ہے، چنانچہ میں نے استعفیٰ لکھا اور اس خط کے جواب میں یہ بھی لکھا کہ اگر آپ نے ناز برداری ایسے شخص کی کی جو اس کا اہل نہیں تھا تو آپ اپنے آپ کو کوسئے، اور اگر وہ اس کا اہل تھا تو آپ نے کوئی احسان نہیں کیا۔ اس لیے اس ناز برداری کو جتلا کر مجھ سے یہ توقع نہ رکھیں کہ میں اس کے بدلے میں ضمیر فروشی کروں گا۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ ء، ۵۳)

یوں امین احسن کی جماعت کے ساتھ۱۷سالہ رفاقت کاخاتمہ ہوگیا۔ان کے نزدیک نئے دستور کے تحت جماعت میں پیری مریدی کا ایک نظام قائم ہوگیا تھا۔امین احسن کو جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی چیزوں سے انھیں کوئی دل چسپی نہ تھی۔امین احسن کے شاگرد، خالد مسعود صاحب لکھتے ہیں کہ اس ضمن میں وہ خود بتایا کرتے تھے:

’’مولانا مودودی اسلامی نظام کی بنیادی خصوصیت  ـــــ شورائیت  ـــــ  کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ اپنی آمریت قائم کرنے کے لیے انھوں نے دستور اور نظام جماعت کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔جائزہ کمیٹی کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر دستوری اقدام سے انھوں نے جماعت میں بحران پید ا کردیا اور جب اس کے خلاف آواز بلند کی گئی تو انھوں نے معترضین کی کردار کشی کے ساتھ ساتھ یہ اصول بھی پیش کردیا کہ نظریاتی حکمت اور ہوتی ہے،عملی حکمت اور۔اسلام میں امیر کو دیکھنا پڑتا ہے کہ دین کے نفاذ میں اسے کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے۔اس کے لیے بعض اصولوں کو وہ قربان بھی کرسکتا ہے۔ ان تجربات سے گزرنے کے بعدمیں کس مقصد کے لیے جماعت میں پڑارہتا ؟میں نہ تو انقلاب قیادت کے نعرہ کو اسلامی انقلاب کا ذریعہ سمجھتا ہوں اور نہ ووٹ حاصل کرنے کی بھاگ دوڑ کواصلاح معاشرہ کا واسطہ۔ جماعت کا موجودہ دستور میر ے نزدیک شورائی ہے نہ جمہوری۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مجھے امیر جماعت کے نہ عدل پر بھروسا ہے،نہ ان کی تنہا بصیرت پر، نہ دستو ر جماعت کے ساتھ ان کی وفا داری پر۔لے دے کے صرف ایک چیز رہ جاتی ہے،وہ یہ کہ اس جماعت میں بہت سے نیک دل اور خداترس مسلمان شامل ہیں۔ جماعت کی یہ چیز میری نگا ہوں میں بڑی قابل قدر ہے۔میں ان سب بھائیوں سے محبت کرتا اور ان کے لیے دعا ے خیر کرتا ہوں، لیکن اس محبت اور دعا گوئی کے لیے میرا جماعت کے ساتھ بندھے رہنا کو ئی ضروری نہیں تھا۔یہ خدمت میں باہر رہ کر بھی انجام دیتا رہوں گا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اکتوبر ۱۹۹۷ ء، ۱۱- ۱۲)

امین احسن کے استعفیٰ کے بعدمولانا مودودی نے انھیں یہ خط میں لکھا:

’’میر ی اس رائے کو آپ چاہیں تو غلط کہہ سکتے ہیں۔ اس کے خلاف دلائل دینے کی آپ کو پوری آزادی ہے، حتیٰ کہ آپ کو یہ بھی اختیار ہے کہ اس کو جو بدتر سے بدتر معنی چاہیں پہنائیں۔ مگر آپ یہ الزام مجھ پر نہیں لگا سکتے کہ ایک بدنیتی کی بلی مدتوں سے مجرم ضمیر کے تھیلے میں چھپائے پھرتا رہا تھا، اور پہلی مرتبہ اسے موقع تاک کر کوٹ شیر سنگھ میں باہر نکال لایا۔ میں اس رائے کو حق سمجھتا ہوں، ہمیشہ اس کو ظاہر کیا ہے اور تشکیل ’’جماعت‘‘ کے بعد سے آج تک اس پر عملاً کام کرتا رہا ہوں۔ آپ کو پورا حق ہے کہ اسے غلط ثابت کرنے کی کوشش کریں۔ اس کی وجہ سے جماعت کو چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ جماعت میں رہتے ہوئے آپ مجلس شوریٰ کے ذہن کو اس سے مختلف جس رائے کے حق میں بھی ہموار کرنا چاہیں، پوری آزادی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری ۱۹۹۸ ء، ۲۲)

امین احسن نے اس کے جواب میں لکھا:

’’آپ نے اپنی ’’بلی‘‘ کی تاریخ پیدایش ناحق بیان کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ میں اس بات سے ناواقف نہیں ہوں کہ یہ بلی آپ کے تھیلے میں روزِ اول سے موجود ہے، لیکن آپ کویاد ہوگا کہ تقسیم سے پہلے الٰہ آباد کی شوریٰ کے اجلاس میں، میں نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ یاد نہ ہو تو مذکورہ شوریٰ کی روداد پڑھ لیجیے۔ اس وقت تو یہ مر نہ سکی، لیکن میں اور جماعت کے دوسرے اہل نظر برابر اس کی فکر میں رہے اور شوریٰ میں اس کی موت و حیات کا مسئلہ بار بار چھڑتا رہا، یہاں تک کہ تقسیم کے بعد ہم نے جو دستور بنایا، اس میں اس کی موت کا آخری فیصلہ ہو گیا۔ واضح رہے کہ جب اس کے قتل کا فیصلہ ہوا تھا تو اس وقت شرع شریف، مصلحت زمانہ اور اسلامی جمہوریت، سب کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر ہوا تھا۔ اس کی تائید میں علما کے فیصلے بھی حاصل کیے گئے تھے اور اہل نظر کی رائیں بھی جمع کی گئی تھیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ آپ اپنے عمل سے وقتاً فوقتاً اس کو زندہ بھی کرتے رہے، لیکن ہمارے دستور نے اس کی زندگی تسلیم نہیں کی۔ اس سلسلہ میں جب کبھی آپ نے دستور کی مخالفت کی تو عموماً اپنے اقدامات میں بے بصیرتی کا ثبوت دیا جس سے جماعت کے اہل الرائے اس بارہ میں یک سو ہو گئے کہ یہ ’’بلی‘‘ مردہ ہی رہے تو اچھا ہے، لیکن آپ پر اس کی موت بڑی شاق تھی۔آپ اس کو حیاتِ تازہ بخشنے کے لیے برابر بے چین رہے۔ اسی کے عشق میں آپ نے استعفا دیا۔ ماچھی گوٹھ میں آپ نے اس کے لیے رازداروں کو خلوت میں بلا کر سازش کی۔ پھر کوٹ شیر سنگھ میں اس پر مسیحائی کا آخری افسوں پڑھا اور یہ واقعی زندہ ہو گئی۔ اب آپ مجھے دعوت دیتے ہیں کہ میں پھر شوریٰ میں آؤں اور اس کے اندر رہ کر اس کو مارنے کی کوشش کروں تو میں اس سے معافی چاہتا ہوں۔ ایک ’’بلی‘‘ برسوں کی محنت سے میں نے ماری، آپ نے وہ پھر زندہ کر دی اور اب آپ کی مجلس عاملہ نے اس کی رضاعت و پرورش کی ذمہ داری بھی اٹھا لی۔ اب میں پھر اس کو مارنے میں لگوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی ساری زندگی اس ’’گربہ کشی‘‘ ہی کی نذر کر دوں۔ آخر یہ کون سا شریفانہ پیشہ ہے۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، جنوری / فروری ۱۹۹۸ ء، ۲۲)     

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]؎ ۱۹۵۱ء میں جماعت نے پنجاب کے انتخابات میں حصہ لیا۔ امین احسن نے نظم جماعت کی پیروی کی۔ انھیں ایک حلقے سے بطور امید وار کھڑا کیا گیا۔

[2]؎  اس رپورٹ کے بعض امور کو مولانامودودی نے اپنے خلاف چارج شیٹ قرار دیا۔ انھیں احساس ہوا کہ کمیٹی کے بعض ارکان نے ان کے خلاف سازش کی ہے۔چنانچہ انھوں نے شوریٰ کی قرارداد پر برہمی کا اظہار کیا اور کمیٹی کے ارکان پر جتھہ بندی اوربلاک سازی کا الزام لگا کر ان سے استعفے طلب کر لیے۔ امین احسن کو یہ معلوم ہوا تو انھوں نے امیر جماعت کے اقدام کو دینی، اخلاقی، دستور ی، غرض یہ کہ ہر لحاظ سے غلط قرار دیا۔

[3]؎  ۱۹۵۷ء میں ضلع رحیم یار خان کے ایک مقام ماچھی گوٹھ پر یہ اجتماع منعقد ہوا اوردستورمیں یہ ترمیمات کر کے امیر جماعت کوبہت طاقت ور اور مجلس شوریٰ کو کم زور کردیا گیا۔اس موقع پر امین احسن نے یہ ترمیمات رکوانے کی کوشش میں ایک مفصل تقریر کی، مگر جماعت نے ان کے اس نہایت اہم خطاب کو محفوظ نہیں کیا۔اس صورت حال میں امین احسن نے جماعت سے استعفیٰ دینے کا ارادہ کرلیا۔ جماعت کے خیر خواہوں نے مصالحت کی بہت کوششیں کیں، شام کے سفیرعمربہاء الامیری نے بھی ان میں حصہ لیا،حتیٰ کہ ایک پنچائیت بھی قائم ہوئی،مگر سب کچھ بے نتیجہ رہا۔ آخرکار جنوری ۱۹۵۸ء میں امین احسن جماعت سے حتمی طور پر الگ ہو گئے۔


B