ترک دنیا، لذات اور شان و شوکت سے گریز، غرض سادہ زندگی گزارنامذہبی زندگی کا لازمہ سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید دنیا کو متاع غرور قرار دیتا ہے۔ حب دنیا کو کراہت سے معنون کرتا ہے۔منکرین اور منافقین کو خواہشات کا پیرو قرار دیتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس دنیا کو مطلوب بنانا فعل شنیع ہے، گویا ترک دنیا کے تصور کی تصدیق قرآن سے ہوتی ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ دین اسلام کا سب سے بڑا مقدمہ یہ ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ انسان کے لیے یہ خداےبرتر کی تقدیر ہے کہ اسے اس امتحان سے گزرنا ہے۔ اسے موقع دیا گیا ہے کہ وہ اس امتحان سے سرخرو ہوکر نکلے اور جنت کی صورت میں مادی اور روحانی نعمتوں سے بھرپور ابدی زندگی حاصل کر لے۔یہ امتحان بنیادی طور پر دو چیزوں میں ہو رہا ہے: ایک ایمان، دوسرے عمل صالح۔ یعنی ہم حق کو مانیں اور باطل کا انکار کریں اور برائیوں سے بچیں اور نیکیوں پر کاربند ہوں۔
یہ امتحان کس طرح لیا جا رہا ہے۔ اس کا بندوبست تہ در تہ ہے۔ انسان کی زندگی کئی دائروں میں چلتی ہے۔ ایک دائرہ انفراد کا ہے۔ہر فرد سب سے پہلے اپنی جسمانی ضروریات کے لیے سرگرم ہوتا ہے۔ خوراک، لباس اور رہایش وغیرہ۔ یہ سامان زیست ہےاور اس کے بغیر اس کی حیات ممکن نہیں۔ چنانچہ ہر انسان کے ہاں اس کی طلب اور اس کے حصول کا عمل موجود ہے۔ پھر یہ کہ انسان حیوان محض نہیں ہے۔ لہٰذا وہ ان کو اپنے ذوق کے مطابق پانے اور برتنے کی جدوجہد کرے گا۔ اس دنیا میں یہ چیزیں ہوا کی طرح میسر نہیں۔ اس کے لیے محنت، لیاقت اور دوسرے انسانوں سے تعامل کے بغیر چارہ نہیں۔ یہیں سے امتحان کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔جس طرح انسانی ذوق ان ضرورتوں میں رنگا رنگی کا پہلو بڑھاتا ہے، اسی طرح انسان کی تحفظ کی تمنا اسے ایسا سماج تعمیر کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ زندگی پرامن انداز میں بسر ہو سکے۔ اس طرح سماجی تعامل کا ایک پورا نظام وجود میں آتا ہے جو اسی امتحان کے لیے کچھ اور مواقع فراہم کرتا ہے۔
انسان کی ضروریات صرف یہاں تک نہیں ہیں۔ وہ محبت اور تعلق میں جینے والی ہستی ہے۔ خاندان، دوست اور ساتھی، غرض کئی عنوانوں سے وہ اپنے ماحول سے متعلق ہوتا ہے۔یہ تعلقات بہت سی ذمہ داریاں، حقوق اور تقاضے پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے امتحان کے بہت سے ڈھب یہاں سے بنتے ہیں۔
انسان جہاں اپنی ان ضروریات کے لیے سرگرم عمل ہے، وہاں وہ معاشر ے میں اپنی ایک حیثیت کا بھی طلب گار ہے۔ عزت، مقام اور نام وغیرہ انسان کی ناگزیر تمناؤں میں سے ایک ہے۔ بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے سے لے کر سماجی تعلقات تک وہ ہر جگہ اس کے حصول اور اس کے استحکام کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کا یہ عمل اس کے امتحان میں کچھ اور رنگ پیدا کردیتا ہے۔
یہ ہر انسان کی ذات کی ضروریات ہیں۔ جب تک اس کی شخصیت میں موجود صلاحیتیں اپنی تشکیل اور اپنے اظہار کا سامان نہیں کر لیتیں، ان کی تکمیل سے انسان خود کو مکمل اور مطمئن محسوس نہیں کرتا۔ اسی کے نتیجے میں وہ اپنی انفرادیت کی تکمیل کرتا ہے۔ اس عمل میں بھی امتحان کے اسباب فراہم ہوتے ہیں۔
ضروریات سے تکمیل تک یہ مراحل صرف انفرادی جہت ہی نہیں رکھتے، انسان اپنے خاندان،اپنی برادری، اپنے معاشرے اور اپنے وطن، غرض اپنے تمام اجتماعی حوالوں کے لیے بھی ضروریات اور تکمیل تک وہی طاقت ور جذبہ رکھتا ہےجو اپنی ذات کی تکمیل کے لیے رکھتا ہے۔ ان کے لیے سامان زیست، ان کا تحفظ و ارتقا، ان کا وقار اور مقام، ان کے اوصاف کے ظہور کی صورتیں پیدا کرتے ہوئے بھی اسے امتحان سے گزرنا ہے۔
انسان کا یہی تعلق اپنے عقیدے ، اپنے مذہبی اعمال، اپنی ثقافت اور اپنے تمدن کے ساتھ ہے۔ یہاں بھی وہ ان کی زندگی، ان کے تسلسل اور ان کے عروج کا داعیہ اسی طاقت سے رکھتا ہے جتنا وہ اپنی ذات کے لیے رکھتا ہے۔ اس کی یہ فعالیت بھی اس کے لیے امتحان کے امکانات وجود پذیر کرتی ہے۔
انسان اپنے وجود اور اپنے شعور، دونوں کے تقاضے پورے کرنے میں کوشاں ہے۔ جس طرح وجود کی ضرورتیں پوری کرنے میں وہ اخلاق، جمال اور عقل کی جہتیں لاگو کرتا ہے، اسی طرح وہ اپنے شعور کی ضرورتیں پوری کرنےمیں بھی انھی جہتوں کو معیار کی حیثیت سے اختیار کرتا ہے۔ انسان صرف اپنے وجود(جس کی پرتیں ہم نے اوپر کھولی ہیں) کے لیے متحرک نہیں ہوتا، بلکہ اپنے شعور کی تکمیل کے لیے بھی متحرک ہوتا ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کے لیے حق کی تلاش کا سفر شروع ہوتا ہے۔حق کیا ہے؟ اس کا جواب حاصل کیا جاتا اور حق سے تعلق کی صورتیں متعین کی جاتی ہیں۔ شعو ر کی یہ کاوش اوپر مذکور تمام دائروں پر اپنی حاکمیت کا جھنڈا گاڑ لیتی ہے۔ جس طرح انسان کا اجتماعی شعور حقوق و فرائض کی تعیین کرتا ہے، جس کی بنیادیں اس کے اخلاق و جمال میں ہیں، اسی طرح حق کی دریافت اور اس کے تعلق کی صورتیں بھی انسان کے شعور کی ساخت میں ودیعت ہیں۔انسانی عمل کا یہ دائرہ بھی اس کے لیے امتحانات کی ایک دنیا رکھتا ہے۔
بھوک، جنس اور انا کے جذبات انسان کے لیے قوت محرکہ ہیں۔ اوپر مذکور دائروں میں انسان کی خود تکمیلی کا سفر ان کے بغیر رواں دواں نہیں رہ سکتا، مگر یہ جذبات بھی اس کے لیے امتحان گاہ ہیں۔
بات ترک دنیا کے سوال سے شروع ہوئی تھی۔ اس تفصیل سے یہ آئینہ دکھانا مقصود ہے کہ جسے ہم دنیا کہہ رہے ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ انسان کے وجود اور شعور کے ظہور، بقا اور تکمیل کا ذریعہ ہے۔ انسان ان سارے حوالوں سے متحرک ہوتا ہے اور اسے ہونا ہے ۔ نہ قرآن نے اس کی نفی کی ہے اور اسے مذموم قرار دیا ہے اور نہ کسی حدیث میں ایسا کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کو حقیقت مان کر انسان کو اس کارگاہ میں سفر کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ عمل حب دنیا اس وقت بنتا ہے اور مذموم اس وقت کہلاتا ہے جب کوئی انسان صرف اپنے حیوانی وجود کی سطح پر قانع ہو جاتا اور حق اور حق کے تعلق کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
ایمان اور عمل صالح کا امتحان اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ ان تمام جہتوں میں انسان کا سفر مفید اور مضر کے سوال ہی کا سامنا نہیں کرتا، بلکہ حق اور باطل، صحیح اور غلط، عدل اور ظلم اور خود غرضی اور غنا کی کشمکش سے بھی گزرتا ہے۔ انسان کے وجود اور شعور کی سرگرمیاں ہمہ جہت ہیں۔ یہ اس کے ہونے کا تقاضا ہیں۔ یہ اس کے مکمل ہونے کا سامان ہیں۔ لیکن کوئی شخص جب حق سے منہ پھیر کر زندگی کا یہ سفر کرتا ہے تو وہ حب دنیا کا مجرم ہے۔
مزید برآں، وحی کی رہنمائی کے میسر کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ مذہب حق کے بغیر شعور و وجود کی تکمیل کا احساس خود نفس انسانی کی ادھوری تفہیم ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ