HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد عمار خان ناصر

قرآن مجید میں اختلاط مرد وزن کے احکام (۵)

مختلف تعبیرات کی تفہیم اور تجزیہ

حجاب کی تعمیم کے قائلین کے استدلالات

جو اہل علم آیت حجاب کا سیاق اور سبب نزول خاص ہونے کے باوجود اس حکم کی تعمیم کرتے ہوئے عام خواتین کو بھی اس کا پابند قرار دیتے ہیں، ان کی طرف سے اس حوالے سے مختلف نوعیت کے استدلال پیش کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں حسب ذیل تین استدلال قابل توجہ ہیں:

پہلا یہ کہ زیر بحث آیت میں حجاب کے حکم سے بیان سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں بلااجازت داخل نہ ہونے اور بلا ضرورت وہاں ٹھیرنے سے منع کیا گیا ہے۔ بظاہر یہ حکم خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے حوالے سے بیان ہوا ہے، لیکن بالاتفاق یہ آداب عام گھروں کے لیے بھی مطلوب ہیں۔ اس لیے حجاب کے حکم کا سیاق خاص ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ساتھ خاص ہے۔

دوسرا یہ کہ حجاب کی پابندی کا مقصد یہ بتا یا گیا ہے کہ امہات المومنین اور مسلمانوں کے دلوں کی پاکیزگی قائم رہے۔ بظاہر اپنے مقام ومرتبہ کے لحاظ سے وہ عام خواتین کے مقابلے میں فتنے سے زیادہ محفوظ تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج جیسی پاکیزہ اور نیک دل خواتین کو حجاب کے حوالے سے ایسی سخت ہدایات دی گئیں تو عام خواتین کے لیے بدرجۂ اولیٰ ان ہدایات کی پابندی لازم ہونی چاہیے۔ چنانچہ اس حکم کو امہات المومنین کے ساتھ خاص قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شیخ ابن باز فرماتے ہیں :

لا يجوز أن يقال إن الحجاب أطهر لقلوب أمهات المؤمنين ورجال الصحابة دون من بعدهم. ولا شك أن من بعدهم أحوجُ إلى الحجاب من أمهات المؤمنين ورجال الصحابة ﵃ لما بينهم من الفرق العظيم في قوة الإيمان والبصيرة بالحق فإن الصحابة رجالًا ونساء - ومنهن أمهات المؤمنين - هم خير الناس بعد الأنبياء وأفضل القرون بنص الرسول المخرَّج في الصحيحين. فإذا كان الحجاب أطهر لقلوبهم فمن بعدهم أحوج إلى هذه الطهارة وأشد افتقارًا إليها ممن قبلهم.(مجموع الفتاوی والمقالات ۴ / ۲۵۰)
’’یہ کہنا درست نہیں ہو سکتا کہ حجاب امہات المومنین اور صحابہ کے دلوں کے لیے تو زیادہ پاکیزگی کا موجب تھا، لیکن بعد والوں کے لیے نہیں۔ بلاشبہ، بعد کے لوگ امہات المومنین اور صحابہ سے زیادہ حجاب کے محتاج ہیں، کیونکہ دونوں کے مابین قوت ایمان اور حق کی بصیرت کے حوالے سے بہت نمایاں فرق ہے۔ صحیحین کی حدیث کے مطابق صحابہ، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، بشمول امہات المومنین کے، انبیا کے بعد انسانوں میں بہترین لوگ اور سب سے افضل گروہ تھے۔ جب ان کے دلوں کے لیے بھی پاکیزگی کا زیادہ موجب تھا تو بعد کے لوگوں کو، پہلوں کے مقابلے میں اس طہارت کی زیادہ احتیاج اور ضرورت ہے۔“

یہی استدلال کئی دوسرے اہل علم نے بھی پیش کیا ہے (تفہیم القرآن ۴ / ۱۲۱۔ محمد علی الصابونی، روائع البیان ۲ / ۳۵۱)۔

تیسرا یہ کہ آیت حجاب کو اگر اس کے بعد آیت جلباب کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اجنبی مردوں سے پردے اور حجاب کا اہتمام تمام خواتین کے لیے مطلوب ہے، کیونکہ آیت جلباب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ساتھ ساتھ آپ کی بیٹیوں اور عام خواتین کی بھی تصریح موجود ہے۔ دونوں آیتوں کو ملا کر دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ آیت حجاب میں گھروں میں موجود خواتین کے متعلق باہر سے آنے والے مردوں کو حجاب کی ہدایت کی گئی ہے، جب کہ آیت جلباب میں خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ گھروں سے نکلیں تو اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ کر نکلیں۔ یوں دونوں آیتیں مل کر ایک ہی حکم کی تکمیل کر رہی ہیں۔

مولانا تقی عثمانی نے آیت حجاب اور آیت جلباب کے تحت اس استدلال کی وضاحت یوں کی ہے:

’’اسلامی معاشرت کا یہ دوسرا اہم حکم ہے اور اس کے ذریعے خواتین کے لیے پردہ واجب کیا گیا ہے۔ یہاں اگرچہ براہ راست خطاب ازواج مطہرات کو ہے، لیکن حکم عام ہے جیسا کہ آگے آیت نمبر ۵۹ میں اس کی صراحت آ رہی ہے۔“ (آسان ترجمۂ قرآن ۱۳۰۵)
’’اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں پر جھکا کر انھیں چھپا لیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپا لیا جائے۔“ (آسان ترجمۂ قرآن ۱۳۰۷)

آیت حجاب میں خاص طور پر ازواج مطہرات کے ذکر کی توجیہ مذکورہ اہل علم یہ کرتے ہیں کہ اس سے مقصود عام خواتین کو اس پابندی کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا تھا۔ چنانچہ پہلے مرحلے پر ایک مثالی نمونے کے طور پر ازواج مطہرات کو امت کی عام خواتین کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انھیں بھی اس نمونے کی پیروی کرنی ہے اور پھر بعد میں تمام مسلمان خواتین کے لیے یہ پابندی بیان کر دی گئی۔ اسی طرح ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ چونکہ حکم کے نزول کےوقت لوگوں کی زیادہ آمد ورفت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں ہی ہوتی تھی، اس لیے ابتداءً‌ اسی کو موضوع بنایا گیا ہے۔[*]

حجاب کے حکم کی تعمیم کرنے والے اہل علم کے ایک دوسرے گروہ کے ہاں ایک دوسرا انداز استدلال ملتا ہے۔ یہ حضرات اس کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ آیت حجاب میں امہات المومنین سے متعلق جو حکم دیا گیا ہے، وہ انھی کے ساتھ خاص ہے، تاہم ان کی راے میں یہاں جس خصوصی حجاب کا ذکر کیا گیا ہے، وہ چہرے کے حجاب سے زائد ایک اضافی حکم ہے جس کا امہات المومنین کو پابند کیا گیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ان کا پورا جسم بھی لوگوں کی نگاہوں سے مستور رہے اور لوگ ان سے روبرو بات کرنے کے بجاے پردے کے پیچھے سے ہی بات کریں۔ یہ اہل علم اس کو ’’حجاب شخص‘‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ جہاں تک چہرے کے پردے کا تعلق ہے تو وہ اس سے الگ ایک مستقل حکم ہے جس کی پابندی دیگر دلائل کی روشنی میں عام خواتین کے لیے بھی ضروری ہے اور آیت حجاب کے امہات المومنین کے ساتھ خاص ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چہرے کے پردے کا حکم بھی ان کے ساتھ خاص ہے۔

علامہ ابن عثیمین نے اس استدلال کی وضاحت یوں کی ہے :

وكلِمة ﴿مِنْ﴾ تَدُلُّ على أنَّ هذا السِّتْر لا بُدَّ أن يَنفَصِل، وأنه غير سَتْر الوَجْه أو البدَن بالثِّياب، بل هو سَتْرٌ آخَرُ: حجاب، وحجاب أمهات المُؤمِنين غيرُ حجاب نِساء المُؤمِنين؛ لأن حجاب نِساء المُؤمِنين يَصِحُّ أن يَكون مُتَّصِلًا بالبَدَن كالخِمار والمِلحَفة، وما أَشبَهَهُما، أمَّا حجاب أمهات المُؤمِنين فإنه حجاب آخَرُ مُنفَصِل يَحُول بين الرجُل وبين رُؤْية أمهات المُؤمِنين؛ ولهذا قال تعالىٰ: ﴿مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ فتَدُلُّ على أنَّ هذا الحِجابَ مُنفَصِل عنِ المُسْتَتِر به. (تفسیر العثیمین، الاحزاب، ۱ / ۴۳۰)
’’لفظ ’مِنْ‘ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ پردہ (جسم سے) الگ ہونا چاہیے اور یہ کہ اس سے مراد چہرے یا بدن کو کپڑے سے ڈھانپنا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک زائد پردہ، یعنی حجاب ہے۔ امہات المومنین کا حجاب عام مسلمان خواتین کے حجاب سے مختلف ہے، کیونکہ عام خواتین کا حجاب ان کے بدن کے ساتھ متصل بھی ہو سکتا ہے، جیسے اوڑھنی اور بڑی چادر وغیرہ، جب کہ امہات المومنین کا حجاب ایک مستقل اور الگ حجاب ہے جو غیر محرم کے اور امہات المومنین کے مابین حائل ہو، جس سے وہ ان کو دیکھ نہ سکے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ حجاب اس شخص سے منفصل ہے جو اس کی اوٹ میں ہے۔“

اس تعبیر کی روشنی میں آیت حجاب کا چہرے کے پردے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ وہ ایک الگ حکم ہے اور آیت حجاب کو امہات المومنین کے ساتھ خاص مانا جائے تو بھی اس سے یہ لازمی طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ عام خواتین کے لیے اپنے چہرے کو معمولاً‌ ننگا رکھنا جائز ہے۔

ازواج مطہرات کی تخصیص کی حکمت

مذکورہ استدلالات پر غور کیا جائے تو ان میں سے پہلا، تیسرا اور چوتھا استدلال اپنی ذات میں مکمل یا تام استدلال نہیں بنتے۔ چنانچہ پہلے استدلال کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیربحث آیت میں جہاں گھروں میں بلااجازت جانے اور بلا ضرورت ٹھیرے رہنے کی ممانعت کا ذکر ہے جو ایک عمومی ادب ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے ساتھ نکاح نہ کرنے کا حکم بھی ہے جو بدیہی طور پر ایک خصوصی حکم ہے۔ ان دونوں کے درمیان میں حجاب کا حکم پہلی نوعیت کا حکم بھی ہو سکتا ہے جس کی پابندی سب کے لیے لازم ہو، اور دوسری نوعیت کا حکم بھی ہو سکتا ہے جو ازواج نبی کے ساتھ خاص ہو۔ چونکہ سیاق کلام میں عام اور خاص، دونوں طرح کے احکام مذکور ہیں، اس لیے کوئی مستقل دلیل ہی یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ حجاب کے حکم کی نوعیت کیا ہے۔

تیسرا استدلال بھی اس لیے فی نفسہٖ فیصلہ کن نہیں ہو سکتا کہ حجاب کے حکم کا روے سخن اور آیت جلباب کا خطاب واضح طور پر الگ الگ ہے۔ آیت حجاب میں خاص طور پر امہات المومنین کو موضوع بنا کر ہدایت کی گئی ہے، جب کہ آیت جلباب میں تصریحاً‌ ازواج نبی سمیت تمام مسلمان خواتین کو حکم کا مخاطب بنایا گیا ہے۔ دونوں ہدایات ایک ہی سیاق میں اور متصلا‌ً آئی ہیں، اس لیے جہاں یہ قیاس کرنا ممکن ہے کہ دونوں حکموں کی نوعیت مشترک سمجھی جائے اور آیت جلباب کے عموم کو آیت حجاب میں بھی ملحوظ مانا جائے، وہاں یہ قیاس بھی بالکل معقول، بلکہ زیادہ متبادر ہے کہ دو متصل احکام میں الگ الگ اسلوب خطاب اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کیا ہے کہ ایک حکم خاص طور پر ازواج کے لیے، جب کہ دوسرا حکم تمام مسلمان خواتین کے لیے ہے۔ یوں یہ استدلال بھی فی نفسہٖ کوئی قاطع استدلال نہیں بنتا۔

یہی نوعیت چوتھے استدلال کی بھی ہے جو علامہ ابن عثیمین کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے۔ یہ استدلال اس مفروضے پر مبنی ہے کہ اس آیت کے علاوہ کسی دوسری دلیل سے تمام خواتین کے لیے چہرے کو چھپانا ثابت ہے، اس لیے اس آیت میں امہات المومنین کے لیے اس سے زائد ایک حجاب کا حکم دیا گیا ہے جو ان کے ساتھ خاص ہے۔ اگر واقعتاً‌ کسی دوسری دلیل مثلاً‌ سورۂ نور کی ہدایات یا آگے آیت جلباب سے تمام خواتین کے لیے چہرے کے حجاب کا وجوب ثابت ہو تو اس استدلال میں ایک وزن ہے، لیکن اگر ان نصوص کا مدعا یہ نہ مانا جائے تو پھر یہ استدلال اپنی بنیاد سے محروم ہو جاتا ہے۔

مذکورہ تمام استدلالات میں سے زیادہ قابل توجہ اور بنیادی استدلال دراصل دوسرا استدلال ہے، یعنی یہ کہ حجاب کے لازم کیے جانے کی جو علت، یعنی دلوں کی پاکیزگی بتائی گئی ہے، اس کی رو سے یہ پابندی امہات المومنین اور صحابہ سے بھی زیادہ عام مسلمانوں پر لازم ہونی چاہیے۔

جمہور اہل علم کی طرف سے اس سوال کے جواب میں متعدد پہلوؤں کی نشان دہی کی گئی ہے جو حجاب کی امہات المومنین کے ساتھ تخصیص کی حکمت کو واضح کرتے ہیں:

پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق اور نسبت کی وجہ سے امہات المومنین کے حوالے سے دلوں کی پاکیزگی کا ایک بلند تر درجہ مطلوب تھا جو عام مسلمانوں کے باب میں مطلوب نہیں تھا، اسی لیے غیر محر م مردوں اور امہات المومنین کے مابین ایک خاص فاصلے اور حجاب کو لازم قرار دیا گیا۔

دوسرا یہ کہ منافقین کی طرف سے چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے متعلق تہمت تراشی اور کردار کشی کے واقعات رونما ہو چکے تھے اور کم زور طبیعتوں کے کئی اہل ایمان بھی ان سے متاثر ہو چکے تھے، اس لیے ایسی الزام تراشیوں کا قطعی سدباب کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج تک غیر محرم مردوں کی رسائی کو بالکل ممنوع کر دیا گیا۔

تیسرا یہ کہ شریعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو امت کی ماؤں کا درجہ دیتے ہوئے آپ کے بعد کسی بھی امتی کے لیے ان کے ساتھ نکاح کو ممنوع قرار دیا تھا اور لوگوں سے یہ تقاضا کیا تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس تعلق کی وجہ سے ان کی حرمت وتقدس کے بارے میں اپنے دل میں ویسے ہی جذبات رکھیں جیسے اپنی حقیقی ماؤں کے لیے رکھتے ہیں۔ چونکہ یہ رشتہ عام قوانین کے لحاظ سے حقیقی نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس رشتے کے حوالے سے معاشرے میں حساسیت قائم رکھنے کے لیے یہ پابندی عائد کر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مکمل طور پر حجاب میں رہیں گی اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ کوئی شخص انھیں نہیں دیکھ سکے گا۔

ذیل میں اس حوالے سے علامہ ابن عاشور، مولانا ظفر احمد عثمانی اور علامہ یوسف القرضاوی کی تصریحات نقل کی جا رہی ہیں:

علامہ ابن عاشور لکھتے ہیں:

والمعنى: ذلك أقوى طهارة لقلوبكم وقلوبهن فإن قلوب الفريقين طاهرة بالتقوى وتعظيم حرمات اللّٰه وحرمة النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ولكن لما كانت التقوى لا تصل بهم إلى درجة العصمة أراد اللّٰه أن يزيدهم منها بما يكسب المؤمنين مراتب من الحفظ الإِلهي من الخواطر الشيطانية بقطع أضعف أسبابها وما يقرب أمهات المؤمنين من مرتبة العصمة الثابتة لزوجهن صلى اللّٰه عليه وسلم فإن الطيبات للطيبين بقطع الخواطر الشيطانية عنهن بقطع دابرها ولو بالفرض.
وأيضًا فإن للناس أوهامًا وظنونًا سُوأَى تتفاوت مراتب نفوس الناس فيها صرامة ووهنًا، ونَفَاقًا وضعفًا، كما وقع في قضية الإِفك المتقدمة في سورة النور فكان شَرع حجاب أمهات المؤمنين قاطعًا لكل تقول وإرجاف بعمد أو بغير عمد.
ووراء هذه الحِكَم كلها حكمة أخرى سامية وهي زيادة تقرير معنى أمومتهن للمؤمنين في قلوب المؤمنين التي هي أُمومة جَعلية شرعية بحيث إن ذالك المعنى الجعلي الروحي وهو كونهن أمهات يرتد وينعكس إلى باطن النفس وتنقطع عنه الصور الذاتية وهي كونهن فلانة أو فلانة فيصبحْن غير متصوَّرات إلا بعنوان الأمومة فلا يزال ذالك المعنى الروحي ينمى في النفوس، ولا تزال الصور الحسية تتضاءل من القوة المدركة حتى يصبح معنى أمهات المؤمنين معنى قريبًا في النفوس من حقائق المجردات كالملائكة، وهذه حكمة من حكم الحجاب الذي سنه الناس لملوكهم في القدم ليكون ذالك أدخل لطاعتهم في نفوس الرعية .
وبهذه الآية مع الآية التي تقدمتها من قوله : ﴿يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ تحقق معنى الحجاب لأمهات المؤمنين المركبُ من ملازمتهن بيوتهن وعدمِ ظهور شيء من ذواتهن حتى الوجه والكفين، وهو حجاب خاص بهن لا يجب على غيرهن، وكان المسلمون يقتدون بأمهات المؤمنين ورعًا وهم متفاوتون في ذالك على حسب العادات. (التحریر والتنویر ۲۲ / ۹۱)
’’مراد یہ ہے کہ یہ تمھارے دلوں اور ازواج نبی کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ موثر ہے، اس لیے کہ اگرچہ دونوں کے دل تقویٰ سے بہرہ ور اور اللہ اور اللہ کے نبی کی حرمتوں کی تقدیس کے جذبے سے معمور ہیں، لیکن یہ تقویٰ انھیں عصمت کے درجے تک نہیں پہنچا سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ شیطانی وساوس کے کم زور ترین اسباب کو بھی دور کر کے اہل ایمان کو مزید تقویٰ عطا فرمائے، جس سے انھیں شیطانی وساوس سے حفاظت الہٰی کے مزید مراتب حاصل ہو جائیں اور امہات المومنین سے شیطانی وساوس کے بالکل موہوم کو بھی دور کر کے انھیں عصمت کے اس مرتبہ کے قریب تر پہنچا دیا جائے جو ان کے شوہر کو حاصل ہے، کیونکہ پاکیزہ خواتین پاکیزہ مردوں ہی کے لیے ہیں۔
مزید یہ کہ لوگوں کے دلوں میں کئی طرح کے خیالات اور گمان پیدا ہو جاتے ہیں، جس میں لوگوں کے نفوس کے مراتب مختلف ہوتے ہیں اور بعض لوگوں کے دل کم زوری اور نفاق کا زیادہ شکار بن سکتے ہیں، جیسا کہ سورۂ نور میں مذکورہ واقعۂ افک میں ہوا۔ اس تناظر میں امہات المومنین کے حجاب کی پابندی سے ہر طرح کی الزام تراشی یا کردار کشی کا سدباب ہو گیا، چاہے کوئی عمداً‌ ایسا کرے یا بلاقصد اس کا شکار ہو جائے۔
مذکورہ تمام حکمتوں کے علاوہ ایک اور بڑی اعلیٰ حکمت یہ ملحوظ تھی کہ مسلمانوں کے دلوں میں ازواج نبی کے ماں ہونے کے تصور کو راسخ کردیا جائے جو دراصل شریعت کا قائم کردہ ایک مصنوعی رشتہ تھا۔ مقصود یہ تھا کہ ازواج نبی کے امہات ہونے کا تصور لوگوں کے دلوں میں رچ بس جائے اور وہ ازواج کو ان کی انفرادی شخصیت کے لحاظ سے دیکھنے کے بجاے کہ وہ فلاں اور فلاں ہیں، صرف اس نظر سے دیکھیں کہ وہ ان کی ماں ہیں۔ یوں یہ روحانی رشتہ دلوں میں مضبوط ہوتا چلا جائے اور ازواج کی حسی شکل وصورت لوگوں کے ذہنوں میں دھندلی ہوتی چلی جائے تا آنکہ ان کے دلوں میں امہات المومنین کا تصور اسی طرح ایک مجرد قسم کا تصور بن جائے، جیسے فرشتوں کا ہوتا ہے۔ یہی حکمت حجاب کی اس قدیم رسم میں بھی ملحوظ ہے جو لوگوں نے اپنے بادشاہوں کے لیے مقرر کی تھی تاکہ ان کی رعیت کے دلوں میں ان کی اطاعت کا جذبہ زیادہ جاگزیں ہو جائے۔
اس آیت کے ساتھ ایک سابقہ آیت، یعنی ’يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ‘ کو ملا کر دیکھا جائے تو امہات المومنین کے لیے حجاب کا حکم مکمل ہو جاتا ہے جو ان دو ہدایات کا مجموعہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کے اندر ہی رہا کریں اور ان کے بدن کا کوئی حصہ، حتیٰ کہ چہرہ اور ہاتھ بھی لوگوں کو دکھائی نہ دیں۔ یہی وہ حجاب ہے جو امہات کے ساتھ خاص تھا اور ان کے علاوہ دوسروں پر واجب نہیں، البتہ لوگ تقویٰ کے پہلو سے امہات المومنین کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی نوعیت ان کی اپنی اپنی عادات کےلحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔“

مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں :

إن عدم جواز الكشف في حق سائر النساء لعارض مفارق وهو الشهوة غير المغلوبة بالمصلحة فإن تحقق عدم الشهوة من الجانبين أو كانت المصلحة غالبة على المفسدة كما في الكشف والنظر للشهادة أو للقاضى أو الخاطب جاز وإلا فلا بخلاف أمهات المؤمنين فإنهن مأمورات بالحجاب مطلقًا لعارض لازم وهو كون ترك الكشف والنظر أطهر لقلوبهم وقلوبهن كما قال اللّٰه تعالىٰ: ﴿ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ﴾ لأن الأطهرية للقلوب لاتنفك عن ترك الكشف والنظر فلا يجوز لهن الكشف والنظر مطلقًا.(اعلاء السنن ۱۷ / ۳۷۶)
’’باقی تمام خواتین کے حق میں چہرے کو ننگا کرنا اس وقت ناجائز ہے جب ایک عارضی کیفیت ہو جو زائل ہو جاتی ہو، یعنی ایسی شہوت کی کیفیت جس پر کوئی مصلحت غالب نہ ہو۔ اگر دونوں جانب سے شہوت کا نہ پایا جانا متحقق ہو یا مصلحت، مفسدہ پر غالب ہو، جیسا کہ گواہی کے لیے چہرے کو کھولنا ہو یا قاضی کے یا نکاح کے خواہش مند کے سامنے چہرہ ننگا کرنا ہو تو پھر ایسا کرنا درست ہے، ورنہ نہیں۔ لیکن امہات المومنین کا حکم اس کے خلاف ہے، کیونکہ انھیں ہر حالت میں حجاب کا حکم ہے اور اس کی بنیاد ایسی وجہ کو قرار دیا گیا ہے جو ہر وقت لازم ہے، یعنی یہ کہ ان کا اپنے چہرے کو نہ کھولنا ان کےدلوں کے لیے اور مردوں کا ان کو نہ دیکھنا ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ‘ چونکہ چہرے کو نہ کھولنے اور نہ دیکھنے کے ساتھ دلوں کی پاکیزگی لازم ہے، اس لیے امہات المومنین کے لیے اپنے چہروں کو ننگا کرنا مطلقاً‌ ممنوع تھا۔“

مزید لکھتے ہیں:

إن اللّٰه تعالىٰ خصهن بالخطاب دون سائر النساء بل جعلهن تابعات لهن بالنظر إلى علة الحكم وهذا يدل على شدة الاعتناء بشأنهن وكان حكم الحجاب قطعًا في حقهن دون سائر النساء وكان مراعاة الحجاب أشد في حقهن دون سائر النساء وقد أمرن بالحجاب في وقت كان الخير فيه غالبًا والشر مغلوبًا بخلاف سائر النساء فإنهن أمرن به حين شاع الشر وذاع فهذه وجوه ثبت بها المزية لهن على سائر النساء.(اعلاء السنن ۱۷ / ۳۷۷)
’’ اللہ تعالیٰ نے باقی تمام خواتین کو چھوڑ کر صرف امہات المومنین کو مخاطب کیا ہے، بلکہ حکم کی علت کے لحاظ سے عام خواتین کو امہات کے تابع (یعنی ان سے نچلے درجے میں) قرار دیا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کے معاملے کو انتہائی اہمیت دی ہے اور حجاب کا حکم عام خواتین کو چھوڑ کر قطعی طور پر انھی کے لیے دیا گیا۔ امہات کے لیے حجاب کی پابندی عام خواتین کے مقابلے میں زیادہ سخت تھی اور ان کو ایسے وقت میں حجاب کا حکم دیا گیا جب خیر غالب اور شر مغلوب تھا۔ اس کے برخلاف عام خواتین کو اس حالت میں حجاب کا حکم دیا گیا ہے جب ماحول میں شر عام ہو جائے۔ ان وجوہ سے امہات المومنین کے لیے باقی تمام خواتین کے مقابلے میں امتیاز ثابت ہے۔“

الشیخ یوسف القرضاوی فرماتے ہیں:

المتأمل في الآية وسياقها يجد أن «الأطهرية» المذكورة في التعليل ليست من الريبة المحتملة من هؤلاء وأولئك، فإن هذا النوع من الريبة بعيد عن هذا المقام. ولا يتصور من أمهات المؤمنين، ولا ممن يدخل عليهن من الصحابة دخول هذا اللون من الريبة على قلوبهم وقلوبهن، إنما الأطهرية هنا من مجرد التفكير في الزواج الحلال الذي قد يخطر ببال أحد الطرفين، بعد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم.

وأما استدلال بعضهم بنفس قوله تعالىٰ: ﴿فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾ فلا وجه له لأنه خاص بنساء النبي كما هو واضح، وقول بعضهم: العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب - لا يرد هنا؛ إذ اللفظ في الآية ليس عامًا. وقياس بعضهم سائر النساء على نساء النبي مردود، لأنه قياس مع الفارق، فإن عليهن من التغليظ ما ليس على غيرهن، ولهذا قال تعالىٰ: ﴿يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾.(https://al-qaradawi.net/node/4053)
’’آیت کے الفاظ اور سیاق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جس پاکیزگی کو علت قرار دیا گیا ہے، اس سے مراد ازواج یا مسلمان مردوں کے دلوں میں کسی ناروا خیال سے پاکیزگی نہیں، کیونکہ اس نوعیت کے غلط خیالات کا پایا جانا یہاں بعید از قیاس ہے۔ نہ تو امہات المومنین کے متعلق اور نہ ان کے پاس آنے جانے والے صحابہ کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایسا کوئی خیال ان کے دلوں میں آتا ہوگا۔ دراصل یہاں پاکیزگی مراد ہے کہ فریقین میں سے کسی کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جائز اور حلال نکاح کا خیال بھی پیدا نہ ہو۔
جہاں تک بعض لوگوں کا ’فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘ کے الفاظ سے یہ استدلال کرنے کا تعلق ہے (کہ یہ حکم سب کے لیے ہے) تو اس کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ یہ واضح طور پر ازواج نبی کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح بعض حضرات کا یہ استدلال کہ اعتبار الفاظ کے عموم کا ہوتا ہے، نہ کہ سبب ورود کے خصوص کا، یہاں نہیں چل سکتا، کیونکہ آیت میں لفظ عام ہے ہی نہیں۔ بعض اہل علم کا دیگر خواتین کو ازواج نبی پر قیاس کرنا بھی غلط ہے، کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ازواج نبی پر اس معاملے میں عام خواتین کے مقابلے میں زیادہ سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’يٰنِسَآءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ‘ (اے نبی کی بیویو، تم عام عورتوں میں سے کسی کے مانند نہیں ہو)۔‘‘

اہل علم کی مذکورہ تصریحات کی روشنی میں الشیخ ابن باز اور دیگر اہل علم کے استدلال کا جواب یہ ہے کہ اس ہدایت کے حقیقی پس منظر کے لحاظ سے امہات المومنین کے احکام عام مسلمان خواتین سے نرم نہیں، بلکہ سخت ہی ہونے چاہییں تھے، کیونکہ یہاں مسئلہ ان کا فتنے سے مامون ہونے یا نہ ہونے کا نہیں، بلکہ امت کے ان کے ساتھ تعلق کو پاکیزہ اور مقدس رکھنے کا تھا۔ قرآن مجید ان کو مسلمانوں کی ماؤں کا درجہ دینا چاہتا تھا، جب کہ حقیقت واقعہ کے لحاظ سے وہ ان کی مائیں نہیں تھیں، اس لیے بہت سے لوگ انھیں ’’ماں‘‘ کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حضرات کے دل میں یہ خیال بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یا علیحدگی کی صورت میں وہ آپ کی ازواج میں سے کسی کے ساتھ نکاح کریں گے۔ قرآن نے ان ہدایات سے اس کا اہتمام کیا ہے کہ ایسے کسی خیال یا تصور کی جڑ ہی کاٹ دی جائے اور امت حقیقی معنوں میں ازواج کو اپنی ماؤں کا رتبہ دے اور انھیں اسی نظر سے دیکھے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[*] ان استدلالات کی تفصیل بکر ابو زید کی ’’حراسة الفضیلة‘‘، ترکی بلحمر کی ’’کشف الاسرار عن القول التلید‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی کی ’’ تدبر قرآن‘‘، علامہ صابونی کی ’’روائع البیان‘‘ اور شیخ عبد العزیز ابن باز کی ’’مجموع الفتاوی والمقالات‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

B