میزان
(نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد)
يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا٘ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْرًا. وَّدَاعِيًا اِلَي اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِيْرًا.(الاحزاب ۳۳ : ۴۵ - ۴۶)
’’اے پیغمبر ،ہم نے تمھیں گواہی دینے والا اور خوش خبری پہنچانے والا اور انذار کرنے والا اور اللہ کی طرف، اس کے اذن سے، دعوت دینے والا اور (انسانوں کی ہدایت کے لیے) ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب دعوت ہے جس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں پوری تفصیل کے ساتھ کر دی ہے۔ اللہ کے جو پیغمبر بھی اِس دنیا میں آئے ،قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِسی دعوت الی اللہ اور انذار و بشارت کے لیے آئے۔ سورۂ بقرہ کی آیت ’کان الناس امة واحدة فبعث اللّٰه النبیین مبشرین و منذرین‘[3] میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ اِن نبیوں میں سے اللہ تعالیٰ نے جنھیں رسالت کے منصب پر فائز کیا، اُن کے بارے میں البتہ ، قرآن بتاتا ہے کہ وہ اِس انذار کو اپنی قوموں پر شہادت کے مقام تک پہنچا دینے کے لیے بھی مامور تھے ۔ قرآن کی اصطلاح میں اِس کے معنی یہ ہیں کہ حق لوگوں پر اِس طرح واضح کر دیا جائے کہ اِس کے بعد کسی شخص کے لیے اُس سے انحراف کی گنجایش نہ ہو : ’لئلا یکون للناس علی اللّٰه حجة بعد الرسل‘[4] (تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے )۔ سورۂ احزاب کی اِن آیات میں ’شاھدًا‘ کا لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِسی منصب کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے۔ نبیوں کا انذار و بشارت تو کسی وضاحت کا تقاضا نہیں کرتا، لیکن رسولوں کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انذاروبشارت کے ساتھ وہ شہادت کی جس ذمہ داری کے لیے مامور ہوتے ہیں ، اُس کے تقاضے سے اُن کی دعوت کے چند مراحل اور اُن مراحل کے چند لازمی نتائج ہیں جو اُنھی کے ساتھ خاص ہیں ۔یہ دعوت کی کسی دوسری صورت سے متعلق نہیں ہیں۔ رسولوں کی دعوت کے یہی مراحل ہم تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کریں گے۔
یہ اِس دعوت کا پہلا مرحلہ ہے ۔’’انذار‘‘کے معنی کسی برے نتیجے سے لوگوں کو خبردار کرنے کے ہیں ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول اپنی قوم کو ہمیشہ دو عذابوں سے خبردار کرتے رہے ہیں : ایک وہ جس سے اُن کے منکرین قیامت میں دوچار ہوں گے اور دوسرا وہ جو اُن کی دعوت کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرنے والوں پر اِسی دنیا میں نازل ہو گا ۔ وہ اپنی قوم کو بتاتے ہیں کہ وہ زمین پر ایک قیامت صغریٰ برپا کر دینے کے لیے مبعوث ہوئے ہیں ۔خدا کی حجت جب اُن کی دعوت سے پوری ہو جائے گی تو اُن کی قوم کو اپنی سرکشی کا نتیجہ لازماً اِسی دنیا میں دیکھنا ہو گا ۔قرآن کے چھٹے باب میں سورۂ قمر اِس انذار کی بہترین مثال ہے ۔اُس میں رسولوں سے متعلق اپنی سنت کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ نے بڑی تہدید کے اسلوب میں فرمایا ہے: ’اکفارکم خیر من اولئکم ام لکم براة فی الذبر‘[5] (کیا تمھارے یہ منکر اُن سے کچھ بہتر ہیں یا اِن کے لیے صحیفوں میں کوئی معافی لکھی ہوئی ہے)؟ قرآن کے آخری باب میں الملک (۶۷) سے الجن (۷۲) تک چھ سورتیں ،خود قرآن کے نظم ہی سے پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتا ہے کہ اِسی مرحلے کی سورتیں ہیں۔ اِن سورتوں کے مطالعے سے قرآن کا ہر طالب علم اُس لب و لہجے، اسلوب اور طرزاستدلال کا اندازہ کرسکتا ہے جو اللہ کے رسول اِس مرحلے میں اختیار کرتے ہیں ۔سورۂ قلم میں باغ والوں کی تمثیل بیان کر کے قرآن نے اِس انذار کا خلاصہ اِس طرح بیان فرمایا ہے:
كَذٰلِكَ الْعَذَابُﵧ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُﶉ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ. (۶۸: ۳۳)
’’(ام القریٰ کے لوگو ،تم اِس پیغمبر کو جھٹلا رہے ہو تو دیکھ لو) اِس طرح آئے گا عذاب اور آخرت کا عذاب تو اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اے کاش ،یہ لوگ اُس کو جانتے۔‘‘
اِس انذار کو چونکہ اِس دنیا میں لازماً ایک حتمی نتیجے تک پہنچنا ہوتا ہے ،اِس لیے اِس میں اصلاً اُنھی لوگوں کو مخاطب کیا جاتا ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے اپنی قوم میں اثر و رسوخ رکھتے ہوں ؛عوام اپنے علم و عمل اور سیرت و اخلاق میں جن کے تابع ہوں؛ جن کی بیماری دوسروں کے لیے بیماری اور تندرستی تندرستی کا باعث بنتی ہو؛جن کے دل و دماغ کا مفتوح ہو جانا سب کے مفتوح ہو جانے کا ذریعہ ہو؛جن کے پاس مادی ذرائع و وسائل کی افراط حق کی قوت میں اضافہ کر سکے ؛جو اپنی ذہنی رفعت سے دعوت کو علم و عمل کی بے پناہ قوتوں کا سیلاب بنا دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور عوام جن کی دلیلوں کے تاروپود بکھرتے، جن کے فکر و فلسفہ کی جڑیں اکھڑتے اور جن کے نظام اخلاق و سیاست کے فلک بوس محلوں کی بنیادیں جب تک اپنی آنکھوں سے متزلزل ہوتے نہ دیکھ لیں، اُس وقت تک نہ دعوت حق کے لیے پوری طرح یک سو ہو سکتے ہوں ، نہ پرانے معتقدات کے گرداب سے نکل سکتے ہوں ،نہ اُن کے بارے میں تذبذب سے نجات پا سکتے ہوں اور نہ کسی دعوت کی حمایت میں وہ ذہنی رفعت محسوس کر سکتے ہوں جس سے حوصلہ پا کر بدروحنین کے مجاہدوں کی طرح وہ اِن صنادید کی قوت و عظمت کا طلسم توڑ دیں ۔
قرآن مجید سے پیغمبروں کے انذار کی یہ خصوصیت جس طرح سامنے آتی ہے ، اِس کی وضاحت میں استاذ امام امین احسن اصلاحی اپنی کتاب ’’دعوت دین اور اُس کا طریق کار‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’...حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے خود اپنے اُس خاندان کو دعوت دی جو قوم کی مذہبی پیشوائی کی مسند پر متمکن تھا ۔ پھر اُس بادشاہ کو دعوت دی جس کے ہاتھوں میں سیاسی اقتدار کی باگ تھی اور جو اپنے آپ کو لوگوں کی زندگی اور موت کا مالک سمجھے ہوئے بیٹھا تھا ...حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ سب سے پہلے فرعون کو مخاطب کریں ... حضرت مسیح علیہ السلام نے سب سے پہلے علماے یہود کو دعوت دی ۔اِسی طرح حضرات نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، سب کی دعوتیں قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اِن میں سے ہر نبی نے سب سے پہلے اپنے وقت کے ارباب اقتدار اور متکبرین کوجھنجھوڑا اور اُن کے افکار و نظریات پر ضرب لگائی ۔سب سے آخر میں آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ کو حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ۔یہ لوگ عرب کی مذہبی اور پدرسرانہ (patriarchical) حکومت کے ارباب حل و عقد تھے اور اِس کے واسطے سے سارے عرب کی اخلاقی اور سیاسی رہنمائی کر رہے تھے ۔‘‘ (۴۹)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا لِّتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰي وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيْهِﵧ فَرِيْقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيْقٌ فِي السَّعِيْرِ.(الشوریٰ ۴۲ : ۷)
’’اور اِسی طرح ہم نے تم پر یہ قرآنِ عربی وحی کیا ہے کہ تم ام القریٰ اور اُس کے گردوپیش میں بسنے والوں کو خبردار کر دو اور اُس روز محشر سے خبردار کر دو جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، جہاں ایک جماعت کو جنت میں جانا ہے اور ایک کو جہنم میں۔‘‘
یہ دوسرا مرحلہ ہے ۔ اِس میں اور مرحلۂ انذار میں اِس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ اُس میں دعوت فرداً فرداً یا نج کی بعض مجالس ہی میں پیش کی جاتی ہے ،لیکن اِس مرحلے میں پیغمبر کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ کھلم کھلا اپنی قوم کوپکارنے کے لیے اٹھے اور جس حد تک اور جن ذرائع سے بھی ممکن ہو، اپنی دعوت ہانکے پکارے اُن کے سامنے رکھ دے ۔پیغمبروں کی دعوت میں یہ مرحلہ بڑا ہی سخت ہوتا ہے۔قرآن نے بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جب یہ مرحلہ آیا تو اِس کی تیاریوں کے لیے آپ کو قیام اللیل کا حکم دیا گیا۔ قرآن کی سورۂ مزمل اِسی موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ اِس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کی نماز کے لیے اٹھنے ، اُس میں ٹھیر ٹھیر کر قرآن پڑھنے ،اپنے پروردگار کی صفات پرمتنبہ ہو کر اپنے دل کو اُس کی یاد سے معمور اور زبان کو اُس کی تسبیح و تحمید سے تر رکھنے اور رات کی تنہائی میں سب سے ٹوٹ کر اُسی کے ساتھ لو لگانے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ یہ ہدایت ہم اِس لیے کر رہے ہیں کہ ’انا سنلقی علیک قولًا ثقیلًا ‘[6] (عنقریب ایک بھاری بات کا بوجھ ہم تم پر ڈال دیں گے)۔ چنانچہ اِس کے بعد کی سورہ میں یہ بوجھ آپ پر ڈال دیا گیا اور ارشاد ہوا:
يٰ٘اَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ. قُمْ فَاَنْذِرْ. وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ. وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ. وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ. وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ. وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ.(المدثر ۷۴ : ۱-۷)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے ،اٹھو اور انذار عام کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور اپنے پروردگار ہی کی بڑائی بیان کرو اور اپنے دامن دل کو پاک رکھو اور شرک کی اِس غلاظت سے دور رہو اور دیکھو اپنی سعی کو زیادہ خیال کر کے منقطع نہ کر بیٹھو اور اپنے پروردگار کے فیصلے کے انتظار میں ثابت قدم رہو۔‘‘
دعوت کی ترتیب اِس مرحلے میں بھی وہی رہتی ہے اور اصلاً قوم کے پیشوا اور ارباب حل و عقد ہی پیغمبر کے مخاطب ہوتے ہیں ،لیکن انذار عام کی شدت اُس رد عمل کو بھی پوری قوت سے سامنے لے آتی ہے جو مرحلۂ انذار میں اِس طرح نمایاں نہیں ہوتا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو لوگ سب سے پہلے ایمان لائے ، وہ چونکہ زیادہ تر نوجوان تھے ،اِس لیے یہ ردعمل بھی اولاً اُن کے اعزہ و احباب اور متعلقین کی طرف سے ظاہر ہوا۔ قوم کے زعما اُس وقت میدان میں آئے ،جب اُنھوں نے دیکھا کہ پیغمبر کی دعوت اب معاشرے میں موثر ہو رہی ہے ۔پھر اُنھوں نے جو کچھ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواِس موقع پر جو رویہ اختیار کرنے کی ہدایت ہوئی ،وہ اِس مرحلے کی سورتوں میں جگہ جگہ بیان ہوا ہے ۔ سورۂ یونس کے اِن دو مقامات سے اِس کا کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔فرمایا ہے :
وَاِذَا تُتْلٰي عَلَيْهِمْ اٰيَاتُنَا بَيِّنٰتٍﶈ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ هٰذَا٘ اَوْ بَدِّلْهُﵧ قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْﵐ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيَّﵐ اِنِّيْ٘ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ.( ۱۰ : ۱۵)
’’اور جب ہماری آیتیں اُن کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، نہایت صاف تو وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے،کہتے ہیں کہ اِس کے بجاے کوئی اور قرآن لاؤ یا اِس میں کچھ ترمیم کرو ۔ اِن سے کہہ دو : یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اِس میں ترمیم کر دوں۔ میں تو بس اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس آتی ہے۔ میںنے اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کی تو میں ایک بڑے ہو ل ناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘
قُلْ يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْ دِيْنِيْ فَلَا٘ اَعْبُدُ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلٰكِنْ اَعْبُدُ اللّٰهَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْﵗ وَاُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ. وَاَنْ اَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًاﵐ وَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ.(۱۰ : ۱۰۴-۱۰۵)
’’اِن سے کہہ دو : لوگو ،اگر تم میرے دین کے بارے میں کسی تردد میں مبتلا ہو تو سن لو کہ تم اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے ہو، میں اُن کی عبادت نہیں کرتا ،بلکہ اُس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جو تمھیں وفات دیتا ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اہل ایمان میں سے ہوں اور حکم ہوا ہے کہ پوری یک سوئی کے ساتھ اپنا رخ سیدھا دین حق کی طرف کر لوں اور ہرگز اِن مشرکوں میں سے نہ ہوں۔‘‘
یہی مقام ہے جس تک پہنچنے کے بعد پھر اِس مرحلے میں وہ وقت بھی آ جاتا ہے جب پیغمبر کو اِن متکبرین کے بہت زیادہ درپے ہونے سے روک دیا جاتا ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اب اپنے ساتھیوں کی تربیت ہی کو اصلاً اپنی توجہات کا مرکز بنائے ۔قرآن میں یہ ہدایت اِس طرح بیان ہوئی ہے:
فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَمَا٘ اَنْتَ بِمَلُوْمٍ. وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰي تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ. (الذاریات ۵۱: ۵۴- ۵۵)
’’اِس لیے اب تم اِن سے اعراض کرو ۔ اب تم پر کوئی الزام نہیں اور یاددہانی کرتے رہو، کیونکہ یاددہانی اہل ایمان کو نفع دیتی ہے۔‘‘
عَبَسَ وَتَوَلّٰ٘ي. اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰي. وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰ٘ي. اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰي. اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰي. فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰي. وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰي. وَاَمَّا مَنْ جَآءَكَ يَسْعٰي. وَهُوَ يَخْشٰي. فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰي. كَلَّا٘ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ. فَمَنْ شَآءَ ذَكَرَهٗ. فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ. مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ. بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ. كِرَامٍۣ بَرَرَةٍ. (عبس ۸۰ : ۱ - ۱۶)
’’اُس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیاـــــ، اِس پر کہ (قریش کے سرداروں کے ساتھ اُس کی مجلس میں) وہ نابینا آ گیا اور تمھیں کیا معلوم ، (اے پیغمبر) کہ شاید وہ (پوچھتا اور) سدھرتا یا (تم سناتے) ،وہ نصیحت سنتا اور یہ نصیحت اُس کے کام آتی۔ یہ جو بے پروائی برتتے ہیں ، اُن کے تو تم پیچھے پڑتے ہو، دراں حالیکہ یہ اگر نہ سدھریں تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور وہ جو شوق سے تمھارے پاس آتا ہے اور (خدا سے) ڈرتا بھی ہے تو اُس سے تم بے پروائی برتتے ہو ۔ ہرگز نہیں، (اِن کے پیچھے پڑنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے)۔ یہ تو ایک یاددہانی ہے۔ سو جس کا جی چاہے ، اِس سے یاددہانی حاصل کرے (اور جس کا جی چاہے ، کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے)۔ ادب کے لائق ، بلند اور اچھوتے صحیفوں میں، بہت صاحب عزت، بہت وفادار لکھنے والوں کے ہاتھوں میں۔‘‘
یہ تیسرا مرحلہ ہے ۔اِس تک پہنچنے میں حقائق اِس قدر واضح ہو جاتے ہیں کہ مخاطبین کے پاس کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہیں رہ جاتا ۔یہی چیز ہے جسے اصطلاح میں اتمام حجت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یعنی جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے ،وہ اِس طرح مبرہن ہو جائے کہ ضد ،ہٹ دھرمی اور عناد کے سوا کوئی چیز بھی آدمی کو اُس کے انکار پر آمادہ نہ کر سکے ۔اِس میں ظاہر ہے کہ خدا کی دینونت کے ساتھ اسلوب ،استدلال، کلام اور پیغمبر کی ذات و صفات اور علم و عمل ، ہر چیز موثر ہوتی ہے ، یہاں تک کہ معاملہ کھلے آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اِس موقع پر پیغمبر اپنے مخاطبین کا انجام بھی بڑی حد تک واضح کر دیتا ہے اور دعوت میں بھی بالکل آخری تنبیہ کا لب و لہجہ اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۂ فیل اور سورۂ قریش میں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے اِسی مرحلۂ اتمام حجت کے اختتام پر نازل ہوئی ہیں ، یہ دونوں چیزیں بہت نمایاں ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے :
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ. اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِيْ تَضْلِيْلٍ. وَّاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيْلَ. تَرْمِيْهِمْ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيْلٍ. فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاْكُوْلٍ. (۱۰۵: ۱-۵)
’’تونے دیکھا نہیں کہ تیرے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ اُن کی چال کیا اُس نے اکارت نہیں کر دی ؟ اور اُن پر جھنڈ کے جھنڈ پرندے مسلط نہیں کر دیے ؟ (اِس طرح کہ) توپکی ہوئی مٹی کے پتھر اُنھیں مار رہا تھا اور اُس نے اُنھیں کھایا ہوا بھوسا بنا دیا۔‘‘
لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ. اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَآءِ وَالصَّيْفِ. فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ. الَّذِيْ٘ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍﵿ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍ.(۱۰۶: ۱- ۴)
’’قریش کو مانوس کر دینے کے باعث ، (اور کچھ نہیں تو حرم کے سایۂ امن میں) سردی اور گرمی کے سفروں سے اُن کو مانوس کر دینے ہی کے باعث ،اُنھیں چاہیے کہ وہ اِس گھر کے مالک کی عبادت کریں جس نے (اِن بنجر پہاڑوں کی) بھوک میں اُنھیں کھلایا اور (اِن کے) خوف میں اُنھیں امن عطا فرمایا۔‘‘
پہلی سورہ ،اگر غور کیجیے توقریش کو اِس حقیقت پر متنبہ کرتی ہے کہ جس پروردگار نے تمھارے سامنے اپنے دشمنوں کو اِس طرح پامال کیا ہے ،تم اُس کی دشمنی کے لیے اٹھے ہو تو تمھارا انجام بھی اُن سے مختلف نہ ہو گا ، اور دوسری سورہ اُنھیں اِس بات کی تلقین کرتی ہے کہ جس گھر کی تولیت اُنھیں حاصل ہے ، یہ اُسی کا مالک ہے جس نے اُنھیں رزق اور امن سے نوازا ہے، لہٰذا اُس کا یہ حق تو کم سے کم اُنھیں پہچاننا چاہیے کہ اِس دنیا میں وہ اُسی کے بندے بن کر رہیں ۔
دعوت کے اِس مرحلے میں پیغمبر کا اسلوب یہی ہوتا ہے۔
یہ چوتھا مرحلہ ہے ۔اللہ کے پیغمبر جب تبلیغ کا حق بالکل آخری درجے میں ادا کر دیتے ہیں اور حجت تمام ہو جاتی ہے تو یہ مرحلہ آ جاتا ہے ۔اِس میں قوم کے سرداروں کی فرد قرارداد جرم بھی پوری وضاحت کے ساتھ اُنھیں سنا دی جاتی ہے اور یہ بات بھی بتا دی جاتی ہے کہ اُن کا پیمانۂ عمر لبریز ہو چکا ۔ لہٰذا اب اُن کی جڑیں اِس زمین سے لازماً کٹ جائیں گی۔ اِس کے ساتھ پیغمبر کو بھی بشارت دی جاتی ہے کہ نصرت خداوندی کے ظہور کا وقت آپہنچا ۔وہ اور اُس کے ساتھی اب نجات پائیں گے اور جس سرزمین میں وہ کمزور اور بے بس تھے ، وہاں اُنھیں سرفرازی حاصل ہو جائے گی ۔ اِس لیے اپنی قوم کی تکفیر اور اُس کے عقیدہ و مذہب سے بے زاری کا اعلان کر کے وہ اب اُسے چھوڑنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں یہ سب جس طرح ہوا ،وہ قرآن کی اِن سورتوں سے واضح ہے:
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ. فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ. وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ. فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ. الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ. الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآءُوْنَ. وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ.(الماعون ۱۰۷: ۱-۷)
’’تم نے دیکھا اُسے جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے، (اے پیغمبر)؟یہ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا اور مسکین کو کھلانے کے لیے نہیں ابھارتا۔ اِس لیے بربادی ہے (حرم کے پروہت) اِن نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں (کی حقیقت) سے غافل ہیں۔ یہ جو (عبادت کی) نمایش کرتے اور برتنے کی کوئی ادنیٰ چیز بھی کسی کو دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔‘‘
اِنَّا٘ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ. فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ. اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ.(الکوثر ۱۰۸ : ۱-۳)
’’ہم نے یہ خیر کثیر (اپنا یہ گھر )تمھیں عطا کر دیا ہے ، (اے پیغمبر)۔اِس لیے تم (اِس میں اب) اپنے پروردگار ہی کی نماز پڑھنا اور اُسی کے لیے قربانی کرنا ۔اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارا یہ دشمن ہی جڑ کٹا ہے ،اِس کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔‘‘
قُلْ يٰ٘اَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ. لَا٘ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ. وَلَا٘ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا٘ اَعْبُدُ. وَلَا٘ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ. وَلَا٘ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَا٘ اَعْبُدُ. لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ. (الکافرون ۱۰۹: ۱-۶)
’’تم اعلان کرو ،(اے پیغمبر )کہ اے کافرو، میں اُن چیزوں کی عبادت نہ کروں گا جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم کبھی (تنہا) اُس کی عبادت کروگے جس کی عبادت میں کرتا ہوں اور نہ اِس سے پہلے کبھی میں اُن چیزوں کی عبادت کے لیے تیار ہوا جن کی عبادت تم نے کی اور نہ تم (تنہا)اُس کی عبادت کے لیے کبھی تیار ہوئے جس کی عبادت میں کرتا رہا ہوں۔ (اِس لیے اب) تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔‘‘
اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ. وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا. فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُﵫ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا.(النصر ۱۱۰: ۱-۳)
’’اللہ کی مدد اور وہ فتح جب آ جائے (جس کا وعدہ ہم نے تم سے کیا ہے )، اور تم لوگوں کو جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لو تو اپنے پروردگار کی تسبیح کرو اُس کی حمد کے ساتھ اور اُس سے معافی چاہو۔ (اِس لیے کہ) وہ بڑا ہی معاف کرنے والا ہے۔‘‘
اِس کے بعد پیغمبر کو ہجرت کا حکم دے دیا جاتا ہے ۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس ہجرت کا حکم اللہ تعالیٰ ہی دیتے ہیں ، اِس کا فیصلہ کوئی پیغمبر اپنے اجتہاد سے نہیں کر سکتا ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ کسی انسان کے لیے اپنی عقل و راے سے یہ فیصلہ کر لینا کہ اُس کی طرف سے حجت پوری ہو گئی ہے اور قوم کی طرف سے دعوت حق کے لیے اب کسی مثبت ردعمل کی توقع نہیں کی جا سکتی، کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔چنانچہ قوم لوط کے متعلق یہ فیصلہ لے کر جب خدا کے فرشتے ابراہیم جیسے جلیل القدر پیغمبر کے پاس آئے تو اُنھوں نے اِسے قبل از وقت سمجھا اور اِس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مجادلہ کیا۔[7] اور یونس علیہ السلام نے اپنی راے سے یہ فیصلہ کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے اُس پر سخت مواخذہ کیا[8] اور اُن کے رجوع کے بعد اُن کی قوم کے ایمان سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ توفیق ہدایت کا وقت صرف اللہ کے علم میں ہے ۔قرآن مجید اِنھی کی مثال پیش کر کے واضح کرتا ہے کہ اللہ کے پیغمبر کو اِس معاملے میں پوری استقامت کے ساتھ اللہ کے فیصلے کا منتظر رہنا چاہیے ۔ وہ اپنی راے سے یہ خیال کرکے کہ اُس کی طرف سے فرض دعوت کافی حد تک ادا ہو چکا، اپنی قوم کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ اُس پر لازم ہے کہ وہ جس ذمہ داری پر مامور ہوا ہے ،اُس میں برابر لگا رہے،یہاں تک کہ اُس کا پروردگار ہی یہ فیصلہ کر دے کہ حجت پوری ہو گئی ،قوم کی مہلت ختم ہوئی اور اب پیغمبر اُنھیں چھوڑ کر جا سکتا ہے ۔
یہ آخری مرحلہ ہے ۔اِس میں آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی ہے ،خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور پیغمبر کی قوم کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا ہو جاتی ہے ۔پیغمبروں کے انذار کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے ،اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں اور اُسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اُس کے نکلنے سے پہلے ہی کسی سرزمین میں اللہ تعالیٰ اُس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں ۔ اِن دونوں ہی صورتوں میں رسولوں سے متعلق خدا کی وہ سنت لازماً روبہ عمل ہو جاتی ہے جو قرآن میں اِس طرح بیان ہوئی ہے :
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ٘ اُولٰٓئِكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ. كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْﵧ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ. (المجادلہ ۵۸: ۲۰- ۲۱)
’’بے شک ،وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں ،وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ قوی ہے ،بڑا زبردست ہے۔‘‘
پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑنے کے بعد یہ ذلت اِس طرح مسلط کی جاتی ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں، ساف و حاصب کا طوفان اٹھتا اور ابروباد کے لشکر قوم پر اِس طرح حملہ آور ہو جاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا ۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح ، قوم لوط ، قوم صالح ، قوم شعیب اور اِس طرح کی بعض دوسری اقوام کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ۔اِس سے مستثنیٰ صرف بنی اسرائیل رہے جن کے اصلاً توحید ہی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے اُن کو چھوڑنے کے بعد اُن کی ہلاکت کے بجاے ہمیشہ کے لیے مغلوبیت کا عذاب اُن پر مسلط کر دیا گیا۔
دوسری صورت میں عذاب کا یہ فیصلہ رسول اور اُس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے نافذ کیا جاتا ہے ۔اِس صورت میں ،ظاہر ہے کہ قوم کو کچھ مہلت مل جاتی ہے ۔رسول اِس عرصے میں دارالہجرت کے مخاطبین پر اتمام حجت بھی کرتا ہے ،اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی تربیت اور تطہیر و تزکیہ کے بعد اُنھیں اِس معرکۂ حق و باطل کے لیے منظم بھی کرتا ہے اور دارالہجرت میں اپنا اقتدار بھی اِس قدر مستحکم کر لیتا ہے کہ اُس کی مدد سے وہ منکرین کے استیصال اور اہل حق کی سرفرازی کا یہ معرکہ سر کر سکے ۔اِس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رسول کے مخالفین اور موافقین بالکل ممیز ہو کر اِس طرح سامنے آ جاتے ہیں کہ سنت الٰہی کے مطابق فیصلے سے پہلے ہر گروہ کو اُس کی تمام تر خصوصیات کے ساتھ بالکل الگ دیکھ لیا جا سکتا ہے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ فریقین میں بالعموم تین ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں: مخالفین میں معاندین ، متربصین اورمغفلین اور موافقین میں سابقین اولین ،متبعین بالاحسان اور ضعفا و منافقین۔
’’معاندین ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دعوت کے موثر ہوتے ہی بالکل کھلم کھلا اور پوری شدت کے ساتھ اُس کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ہیں ۔اُن کی اِس مخالفت کا محرک حمیت جاہلی بھی ہوتی ہے ، حسد و تکبر بھی اور مفاد پرستی بھی۔ یہ تینوں محرکات مخالفت کی نوعیت کے لحاظ سے یکساں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے بالکل الگ الگ ہیں ۔
پہلا محرک بالعموم اُن لوگوں کو مقابلے پر لاتا ہے جو اپنے زمانے کی جاہلیت کے ساتھ پوری طرح مخلص اور اُس کے نظام کے سچے خادم ہوتے ہیں ۔وہ پیغمبر کی دعوت کو اپنے نظام اور اُس کے پس منظر میں موجود اپنے آبا کی روایات کے لیے ایک چیلنج سمجھ کر اُس کے مقابلے میں آتے ہیں۔اُن کی یہ مخالفت چونکہ قومی حمیت پر مبنی ہوتی ہے، اِس وجہ سے اُس میں رذالت اورکمینگی نہیں ہوتی۔چنانچہ یہ اگر مخالف رہتے ہیں تو ابوجہل کی طرح قوم پرستی کے پورے ولولے کے ساتھ مخالف رہتے اور اگر ایمان لاتے ہیں تو حضرت عمر اور حضرت حمزہ کی طرح پورے دل اور پوری جان سے ایمان لاتے ہیں ۔
دوسرا محرک عموماً اُن لوگوں کو معاندت پر ابھارتا ہے جو وقت کے نظام میں نسلاً بعد نسلٍ دینی یا دنیوی ریاست کے مالک چلے آ رہے ہوتے ہیں ۔یہ لوگ سرداری اور پیشوائی کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ پھر کسی پیغمبر کو بھی اپنا سردار اور پیشوا ماننا اُن کے لیے ممکن نہیں ہوتا اور وہ حق کو بھی لازماً اپنا پیرو بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہی لوگ تھے جنھوں نے کہا کہ اگر اللہ کو اپنی ہدایت نازل کرنا تھی تو یہ طائف اور ام القریٰ کے کسی بڑے سردار پرکیوں نازل نہ ہوئی۔[9]یہود نے بھی حضورصلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اِسی محرک کے تحت کی۔[10] حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کے مذہبی پیشوا، فقیہ اور فریسی اِسی بنا پر ایمان کی نعمت سے محروم رہے اور آں جناب کی یہ بات اُن پر پوری طرح صادق آئی کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے نکل جانا اِس سے آسان ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہی میں داخل ہو۔[11]اِس طرح کے لوگ شروع شروع میں پیغمبر اور اُس کی دعوت ،دونوں کو حقیر سمجھ کر اُس سے بالکل صرف نظر کیے رہتے ہیں، لیکن جب دیکھتے ہیں کہ اُس کا اثر لوگوں میں بڑھ رہا ہے تو حسد کی آگ میں جل اٹھتے اور وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جو حاسدین اِس دنیا میں اپنے مخالفین کے خلاف کرتے رہے ہیں ۔
تیسرا محرک عام طور پر اُن لوگوں کو آمادۂ مخالفت کرتا ہے جو اپنے ذاتی مفادات سے آگے کسی چیز کو دیکھنے پرکبھی آمادہ نہیں ہوتے ۔ وہ ہر معاملے میں اپنی ذات کے اسیر ،ہر قدم پر استحقاق کے طالب اور ہر شے کے حق و باطل کا فیصلہ اپنی ذات کے حوالے سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اپنی اِس اخلاقی پستی اور دنائت کی وجہ سے وہ بس اپنے مفادات ہی کی طرف لپک سکتے ہیں ،پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنا اور اُس کے عقبات سے گزرنا اُن کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہوتا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مقابلے میں ابولہب کا رویہ اِسی کی مثال ہے ۔
’’متربصین‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جن پر پیغمبر کی دعوت کا حق ہونا تو کسی حد تک واضح ہوتا ہے، لیکن وہ حق کو مجرد حق کی بنیاد پر ماننے کے بجاے اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ دیکھیں، مستقبل اِس دعوت کے بارے میں کیا فیصلہ سناتا ہے ۔چنانچہ پیغمبر کے مقابلے میں یہ زیادہ سرگرمی تو نہیں دکھاتے ، لیکن ساتھ ہمیشہ مخالفین ہی کا دیتے ہیں اور شب و روز اِسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ حق و باطل میں سمجھوتے کی کوئی صورت پیدا ہو جائے ، اور اِن کو اِس معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے ۔آزمایش اور کشمکش کے زمانے میں یہ پیغمبر کے حق میں کوئی کلمۂ خیر بھی کہہ سکتے ہیں ، اُس کے بارے میں کبھی اپنی پسندیدگی بھی ظاہر کر سکتے ہیں، اپنے دل میں اُس کی کامیابی کے متمنی بھی ہوسکتے ہیں اور کبھی اُس کی مالی یا اخلاقی مدد کا حوصلہ بھی کر سکتے ہیں ، لیکن اِس زمانے میں اُسے ماننا اور اُس کے لیے جو کھم برداشت کر لینے پر آمادہ ہو جانا ، اِن کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہوتا ۔
’’مغفلین‘‘ سے مراد وہ عوام الناس ہیں جو ذہنی اور معاشی لحاظ سے اپنے وقت کے نظام کے تابع اور ہر معاملے میں اپنے زمانے کے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی رہنماؤں کے پیرو ہوتے ہیں۔ چنانچہ پیغمبر کی دعوت کے معاملے میں بھی یہ اُنھی کے اشاروں پر چلتے اور اُنھی کی طرف سے کسی اقدام کے منتظر رہتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اِن کا طرزعمل عموماً یہی ہوتا ہے، لیکن اِس کے بعد جب اِن کے پیشوا پیغمبر کی مخالفت میں خم ٹھونک کر میدان میں اترتے ہیں تو علم و استدلال اور سیرت و اخلاق کے اعتبار سے جو فرق اِن کے لیڈروں اور پیغمبر میں ہوتا ہے ،وہ بالکل نمایاں ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ اُس وقت یہ اپنے لیڈروں سے بدگمان ہو کر اُن سے ٹوٹتے اور پیغمبر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔چنانچہ اِن کے اندر یہ تبدیلی اِن میں سے بعض جرأت مند اور اونچی سیرت کے لوگوں کو اقدام پر آمادہ کرتی ہے اور اِس کے نتیجے میں یکے بعددیگرے یہ پیغمبر سے وابستہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔
’’سابقین اولین‘‘ کی اصطلاح قرآن مجید میں اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوئی ہے جو کسی دعوت حق کو سنتے ہی اُس کی طرف لپکتے ہیں اور ہر نتیجے سے بے پروا ہو کر اپنا سب کچھ اُس کے لیے قربان کر دینے پرآمادہ ہو جاتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی فطرت صالح ،عقل بیدار ،دل زندہ ،آنکھیں بینا ، کان شنوا اور دماغ ہر صحیح بات کو سمجھنے اور قبول کر لینے کے لیے پوری طرح تیار ہوتا ہے ۔یہ چیزوں کو عقل و فطرت کی روشنی میں دیکھتے اور جب اُن کی صحت پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو ہر طرح کے جذبات و تعصبات سے بلند اور تمام خطرات سے بے خوف ہو کر برملا اُن کا اعتراف و اقرار کر لیتے ہیں ۔یہ سیرت و کردار کے لحاظ سے اپنی قوم میں گل سرسبد اور اپنی سرزمین پر ہمالہ و الوند کی طرح نمایاں ہوتے ہیں ۔دعوت حق اِن کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہوتی ،بلکہ اِن کے دل کی آواز ،اِن کے ضمیر کی صدا اور اِن کی روح کا نغمہ ہوتی ہے، اور یہ بس منتظر ہی ہوتے ہیں کہ کوئی اٹھے اور یہ اُس کا ساتھ دینے کے لیے اپنے سارے دل اور ساری جان کے ساتھ اُس کی خدمت میں حاضر ہو جائیں ۔چنانچہ پیغمبر جب اپنی دعوت کی صدا بلند کرتا ہے تو یہ نہ عذر تراشتے ہیں،نہ اُس کا حسب و نسب دیکھتے ہیں، نہ ماضی و حال کا تجزیہ کرتے ہیں ،نہ شخصیت کے بخیے ادھیڑتے ہیں ، نہ معجزے طلب کرتے ہیں ، نہ حجتیں کھڑی کرتے ہیں اور نہ لاطائل بحثیں کرتے ہیں ، بلکہ فوراً یہ کہتے ہوئے کہ :میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے ـــــ اُس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور اِس عزم کے ساتھ اُس کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اب ہر گز پیچھے نہ ہٹیں گے :
ولو قطعوا راسی لدیک واوصالی
’’متبعین بالاحسان‘‘ وہ لوگ ہیں جو سابقین اولین کے اقدام کے بعد اُن کو دیکھ کر حق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ یہ عقلی اور اخلاقی اعتبار سے پہلی صف کے لوگ تو نہیں ہوتے ،لیکن صف دوم میں یقینا سب سے بہتر ہوتے ہیں ۔ سابقین اولین کی طرح یہ بطور خود اگر آگے نہیں بڑھتے تو اپنے پیش رووں کی جرأت و عزیمت ، حق کے لیے اُن کی سبقت اور اِس راہ کے عقبات میں اُن کی استقامت کو دیکھ کر پیچھے رہنا بھی اُن کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔دعوت حق کی عقلی اور استدلالی قوت،بے شک اِنھیں اتنا متاثر نہیں کرتی ، لیکن اہل ہمت کا شوق اور اُن کی عزیمت جلد یا بدیر اِنھیں لازماً تسخیر کر لیتی ہے ۔ تاہم پیغمبر کو اِن کے معاملے میں کچھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ چنانچہ حق کے متعلق جو شبہات خود اِن کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور جو دوسروں کے پیدا کرنے سے پیدا ہو سکتے ہیں، وہ سب اگر دور کر دیے جائیں اور عزم و ہمت کی کچھ مثالیں اُن کے سامنے آ جائیں تو اِن کی فطرت کا زنگ اتر جاتا ہے ۔ اِس کے بعد اگر اللہ توفیق دے تو یہ پیغمبر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور ہر آزمایش میں پورے خلوص اور حوصلے سے اُس کا ساتھ دیتے ہیں ۔
’’ضعفا ومنافقین‘‘ میں مشابہت محض ظاہری ہوتی ہے ۔ اپنی نیت اور ارادے کے اعتبار سے یہ بالکل الگ الگ لوگ ہیں۔ چنانچہ اِن کے اوصاف وخصائص کوبھی اِسی طرح الگ الگ سمجھنا چاہیے۔
’’ضعفا‘‘سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیغمبر کی دعوت کو کسی نہ کسی مرحلے میں ، بلکہ بعض اوقات اُس کی ابتدا ہی میں قبول کر لیتے ہیں اور اُن کی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں اُس کے تقاضے پورے کریں، لیکن قوت ارادی میں کمزوری کی وجہ سے باربار گرتے اور اٹھتے ہیں ۔ تاہم اُن کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ہر بار جب گرتے ہیں تو توبہ و استغفار کے ذریعے سے اپنی خطاؤں کا ازالہ کرتے اور اپنا سفر ہر حال میں راہ حق ہی پر جاری رکھتے ہیں۔
’’منافقین‘‘اِس کے برخلاف وہ لوگ ہیں جو کبھی محض عارضی تاثر کی بنا پر اور کبھی بہت سوچ سمجھ کر شرارت کے ارادے سے پیغمبر کے ساتھ آ جاتے ہیں ۔ پہلی صورت میں یہ ہمیشہ ’مذبذبین بین ذلک، لا الی هٰؤالا ولا الی هٰؤلاء‘[12] کی تصویر بنے رہتے ہیں اور دوسری صورت میں اِن کی حیثیت اہل ایمان کی صفوں میں دشمنوں کے ایجنٹ کی ہوتی ہے ۔ چنانچہ اِن کا کردار بھی وہی ہوتا ہے جس کی توقع اِس طرح کے کسی ایجنٹ سے کی جا سکتی ہے۔
پیغمبرکے مخاطبین میں موافقین اورمخالفین کے یہ دونوں فریق جب پوری طرح ممیز ہو جاتے ہیں اور پیغمبربھی اپنے ساتھیوں کی معیت میں جنگ کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو خدا کی عدالت اپنا فیصلہ سنادیتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں یہ فیصلہ جس طرح صادر ہوا ، اُس کی تفصیلات یہ ہیں :
۱۔ قریش کی قیادت میں سے تمام معاندین بدر کے موقع پر ہلاک کر دیے گئے ۔یہ صرف ابولہب تھا، جس نے اِس عذاب سے بچنے کی کوشش کی اور جنگ میں شامل نہیں ہوا ۔ قرآن اُس کے بارے میں اعلان کر چکا تھا کہ اپنے اعوان و انصار کے ساتھ اُسے بھی لازماً ہلاک ہونا ہے۔[13] چنانچہ بدر میں قریش کی شکست کے سات دن بعد یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہو گئی اور بنی ہاشم کے اِس سردار کا عدسہ کی بیماری سے اِس طرح خاتمہ ہوا کہ مرنے کے بعد بھی تین دن تک کوئی اُس کے پاس نہ آیا ۔ یہاں تک کہ اُس کی لاش سڑ گئی اور بدبو پھیلنے لگی ۔ آخرکار ایک دیوار کے ساتھ رکھ کر اُس کی لاش پتھروں سے ڈھانک دی گئی۔
۲۔ احد اور احزاب میں مسلمانوں کی تطہیر و تزکیہ کے بعد مشرکین عرب کے تمام متربصین اور مغفلین کو الٹی میٹم دے دیا گیا کہ اُن کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ۔ اِس کے بعد رسوائی کا عذاب اُن پر مسلط ہو جائے گا جس سے نکلنے کی کوئی راہ وہ اِس دنیا میں نہ پا سکیں گے۔[14]
۳۔ ۹ ہجری میں حج اکبر کے موقع پر اعلان کر دیا گیا کہ حرام مہینے گزر جانے کے بعد مسلمان اِن مشرکین کو جہاں پائیں گے قتل کر دیں گے، الاّیہ کہ وہ ایمان لائیں ، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اِس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ پیغمبر کے معاہدات ہیں۔ اِن معاہدات کے بارے میں ہدایت کی گئی کہ اُن کی مدت تک اُنھیں پورا کیا جائے ۔ اِس کے صاف معنی یہ تھے کہ مدت پوری ہو جانے کے بعد یہ معاہدین بھی اُسی انجام کو پہنچیں گے جو مشرکین کے لیے مقدر کر دیا گیا ہے۔[15]
۴۔ اہل کتاب کے تمام گروہوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ وہ اب جزیہ دے کر اور مسلمانوں کے زیردست کی حیثیت سے جئیں گے ۔ اُنھیں بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ اگر اُنھوں نے قبول نہ کیا تو پیغمبر اور اُس کے ساتھیوں کی تلواریں اُنھیں بھی جہنم رسید کر دیں گی۔[16]
۵ ۔ منافقین کو متنبہ کیا گیا کہ وہ اگر توبہ کر لیں تو اُن کے حق میں بہتر ہے، ورنہ اُنھیں بھی عنقریب اُسی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جو منکرین کے لیے مقدر ہے۔[17]
۶ ۔ مخلصین میں سے جن لوگوں سے غلطی ہوئی ، اُنھیں کچھ سزا دے کر معاف کر دیا گیا[18] اور ضعیف مسلمانوں کو بشارت دی گئی کہ وہ اگر توبہ و اصلاح کے رویے پر قائم رہے تو توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اُنھیں بھی معاف فرما دیں گے۔[19]
۷ ۔ سابقین اولین کی قیادت میں سرزمین عرب کا اقتدار اور حرم کی تولیت مسلمانوں کے سپرد کر دی گئی اور اِس طرح اللہ تعالیٰ کا وہ وعدہ پورا ہو گیا جو سورۂ نور میں اُن کے لیے بیان ہوا ہے:
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْﵣ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰي لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۣ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًاﵧ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔاﵧ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ.(۲۴: ۵۵)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ، اُن سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کو وہ اِس ملک میں اقتدار عطا فرمائے گا ، جس طرح اُس نے اُن لوگوں کو اقتدار عطا فرمایا جو اُن سے پہلے گزرے اور اُن کے اُس دین کو مضبوطی سے قائم کر دے گا جو اُس نے اُن کے لیے پسند فرمایا اور اُن کے خوف کو امن میں بدل دے گا ۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرے ساتھ شریک نہ کریں گے اور جو اِس کے بعد پھر منکر ہوں گے، وہی ہیں جو نافرمان ٹھیریں گے۔‘‘
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
[3]۔ ۲ : ۲۱۳ ۔ ’’لوگ ایک ہی جماعت تھے ، (اُنھوں نے اختلاف کیا) تو اللہ نے نبی بھیجے ،بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے۔‘‘
[4]۔ النساء ۴ :۱۶۵۔
[5]۔ ۵۴: ۴۳۔
[6]۔ دعوتِ دین اور اس کا طریقِ کار، باب ۳، ص۴۹ - ۵۰۔
[7]۔ ہود ۱۱ :۷۴- ۷۶۔
[8]۔ الصّٰٓفّٰت ۳۷ :۱۳۹- ۱۴۸۔
[9]۔ الزخرف ۴۳ :۳۱۔
[10]۔ البقرہ ۲ :۱۰۹۔
[11]۔ متی ۱۹، آیت ۲۴۔
[12]۔ النساء ۴: ۱۴۳۔ ’’ درمیان میں لٹک رہے ہیں ، نہ اِدھر ہیں نہ اُدھر۔‘‘
[13]۔ اللہب ۱۱۱: ۱- ۳۔
[14]۔ التوبہ ۹: ۱- ۲۔
[15]۔ التوبہ ۹ :۳- ۵۔
[16]۔ التوبہ ۹ : ۲۹۔
[17]۔ التوبہ ۹ : ۷۴، ۱۰۱۔
[18]۔ التوبہ ۹: ۱۱۸۔
[19]۔ التوبہ ۹: ۱۰۲۔