معز امجد /محمد بلال
انٹر نیٹ کی دنیا کے ایک مستشرق مسٹر جوکن کاٹز (Jochen Katz) نے حسبِ روایت قرآنِ مجید پر تنقید کرتے ہوئے اس کی چند آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ معنوی لحاظ سے متصادم قرار دیا ہے اور خدا کےمسکن کے بارے میں ایک سوال اٹھایا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر ’’Where is Allah?‘‘ (اللہ کہاں ہے؟) کے زیرِ عنوان اس تنقید کا جواب دیا تھا۔ اب محمد بلال صاحب نے قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے استفادے کے لیے میری انگریزی تحریر کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
انٹرنیٹ پر مسٹر جوکن کاٹز کی اصل تحریر:
http://www. answeringislam.org/Quran/Contra/ i020.html
پر اور میری اصل تحریر:
http://www.understanding_islam.com/articles/quran/wia.htm
پر دیکھی جا سکتی ہے۔ (مدیر)
مسٹر جوکن کاٹز اسلام پر اپنے مختلف تنقیدی مضامین میں سے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ خدا کے مسکن کے متعلق آیاتِ قرآنی باہم متضاد ہیں۔ مسٹر کاٹز اپنی اس تنقید کی بنیاد قرآنِ مجید کے حسبِ ذیل مقامات پر رکھتے ہیں:
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ. (الحدید ۵۷: ۴)
’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا چھ دنوں میں پھر وہ (قوت و اقتدار کے) عرش پرمتمکن ہوا۔‘‘
وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ.(ق ۵۰: ۱۶)
’’ اور ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.(ہود ۱۱: ۷)
’’اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمھیں جانچے کہ کون اچھے عمل والا ہے۔‘‘
يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَي الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ٘ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۵)
’’وہی آسمان سے زمین تک سارے امور کا انتظام فرماتا ہے۔ پھر یہ تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ہزارسال کے برابر ہے۔‘‘
تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ.(المعارج ۷۰: ۴)
’’اس کی طرف فرشتے اور جبریل صعود کرتے ہیں اور ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘
سورۂ حدیدکی آیت ۴ اور سورۂ ق کی آیت ۱۶ کا موازنہ کرتے ہوئے مسٹر کاٹز لکھتے ہیں:
’’کیا خدا کا عرش تمھاری رگِ جاں پر واقع ہے؟ یہ سوال احمقانہ لگتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک آدمی ان آیات کا یہ مطلب آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اللہ ہر شخص کے نزدیک ہے، کیونکہ وہ کسی مخصوص جگہ میں مقید نہیں ہے۔ اللہ ’’ہر جگہ‘‘ پر ہے سے مراد یہ ہے کہ کوئی جگہ اللہ کی موجودگی سے خالی نہیں ہے۔ (پھر) ’’عرش‘‘ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘
اس کے بعد سورۂ حدید کی آیت ۴ میں استعمال کیے گئے لفظ ’’عرش‘‘ کے مفہوم کا حوالہ دیتے ہوئے، جو عام طور پر مترجمین سمجھتے ہیں (جو اس مفہوم سے مختلف نہیں ہے جو میں نے اپنے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔ یعنی اس کا مطلب ’’کنٹرول‘‘ بتایا ہے) مسٹر کاٹز لکھتے ہیں:
’’یہ ’’عرش‘‘ اللہ کی حکومت اور قوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ کوئی شخص اسے کسی مادی جگہ کا مفہوم پہنائے۔ اور درحقیقت یوسف علی[1] اس کا اس طرح ترجمہ کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی عرش پر عملاً براجمان ہونے کا معاملہ نہیں ہے۔ (جوکہ عربی کا لغوی مفہوم ہے) بلکہ یہ اس (اللہ) کی قوت کا استعاراتی اظہار ہے۔‘‘
‘‘He it is who created the heavens and the earth in Six Days, and is moreover firmly established on the throne (of Authority).’’
’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا چھ دنوں میں پھر وہ (قوت و اقتدار کے عرش پرمتمکن ہوا۔‘‘
مسٹر کاٹز مزید لکھتے ہیں:
’’یہ (ترجمہ اس صورت میں) مسئلہ حل کر دے گا اگر ہر شخص اللہ کے عرش کو بیان کرتے ہوئے اسے ہمیشہ استعاراتی مفہوم میں سمجھے۔ لیکن ہم اس آیت کا کیا کریں؟
وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.(۱۱: ۷)
’’ اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ تمھیں جانچے کہ کون اچھے عمل والا ہے۔‘‘
کیا یہاں ’’پانی‘‘ (کا لفظ) بھی استعاراتی (طور پر استعمال ہوا) ہے۔ حتیٰ کہ (یہاں) یہ بھی مکمل طور پر واضح نہیں کیا گیا کہ یہ پانی کہاں تھا (سمندر میں، بارش کے بادلوں میں.....)۔ (یہاں) واضح طور پر ’’عرش‘‘ کی جگہ کا بیان ہے۔ (اس لیے) اب (لفظ ’’عرش‘‘ کو) استعاراتی (مفہوم میں) نہیں لیا جا سکتا۔ (اور پھر یہاں) عربی کا فعل ماضی (استعمال ہوا) ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عرش اب بھی پانی کے اوپر ہے۔ اور اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر (یہ عرش) کہاں چلا گیا ہے؟‘‘
اس کے بعد مسٹر کاٹز نے حسبِ ذیل آیات نقل کی ہیں:
يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَي الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ٘ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۵)
’’وہی آسمان سے زمین تک سارے امور کا انتظام فرماتا ہے۔ پھر یہ تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ہزارسال کے برابر ہے۔‘‘
تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ.(المعارج ۷۰: ۴)
’’ اس کی طرف فرشتے اور جبریل صعود کرتے ہیں اور ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘
اور پھر ان آیات کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اگر اللہ ہماری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے تو پھر ان ’’امور‘‘، فرشتوں اور جبرائیل کو اس کی جانب سفر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا سورۂ سجدہ اور سورۂ معارج کی مذکورہ آیات کی کوئی ایسی تعبیر ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ اللہ اور زمین کے درمیان کوئی ’’مادی فاصلہ‘‘ نہیں ہے کہ جسے طے کرنے کی ضرورت ہو۔ سورۂ ق کی آیت ۱۶ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں سے تمھیں اپنے موجودہ مقام سے اس کے قریب ہونے کے لیے جانا پڑے۔‘‘
مسٹر کاٹز کی تنقید بنیادی طورپرتین نکات پر مشتمل ہے۔ لہٰذا ہم تین مختلف عنوانات سے ان کے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب عرض کرتے ہیں۔
مسٹر کاٹز پہلا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ سورۂ حدید کی آیت ۴ اور سورۂ ق کی آیت ۱۶ باہم متصادم ہیں۔ ایک آیت یہ کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے تو دوسری آیت یہ کہتی ہے کہ وہ عرش پرمتمکن ہوا۔ لفظ ’’عرش‘‘ کا استعاراتی مطلب عام طور پر مترجمین بشمول میرے، جو لیتے ہیں وہ سورۂ ہود کی آیت ۷ قبول نہیں کرتی۔ اگر اللہ اپنی مخلوق کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے تو پھر فرشتوں کو اس تک پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے پچاس ہزار سال کا سفر کیوں طے کرنا پڑتا ہے۔
ان آیات سے متعلق میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ عربی زبان کے لفظ ’’عرش‘‘ کا مطلب عام طور پر اقتدار سمجھا جاتا ہے۔ جب قرآنِ مجید یہ کہتا ہے کہ: ’’اللہ نے اپنے آپ کو اپنے عرش پرمتمکن کیا‘‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تمام مخلوق کو کنٹرول کرنے کے بعد اس نے اس کی زمامِ کار سنبھالی۔ قرآن میں یہ آیت عام طور پر اس عقیدے کی نفی کرنے کے لیے آتی ہے جس عقیدے کے حامل یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے اس کا خالق اللہ ہے لیکن ہر چیز تخلیق کرنے کے بعد اس کا نظم سنبھالنے کے لیے اختیارات اس نے دوسروں کو سونپ دیے تھے۔ یہ عقیدہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس عقیدے کے بہت قریب ہے جس کی رو سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ خدا (اسباب و علل کے جاری اس سلسلے میں) صرف ’’پہلا سبب‘‘ یا ’’علت العلل‘‘ ہے۔
میرے نزدیک قرآن کا لفظ ’’عرش‘‘ کائنات کے اندر یا باہر اپنے کسی خاص مقام کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ یہاں مذکورہ عقیدے کی نفی کر رہا ہے اور یہ واضح کر رہا ہے کہ اللہ نے نہ صرف یہ کائنات تخلیق کی ہے بلکہ وہ اکیلا اس کے تمام معاملات کو کنٹرول بھی کر رہا ہے۔
اسی طرح قرآن جب یہ کہتا ہے کہ خدا تمھاری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے تو یہ دراصل انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ خدا کا علم، علمِ کل ہے۔ اس کا علم ہر شے پر محیط ہے۔ چنانچہ، پوری آیت کے الفاظ اس طرح سے ہیں:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗﵗ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ . (۵۰: ۱۶)
’’اور انسان کو ہم نے پیدا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں اس کے دل میں جو وسوسے گزرتے ہیں اور ہم اس کی رگِ جاں سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔‘‘
یہ آیت واضح طور پر انسان کے دل میں پیدا ہونے والے خیالات کے بارے میں خدا کے علم سے آگاہ کر رہی ہے۔ سیاقِ کلام اس کی دلیل ہے کہ یہاں خدا کی مادی پوزیشن بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کے علمِ کل سے مطلع کرنا پیشِ نظر ہے۔ اسی طرح سورۂ حدید کی آیت ۴ اور سورۂ ق کی آیت ۱۶ کا منشا بھی اللہ تعالیٰ کی جاے مسکن بتانا نہیں ہے بلکہ ایک باطل عقیدے کی نفی کرنا ہے۔ لہٰذا میرے نزدیک یہاں کسی قسم کا باہمی تضاد پیدا نہیں ہوتا۔
مسٹر کاٹز دوسرا اعتراض یہ کرتے ہیں کہ لفظ ’’عرش‘‘ کا خدا کی قوت اور حکومت پر مبنی استعاراتی مفہوم جو عام طور پر بیان کیا جاتا ہے اگر اس کا سورۂ ہود کی آیت ۱۱ کی روشنی میں تجزیہ کریں تو اس مفہوم کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ سورۂ ہود کی مذکورہ آیت میں کہا گیا ہے کہ خدا کا عرش پانی پر تھا۔ لفظ ’’پانی‘‘ کے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کا عرش کسی مادی مقام پر موجود ہے۔ چنانچہ اس آیت میں لفظ ’’عرش‘‘ کا استعاراتی مفہوم نہیں لیا جا سکتا۔
میں مسٹر کاٹز کی اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ سورۂ ہود کی مذکورہ آیت خدا کے عرش کے مادی مقام کا بیان ہے۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ سورۂ حدید کی آیت ۴ کی طرح یہاں بھی دراصل اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوقات پر کنٹرول سے مطلع کرنا پیشِ نظر ہے۔ یہاں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ کائنات کی تخلیق کے وقت خدا ’’کہاں‘‘ موجود تھا بلکہ اس بات سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اس وقت پوری زمین پانی سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس لیے اس کا کنٹرول اس وقت پانی پر تھا۔ یہ بات اپنے مفہوم کے اعتبار سے مخلوقات کی ابتدا کے بارے میں بائبل کے بیان کے بہت قریب ہے۔ بائبل کے پہلے باب ’’پیدایش‘‘ (Genesis) کا آغاز ہی اس طرح ہوتا ہے:
’’خدا نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی[2]۔‘‘ (۱: ۱ - ۲)
بدقسمتی سے ہمارے پاس بائبل کے اصل الفاظ موجود نہیں ہیں، لیکن ہماری یہ رائے ہے کہ اگر بائبل کے اصل الفاظ موجود ہوتے تو وہ ان الفاظ سے مختلف نہ ہوتے جو مذکورہ مسئلے سے متعلق قرآنِ مجید میں استعمال ہوئے ہیں۔
مسٹر کاٹز تیسرا اعتراض کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا انسانوں سے ان کی رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے تو پھر فرشتوں کو اس کے پاس پہنچنے کے لیے ایک ہزار سے پچاس ہزار سال کا فاصلہ کیوں طے کرنا پڑتا ہے۔
اوپر میں نے جو اپنا نقطۂ نظر بیان کیا ہے اس سے یہ اعتراض آپ سے آپ رفع ہو جانا چاہیے، لیکن اس کے باوجود میں اس کا الگ سے جواب دیتا ہوں جس سے مذکورہ مسئلے کا ایک اور پہلو اجاگر ہو گا۔
میں یہاں اس بات کا اعادہ کروں گا کہ ’’رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا علم ہر شے پر محیط ہے۔ جہاں تک سورۂ معارج کی آیت ۴ کا تعلق ہے تو اس سے دراصل ایک تو یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کس قدر عظمت و بزرگی اور جاہ و جلال کی حامل ہستی ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ کے کام کرنے کے پیمانوں کی حقیقت انسان اپنی محدودیتوں، معذوریوں اور مجبوریوں کی وجہ سے صحیح اور مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے کام کرنے کے وقت کے پیمانے ہمارے وقت کے پیمانوں سے بہت بڑے ہیں۔ ظاہر ہے عالمِ کل ہونا یا بڑی شان والا ہونا، دو الگ الگ چیزیں ہیں جو کسی طرح ایک دوسرے کی نقیض نہیں ہیں۔ مذکورہ دونوں آیات دو مختلف باتیں کر رہی ہیں۔ ایک آیت میں خدا نے انسان سے دراصل یہ کہا ہے کہ میں تمھارے ہر فعل سے آگاہ ہوں اور دوسری آیت میں درحقیقت یہ کہا ہے کہ میرے مقرب سے مقرب فرشتے بھی مجھ تک آسانی سے رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک آیت میں خدا اپنے علم کا کمال بیان کرتا ہے اور دوسری آیت میں مخلوق کی کمزوری اور اپنی عظمت اور بزرگی کا ذکر کرتا ہے۔ یہ دونوں باتیں کسی طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ متصادم قرار نہیں دی جا سکتیں۔ لہٰذا میرے نزدیک ان آیات کو باہم متضاد قرار دینے پر مبنی مسٹر کاٹز کا اعتراض بے جا ہے۔
میں امید کرتا ہوں میری توضیحات پر غیر جانبداری کے ساتھ غور کیا جائے گا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1] جناب یوسف علی نے قرآنِ مجید کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، جو خاصا معروف ہے۔ (مترجم)
[2] بائبل کا یہ ترجمہ ’’بائبل سوسائٹی‘‘ انارکلی لاہور کی بائبل سے لیا گیا ہے۔ (مترجم)