HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الصافات ۳۷: ۷۵- ۱۴۸ (۲)

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

 

وَلَقَدْ نَادٰىنَا نُوْحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِيْبُوْنَ ٧٥ﶛ وَنَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ٧٦ﶛ وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبَاقِيْنَ ٧٧ﶛ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ٧٨ﶛ سَلٰمٌ عَلٰي نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ ٧٩ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ٨٠ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ٨١ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ ٨٢

(اِس کے لیے سب سے پہلے) نوح نے ہم سے فریاد کی تھی۔[32] پھر دیکھو کہ ہم کیا خوب فریاد سننے والے ہیں! ہم نے اُس کو اور اُس کے لوگوں[33] کو بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا اور (بعد کے زمانوں میں) اُسی کی نسل کو باقی رکھا[34] اور پچھلوں میں ایک گروہ کو ہم نے اُس کی ملت پر چھوڑا۔[35] نوح پر سلامتی ہے تمام دنیا والوں میں۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ پھر (اُس کو اور اُس کے ماننے والوں کو الگ کر کے) ہم نے اوروں کو غرق کر دیا۔[36] ۷۵- ۸۲


وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ ٨٣ اِذْ جَآءَ رَبَّهٗ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ ٨٤ اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ ٨٥ﶔ اَئِفْكًا اٰلِهَةً دُوْنَ اللّٰهِ تُرِيْدُوْنَ ٨٦ﶠ فَمَا ظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٨٧ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُوْمِ ٨٨ﶫ فَقَالَ اِنِّيْ سَقِيْمٌ ٨٩ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِيْنَ ٩٠ فَرَاغَ اِلٰ٘ي اٰلِهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ ٩١ﶔ مَا لَكُمْ لَا تَنْطِقُوْنَ ٩٢ فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًاۣ بِالْيَمِيْنِ ٩٣ فَاَقْبَلُوْ٘ا اِلَيْهِ يَزِفُّوْنَ ٩٤ قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ ٩٥ﶫ وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ٩٦ قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَحِيْمِ ٩٧ فَاَرَادُوْا بِهٖ كَيْدًا فَجَعَلْنٰهُمُ الْاَسْفَلِيْنَ ٩٨ وَقَالَ اِنِّيْ ذَاهِبٌ اِلٰي رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ٩٩ رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ ١٠٠ فَبَشَّرْنٰهُ بِغُلٰمٍ حَلِيْمٍ ١٠١

یقیناً  اُسی کے گروہ میں سے[37] ابراہیم[38] بھی تھا۔ یاد کرو، جب وہ قلب سلیم[39] کے ساتھ اپنے پروردگار کے حضور میں آیا۔[40] جب اُس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: یہ تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ کیا اللہ کے سوا جھوٹ گھڑے ہوئے معبودوں کو چاہتے ہو؟پھر خداوند عالم کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے؟[41] (لوگ جب معبد سے رخصت ہونے لگے، جہاں ابراہیم نے یہ گفتگو کی تھی) تو اُس نے (وقت کا اندازہ کرنے کے لیے) ایک نظر تاروں پر ڈالی،[42] پھر کہا: میں تو ماندہ ہو رہا ہوں۔[43] چنانچہ وہ اُس کو چھوڑ کر پلٹے اورچلے گئے۔[44] سو ابراہیم نظر بچا کر اُن کے معبودوں کی طرف گیا[45] اور کہا: آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں؟[46] کیا بات ہے، آپ لوگ بولتے بھی نہیں۔[47] اِس کے بعد وہ موقع دیکھتے ہی اُن پر پل پڑا اور بھرپور ہاتھ مارا۔[48] (لوگوں کو خبر ہوئی) تو وہ بھاگے ہوئے اُس کی طرف آئے۔ ابراہیم نے کہا: کیا تم لوگ اپنی گھڑی ہوئی چیزوں کو پوجتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی نے تمھیں بھی پیدا کیا ہے اور اُن چیزوں کو بھی جنھیں تم بناتے ہو۔[49] اُنھوں نے کہا: (اِس کا یہی رویہ ہے تو)اِس کے لیے ایک عمارت کھڑی کرو، پھر اِس کو دہکتی آگ میں پھینک دو۔[50]سو اُنھوں نے اُس کے ساتھ چال کرنی چاہی[51] تو ہم نے اُنھی کو نیچا دکھا دیا۔[52] ابراہیم نے کہا: (تم لوگوں کو چھوڑکر اب)میں اپنے پروردگار کی طرف جاتا ہوں، وہ ضرورمیری رہنمائی فرمائے گا۔[53] پروردگار،تو مجھے صالح اولاد عطا فرما۔[54] (ابراہیم نے یہ دعا کی) تو (اِس کے جواب میں) ہم نے اُس کو ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی۔[55] ۸۳- ۱۰۱


فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يٰبُنَيَّ اِنِّيْ٘ اَرٰي فِي الْمَنَامِ اَنِّيْ٘ اَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰيﵧ قَالَ يٰ٘اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُﵟ سَتَجِدُنِيْ٘ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيْنَ ١٠٢ فَلَمَّا٘ اَسْلَمَا وَتَلَّهٗ لِلْجَبِيْنِ ١٠٣ﶔ وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّٰ٘اِبْرٰهِيْمُ ١٠٤ﶫ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَاﵐ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١٠٥ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِيْنُ ١٠٦ وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ ١٠٧ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ١٠٨ﶚ سَلٰمٌ عَلٰ٘ي اِبْرٰهِيْمَ ١٠٩ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١١٠ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ١١١ وَبَشَّرْنٰهُ بِاِسْحٰقَ نَبِيًّا مِّنَ الصّٰلِحِيْنَ ١١٢ وَبٰرَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلٰ٘ي اِسْحٰقَﵧ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَّظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ مُبِيْنٌ ١١٣

(وہ لڑکا جوان ہوا)، پھر جب وہ اُس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچا[56]  تو ابراہیم نے (ایک دن) اُس سے کہا: میرے بیٹے، میں (کچھ دنوں سے[57]) خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں۔ تو غور کرو، تمھاری کیا راے ہے؟[58] اُس نے کہا: ابا جان، آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے ، اُس کی تعمیل کیجیے۔ خدا نے چاہا تو آپ مجھے ثابت قدموں میں پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سرتسلیم خم کر دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا[59] اور ہم نے اُس سے پکار کر کہا کہ ابراہیم، تم نے خواب کو سچا کر دکھایا ہے[60] تو تصور کرو کہ دریاے رحمت نے کیسا جوش مارا ہو گا۔[61] حقیقت یہ ہے کہ خوبی سے عمل کرنے والوں کو ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔[62] یقیناً یہ کھلی آزمایش تھی۔[63] (ابراہیم اِس میں کامیاب ہوگیا تو) ہم نے ایک عظیم قربانی کے عوض اسمٰعیل کو چھڑا لیا[64] اور (ابراہیم کو ایسی مقبولیت عطا فرمائی کہ)پچھلوں میں ایک گروہ کو ہم نے اُس کی ملت پر چھوڑا۔ سلامتی ہو ابراہیم پر۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو اِسی طرح صلہ دیتے ہیں۔[65] کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔[66] (یہی موقع تھا کہ )ہم نے اُس کو اسحٰق کی بشارت دی، صالحین کے زمرے میں سے ایک نبی۔[67] اور ہم نے اسمٰعیل اور اسحٰق، دونوں پر اپنی برکتیں نازل فرمائیں۔ اب دونوں کی اولاد میں خوبی سے عمل کرنے والے بھی ہیں اور اپنی جان پر کھلے ہوئے ظلم ڈھانے والے بھی۔[68] ۱۰۲- ۱۱۳


وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلٰي مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ١١٤ﶔ وَنَجَّيْنٰهُمَا وَقَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيْمِ ١١٥ﶔ وَنَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِيْنَ ١١٦ﶔ وَاٰتَيْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِيْنَ ١١٧ﶔ وَهَدَيْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ ١١٨ﶔ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِمَا فِي الْاٰخِرِيْنَ ١١٩ ﶫ سَلٰمٌ عَلٰي مُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ١٢٠ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١٢١ اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ١٢٢

ہم نے موسیٰ اور ہارون[69] پر بھی اِسی طرح فضل کیا تھا اور اُن کو اور اُن کی قوم کو[70] بڑی مصیبت سے نجات دی تھی اور اُن کی مدد کی تھی تو بالآخر وہی غالب رہے تھے اور ہم نے اُن دونوں کو روشن کتاب[71] عطا فرمائی تھی اور اُن کو سیدھی راہ کی ہدایت بخشی تھی اور (نوح اور ابراہیم کی طرح) ہم نے پچھلوں میں ایک گروہ کو اُن کی ملت پر چھوڑا تھا۔ سلامتی ہو موسیٰ اور ہارون پر۔ ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو اِسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ وہ دونوں بھی ہمارے مومن بندوں میں سے تھے۔ ۱۱۴- ۱۲۲


وَاِنَّ اِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ١٢٣ﶠ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖ٘ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٢٤ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّتَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخٰلِقِيْنَ ١٢٥ﶫ اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ اٰبَآئِكُمُ الْاَوَّلِيْنَ ١٢٦ فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ ١٢٧ﶫ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ ١٢٨ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ ١٢٩ﶫ سَلٰمٌ عَلٰ٘ي اِلْ يَاسِيْنَ ١٣٠ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ١٣١ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ ١٣٢

اِسی طرح الیاس[72] بھی یقیناً ہمارے پیغمبروں میں سے تھا۔ یاد کرو، جب اُس نے اپنی قوم[73] سے کہا: تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ کیا تم بعل[74] کو پکارتے ہو اور اُسے چھوڑ دیتے ہو جو بہترین پیدا کرنے والا ہے؟ اللہ کو، جو تمھارا بھی پروردگار ہے اور تمھارے اگلے باپ دادوں کا بھی؟ بالآخر اُنھوں نے اُسے جھٹلا دیا تو اب وہ بھی یقیناً پکڑے ہوئے آئیں گے۔ اللہ کے منتخب بندے، البتہ محفوظ رہیں گے۔ ہم نے (الیاس پر بھی عنایت کی اور) پچھلوں میں ایک گروہ کو اُس کی ملت پر چھوڑا۔ سلامتی ہو عظمتوں والے الیاس پر۔[75] ہم خوبی سے عمل کرنے والوں کو اِسی طرح صلہ دیتے ہیں[76] یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔ ۱۲۳- ۱۳۲


وَاِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ١٣٣ﶠ اِذْ نَجَّيْنٰهُ وَاَهْلَهٗ٘ اَجْمَعِيْنَ ١٣٤ﶫ اِلَّا عَجُوْزًا فِي الْغٰبِرِيْنَ ١٣٥ ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِيْنَ ١٣٦ وَاِنَّكُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَيْهِمْ مُّصْبِحِيْنَ ١٣٧ﶫ وَبِالَّيْلِﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ١٣٨

اورکچھ شک نہیں کہ لوط[77] بھی ہمارے پیغمبروں میں سے تھا۔ یاد کرو، جب اُس کو اور اُس کے سب گھر والوں کو ہم نے نجات دی، ایک بڑھیا کے سوا[78] کہ پیچھے رہ جانے والوں میں رہ گئی۔ اِس کے بعد ہم نے اوروں کو ہلاک کر مارا۔ (قریش کے لوگو)،تم صبح کو بھی اُن کی بستیوں پر سے گزرتے ہی ہو اور رات میں بھی۔ پھر کیا عقل سے کام نہیں لیتے ہو؟[79] ۱۳۳- ۱۳۸


وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ ١٣٩ﶠ اِذْ اَبَقَ اِلَي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ ١٤٠ﶫ فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِيْنَ ١٤١ﶔ فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَ مُلِيْمٌ ١٤٢ فَلَوْلَا٘ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِيْنَ ١٤٣ﶫ لَلَبِثَ فِيْ بَطْنِهٖ٘ اِلٰي يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ ١٤٤ﶔ فَنَبَذْنٰهُ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ سَقِيْمٌ ١٤٥ﶔ وَاَنْۣبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَّقْطِيْنٍ ١٤٦ﶔ وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰي مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ ١٤٧ﶔ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰي حِيْنٍ ١٤٨ﶠ

اِسی طرح یونس[80] بھی یقیناً پیغمبروں میں سے تھا۔ یاد کرو، جب وہ (اپنی قوم کو چھوڑ کر) کشتی کی طرف بھاگ نکلا[81] جو مسافروں سے بھر چکی تھی۔[82] پھر (کشتی طوفان میں گھر گئی اور اُن کے کہنے پر[83]) اُس نے قرعہ ڈالا تو (اُسی کے نام پر نکلا[84] اور) وہ سمندر میں پھینک دیا گیا۔[85] پھر اُس کو مچھلی نے نگل لیا[86] اور وہ سزاوار ملامت ہوچکاتھا۔[87] سو اگروہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو اُس دن تک مچھلی کے پیٹ ہی میں پڑا رہتا، جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔ (لیکن اُس نے تسبیح کی)[88] تو ہم نے اُس کو کھلے میدان میں ڈال دیا اور اُس وقت وہ نڈھال ہو رہا تھا۔ ہم نے (مزید عنایت فرمائی اور) اُس پر ایک بیل والا درخت اگا دیا[89] اور (جن کی طرف مبعوث کیا گیا تھا) اُسے (دوبارہ اُنھی) ایک لاکھ،بلکہ اُس سے بھی زیادہ[90] لوگوں کی طرف بھیج دیا۔ پھر وہ ایمان لے آئے تو ہم نے اُن کو ایک مدت تک رہنے بسنے کی مہلت دے دی۔[91] ۱۳۹- ۱۴۸

[32]۔ یہ اُس فریاد کی طرف اشارہ ہے جو نوح علیہ السلام نے ایک طویل جدوجہد کے بعد اپنی قوم کے ایمان سے بالکل مایوس ہو جانے کے بعد کی تھی۔ اِس کا ذکر سورۂ شعرا ء(۲۶) کی آیات ۱۱۷- ۱۱۸ میں گزر چکا ہے۔

[33]۔ اصل میں لفظ ’اَهْل‘استعمال ہوا ہے۔ اِس لفظ کا استعمال اگرچہ کسی شخص کے ساتھیوں اور پیروکاروں پر بھی ہوتا ہے، لیکن نوح علیہ السلام کے بارے میں معلوم ہے کہ اُن پر ایمان لانے والوں میں اکثریت اُن کے گھر والوں ہی کی تھی۔ لہٰذا باقی اہل ایمان کو اُنھی کے تابع سمجھنا چاہیے۔

[34]۔ چنانچہ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ بعد کے لوگ زیادہ تر اُنھی کے بیٹوں سام، حام اور یافث کی اولاد ہیں۔

[35]۔ اِس جملے میں ’تَرَكْنَا‘ کا مفعول اور ’عَلٰي‘ کے بعد ایک مضاف عربیت کے معروف قاعدے کے مطابق محذوف ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اُس کی قوم کے لوگوں نے تو اُس کو نہیں مانا، لیکن بعد میں ایک بڑا گروہ ایسے لوگوں کا پیدا ہو گیا اور خدا کی توفیق سے عرصے تک باقی رہا جو اُس کے طریقے پر تھے۔

[36]۔ یہ پہلی دینونت تھی جو زمین پر برپا ہوئی اور ہمیشہ کے لیے اِس حقیقت کی یادگار بن گئی کہ یہی کچھ ایک دن پورے عالم کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔

[37]۔ یعنی اُسی کے زمرے میں سے۔ چنانچہ استاذ امام کے الفاظ میں، جو دعوت خلق کو اُنھوں نے دی، وہی دعوت اِنھوں نے بھی دی اور اللہ کی راہ میں جس ایمان و احسان کا مظاہرہ اُنھوں نے کیا، اُسی صدق و اخلاص کا مظاہرہ اِنھوں نے بھی کیا۔ گویا نوح علیہ السلام کے بعد وہ اُسی گروہ کے ایک نمایاں ترین فرد تھے جس کا ذکر اوپر ’وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ‘ کے الفاظ میں ہوا ہے۔

[38]۔ حضرت ابراہیم ۲۱۰۰ ق م کے لگ بھگ زمانے میں عراق کے شہر ار میں پیدا ہوئے۔ آپ عمیلو طبقے کے ایک فرد تھے جو اُس علاقے میں سب سے اونچا طبقہ سمجھا جاتا تھا۔ باپ کا نام آزر تھا جو بڑے معبد کے پروہت اور ریاست کے اہم عہدہ دار تھے۔ وہاں اُس وقت نمو خاندان کی حکومت تھی جو عربی میں جا کر نمرود ہوگیا۔

[39]۔ اِس سے مراد وہ دل ہے جو شرک و نفاق کی ہر بیماری سے پاک ہو اور جس میں کسی نوعیت کا کوئی کھوٹ نہ ہو۔

[40]۔ یعنی اُس کی طرف متوجہ ہوا اور کمال صدق و اخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دیا۔

[41]۔ یہ جملہ دریا بہ کوزہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے سوا دوسرے معبودوں کے طالب بنے ہو تو خداے رب العٰلمین کے بارے میں تمھارا کیا گمان ہے؟ کیا تم اِس بدگمانی میں مبتلا ہو کہ وہ تنہا تمھاری ضروریات کی کفالت اور تمھاری حفاظت سے قاصر ہے؟ کیا وہ اکیلا اِس دنیا کے انتظام سے عاجز ہے، اِس وجہ سے تم نے اُس کے لیے مددگار تلاش کیے ہیں ؟ کیا تم اِس وہم میں مبتلا ہو کہ وہ اِس دنیا کے ہر گوشے اور ہر فرد کے حالات سے باخبر نہیں ہو سکتا، اِس وجہ سے اُس کو باخبر کرنے کے لیے دوسرے وسائل و وسائط کی ضرورت ہے؟ کیا تم اُس کے عدل و رحم سے مایوس ہو کہ اُس کی رحمت حاصل کرنے کے لیے تم نے اپنے جی سے اُس کے دربار کے لیے سفارشی ٹھیرائے ہیں ؟ مطلب یہ ہوا کہ جب تک خداوند عالم کے بارے میں اِس قسم کی بدگمانی کسی کو نہ ہو، اُس وقت تک وہ اُس کے سوا کسی کو اپنا معبود بنانے کا ننگ گوارا نہ کرے گا۔ اور اگر کوئی شخص اپنے رب سے اِس قسم کا کوئی سوء ظن رکھتا ہے تو اُسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ العیاذ باللہ خدا کوئی بے حمیت و بے غیرت ہستی نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنی مملکت میں ہر ایک کی شرکت و مداخلت گوارا کر لے، بلکہ وہ عزیز و جبار اور غیور و متکبر ہے۔اِس وجہ سے وہ ایسے تمام لوگوں کو جہنم میں جھونک دے گا جو اُس کی خدائی میں شریک بننے کے مدعی ہوں گے یا دوسروں کو شریک بنائیں گے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۷۹)  

[42]۔ یعنی بالکل اُسی طرح، جیسے اِس زمانے کے لوگ کلائی اٹھا کر گھڑی کی طرف دیکھتے ہیں۔ قدیم زمانے میں وقت کا اندازہ کرنے کے لیے شب میں اِسی طرح تاروں کو اور دن میں سورج کو دیکھاجاتا تھا۔

[43]۔ یہ غالباً معبد میں کسی تقریب کا موقع تھا۔ ایسے موقعوں پر لوگ بالعموم ماندہ اور مضمحل ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے پہلے آسمان کی طرف نظر ڈال کر لوگوں کو وقت کا احساس دلایا، پھر اپنے اضمحلال کی طرف توجہ دلائی۔ اِس سے اُنھوں نے معبد کے محافظوں اور ذمہ داروں کو یہ تاثر دیا کہ طبیعت کے اضمحلال اور وقت زیادہ ہو جانے کی وجہ سے وہ اِس وقت گھر نہیں جانا چاہتے، بلکہ یہیں پڑرہنا چاہتے ہیں۔ آگے جس اقدام کا ذکر ہے، اُس کے لیے یہ نہایت پاکیزہ توریہ تھا جس میں ہرگز کسی جھوٹ کی آمیزش نہیں تھی۔

[44]۔ یعنی اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے گئے، اُنھیں کوئی ایسی بات محسوس نہیں ہوئی کہ وہ متنبہ ہو جاتے۔

[45]۔ یعنی اُس طرف گیا، جہاں اُن کے بت رکھے ہوئے تھے۔

[46]۔ یہ اُن کھانوں کی طرف اشارہ ہے جو بتوں کے حضور میں پیش کیے جاتے ہیں۔

[47]۔ یہ اور اِس سے پہلے کا طنزیہ فقرہ ابراہیم علیہ السلام کے مزاج کی کیفیت بتاتا ہے کہ اِس اقدام کے وقت نہایت بشاش تھے، اُن پر کسی گھبراہٹ کا کوئی اثر نہیں تھا۔

[48]۔ اصل الفاظ ہیں :’فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًام بِالْيَمِيْنِ‘۔ اِس جملے کی تالیف اِس طرح ہے: ’فَرَاغَ عَلَيْهِمْ يَضْرِبُهُمْ ضَرْبًا بِالْيَمِيْنِ‘۔ لفظ ’يَمِيْن‘ دائیں ہاتھ کے لیے آتا ہے۔ اِس ہاتھ کی ضرب چونکہ بھرپور ہوتی ہے، اِس وجہ سے یہاں یہ دائیں کے معنی سے مجرد ہو کر بھرپور ہاتھ مارنے کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ اقدام، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں، نہی عن المنکر کے لیے نہیں کیا، بلکہ اپنے خاص طریقے پر استدلال کے لیے کیا تھا، جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اُن کا یہ استدلال سورۂ انبیاء (۲۱) میں تفصیل کے ساتھ نقل ہواہے۔

[49]۔ یعنی تمھیں بھی اور اُس لکڑی اور پتھر کو بھی جس سے تم اپنے معبود تراشتے ہو اور اُن جنات اور ملائکہ کو بھی جن کے یہ تمھارے زعم کے مطابق علامتی پیکر ہیں۔ قرآن نے یہاں اپنے طریقے کے مطابق اِس سرگذشت کا کچھ حصہ حذف کر دیا ہے جس کی وضاحت سورۂ انبیاء (۲۱) سے ہوتی ہے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

’’...جس وقت حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑا، اُس وقت تو کسی کو خبر نہیں ہوئی۔ بعد میں جب پہرے داروں کو اِس حادثہ کی اطلاع ہوئی اور یہ سوال پیدا ہوا کہ یہ کس کی کارستانی ہو سکتی ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ بتوں کی ہجو کرتے رہے تھے اور اُنھوں نے دھمکی بھی دے رکھی تھی کہ وہ اِن بتوں کے ساتھ ایک چال کرنے والے ہیں، اِس وجہ سے معبد کے ذمہ داروں کی راے یہی قرار پائی کہ ہو نہ ہو، یہ اُنھی کی کارروائی ہے۔ چنانچہ سارے لوگ بھاگے ہوئے اُن کے پاس پہنچے اور اُن سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ پہلے تو اُنھوں نے لوگوں کا مذاق اڑایا اور بڑے بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اُس نے توڑا ہو گا اور ساتھ ہی اُن کی حماقت کی طرف توجہ دلانے کے لیے فرمایا کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو، اپنے اِن معبودوں ہی سے کیوں نہیں پوچھ لیتے جن پر یہ مصیبت گزری ہے! اگر یہ اپنے سر پر آئی ہوئی مصیبت کو نہ خود دفع کر سکتے اور نہ اُس کو بیان ہی کر سکتے ہیں تو آخر یہ کس مرض کی دوا ہیں کہ تم اِن کی پوجا کر رہے ہو! حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اِس معارضے سے اول اول تو وہ بہت شرمائے، لیکن پھر حمیت جاہلیت اُن پر غالب آگئی اور بولے کہ بھلا اِن سے ہم کس طرح پوچھیں، یہ تو تمھیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں ! ‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۸۲)

[50]۔ یعنی ایک آتش کدہ بناؤ اور ابراہیم کو اُس میں پھینک دو۔ اُن کے اِس فیصلے کے لیے قرآن نے آگے لفظ ’كَيْد‘ استعمال کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات اُنھوں نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے نہیں، بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے کہی۔

[51]۔ یعنی آتش کدہ بنا کر کسی بہانے سے اُن کو اُس میں پھینکنا چاہا۔ اِس کی وجہ غالباً یہ رہی ہو گی کہ علانیہ اقدام کی صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کی طرف سے مزاحمت کا اندیشہ ہو سکتا تھا۔ چنانچہ معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں بھی قریش کے سرداروں کو اِسی طرح کی تدبیر کرنی پڑی تھی۔

[52]۔ دوسری جگہ وضاحت ہے کہ وہ اِس میں تو کامیاب ہو گئے کہ اُن کو آگ میں ڈال دیں، مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو محفوظ رکھا اور آگ اُن کے لیے ٹھنڈی ہو کر سراسر سلامتی بن گئی۔

[53]۔ اپنی قوم پر اتمام حجت کے بعد یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے ہجرت کے فیصلے کا اظہار ہے۔ لوگ داعی حق کی جان کے درپے ہو جائیں تو انبیا علیہم السلام کو اِسی طرح ہجرت کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ آگے کیا پیش آئے گا، اِس طرح کے موقعوں پر اِس کا کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر قدم پر ضرورت ہوتی ہے کہ وہی پروردگار رہنمائی فرمائے جس کے بھروسے پر اتنا بڑا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ الفاظ خدا پر اِسی بھروسے کو ظاہر کرتے ہیں۔

[54]۔ اِس سے واضح ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے ہاں اُس وقت تک کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ بائیبل کی کتاب پیدایش سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اپنے خاندان اور خویش و اقارب سے کٹنے کے بعد یہ اُن کی فطری ضرورت تھی، جس کے لیے اُنھوں نے یہ درخواست کی ہے۔

[55]۔ اِس سے، ظاہر ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام مراد ہیں۔ آگے آیت ۱۱۲ میں خود قرآن نے صراحت کر دی ہے کہ اسحٰق علیہ السلام اُنھیں اِس بیٹے کی قربانی کے بعد اور اِس کے صلے میں ملے تھے۔ بائیبل کی کتاب پیدایش میں بھی تصریح ہے کہ حضرت اسحٰق کی پیدایش اسمٰعیل علیہ السلام کی پیدایش کے ۱۴ سال بعد ہوئی تھی۔ سورۂ ابراہیم (۱۴) کی آیت ۳۹ میں صاحب زادوں کا ذکر اِسی ترتیب سے ہوا ہے۔قرآن نے دونوں کے لیے صفات کے استعمال میں بھی فرق کیا ہے۔ چنانچہ حضرت اسمٰعیل کو یہاں ’غُلَامٌ حَلِيْمٌ‘ کہا گیا ہے، جب کہ حضرت اسحٰق کی بشارت جہاں بھی نقل ہوئی ہے، اُن کے لیے ’غُلَامٌ عَلِيْمٌ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’...یہ صفت اُن کی اُس عزیمت و استقامت کی تعبیر ہے جس کا مظاہرہ اُنھوں نے باپ کی چھری کے نیچے کیا اور جس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے اُن کو ’صَادِقُ الْوَعْدِ‘، ’صَابِر‘ اور ’حَلِيْم‘ کے القاب سے نوازا۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ بعینہٖ یہی صفت ’حَلِيْم‘ قرآن میں حضرت ابراہیم کے لیے بھی آئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل اپنے باپ کی صفات کے سب سے زیادہ نمایاں مظہر تھے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۸۴)

[56]۔ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ یہ کم و بیش ۱۳ برس کی عمر تھی۔ بیٹا باپ کی نگاہوں میں سب سے زیادہ محبوب اِسی عمر میں ہوتا ہے۔ پھر اسمٰعیل تو اُن کے اکلوتے فرزند تھے اور ہجرت کے بعد غربت کی جو زندگی وہ بسر کر رہے تھے، اُس میں اُن کے لیے دل جمعی کا واحد ذریعہ تھے۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آگے جس امتحان کا ذکر ہے، وہ کیسا سخت امتحان تھا۔

[57]۔ یہ اسلوب کلام سے متبادر ہے۔ اِس لیے کہ اُنھوں نے یہ خواب اگر ایک ہی مرتبہ دیکھا ہوتا تو اِس کو بیان کرنے کے لیے ’إِنِّيْ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ‘ کا اسلوب زیادہ موزوں تھا۔

[58]۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں، اُس پر عمل کے لیے بیٹے کے حوصلے کا بھی اندازہ کر لیا جائے۔

[59]۔ یعنی سجدہ ریز کر دیا۔ اِس لیے کہ یہی ہیئت خدا کے قرب کی سب سے زیادہ محبوب ہیئت ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے پسند فرمایا کہ فرزند سجدے کی حالت میں خدا کے حضور پیش کیا جائے۔

[60]۔ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ خواب میں ذبح کرتے ہوئے دکھایا تھا اور خواب کی باتیں تاویل و تعبیر کی محتاج ہوتی ہیں۔ لہٰذا اِس خواب کی تعبیر بھی یہ تھی کہ وہ بیٹے کو معبد کی خدمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی نذر کر دیں۔ اِس سے ہرگز یہ مقصود نہ تھا کہ وہ فی الواقع اُس کو ذبح کریں۔ لیکن خدا کے اِس صداقت شعار بندے نے کوئی تعبیر نکالنے کے بجاے اُس پر من و عن عمل کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اُن کے اِسی اقدام پر غایت درجہ محبت اور تحسین و آفرین کے اظہار کے لیے فرمایا ہے کہ ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ حکم جس طریقے سے دیا گیا تھا، اُس میں یہی رویہ کمال عبدیت کے زیادہ قریب تھا اور اُس سے یہ دیکھنا مقصود بھی تھا کہ وہ تاویل کرتے ہیں یا فی الواقع ذبح کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ آگے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ یہ کھلی آزمایش تھی اور ابراہیم اُس میں ہر لحاظ سے کامیاب رہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اہل نظر ہی کے نہیں، اہل ظاہر کے بھی امام تھے اور موقع امتحان کا ہو تو اہل ظاہر کا طرزعمل ہی قرین صواب ہوتا ہے۔

[61]۔ یہ ’لَمَّا‘ کا جواب ہے جو اصل میں حذف کر دیا گیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ بات اتنی بڑی ہے کہ اُس کا بس تصور ہی کیاجا سکتا ہے۔ اُسے اگر لفظوں میں بیان کیا جائے تو اُس کی اصلی شان سے یہ بہت کم تر ہو گا۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے، اِس لیے کہ ترجمہ پہلے ہی اصل کا کم تر بیان ہوتا ہے۔

[62]۔ یعنی اُن کی جزا کے لیے ہماری رحمت اِسی طرح جوش میں آتی ہے، جس طرح کہ اِس موقع پر آئی۔

[63]۔ ابراہیم علیہ السلام کی کامیابی پر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید تحسین و آفرین ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’...یہ کوئی معمولی امتحان نہیں تھا، بلکہ بہت بڑاامتحان تھا جس میں ابراہیم علیہ السلام نے بازی جیتی۔ جس امتحان کو خود اللہ تعالیٰ بڑا امتحان قرار دے، اُس کے بڑے ہونے میں کیاشبہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر اُس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسی کامیابی حاصل کی جس کی دادخود اللہ تعالیٰ نے ’قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا‘ کے شان دار الفاظ سے دی تو اِس میں شبہ نہیں کہ اِس آسمان کے نیچے نہ اُس سے بڑا کوئی امتحان پیش آیا اور نہ اُس سے زیادہ شان دار کامیابی کسی نے حاصل کی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۸۷)

[64]۔ یہ اُس قربانی کی طرف اشارہ ہے جو ابراہیم علیہ السلام نے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق کی اور جس کی یادگار کے طور پر ہر سال اِسی تاریخ کو قربانی کی ایک عظیم روایت ہمیشہ کے لیے قائم کر دی گئی۔ یہی قربانی ہے جو حج و عمرہ کے موقع پر اور عید الاضحیٰ کے دن ہم ایک نفل عبادت کے طور پر پورے اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں۔ آیت میں اِسی کو ’ذِبْحٌ عَظِيْمٌ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت اسمٰعیل علیہ السلام کی جان کا فدیہ ہے جس سے وہ چھڑا لیے گئے۔ چنانچہ فرمایا ہے:’وَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ‘۔

[65]۔ یعنی دنیا اور آخرت میں اِسی طرح سلامتی اور برکت سے نوازتے ہیں۔

[66]۔ یہ حقیقی مفہوم میں فرمایا ہے۔ اِس سے واضح ہوا کہ ایمان کی اصلی شان وہی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے طرزعمل سے ظاہر ہوئی۔

[67]۔ اسحٰق علیہ السلام کے معاملے میں بشارت اصل میں اِسی چیز کی تھی۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’... حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے مجرد ایک فرزند کی ولادت کوئی اہمیت رکھنے والی بات نہیں تھی۔ وہ حضرت اسمٰعیل کو پا کر اولاد کی طرف سے بالکل مطمئن ہو چکے تھے۔ چنانچہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اُن کو حضرت اسحٰق کی خوش خبری دی گئی تو اُنھوں نے فرمایا کہ’’ کاش، اسمٰعیل ہی تیرے حضور جیتا رہے‘‘*! البتہ، یہ بات اُن کے لیے بشارت ہو سکتی تھی کہ پیدا ہونے والا فرزند صالح اور نبی ہو گا۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۸۸)

[68]۔ یہ اظہار تاسف کا جملہ ہے۔ یعنی وہی صورت پیدا ہو گئی ہے جو انسانوں کے معاملے میں بالعموم پیدا ہوجاتی ہے کہ ایسے عالی مرتبت لوگوں کی اولاد میں بھی لوگ خدا سے سرکش ہو کر شرک جیسے ظلم کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔

[69]۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے زیادہ جلیل القدر رسول یہی دونوں تھے۔ اِن کا زمانہ ۱۲۰۰ ق م کے لگ بھگ ہے۔

[70]۔ یعنی بنی اسرائیل کو، جو اُس زمانے میں فراعنۂ مصر کے غلام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی مدد کی اور اُنھیں اِس غلامی سے نجات عطا فرمائی۔ آیت میں اِسی کو ’الكَرْبِ الْعَظِيْمِ‘ (بڑی مصیبت)سے تعبیر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کا یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ اِس کی تفصیلات سورۂ بقرہ (۲) میں بیان ہو چکی ہیں۔

[71]۔ یعنی تورات۔ اِس لیے کہ یہی کتاب ہے جس میں خدا کی شریعت پہلی مرتبہ پوری وضاحت کے ساتھ او رنہایت مرتب انداز میں بیان کی گئی۔

[72]۔ یہ ہارون علیہ السلام کی نسل سے اور جلعاد کے رہنے والے تھے۔ اِن کا زمانہ محققین ۸۷۵ اور ۸۵۰ ق م کے درمیان متعین کرتے ہیں۔ بائیبل میں اِن کا ذکر ایلیا تشبی کے نام سے کیا گیا ہے۔ اِن کی زندگی میں تو بنی اسرائیل نے اِن کی بات سن کر نہیں دی، لیکن دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اِن کے ایسے گرویدہ و شیفتہ ہوئے کہ اب تک دوبارہ آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

[73]۔ یعنی بنی اسرائیل سے، جن کی سلطنت کے اُس زمانے میں دو حصے ہو چکے تھے۔ ایک حصہ آل داؤد کے قبضے میں تھا اور دوسرے پراخی اب کی حکومت تھی۔ الیاس علیہ السلام نے دونوں میں فریضۂ نبوت ادا کیا۔

[74]۔ زمانۂ قدیم کی سامی زبانوں میں یہ لفظ ’اِلٰه‘ کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ چنانچہ ایک خاص دیوتا کو اُنھوں نے یہی نام دے رکھا تھا۔لبنان کی فینیقی قوم کا سب سے بڑا دیوتا یہی بعل تھا اور اُس کی بیوی عستارات اُن کی سب سے بڑی دیوی تھی۔ اسرائیل کے بادشاہ اخی اب نے جب صیدا (موجودہ لبنان) کی شہزادی ایزبل سے شادی کر لی تو اُس کے اثر سے بعل پرستی کی بیماری بنی اسرائیل میں بھی پھیل گئی اور اسرائیل کے شہروں میں علانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں۔ یہی زمانہ ہے، جب الیاس علیہ السلام بنی اسرائیل میں نبوت کرنے کے لیے مبعوث ہوئے۔

[75]۔ اصل میں لفظ ’اِلْ يَاسِيْنَ‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ ’اِلْيَاس‘ کی جمع ہے، جیسے ’طُوْرِ سِيْنِيْنَ‘ طور سینا کی جمع ہے۔ عربی زبان میں جمع تعداد کے لیے بھی آتی ہے، وسعت اطراف کے لیے بھی اورکسی شخص یا چیز کی عظمت بیان کرنے کے لیے بھی۔ ہمارے نزدیک یہاں یہ بیان عظمت کے لیے آئی ہے۔

[76]۔ اِس جملے کا بار بار اعادہ اِس لیے ہوا ہے کہ جزا و سزا ایک سنت الہٰی ہے جس کا ظہور بارہا دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں تو یقیناً ہو گا۔

[77]۔ یہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اِن کی قوم اُس علاقے میں رہتی تھی جو شام کے جنوب میں عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے اور آج کل شرق اردن کہلاتا ہے۔ بائیبل میں اُن کے سب سے بڑے شہر کانام سدوم بتایا گیا ہے۔

[78]۔ اِس سے حضرت لوط کی بیوی مراد ہے۔ ایمان اور عمل صالح کے بغیر پیغمبر کی بیوی ہونا بھی اُس کے لیے کچھ نافع نہیں ہو سکا اور وہ اُسی عذاب سے دوچار ہوئی جو لوط علیہ السلام کی قوم پر نازل کیا گیا۔

[79]۔ پیچھے تمام سرگذشتوں میں ’وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَ‘کی آیت ترجیع کے طور پر آتی رہی ہے۔ یہاں اُس کے بجاے مخاطبین کو اُس مدعا کی طرف توجہ دلائی ہے جس کے لیے یہ سرگذشتیں سنائی جا رہی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ سرگذشتوں کی طوالت میں بعض اوقات اصل مدعا نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ قرآن میں یہ اسلوب اکثر مقامات پر اختیار کیا گیا ہے کہ کلام کے بیچ میں تنبیہ کی آیات اِسی طرح آتی ہیں اور اُن کے بعد کلام پھر پیچھے سے مربوط ہو جاتا ہے۔

[80]۔ بائیبل میں اِن کا نام یونا آیا ہے۔ اِن کا زمانہ۸۶۰ اور ۷۸۴ ق م کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ یہ اشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق میں مبعوث ہوئے تھے۔ نینویٰ کا مشہور شہر اِنھی اشور والوں کا دارالسلطنت تھا اور اُس زمانے میں تقریباً ۶۰ کلومیٹر کے دور میں پھیلا ہوا تھا۔

[81]۔ اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے، جب حضرت یونس اپنی دعوت کی نا قدری دیکھ کر غیرت حق کے جوش میں نکل کھڑے ہوئے، جب کہ رسول کی حیثیت سے وہ اذن الہٰی کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے۔ آیت میں لفظ ’اَبَقَ‘اِسی رعایت سے استعمال ہوا ہے۔ گویا غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ نکلا۔ اِس پر مواخذے کا یہ قصہ قریش کی تنبیہ و تہدید کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کی توجہ کے لیے بھی سنایا گیا ہے کہ ہجرت کا فیصلہ اُن کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کرے گا۔ اپنی راے اور اجتہاد سے وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے اور مشکلات سے گھبرا کر اگر کہیں کر بیٹھے تو خدا کا قانون بے لاگ ہے، وہ بھی اِسی طرح محاسبے کی زد میں آجائیں گے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :

’’...نبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق و باطل کی کشمکش کے ایک محاذ پر مامور ہوتا ہے۔ اِس وجہ سے اُس کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ خدا کے حکم کے بغیر اُس محاذ سے ہٹے، اگرچہ اُس کا محرک کوئی نیک جذبہ ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جو آزمایشیں اپنے رسول کے لیے لکھی ہیں،اُس کو اُن سے بہرحال گزرنا ہے۔ اگر وہ آزمایش سے گھبرائے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ ایک آزمایش سے بچنے کی کوشش میں کسی دوسری اُس سے بڑی آزمایش میں گرفتار ہو جائے۔ اِسی طرح قوم کو جو مہلت اتمام حجت کے لیے ملنی چاہیے، وہ بھی سنت الٰہی کے مطابق ضروری ہے اور یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کسی قوم پر کب اللہ کی حجت پوری ہوئی۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنے گمان کے مطابق یہ فیصلہ کر لیا کہ اہل نینوا ایمان لانے والے نہیں ہیں، حالاں کہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ پوری قوم میں ایمان لانے کی صلاحیت موجود تھی۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۹۳)

[82]۔ اِس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ ایسے وقت میں پہنچے، جب کشتی سفر کے لیے بالکل تیار ہو چکی تھی۔ اُن کی تمنا بھی یہی تھی کہ جلد سے جلد وہاں سے نکل جائیں۔ چنانچہ بے درنگ اُس میں سوار ہو گئے اور وہ اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔

[83]۔ یعنی مسافروں کے کہنے پر۔

[84]۔ اُس زمانے کے ملاحوں میں روایت تھی کہ کشتی طوفان میں گھر جائے تو قرعہ ڈال کر دیکھتے کہ اُس میں کوئی مجرم تو سوار نہیں ہے، جس کی وجہ سے یہ مصیبت آگئی ہے۔ پھر جس کے نام پر قرعہ نکلتا، اُس کو دریا میں پھینک دیتے۔ اُن کا عقیدہ تھا کہ اِس کے بغیر کشتی ورطۂ ہلاکت سے نہیں نکل سکتی۔اِس موقع پر بھی، معلوم ہوتا ہے کہ یہی کیا گیا اور قرعہ ڈالنے کی خدمت حضرت یونس کے سپرد ہوئی۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی کہ کشتی میں سب سے زیادہ ثقہ اور باوقار شخص وہی نظر آرہے تھے۔

[85]۔ لفظ ’اَبَقَ‘ کی رعایت ملحوظ رہے تو گویا مفرور غلام قرار پائے اور اِسی جرم کی سزا میں دریا میں پھینک دیے گئے۔

[86]۔ یہ غالباً کوئی وہیل تھی، اِس لیے کہ اِسی طرح کی مچھلی آدمی کو سموچا نگل سکتی ہے۔

[87]۔ یعنی جو سزا اُسے دی گئی، اُس کا مستحق ہو چکا تھا۔ انبیا علیہم السلام کے بارے میں خدا کا قانون یہی ہے کہ اگر اِس نوعیت کی کوئی غلطی کریں تو اُس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں دے دی جاتی ہے۔ چنانچہ سورہ ’الحاقة‘ (۶۹) میں فرمایا ہے کہ ہمارا یہ پیغمبر اگر اپنی طرف سے کوئی بات بنا لاتا تو ہم اِس کو قوی ہاتھ سے پکڑ لیتے، پھر اِس کی رگ گردن کاٹ دیتے۔

[88]۔ یہ اُن کلمات کی طرف اشارہ ہے جو اُس وقت اُن کی زبان پر جاری ہوئے کہ پروردگار، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے۔ یقیناًمیں ہی اپنی جان پر ظلم کر بیٹھا ہوں۔ سورۂ انبیا ء(۲۱) کی آیت ۸۷میں اُن کا یہ ورد اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ اپنی غلطی کے اعتراف اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کے لیے یہ بہترین کلمات ہیں جو کسی لغزش کے بعد انسان کی زبان پر جاری ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ یہی کلمات اُن کی نجات کا ذریعہ بن گئے۔

[89]۔ اِس لیے کہ اُس کے سایے میں وہ دھوپ کی شدت سے محفوظ رہیں اور اُن کے اوسان بجا ہو جائیں۔

[90]۔ اصل الفاظ ہیں :’اِلٰي مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ‘۔ اِن میں ’اَوْ‘ ہمارے نزدیک ’بَلْ‘ کے معنی میں ہے اور عربی زبان میں یہ اِس معنی میں آتا ہے۔ بائیبل کے صحیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن لوگوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کے قریب تھی۔

[91]۔ اِس میں قریش کے لیے تہدید ہے کہ دنیا میں رہنے بسنے کی مہلت تمھارے لیے بھی ایمان کے ساتھ مشروط ہو چکی ہے۔ لہٰذا نہیں مانو گے تو اُسی طرح زمین سے مٹا دیے جاؤ گے، جس طرح تم سے پہلے رسولوں کے مکذبین مٹا دیے گئے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 * پیدایش ۱۷: ۱۸۔

B