’’الجماعۃ‘‘ کے اس مفہوم پر، جسے ہم نے بیان کیا ہے، مولانا وصی مظہر صاحب ندوی نے بھی بعض اعتراضات کیے ہیں۔ مولانا کے یہ اعتراضات ماہنامہ’ ’فاران‘‘، مارچ ۱۹۹۶ء میں صفحہ ۳۳ پر شائع ہوئے تھے۔ اس معاملے میں مولانا محترم کے اعتراضات حسب ذیل ہیں:
۱۔ احادیث میں ’الجماعۃ‘ سے مراد صرف وہی جماعت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور اس کے ساتھ التزام کے احکام اسی وقت تک کے لیے ہیں، جب تک یہ قائم رہے۔ جب یہ قائم ہی نہ رہے تو اس کے ساتھ التزام کے احکام بھی نافذ العمل نہ رہیں گے۔
۲۔ احادیث صحیحہ میں ’الجماعۃ‘ کے جو کم سے کم شرائط بیان ہوئے ہیں، جن کی موجودگی کی صورت میں کسی جماعت کو ’الجماعۃ‘ قرار دیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہیں:
ا۔ یہ بغیر کسی تفریق کے تمام مسلمانوں کی ’الجماعۃ‘ ہو گی،
ب۔ تمام مسلمان یا کم سے کم ان کی اکثریت اس میں شامل ہو گی،
ج۔ اس کا بنیادی مقصد ’’دعوت الی الخیر‘‘ اور اس کا بنیادی پروگرام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اقامت صلوٰۃ، ایتاے زکوٰۃ اور قیام عدل کے لیے شریعت کا نفاذ ہو گا اور
د۔ اس کا صاحب اقتدار ہونا اور مسلمانوں کی اکثریت کا اسے تسلیم کر لینا ضروری ہے۔
۳۔ ’الجماعۃ‘ میں بگاڑ پیدا ہو جانے کی صورت میں اس کی اصلاح کی جد و جہد کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے حکمرانوں کی طرف سے ’کفر بواح‘ کی صورت میں، بعض شرائط کے ساتھ ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ دین میں قتال اور حکمرانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی صرف دو ہی صورتیں ہیں: ایک حرام یا ناجائز اور دوسری واجب۔ چنانچہ حکمرانوں کے خلاف اگر اس قسم کے اقدام کے تمام شرائط پورے ہو رہے ہوں تو پھر طاقت کا استعمال محض جائز ہی نہیں، واجب ہو جاتا ہے۔ حکمرانوں کی ’اطاعت‘ کے حکم میں خوش دلی کے ساتھ اطاعت کرنا شامل ہے، اس وجہ سے کافر اور کفر بواح کے مرتکب حکمرانوں کے لیے ’اطاعت‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
۴۔ دور حاضر کی مسلم حکومتیں درج ذیل وجوہ کی بنا پر ’الجماعۃ‘ نہیں ہیں:
ا۔ ان حکومتوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ، ان ممالک میں بسنے والے غیر مسلم بھی ان میں برابر کے شریک ہیں، جبکہ ’الجماعۃ‘ کے لفظ کا اطلاق مسلمانوں ہی کی جماعت پر ہوتا ہے،
ب۔ یہ حکومتیں جغرافیائی حد بندیوں کی بنا پر قائم ہیں۔ ان میں سے کسی میں بھی تمام مسلمانوں یا کم سے کم ان کی اکثریت کی شرکت نہیں ہے،
ج۔ جس جماعت پر ’الجماعۃ‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے، وہ ساری دنیا میں ایک ہی ہو سکتی ہے۔ ایک سے زیادہ جماعتوں پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا،
د۔ ان میں سے حکومت سے الگ ہو کر کسی دوسرے ملک میں چلا جانے والا شخص واجب القتل ہے اور نہ جہنمی۔
ذیل میں ہم مولانا محترم کے نکات کا جائزہ لیں گے۔
سب سے پہلی بات مولانا محترم نے یہ فرمائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی حدیثوں میں جس چیز کو ’الجماعۃ‘ کہا گیا ہے، اس سے مراد صرف وہی جماعت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور اس کے التزام کے احکام بھی اسی وقت تک کے لیے ہیں، جب تک وہ جماعت قائم ہے۔ جب یہ قائم ہی نہ رہے تو پھر مولانا محترم کے نزدیک اس کے التزام کے احکام کے بھی کوئی معنی نہیں ہوں گے۔ مولانا محترم اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دراصل یہ سارے احکام (یعنی الجماعت کے التزام، امیر کی اطاعت اور خروج کی ممانعت کے احکام) اور یہ تمام ہدایات اس وقت دی تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں مدینہ منورہ کے اندر مسلمانوں کی ایک بااقتدار ’الجماعت‘ قائم ہو گئی تھی۔ لفظ ’جماعت‘ جو نکرہ (Indefinite) ہونے کی صورت میں ہر جماعت کے لیے بولا جا سکتا ہے، اس پر ’ال‘ داخل ہونے کے بعد اس کا اطلاق صرف اس جماعت پر ہو گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں قائم ہوئی تھی۔ اور اس جماعت کے ساتھ وابستہ رہنے کے جتنے احکام ہیں، وہ سب اس وقت تک کے لیے ہیں جب تک یہ جماعت قائم رہے۔ لیکن جب یہ قائم نہ رہے جیسا کہ اس وقت ہے تو التزام جماعت کے یہ سارے احکام نافذالعمل نہ سمجھے جائیں گے۔ جس طرح ہر نماز اس وقت فرض ہوتی ہے، جب اس کا وقت داخل ہو، اس سے قبل نماز کا حکم توموجود رہتا مگر نافذالعمل نہیں ہوتا، یا جس طرح حدود اور تعزیرات کے احکام اس وقت نافذ العمل ہیں جب وہ اجتماعی نظام موجود ہو جو ان کے نفاذ پر قائم ہو، لیکن اس نظام کی عدم موجودگی میں عام مسلمان ان احکام کے مخاطب نہیں نہ ان کے مکلف ہیں۔‘‘ ( ۳۴)
ہمیں مولانا محترم کی اس بات سے اتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں ’الجماعۃ‘ کا لفظ اصلاً اسی نظم اجتماعی کے لیے استعمال ہوا ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں قائم فرمایا اور پھر فتح مکہ کے بعد جس کا اقتدار پورے جزیرہ نماے عرب پر پھیل گیا، لیکن ہمارے نزدیک اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ’الجماعۃ‘ کے لفظ کا اطلاق عملاً اسی نظم پر ہو سکتا تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس جزیرہ نماے عرب میں قائم فرمایا تھا۔
التزام جماعت کے حکم کی وجہ محض یہ نہیں ہے کہ یہ نظم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا، بلکہ، جیسا کہ اپنے اس مضمون کے پہلے حصوں میں ہم واضح کر چکے ہیں، اس کی وجہ مسلمانوں کو بد نظمی، تفرقے اور خوں ریزی سے بچانا اور اتحاد اور اتفاق کی راہ دکھانا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خرابی جس طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ نظم سے بغاوت کرنے کے نتیجے میں پیدا ہو سکتی تھی، اسی طرح کسی بھی نظم سے بغاوت کرنے کے نتیجے میں پیدا ہو سکتی ہے۔ پھر مزید یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کسی بھی روایت میں یہ بات نقل نہیں ہوئی کہ ’تم پر الجماعت سے وابستہ رہنا اس لیے ضروری ہے، کیونکہ یہ الجماعت تمھارے پیغمبر نے قائم کی ہے‘۔ اس کے برعکس جو بات آپ سے مختلف روایتوں میں نقل ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ حکمران خواہ پسندیدہ ہو یا ناپسندیدہ، وہ خواہ عادل ہو یا غیر عادل، وہ اللہ کا فرماں بردار ہو یا فاجر و فاسق ہو، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر چلنے والا ہو یا اس طریقے سے گریز کرنے والا ہو، تم ہر حال میں اس کی اطاعت و فرماں برداری پر جمے رہنا، الاّ یہ کہ وہ تمھیں کوئی ایسا حکم دے جس کی اطاعت سے اللہ کی نافرمانی لازم آتی ہو یا وہ کھلے اور واضح الفاظ میں اپنے کفر کا اعلان کر دے۔ ہمیں یقین ہے کہ مولانا محترم اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جس حکمران میں یہ تمام خرابیاں موجود ہوں، اس حکمران کے قائم کردہ نظم کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ نظم کسی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
چنانچہ اس میں تو اگرچہ شبہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں جس چیز کو ’الجماعت‘ کہا گیا ہے، وہ مسلمانوں کا وہی اجتماعی نظم ہے جس کی بنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس ریاست مدینہ کا نظم قائم کر کے ڈالی، لیکن ان روایتوں میں مروی التزام جماعت کی ہدایت اپنی علت کے اعتبار سے صرف اسی ’الجماعت‘ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ مولانا محترم نے بھی اپنے مضمون میں آگے چل کر اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ آج کے دور میں کسی نظم کو اگر ’الجماعت‘ کہا جا سکتا ہے تو اس کے لیے اس نظم میں کون کون سی خصوصیات کا ہونا ان کے نزدیک ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر التزام جماعت کا حکم فی الواقع محض اسی جماعت کے لیے ہوتا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی تھی تو مولانا ان خصوصیات میں ایک یہ درج فرماتے کہ ’اس نظم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا ہو‘۔ مزید یہ کہ ’الجماعت‘ سے متعلق روایات میں نقل ہونے والے تمام احکام اگر فی الواقع صرف اور صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم کردہ نظم ہی سے متعلق ہوتے تو پھر مولانا محترم کا یہ سوال بالکل بے معنی ہو جاتا کہ ’کیا ہم اس جماعت کو قائم کرنے کے مکلف ہیں؟ اور اگر جماعت قائم کرنے کے مکلف ہیں تو پھر اس کا طریق کار کیا ہو گا؟‘، کیونکہ ظاہر ہے کہ اس صورت میں مسلمانوں کو اس جماعت کو قائم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرانا انھیں تکلیف ما لایطاق دینے کے مترادف ہوتا۔
مولانا محترم نے دوسری بات یہ فرمائی ہے کہ کسی نظم اجتماعی کو ’جماعت المسلمین‘ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظم بعض شرائط پر پورا اترتا ہو۔ مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’احادیث صحیحہ سے اس الجماعت کی جوخصوصیات معلوم ہوتی ہیں، وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ یہ تمام مسلمانوں کی جماعت ہو گی، اس میں شمولیت سے کسی مسلمان کو نہ جغرافیائی حدود کی وجہ سے، نہ لسانی اور نسلی اختلاف کی بنا پر روکا جا سکے گا۔
۲۔ تمام مسلمان اس میں شامل ہوں یا کم از کم اس کو سواد اعظم کی تائید حاصل ہو۔
۳۔ اس ’الجماعت‘ کا بنیادی مقصد ’دعوت الی الخیر‘ اور اس کا اصل پروگرام امربالمعروف اور نہی عن المنکر، اقامت صلٰوۃ، ایتاء زکٰوۃ اور قیام قسط و عدل کے لیے اللہ کی کتاب اور میزان (شریعت) کو نافذ کرنا ہو گا۔
۴۔... اس جماعت کا صاحب اقتدار ہونا اور مسلمانوں کی اکثریت کا اس اقتدار کو تسلیم کر لینا ہے۔‘‘ (ص ۳۴)
ہمارے نزدیک مولانا محترم نے یہاں جو نکات بیان فرمائے ہیں، ان میں سے پہلا اور دوسرا نکتہ ہی دراصل ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف کا باعث ہے۔ چوتھا نکتہ تو خود مولانا ہی کے الفاظ میں ہمارے اور ان کے درمیان متفق علیہ ہے اور جہاں تک تیسرے نکتے کا تعلق ہے، اس کے بارے میں مولانا محترم ہی کی یہ راے ہے کہ اس معاملے میں مسلمان حکمرانوں کی طرف سے اگر کوئی کمزوری ظاہر ہو، تب بھی دین کا تقاضا یہی ہے کہ عام مسلمان اپنے نظم سے وابستہ رہیں اور اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کریں۔ چنانچہ الجماعت کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’واضح رہے کہ زوال و انحطاط کے عمل سے اگر ان خصوصیات میں کچھ ضعف پیدا ہو جائے، مثلاً یہ کہ دعوت الی الخیر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، نفاذ شریعت یا قیام قسط و عدل ٹھیک ٹھیک معیار کے مطابق نہ رہیں تو ان کو تاہیوں کی وجہ سے اس کے الجماعت ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نہ اس سے علیحدہ ہونا جائز ہو گا، نہ اس کے خلاف خروج و قتال کی اجازت ہو گی۔‘‘ (۳۴)
پھر اپنے مضمون کے آخر میں مولانا محترم نے ان وجوہ کی نشان دہی بھی فرمائی ہے جن کے باعث ان کی نظر میں موجودہ مسلمان ریاستیں ’الجماعت‘ کہلانے کی حق دار نہیں ہیں۔ ان وجوہ میں بھی بعض دوسرے وجوہ کے ساتھ ساتھ، اوپر درج پہلی اور دوسری خصوصیت ہی کے ناپید ہونے کا مولانا نے ذکر کیا ہے، تیسری اور چوتھی شرط وہاں پر زیر بحث ہی نہیں آئی۔ چنانچہ وہاں وہ لکھتے ہیں:
’’اب آخر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دور حاضر کی مسلم حکومتیں، نام نہاد جمہوری حکومتیں، آمرانہ حکومتیں اور بادشاہتیں حسب ذیل وجوہ کی بنا پر ’الجماعت‘ نہیں ہیں:
... ۲۔ ان میں سے کسی حکومت میں نہ دنیا کے تمام مسلمان شریک ہیں نہ سواد اعظم۔ ان حکومتوں میں صرف ان لوگوں کو شرکت کی اجازت ہے جو مخصوص جغرافیائی حد کے اندر رہتے ہوں، اس سے باہر رہنے والا کوئی مسلمان محض مسلمان ہونے کی بنا پر اس ’الجماعت‘ میں شریک نہیں ہو سکتا جو سراسر الجماعت کے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔...
۳۔ احادیث صحیحہ کی رو سے، نیز خود لفظ ’الجماعت‘ سے واضح ہے کہ مسلمانوں کی ’الجماعت‘ سارے عالم میں بس ایک ہی جماعت ہو سکتی ہے۔ بیک وقت کئی الجماعتوں کا وجود تناقض فی الاصطلاح ہے۔ نیز اس سے لازم آتا ہے کہ ایک حکومت میں رہنے والا مسلمان ’الجماعت‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے الجماعت میں شمولیت کی بشارتوں کا بھی مستحق ہو اور دوسری الجماعتوں میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے وعیدوں کا مستحق بھی۔‘‘ (ص ۳۵)
اس صورت حال کے پیش نظر ہمارے نزدیک مناسب ہو گا کہ ہم مولانا محترم کے پہلے دو نکات کو اچھی طرح سے سمجھ کر ان کا جائزہ لے لیں۔
مولانا کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’الجماعۃ‘ مسلمانوں کے اسی نظم اجتماعی کو کہا جا سکتا ہے جس میں رنگ و نسل اور لسانی و جغرافیائی حدود کی تفریق کے بغیر دنیا کے تمام مسلمان شامل ہوں، دنیا کے بعض مسلمانوں کو اگر اس نظم میں شریک ہونے اور اس کا حصہ بننے کی اجازت نہ ہو تو محض اس رکاوٹ کے باعث، وہ نظم ’الجماعۃ‘ کہلانے کا مستحق نہ رہے گا۔
اس ضمن میں مولانا محترم سے ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ دین و شریعت کی نصوص میں ان کی اس بات کی دلیل کیا ہے؟ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ یہ بھی واضح فرما دیں کہ اگر مسلمان ریاست شہریوں کو تبادلے اور آمد و رفت کے معاملے میں کچھ بین الاقوامی معاہدات میں بندھی ہوئی یا اپنے تحفظ کے لیے آنے والوں پر کچھ پابندیاں او رشرائط عائد کرتی ہو تو کیا اس صورت میں وہ ’الجماعۃ‘ یا بہ الفاظ دیگر ’مسلمانوں کا نظم اجتماعی‘ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی؟ مولانا کے نزدیک اگر ایسی ریاست ’الجماعۃ‘ یا ’ مسلمانوں کا نظم اجتماعی‘ کہلانے کی مستحق نہیں رہتی تو پھر مولانا سے ہماری گزارش ہے کہ وہ یہ واضح فرما دیں کہ ان کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سربراہی میں مدینہ کی ریاست، صلح حدیبیہ کے بعد کس اصول پر ’الجماعۃ‘ کہلانے کی مستحق ہوئی؟ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے جس معاہدے پر اللہ کے پیغمبر نے ’جماعت المسلمین‘ کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی مہر ثبت فرمائی تھی، اس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ مکہ کا کوئی باشندہ اگر مسلمان ہو کر مدینہ آئے تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہو ں گے۔ ظاہر ہے، اس بات کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسے شخص کو ریاست مدینہ کی شہریت نہیں دی جا سکتی۔ گویا اس زمانے میں ایک بین الاقوامی معاہدے کی وجہ سے خود ریاست مدینہ سے ’باہر رہنے والا کوئی مسلمان محض مسلمان ہونے کی بنا پر اس الجماعت میں شریک نہیں ہو سکتا‘ تھا اور یہ بات مولانا محترم کے نزدیک ’سراسر الجماعت کے بنیادی تصور کے خلاف ہے‘۔ چنانچہ تاریخ و سیر کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ اسی معاہدے کی پابندی کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو جندل رضی اللہ عنہ اور ابو بصیر کو مدینہ کی شہریت نہیں دی اور انھیں مکہ والوں کو لوٹا دیا۔ اب اگر مولانا محترم کی بات صحیح ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ کو کس اصول پر ’الجماعۃ‘ یا ’جماعت المسلمین‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
مولانا محترم کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا صرف وہی نظم ’الجماعۃ‘ کہلائے گا جس میں تمام مسلمان شامل ہوں یا جسے تمام مسلمانوں کے سواد اعظم، یعنی ان کی اکثریت کی تائید حاصل ہو۔ ’تمام مسلمانوں‘ سے مولانا کی مراد اگر ’ایک نظم اور ایک ریاست میں رہنے والے تمام مسلمان‘ ہیں تو پھر ہمیں مولانا محترم کی اس بات سے بہت حد تک اتفاق ہے، لیکن اس سے مراد اگر ’دنیا کے تمام مسلمان‘ ہیں تو اس معاملے میں بھی ہم مولانا محترم سے گزارش کریں گے کہ وہ ہمیں ان نصوص سے آگاہ فرما دیں جن کی بنیاد پر انھوں نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ مزید یہ کہ اگر کسی نظم کو ’الجماعۃ‘ کہلانے کے لیے یہ لازم ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان اس میں شامل ہوں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ قائم ہو جانے کے بعد بھی مکہ میں رہ جانے والے مسلمانوں کو چھوڑ کر عام طور پر کسی کو مدینہ منتقل ہونے کا حکم آخر کیوں نہیں دیا گیا؟ تاریخ و حدیث کی کتابوں میں ایسے بہت سے واقعات نقل ہوئے ہیں جن کے مطابق لوگ مدینہ آ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاتے اور پھر دین کی ضروری تعلیمات حاصل کر کے واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے، مگر عام طور پر ان کو یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ ان پر مدینہ منتقل ہونا لازم ہے۔
اسی طرح مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ یہ بھی واضح فرما دیں کہ اگر کبھی خدا نخواستہ مسلمانوں کی اکثریت مغربی طاقتوں کے آگے سیاسی طور پر مغلوب ہو جائے (جیسا کہ تاریخ میں ہو چکا ہے) اور صرف سعودی عرب ہی ایک ایسا علاقہ رہ جائے جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو تو کیا مولانا کے نزدیک محض اس وجہ سے کہ سعودی عرب میں دنیا کے تمام مسلمان یا ان کا سواد اعظم شامل نہیں ہے، وہ ریاست ’الجماعۃ‘ کہلانے کی مستحق نہیں ہو گی؟
ہمارے نزدیک، جیسا کہ ہم بار بار واضح کرتے آ رہے ہیں، اصل بات یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ’التزام جماعت‘ کے حکم کے معنی یہ ہیں کہ کسی علاقے میں بسنے والے مسلمان جب اپنا کوئی نظم اجتماعی بنا لیں تو پھر اس نظم سے جڑ کر رہا جائے اور اس کی وفاداری کی جائے۔ جس طرح کسی نظم اجتماعی کی موجودگی کے لیے ضروری اور لازمی شرط یہی اور بس یہی ہے کہ اس نظم اجتماعی کا وجود فی الواقع موجود ہو، اس کے لیے یہ بات کسی طرح بھی ضروری قرار نہیں دی جا سکتی کہ وہ ’دنیا کے تمام لوگوں‘ یا ’تمام مسلمانوں‘ یا ’تمام یہودیوں‘ کا نظم ہو، اسی طرح ’الجماعۃ‘ کے وجود کی بھی تنہا شرط یہی ہے کہ وہ موجود ہو۔ اس علاقے کے مسلمان باہمی طور پر متحارب گروہوں میں بٹ نہ چکے ہوں۔ ایسی صورت حال نہ پیدا ہو چکی ہو جس میں یہ کہنا مشکل ہو جائے کہ اس علاقے کے مسلمانوں کا امیر کون ہے۔
اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ اگر اس وقت فی الواقع مولانا کے نزدیک ’الجماعت‘ کا کوئی وجود نہیں ہے تو پھر وہ تمام باہمی طور پر متحارب گروہوں سے الگ ہو کر کسی جنگل میں جا کر زندگی گزارنے کا درس کیوں نہیں دیتے۔ یہ واضح رہے کہ ’الجماعۃ‘ کی غیر موجودگی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ نہیں ہے کہ ہم:
’’۱۔ مشرکین (ہر طرح کے مشرکین) کی پروا کیے بغیر توحید خالص کی صاف صاف دعوت دیں۔
۲۔ عقیدۂ آخرت کو غیر موثر بنا دینے والے تمام تصورات کی نفی کرتے ہوئے ایمان بالآخرت کی طرف بلائیں۔
۳۔ ایمان بالرسالت اور ایمان بالکتاب کی دعوت دیں۔
۴۔ توبہ (رجوع الی اللہ) اور استغفار کی دعوت دیں۔‘‘ (ماہنامہ فاران، مارچ ۱۹۹۶ء، ص ۳۴)
اس صورت حال میں آپ کی ہدایت یہ ہے کہ اپنے ایمان کی خیر منائی جائے اور ہر قسم کی گروہی وابستگی سے الگ رہتے ہوئے کسی جنگل میں جا کر زندگی گزار دی جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ مولانا محترم ہمارے اس سوال کا جواب یہ دیں گے کہ مسلمان اس وقت اللہ کی مہربانی سے باہمی طور پر متحارب گروہوں میں تقسیم ہی نہیں ہیں، بلکہ بہت حد تک ایک منظم ریاست کے شہری ہیں، اس وجہ سے ’باہمی طور پر متحارب گروہوں سے الگ ہو کر کسی جنگل میں جا کر زندگی گزارنے‘ کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہماری بھی یہی راے ہے۔ اور یہی صورت حال اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کے مسلمان ہوں یا دنیا کے کسی اور ملک کے مسلمان، وہ سب اپنے اپنے علاقے کے نظم سے وابستہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ نظم خواہ کتنے ہی بگڑے ہوئے کیوں نہ ہوں، مگر یہی نظم ان مسلمانوں کے لیے اپنے اپنے علاقے میں ’الجماعۃ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مولانا محترم نے تیسری بات یہ فرمائی ہے کہ ’الجماعۃ‘ میں بگاڑ کی صورت میں مسلمانوں کو اس کی اصلاح کا حکم دیا گیا ہے اور حکمران اگر کفر بواح کے مرتکب ہوں تو بعض شرائط پورے ہونے کے بعد، ان کے خلاف جہاد کو مسلمانوں پر لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’کفر بواح کے ارتکاب کے بعد، کوئی اقتدار ’الجماعت‘ باقی نہیں رہتا ایسے اقتدار کے ساتھ مومن کا اصل تعلق محاربہ کا ہوتا ہے۔ اگر عملاً محاربہ کرنے کے لیے اسلام نے چند اہم شرائط عائد کر دی ہیں جن کے بغیر نہ کفر بواح کے مرتکب نام نہاد مسلمانوں کے خلاف طاقت استعمال کی جا سکتی ہے، نہ کافر حکمرانوں کے خلاف۔ کافر حکمرانوں اور کفر بواح کے مرتکب نام نہاد مسلمانوں کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ جب بھی کسی بااختیار امیر کی قیادت میں مسلمانوں کی کوئی جماعت وجود میں آجائے اور اس کے پاس اتنی مادی طاقت بھی فراہم ہو جائے کہ کافرانہ حکومت کو کامیابی کے ساتھ ہٹانے کے واضح امکانات نظر آ رہے ہوں تو ان کے خلاف محاربہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ محاربہ واجب ہے۔ ’وقاتلوهم حتي لا تكون فتنة ويكون الدين للّٰه‘ (اور ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اطاعت (صرف) اللہ کے لیے ہو جائے)۔‘‘ (ص ۳۴- ۳۵)
احکام دین کے استنباط کے حوالے سے ہماری راے یہ ہے کہ جب تک قرآن و سنت کی واضح نصوص موجود نہ ہوں، اس وقت تک معاملات میں سے کسی چیز کو واجب یا حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جب تک ایسی واضح نصوص موجود نہ ہوں جو کسی معاملے کو مسلمانوں پر لازم یا ان کے لیے ممنوع قرار دے رہی ہوں، اس وقت تک اس معاملے کو جائز یا نا پسندیدہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، فرض و واجب یا حرام و ممنوع قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپنی اسی راے کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو یہ کہنے پر مجبور پاتے ہیں کہ کفر بواح کے ارتکاب کے باوجود حکمرانوں کے خلاف خروج و بغاوت یا کسی قسم کا کوئی اقدام، زیادہ سے زیادہ جائز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے اقدام کو فرض یا واجب قرار دینے کی واضح نصوص موجود ہی نہیں ہیں۔
مولانا محترم نے اپنی اس بات کے آخر میں قرآن مجید کے جن الفاظ کا حوالہ دیا ہے، وہ سورۂ بقرہ (آیت ۱۹۳) اور سورۂ انفال (آیت ۳۹) میں آئے ہیں۔ ان دونوں ہی مقامات پر غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہاں دراصل جن لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ کفر بواح کے مرتکب ’نام نہاد مسلمان‘ حکمران نہیں، بلکہ قریش کے وہ کفار ہیں جن کے لیے رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق اب ’في الاذلين‘ (ذلیل و رسوا) ہونا مقدر ہو چکا ہوا تھا۔ اس سیاق میں دیکھیے تو اس آیت کا کوئی تعلق ’نام نہاد مسلمان‘ حکمرانوں کے خلاف کسی کارروائی سے نہیں ہے۔ سورۂ بقرہ میں یہ الفاظ جس سیاق و سباق میں آئے ہیں، پہلے انھیں ملاحظہ فرمایئے۔ ارشاد ہے:
وَقَاتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوْاﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ. وَاقْتُلُوْهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوْهُمْ وَاَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوْكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِﵐ وَلَا تُقٰتِلُوْهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰي يُقٰتِلُوْكُمْ فِيْهِﵐ فَاِنْ قٰتَلُوْكُمْ فَاقْتُلُوْهُمْﵧ كَذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِيْنَ. فَاِنِ انْتَهَوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. وَقٰتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ لِلّٰهِ. (۲: ۱۹۰- ۱۹۳)
’’اور تم لوگ اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، مگر حد سے بڑھنے والے نہ بنو۔ بے شک، اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور انھیں جہاں کہیں پاؤ، قتل کرو اور جہاں سے انھوں نے تمھیں نکالا ہے، وہاں سے انھیں نکال باہر کرو۔ اور فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔ اور تم ان سے مسجد حرام کے پاس مت لڑو، جب تک وہ خود تم سے اس (کے حدود) میں جنگ نہ چھیڑیں۔ چنانچہ وہ اگر تم سے (اس کے حدود میں) لڑیں تو تم بھی ان سے لڑو۔ یہی ان کافروں کا بدلہ ہے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اور ان سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے اور دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘
جہاں تک سورۂ انفال کا تعلق ہے، وہ تو پوری سورہ ہی قریش کے خلاف کارروائی کی تیاری کے احکام دے رہی ہے۔ اسی سیاق میں وہ عبارت بھی آئی ہے جس کا مولانا محترم نے حوالہ دیا ہے۔
مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہمارے لیے ان نصوص کی نشان دہی فرما دیں جن کی بنیاد پر وہ کفر بواح کے مرتکب حکمرانوں کے خلاف جنگ و قتال کو ’واجب‘ قرار دیتے ہیں۔ مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’... فرض کریں کہ
ا۔ حکومت کفر بواح کی مرتکب ہے۔
ب۔ مسلمان ایک بااختیار امیر کے تحت منظم ہیں۔
ج۔ مسلمان تعداد اور وسائل کے لحاظ سے کفر بواح کی مرتکب حکومت کو ہٹانے کی نظر بظاہر صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
تو کیا اس صورت میں یہ جائز ہو گا کہ وہ ’کفر بواح‘ کی مرتکب حکومت کو ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق دیکھتے رہیں اور کچھ نہ کہیں؟‘‘ (ص ۳۵)
ہم مولانا محترم کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ سوال یہ نہیں ہے کہ ایسی صورت حال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا جائز ہے یا نہیں، سوال تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں مسلمان حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانا دین و شریعت نے لازم ٹھہرایا ہے یا نہیں۔ مولانا محترم یقیناًہم سے بہتر جانتے ہیں کہ جو شخص ایسی صورت حال میں ’نام نہاد مسلمان‘ حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کو لازم، فرض یا واجب سمجھتا ہے، اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن و سنت کی وہ نصوص پیش کرے جن سے اس قسم کے اقدام کا لازم، فرض یا واجب ہونا ثابت ہوتا ہو۔ ایسی نصوص کی غیر موجودگی میں کسی چیز کو دین میں لازم، فرض یا واجب قرار دینا بیان شریعت نہیں ہے۔ اور یقیناًمولانا محترم ہم سے اتفاق کریں گے کہ اہل علم کا کام شریعت سازی نہیں، بیان شریعت ہی ہونا چاہیے۔
مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ ’اطاعت‘ کے مفہوم میں خوش دلی کے ساتھ حکم کی بجا آوری کا تصور پایا جاتا ہے او راحکام کی اس طرح سے بجا آوری اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اور ان اولوالامر کے ساتھ مخصوص ہے جو مسلمانوں میں سے ہوں۔ کافر اور کفر بواح کے مرتکب حکمرانوں کے لیے اطاعت کا لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ص ۳۵)
مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ زبان کے ان شواہد سے ہمیں مطلع فرمائیں جن کی بنیاد پر ان کے نزدیک خوش دلی اور دل کی آمادگی کے بغیر کسی کے حکم کو مان لینے پر عربی زبان میں لفظ ’اطاعت‘ نہیں بولا جاتا۔ اس حوالے سے مولانا محترم سے گزارش ہے کہ وہ روایات میں نقل ہونے والے ان حالات کو خاص طور پر سامنے رکھیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر کی ’اطاعت‘ کا حکم دیا ہے اور یہ بتائیں کہ ان کے اپنے بیان کردہ اصول کے مطابق ان حالات میں ’خوش دلی کے ساتھ حکم کی بجا آوری‘ کس طرح مراد لی جا سکتی ہے؟ مثال کے طور پر مسلم کی ایک روایت کے مطابق ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر حکمران اپنے حقوق تو ہم سے لے لیں، مگر ہمارے حقوق ادا نہ کریں (یعنی وہ ذمہ داریاں ادا نہ کریں جو دین و شریعت اور عقل و فطرت کی رو سے مسلمان عوام کے حوالے سے ان پر عائد ہوتی ہیں) تو اس صورت میں ہم کیا کریں؟ اس کے جواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’اسمعوا واطيعوا‘ (ان کی بات سننا اور ان کی اطاعت کرنا)۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں حکمران کی اطاعت خوش دلی اور دل کی آمادگی کے ساتھ کسی طرح بھی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح وہ روایت جس میں کفر بواح کے بعد حکمرانوں کے خلاف خروج کے جواز کا استنباط کیا جاتا ہے، خود اس کے الفاظ یہ بات واضح کر رہے ہیں کہ لفظ ’اطاعت‘ محض حکم کی بجا آوری کے لیے آتا ہے، اس میں خوش دلی اور دل کی آمادگی کی شرط کسی طرح نہیں لگائی جا سکتی۔ روایت کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعة فی منشطنا ومکرهنا وعسرنا ویسرنا وأثرة علینا. (بخاری، کتاب الفتن)
’’آپ نے ہم سے جن باتوں کا اقرار لیا، ان میں یہ بھی تھی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خواہ پسند ہو یا ناپسند، تنگی ہو یا کشادگی اور خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے۔‘‘
مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’اب آخر میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دور حاضر کی مسلم حکومتیں، نام نہاد جمہوری حکومتیں، آمرانہ حکومتیں اور بادشاہتیں حسب ذیل وجوہ کی بنا پر الجماعت نہیں ہیں:
۱۔ نام نہاد جمہوری حکومتوں میں ان ملکوں میں آباد غیر مسلم بھی برابر کے شریک ہیں، جبکہ ’الجماعت‘ کا اطلاق صرف مسلمانوں کی جماعت پر ہوتا ہے۔
۲۔ ان میں سے کسی حکومت میں نہ دنیا کے تمام مسلمان شریک ہیں، نہ سواد اعظم۔ ان حکومتوں میں صرف ان لوگوں کو شرکت کی اجازت ہے، جو مخصوص جغرافیائی حد کے اندر رہتے ہوں۔ اس سے باہر رہنے والا کوئی مسلمان محض مسلمان ہونے کی بنا پر اس الجماعت میں شریک نہیں ہو سکتا جو سراسر الجماعت کے بنیادی تصور کے خلاف ہے۔
۳۔ احادیث صحیحہ کی رو سے نیز خود لفظ ’الجماعت‘ سے واضح ہے کہ مسلمانوں کی الجماعت سارے عالم میں بس ایک ہی جماعت ہو سکتی ہے۔ بیک وقت کئی الجماعتوں کا وجود تناقض فی الاصطلاح ہے۔ نیز اس سے لازم آتا ہے کہ ایک حکومت میں رہنے والا مسلمان ’الجماعت‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے الجماعت میں شمولیت کی بشارتوں کا بھی مستحق ہو اور دوسری الجماعتوں میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے وعیدوں کا مستحق بھی۔
۴۔ ان میں سے کسی ریاست یا حکومت سے الگ ہو کر کسی دوسرے ملک میں چلا جانے والا یا ان میں سے کسی ریاست سے اختلاف رکھنے والا کوئی شخص نہ واجب القتل ہے، نہ اس کی علیحدگی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے، نہ اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔‘‘ (ص ۳۵)
مولانا محترم کے ان نکات میں سے دوسرے اور تیسرے نکتے کا ہم پہلے تجزیہ کر چکے اور ان کے بارے میں اپنی معروضات مولانا کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ یہاں ہم پہلے اور چوتھے نکتے پر غور کریں گے۔
مولانا محترم کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’الجماعت‘ مسلمانوں کی صرف اسی مملکت کو کہا جا سکتا ہے جس میں غیر مسلم شریک نہ ہوں۔ جس مملکت میں غیر مسلم بھی برابر کے شریک ہوں، اسے ’الجماعت‘ نہیں کہا جا سکتا۔
پہلے تما م نکات کی طرح مولانا کے اس نکتے کے حوالے سے بھی ان سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہمیں دین و شریعت کی ان واضح نصوص سے آگاہ فرما دیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ’الجماعت‘ میں غیر مسلموں کی شرکت ممنوع ہے۔ ہم تو اب تک یہی سمجھتے رہے ہیں کہ جہاں تک معاہدین کا تعلق ہے، ان کے حوالے سے شریعت نے یہ آزادی دے رکھی ہے کہ ان کے ساتھ عدل و انصاف اور باہمی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے جن شرائط پر بھی معاہدہ طے پا جائے گا، دونوں فریق اس معاہدے کو پورا کرنے کے پابند ہوں گے۔ اگر ہماری یہ بات صحیح نہیں ہے تو پھر مولانا ہی بتائیں کہ شریعت نے معاہدین کے کیا حقوق و فرائض متعین کیے ہیں او ردور حاضر کے ’نام نہاد‘ مسلمان ممالک کن کن پہلوؤں سے ان حقوق و فرائض میں کمی بیشی کے مجرم ہیں۔ مزید یہ کہ مولانا محترم مہربانی فرما کر یہ بھی واضح فرما دیں کہ اگر فی الواقع غیرمسلموں کی شرکت سے ایک ریاست ’الجماعت‘ کہلانے کی مستحق نہیں رہتی تو پھر میثاق مدینہ میں یہود کی دینی حیثیت کو تسلیم کرنے، ریاست کی سطح پر ان کے حقوق و فرائض کو تسلیم کرنے اور انھیں سیاسی حیثیت سے اس ریاست کا فرد قرار دینے، یہاں تک کہ بعض حالات میں مسلمانوں کو ان کے کیے ہوئے صلح کے معاہدوں کا پابند کرنے کے بعد، مدینہ کی ریاست کس اصول پر ’الجماعت‘ کہلائے گی؟
مولانا محترم کا چوتھا نکتہ یہ ہے کہ چونکہ مسلمان ممالک میں سے کسی ایک کو چھوڑ کر دوسرے میں چلے جانے سے کوئی شخص واجب القتل ہوتا ہے، نہ اس عمل پر اسے جہنم کی وعید سنائی جا سکتی ہے اور نہ اس کی موت کو جاہلیت کی موت قرار دیا جا سکتا ہے، چنانچہ یہ بات اس کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اسلامی ممالک ہوں یا ان میں بسنے والے شہری، کوئی بھی ان ممالک کو ’الجماعۃ‘ نہیں سمجھتا۔
ہم بڑے ادب کے ساتھ مولانا محترم سے یہ گزارش کریں گے کہ روایات میں جس چیز کو ’خرج من الطاعة‘ یا ’فارق الجماعة‘ یا ’خرج من الجماعة‘ کہا گیا ہے، اس سے مراد محض ایک جگہ سے منتقل ہو کر دوسری جگہ چلے جانا یا ایک ملک سے کسی دوسرے ملک کی طرف ہجرت کر جانا نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ انھی روایتوں سے واضح ہے کہ اس سے مراد نظم کو درہم برہم کرنا، ریاست کے معاملات میں خلل ڈالنا، ریاست کے شہریوں کے جان و مال کو تلف کرنا، ریاست کے قانون کو ماننے سے انکار کرنا، ریاست کی نمائندہ حکومت کا تختہ الٹنا، غرض کہ ریاست کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔ خاموشی کے ساتھ اور پر سکون طریقے سے ایک ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک منتقل ہو جانے کے لیے یہ الفاظ نہیں بولے گئے۔ چنانچہ جن روایتوں میں یہ الفاظ آئے ہیں، ان پر غور کرنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان سے مراد ریاست کا نظم درہم برہم کرنا ہی ہے (تفصیل کے لیے ہمارے مضمون کے پہلے حصے پر ایک نظر ڈال لیجیے) اور ہمارے علم کی حد تک موجودہ دور میں بھی تمام اسلامی ممالک میں اس قسم کے جرم کی سزا موت ہی ہے۔
مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ہماری ان معروضات پر غور فرمائیں۔ ان میں وہ اگر کوئی غلطی پائیں تو ہمیں اس سے ضرور آگاہ فرمائیں۔ ’’اشراق‘‘ کے صفحات اس معاملے میں ان کے فرمودات کی اشاعت کے لیے ہر وقت حاضر رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ و مامون رکھے۔
ـــــــــــــــــــــــــ