خیال و خامہ
[المیۂ کوسووا پر لکھی گئی]
اِس شاخ پہ کژدم ہیں تو اُس شاخ پہ اژدر
بیٹھے ہیں کہ محرومِ نشیمن ہوں پرندے
باقی ہے کوئی داد نہ فریاد کی صورت
بستی میں نکل آئے ہیں جنگل سے درندے
ــــــــــ
اترے ہیں جہنم سے کہ ماؤں نے جنے ہیں
یہ سرب ہیں یا روم کے جلاد سپاہی
انساں ہیں کہ صحرا میں شبِ تار کی وحشت
آدم ہیں کہ ابلیس کے چہرے کی سیاہی
ــــــــــ
غرناطہ و بغداد میں پہلے بھی، مسلماں
دیکھی ہے یہی جرمِ ضعیفی کی مکافات
افلاک بھی سنتے نہیں بے ہمت مرداں
ہو ضربِ کلیمی تو اتر سکتی ہیں آیات
ــــــــــ
اِس دور میں ہمت کی بنا علم و ہنر ہے
ورنہ یہ تری خاک میں پوشیدہ شرر ہے
ـــــــــــــــــــــــــ