HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

دانش سرا، پاکستان کا دوسرا سالانہ اجتماع (۲)

جاوید احمد صاحب غامدی کی افتتاحی تقریر کے بعد مسجد میں ۴۵: ۷ پر نمازِ عشا ادا کی گئی۔ ۱۸: ۸ پر رات کا کھانا کھایا گیا ۔ رات ۱۵: ۹ پر محاضرات کا پہلا مرحلہ شروع ہوا ۔ اس مرحلے کے میزبان سجاد خالد صاحب تھے ۔ سجاد خالد صاحب کے تمہیدی کلمات کے بعد طالب محسن صاحب ۲۰: ۹ پر اسٹیج پر تشریف لائے اور ’’توکل‘‘ کے موضوع پر تقریر کی ۔ اس کے بعد محمد رفیع مفتی صاحب نے ’’نصرتِ دین کے حوالے سے صحابہ کا کردار‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا ۔ رفیع صاحب کے خطاب کے بعد پہلے دن کا باقاعدہ پروگرام اختتام پذیر ہو گیا۔

 دوسرے دن (۱۳؍ مارچ ۱۹۹۹ء بروز ہفتہ) اجتماع گاہ میں قیام کرنے والے احباب نے مسجد میں ۴۰: ۵ پر نمازِ فجر ادا کی۔ نماز کے بعد ساجد حمید صاحب نے مسجد ہی میں درسِ قرآن دیا۔ ۰۰: ۸ بجے ناشتا کیا گیا۔ ۲۰: ۹ پر اجتماع کے باقاعدہ پروگرام کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ دانش سرا کے مختلف شہروں کے حلقوں کے ناظمین سے ان کے کام کی روداد سنی گئی۔ اس ضمن میں دانش سرا، حیدرآباد کے ناظم شوکت علی صاحب، دانش سرا، گوجرانوالہ کے ناظم توصیف احمد خان صاحب، دانش سرا، اسلام آباد کے ناظم محمد یوسف صاحب، دانش سرا، ڈیرہ غازی خاں کے ناظم ڈاکٹر ظفر اعجاز، دانش سرا، لاہور کے ناظم سجاد خالد صاحب اور دانش سرا، کراچی کے ناظم ڈاکٹر آغا طارق سجاد نے اپنے کام کی رفتار، وسعت اور اس کے مسائل کا ذکر کیا۔ اس موقع پر اجتماع کے شرکا نے ان حضرات سے مختلف سوال بھی کیے۔ اگرچہ اوکاڑا میں دانش سرا کا باقاعدہ حلقہ موجود نہیں ہے مگر حقیقت میں وہاں پورا کام ہو رہا ہے۔ چنانچہ اوکاڑا کے علی احمد صاحب کو بھی اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔

اس کے بعد حلقے سے متعلق کچھ اہم شخصیات غلام رسول رحمانی صاحب، ندیم اعظم صاحب اور پروفیسر عبدالحمید کو اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ آخر میں معز امجد صاحب اور شہزاد سلیم صاحب کو ان کے انٹرنیٹ پر دینی کام کے حوالے سے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ ان حضرات سے اجتماع کے شرکا نے مختلف سوال بھی پوچھے جن کے انھوں نے جواب دیے۔

۳۰: ۱ بجے مسجد میں نمازِ ظہر ادا کی گئی۔ نمازِ ظہر کے بعد دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد نمازِ عصر تک اجتماع کے شرکا کو باہمی میل جول کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس دوران میں لوگ آپس میں بے تکلفانہ ماحول میں بات چیت کرتے رہے۔ ۰۰:  ۵ بجے چائے پی گئی۔ ۲۰: ۵  پر اجتماع کے باقاعدہ پروگرام کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوا۔ اب میزبان دانش سرا، کراچی کے ناظم ڈاکٹر آغا طارق سجاد تھے۔ ۱۵: ۵  پر طارق سجاد صاحب نے تمہیدی کلمات ادا کیے اور ’’احیاے امت کی کوششوں پر ایک نظر‘‘ کے موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے خورشید احمد صاحب ندیم کو دعوت دی ۲۰ : ۵ پر خورشید صاحب کی تقریر شروع ہوئی اور ۵۲ : ۵ پر اختتام پذیر ہوئی۔ تقریر کے بعد خورشید صاحب نے شرکا کے مختلف سوالوں کے جواب بھی دیے۔ ۲۰ :  ۶  پر نمازِ مغرب ادا کی گئی۔ نمازِ مغرب کے بعد باقاعدہ پروگرام کا سلسلہ پھر شروع ہوا اور اس میں آصف افتخار صاحب نے ’’اسلامی قانون براے معیشت ــــــ چند اہم مباحث‘‘ پر گفتگو کی۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ’’پاکستان میں نفاذِ اسلام ــــــ امکانات اور مسائل‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ ۴۵ : ۷  پر نماز ادا کی گئی۔ فاروق صاحب کی تقریر اپنے مقررہ وقت پر ختم نہ ہو سکی لہٰذا انھیں دوسرے دن اپنی تقریر مکمل کرنے کے لیے زائد وقت دیا گیا۔

 ۱۵ : ۸  پر رات کا کھانا کھایا گیا۔ کھانا کھانے کے بعد باقاعدہ پروگرام کا اگلا مرحلہ شروع ہوا۔ اس مرحلے میں محمد اسلم نجمی صاحب نے ’’انسان جرم کیوں کرتا ہے؟‘‘اور خالد ظہیر صاحب نے ’’اہلِ اسلام کی غلط فہمیاں‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔

 ۰۰ : ۱۰ بجے ادبی نشست کا آغاز ہوا۔ محمد انیس مفتی صاحب نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ سب سے پہلے ضیاء الدین صاحب نعیم کو جو لیاقت پور سے تشریف لائے تھے دعوتِ کلام دی گئی۔ نعیم صاحب نے اپنا حمدیہ کلام سنایا۔ اس کے بعد نعیم احمد بلوچ صاحب نے ’’چنگاری سے شعلے تک‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ سنایا۔ پھر لیاقت پور کے سید مستقیم صاحب نے غزل سنائی۔ یاسر مجید صدیقی صاحب نے ایک قطعہ اور ایک نظم بعنوان ’’جا تجھے معاف کیا‘‘ پیش کی۔ میں نے ’’بیوی اور ماں‘‘ کے عنوان سے افسانہ سنایا۔ ساجد حمید صاحب نے اپنی غزل اور نظم کے مختلف اشعار سنائے۔ سجاد خالد صاحب اور محمد اسلم نجمی صاحب نے قطعہ اور غزل کی اصناف میں اپنا کلام سنایا ۰۰ : ۱۱ بجے ادبی نشست کا اختتام ہوا۔

 تیسرے دن (۱۴ مارچ ۱۹۹۹ بروز اتوار) ۴۰ :  ۵ پر اجتماع گاہ میں قیام کرنے والے شرکا نے مسجد میں نمازِ فجر ادا کی۔ نمازِ فجر کے بعد مسجد ہی میں یاسر مجید صدیقی صاحب نے درسِ قرآن دیا۔ ۸ بجے کے قریب ناشتا کیا گیا۔ ۳۰ : ۹ پر باقاعدہ پروگرام کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ اس مرحلے کے تین حصے تھے۔ پہلے حصے میں ڈاکٹر محمد فاروق خان نے اپنی نامکمل تقریر مکمل کی اور تقریر کے بعد شرکا کے سوالوں کے جواب دیے۔ ۰۰ : ۱۰ بجے دوسرا حصہ شروع ہوا۔ اس حصے میں جاوید احمد صاحب غامدی نے شرکا کے مختلف سوالوں کے جواب دیے۔ ان میں سے چند سوال و جواب افادۂ قارئین کے لیے اس قسط کے آخر میں پیش کیے جا رہے ہیں۔

کسی بھی پروگرام میں کچھ لوگ اسٹیج پر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں لیکن کچھ لوگ خود نمایاں طور پر نظر نہیں آتے لیکن وہ لوگ اتنے اہم ہوتے ہیں کہ جن کے بغیر وہ پروگرام صحیح طور پر مکمل نہیں ہو سکتا۔ اس اجتماع کے انعقاد میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے، جنھوں نے اجتماع کے اس خیال کو متشکل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

 منظور الحسن صاحب اس اجتماع کے ناظم تھے۔ انھوں نے ناظمِ اجتماع ہونے کا صحیح معنوں میں حق ادا کیا۔ سجاد خالد صاحب نائب ناظمِ اجتماع تھے۔ منظور صاحب نے انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت وہی ناظمِ اجتماع تھے۔ سجاد صاحب نے رفقاے کار سے بڑی محبت سے کام لیا۔ نوید افضل بٹ صاحب ناظمِ طعام تھے۔ وہ اس کے لیے اجتماع سے کئی روز پہلے سرگرم ہو گئے تھے۔ اخراجات کو کم سے کم اور معیار کو بہتر سے بہتر رکھنے کے لیے انھوں نے بے پناہ محنت کی حتیٰ کہ طعام کی تیاری کی نگرانی کی وجہ سے وہ اسٹیج کے پروگراموں میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ محمد اکرم صاحب، محمد حفیظ صاحب اور عمران خان صاحب نے ناظمِ طعام کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اشفاق عمر صاحب برقیات اور ساؤنڈ سسٹم کے ناظم تھے۔ انھوں نے بہت ذمہ داری سے اپنا کام انجام دیا۔ اجتماع کے دوران میں گھنٹوں بجلی کی سپلائی بند رہی، لیکن انھوں نے جنریٹر کا متبادل انتظام بروے کار لا کر بجلی کے معاملے میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے اپنی رہنمائی کے لیے اپنے استاد اور معاونت کے لیے دوستوں کو بھی اجتماع میں مسلسل شریک رکھا۔ ان حضرات نے بھی دینی جذبے کے تحت تعاون کیا۔ محمد ادریس صاحب نے پنڈال اور اسٹیج کی ذمہ داری کو نہایت خوبی کے ساتھ نبھایا۔ عمران وحید صاحب، طاہر مہر دین صاحب اور محمد حنیف صاحب نے ان کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ وسیم بیگ صاحب، محمد رمضان صاحب، معظم صفدر صاحب اور جاوید اشرف صاحب نے استقبالیہ کی ذمہ داری اچھے طریقے سے ادا کی۔ ناظمِ مکتبہ عقیل انجم صاحب نے منعم صفدر صاحب کے ساتھ مل کر ہماری مطبوعات اور کیسٹوں کی فراہمی کا کام احسن طریقے سے انجام دیا۔ ہمارے حلقے کے ایک ذمہ دار بزرگ اسحاق ناگی صاحب نے سیکورٹی کا بہت اچھا انتظام کیا، جس کی وجہ سے اجتماع کے دوران میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انیس مفتی صاحب کی ذمہ داری مسائل پر نظر رکھنا اور ان کے حل کے لیے فوری تدبیر کرنا تھی۔ عملی کاموں کی اچھی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے انھوں نے اپنی ذمہ داری بہت اچھے طریقے سے انجام دی۔ محمد حنیف صاحب جو لاہور کے دوردراز علاقے سے آئے تھے انھوں نے اجتماع گاہ میں بینرز لگانے اور اس نوعیت کے دوسرے کام بڑی تندہی سے انجام دیے۔ ریکارڈنگ پر مامور عابد تیمور صاحب نے بھی اپنا فرض اچھے طریقے سے پورا کیا۔

ان کے علاوہ عبدالرؤف حیدر صاحب، جواد نواز صاحب، لیاقت علی صاحب، ناصر پاشا صاحب، منور حسین صاحب، جواد احسن صاحب، معاذ احسن صاحب، عمر فاروق صاحب، عمیر انیس صاحب، فیصل نقوی صاحب، آصف خلیل صاحب، راشد صاحب، اور متعدد دوسرے افراد کے تعاون نے بھی اجتماع کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا۔ ای بلاک ماڈل ٹاؤن کی جامع مسجد کی انتظامیہ اور خاص طور پر اس انتظامیہ کے ایک رکن چودھری نذیر احمد صاحب نے بہت تعاون کیا۔ حلقہ گوجرانوالہ کے افراد خود کو میزبانوں میں شمار کر کے عملی کاموں میں شریک رہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام افراد کو جزا دے۔

اب چند سوال و جواب درج کیے جاتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے:

سوال: دانش سرا کے زیرِ اہتمام جو لیکچرز سنائے اور دکھائے جاتے ہیں ان کی طرف لوگوں کی توجہ بہت زیادہ ہے لیکن جو لٹریچر شائع ہوتا ہے اس کو پڑھنے میں لوگوں کی دلچسپی کم ہے۔ اس کی وجہ اس لٹریچر کی مشکل زبان ہے۔ کیا اس لٹریچر کو عام فہم نہیں کیا جا سکتا ؟

جواب:  جب کسی نئے فکر کی تشکیل کی جا رہی ہوتی ہے تو پہلے مرحلے میں اس کو خالص علمی اور فنی سطح پر پیش کرنا ناگریز ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں زیادہ تر کام ابھی اس نوعیت کا ہوا ہے۔ اگلے مرحلے میں یہی چیزیں عام فہم بھی ہو جائیں گی اور بہت سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو جائیں گے جو ان کی عام آدمی کی ذہنی سطح کے مطابق تسہیل کردیں گے۔ اس کا انتظار کیجیے۔ ایسے کاموں کے لیے ایک خاص وقت بہرحال درکار ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایسی چیزیں ان شاء اللہ کئی سطحوں پر فراہم ہو جائیں گی۔

سوال: حکومت کو غلط کاموں سے روکنے کے لیے ایک موثر پریشر گروپ کی ضرورت ہے۔ کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں کہ دانش سرا کی طرف سے ایسی کوشش ہونی چاہیے ؟

جواب: دیکھیے بات یہ ہے کہ مختلف ملکوں میں جب جمہوری فضا ہوتی ہے تو سیاسی گروہ وجود میں آتے رہتے ہیں جن کو اصطلاح میں پریشر گروپس کہا جاتا ہے۔ یہ بہت سے لوگوں کے ذوق کا کام ہے اور وہ اس کو کرتے بھی ہیں۔ ایسے کام کو ایک جمہوری ملک میں آئینی حیثیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ جو لوگ یہ کام کرنا چاہیں، وہ ضرور کریں۔ ہم نے اپنے آپ کو چند کاموں کے لیے خاص کر لیا ہے۔ اور ان کاموں میں سب سے بنیادی کام وہ دعوت ہے جو اللہ کے پیغمبر پیش کرتے رہے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی توجہات کو اسی پر مرتکز رکھتے ہیں۔ اپنے کاموں کا لائحۂ عمل بناتے وقت یہ دیکھتے ہیں کہ ان حدود سے تجاوز نہ کریں جن سے اس دعوت کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ ہمارا کام ایک خاص دائرے کا کام ہے کسی اور چیز کو ہم اس دائرے میں شامل کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔

سوال: جماعتوں کے اتحاد کے لیے، حرام و حلال کی حدود زیرِ بحث آنی چاہییں یا فقہی مسائل؟

جواب: میری سمجھ میں کبھی یہ مسئلہ نہیں آ سکا کہ جو لوگ دین کی خدمت کا کوئی کام کر رہے ہیں مثال کے طور پر وہ اصلاح و دعوت، تعلیم و تربیت یا اس نوعیت کا کوئی اور کام کر رہے ہیں ان کو متحد کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ اگر آپ تعلیم و تربیت کا کام کرنا چاہتے ہیں اور گلی گلی اسکول کھول دیتے ہیں تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ دین کی دعوت کا کام بہرحال اہلِ علم کو کرنا ہے۔ دین کی تعبیر میں اہلِ علم کے مابین اختلافات بھی ہوتے ہیں۔ لوگوں کو جس صاحبِ علم پر اعتماد ہو وہ اس کے پاس چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں لوگوں کو پابند نہیں کیا کہ وہ کسی ایک صاحبِ علم ہی کے ہو کر رہ جائیں۔ ہر صاحبِ علم سے استفادہ کرنا چاہیے۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں فلاں صاحبِ علم کی بات کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں۔ اور قیامت تک ’’زیادہ بہتر‘‘ ہی ہو سکتا ہے۔ اس سے آگے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ حق کی حتمی حجت تو صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان پر نبوت ختم ہو گئی۔ اب یہ کام لوگ اپنے اپنے ذوق اور اپنے اپنے طریقے کے مطابق کریں گے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کاموں کے لیے کسی نوعیت کے اتحاد کی ضرورت ہے بلکہ جیسے ہی یہ اتحاد کیا جائے گا تو حق کے معاملے میں مداہنت اور منافقت اس میں داخل ہو جائے گی۔ دعوت میں بنیادی بات ہی یہ ہے کہ آپ حق کی سچی شہادت دیں۔ صاف صاف طریقے سے اس کو واضح کریں۔ جب آپ اتحاد کریں گے تو پھر کم سے کم نکات رہ جائیں گے۔ اور اصل حق غائب ہونا شروع ہو جائے گا۔ اس لیے میں ایسے کاموں میں اتحاد کا کبھی ہامی نہیں رہا ہوں۔

البتہ جب ملکی سطح پر کوئی سیاسی مطالبہ کیا جائے تو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ سیاسی مطالبات کے طریقے کے اوپر کام کر رہے ہیں یہ مسئلہ ان کا ہے۔ وہ دیکھیں کہ مطالبہ کن اور کتنے نکات پر مبنی ہے۔ ان نکات پر انھیں متحد ہونا چاہیے۔ جب آپ سیاسی مطالبات لے کر اٹھیں گے تو وہ کام قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کرتا ہے یا کم سے کم اکثریت کی تائید کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہاں اتحاد کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور اتحاد کے فوائد بھی ہوتے ہیں۔ وہاں کم سے کم نکات کو اختیار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ لیکن دین کی دعوت، تعلیم اور تربیت، یہ وہ کام ہیں جنھیں آپ جتنے تنوع کے ساتھ انجام دیں، جتنی کھلی فضا میں انجام دیں اور جتنی مختلف ترجیحات کو قائم کر کے انجام دیں، اتنا ہی ان میں حق کا غلبہ رہتا ہے۔

سوال: آپ کے نزدیک اقامتِ دین کا مفہوم کیا ہے؟

جواب: دین کو پوری طرح اختیار کرنا۔ دین کو اس کی روح اور اس کے قالب کے لحاظ سے اختیار کرنا۔ دین کو اپنا لینا۔ یہ مطلب ہے اس کا۔ اقامتِ دین کا مطلب وہی ہے جو اقامتِ صلوٰۃ کا ہے۔ یعنی نماز کو اختیار کرنا۔ نماز کو ادا کرنا۔ سلف خلف ہمیشہ اقامتِ دین کا یہی مطلب لیتے تھے۔ موجودہ زمانے میں لوگوں نے اس سے مختلف مطلب اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ تمام اہلِ علم اس مطلب پر متفق ہیں جو میں نے آپ کو بتایا۔

 سوال: ہر گھر میں ٹی وی موجود ہے۔ اس کے برے اثرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

جواب: دیکھیے، یہ ایک ایسی وبا ہے جو پورے معاشرے میں پھیل گئی ہے۔ اس کو اٹھا کر باہر بھی نہیں پھینکا جا سکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسئلے کے اپنے کچھ معاشرتی اور سماجی پہلو ہیں جو بڑے خطرناک نتائج تک پہنچا سکتے ہیں۔ جب معاشرے میں ایسی وبا پھیل جائے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ آپ لوگوں کا شعور بلند کریں۔ ان کے اندر خیر کا شعور پیدا کریں۔ ان کے اندر جنت کی طلب پیدا کریں۔ ان کو یہ بتائیں کہ دنیا کی زندگی کیسی عارضی ہے۔ یہ سمجھائیں کہ یہاں نفس کی معمولی لغزش وہاں کتنے بڑے خسارے کا باعث بن جائے گی۔ یہ بتائیں کہ ان کو وہاں بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کے لیے یہاں اپنے آپ کو پاک رکھنا ہے۔ یہ چیز آپ بتائیں گے تو شعور پیدا ہو گا۔ اور جب شعور پیدا ہو گا تو آہستہ آہستہ یہ چیزیں بے معنی ہو جائیں گی۔

جب کوئی چیز اس درجے میں عام نہ ہوئی ہو تو اس وقت تک اس پر کوئی پابندی لگا کر اس کے ضرر کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ زمانے میں میڈیا نے جو صورت اختیار کر لی ہے۔ اس میں پابندی کا رویہ شاید ممکن ہی نہیں۔ پابندی لگائی گئی تو ہزار چور دروازے نکل آئیں گے۔ اس یلغار کا مقابلہ نفسِ انسانی کی اصلاح سے ہو گا، پابندی سے نہیں۔

سوال: شریعت کی رو سے کسی گروہ کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے؟

 جواب: شریعت میں کسی کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر نہیں کر سکتی۔ البتہ وہ زیادہ سے زیادہ سورۂ توبہ کی آیت ۵ میں بیان کردہ شرائط سے انحراف کے نتیجے میں کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے۔

کافر کا مطلب تو دین کی اصطلاح میں یہ ہے کہ کسی گروہ کے بارے میں اللہ کی حجت پوری ہو گئی اور یہ بات واضح ہو گئی کہ اس نے ضد، عناد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر دین کا انکار کیا۔ اس گروہ کو کافر کہا جاتا ہے۔ یہ چیز پیغمبروں اور صحابۂ کرام کے بعد اب میری اور آپ کی سعی سے ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے تکفیر کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔ اس کی کبھی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔

البتہ کوئی چیز کفر ہے، کوئی چیز شرک ہے، کوئی چیز بدعت ہے، اس کے بارے میں توجہ بھی دلانی چاہیے، حکمت کے ساتھ نصیحت بھی کرنی چاہیے۔ اس سے زیادہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔

(جاری)


ـــــــــــــــــــــــــ

B