میزان
چھٹی چیز یہ ہے کہ قرآن جس دین کو پیش کرتا ہے، اُس کی وہ پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب ہے۔ اس دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو جب اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں دویعت کر دیے۔ اُسے بتا دیا گیا کہ اولاً، اس کا ایک خالق ہے جس نے اُسے وجود بخشا ہے، وہی اُس کا مالک ہے اور اس کے لازمی نتیجے کے طور پر تنہا وہی ہے جسے اُس کا معبود ہونا چاہیے۔ ثانیاً، وہ اس دنیا میں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس کے لیے خیر وشر کے راستے نہایت واضح شعور کے ساتھ اسے سمجھا دیے گئے ہیں۔ پھر اسے ارادہ و اختیار ہی نہیں، زمین کا اقتدار بھی دیا گیا ہے۔ اس کا یہ امتحان دنیا میں اس کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہے گا۔ وہ اگر اس میں کامیاب رہا تو اس کے صلے میں خدا کی ابدی بادشاہی اسے حاصل ہو جائے گی، جہاں نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا ہو گا اور نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ۔ ثالثاً، اس کی ضرورتوں کے پیشِ نظر اس کا خالق وقتا ً فوقتا ً اپنی ہدایت اسے بھیجتا رہے گا، پھر اس نے اگر اس ہدایت کی پیروی کی تو ہر قسم کی گمراہیوں سے محفوظ رہے گا اور اس سے گریز کا رویہ اختیار کیا تو قیامت میں ابدی شقاوت اس کا مقدر ٹھیرے گی۔
چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیا اور انسانوں ہی میں سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے اُن کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی۔ اس میں حکمت بھی تھی اور شریعت بھی۔ حکمت، ظاہر ہے کہ ہر طرح کے تغیرات سے بالا تھی، لیکن شریعت کا معاملہ یہ نہ تھا۔ وہ ہر قوم کی ضرورتوں کے لحاظ سے اترتی رہی، یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی نبوت میں پوری انسانیت کے لیے اس کے احکام بہت حد تک ایک واضح سنت کی صورت اختیار کر گئے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں جب بنی اسرائیل کی ایک باقاعدہ حکومت قائم ہوجانے کا مرحلہ آیا تو تورات نازل ہوئی اور اجتماعی زندگی سے متعلق شریعت کے احکام بھی اترے۔ اس عرصے میں حکمت کے بعض پہلو نگاہوں سے اوجھل ہوئے تو زبور اور انجیل کے ذریعے سے انھیں نمایاں کیا گیا۔ پھر ان کتابوں کے متن جب اپنی اصل زبان میں باقی نہیں رہے اور ان کی ہدایت بہت کچھ ضائع ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے آخری پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کیا اور انھیں یہ قرآن دیا۔ چنانچہ فرمایا ہے:
وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّﵧ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًاﵧ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَا٘ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِﵧ اِلَي اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۸)
’’اور (اے پیغمبر) ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف حق کے ساتھ اتاری، اس شریعت کی تصدیق میں جو اس سے پہلے موجود ہے اور اس کے لیے محافظ بنا کر، اس لیے تم ان (اہلِ کتاب) کے درمیان اُس ہدایت کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے نازل کی ہے اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمھارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اُس نے چاہا کہ جو کچھ اُس نے تمھیں دیا ہے، اس میں تمھیں آزمائے۔ چنانچہ بھلائیوں کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا وہ سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘
یہ دین کی تاریخ ہے۔ چنانچہ قرآن کی دعوت اس کے پیشِ نظر جن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:
۱ ۔دینِ فطرت کے حقائق،
۲۔ سنتِ ابراہیمی،
۳۔ نبیوں کے صحائف۔
پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جن سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے۔ قرآن ان کی کوئی جامع و مانع فہرست پیش نہیں کرتا، بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہنچانتا ہے، اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍﶉ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ.(التوبہ ۹: ۷۱)
’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ باہم دگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔‘‘
دوسری چیز کے لیے قرآن نے ملتِ ابراہیمی کی تعبیر اختیار کی ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ یہ سب اسی ملت کے احکام ہیں جن سے قرآن کے مخاطب پوری طرح واقف، بلکہ بڑی حد تک ان پر عامل تھے۔ سیدنا ابوذر کے ایمان لانے کی جو روایت مسلم میں بیان ہوئی ہے، اس میں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی وہ نماز کے پابند ہو چکے تھے۔[29] جمعہ کی اقامت کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ قرآن کے مخاطبین کے لیے کوئی اجنبی چیز نہ تھی۔[30] نمازِ جنازہ وہ پڑھتے تھے۔[31] روزہ اسی طرح رکھتے تھے جس طرح اب ہم رکھتے ہیں۔[32] زکوٰۃ ان کے ہاں بالکل اسی طرح ایک متعین شے تھی جس طرح اب متعین ہے۔[33] حج و عمرہ سے متعلق ہر صاحبِ علم اس حقیقت کو جانتا ہے کہ قریش نے چند بدعتیں ان میں بے شک داخل کر دی تھیں، لیکن ان کے مناسک فی الجملہ وہی تھے جن کے مطابق یہ عبادات اس وقت ادا کی جاتی ہیں، بلکہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ ان بدعتوں پر متنبہ بھی تھے۔ چنانچہ بخاری میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت سے پہلے جو حج کیا، وہ قریش کی ان بدعتوں سے الگ رہ کر بالکل اسی طریقے پر کیا، جس طریقے پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج ہمیشہ جاری رہا ہے۔[34]
یہی معاملہ قربانی، اعتکاف، ختنہ اور بعض دوسرے آداب و شعائر کا ہے۔ یہ سب چیزیں پہلے سے رائج، معلوم ومتعین اور نسلاً بعد نسلٍ جاری ایک روایت کی حیثیت سے پوری طرح متعارف تھیں۔ چنانچہ اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآن ان کی تفصیل کرتا۔ لغتِ عرب میں جو الفاظ ان کے لیے مستعمل تھے، ان کا مصداق لوگوں کے سامنے موجود تھا۔ قرآن نے انھیں نماز قائم کرنے یا زکوٰۃ ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا حج و عمرہ کے لیے آنے کا حکم دیا تو وہ جانتے تھے کہ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج و عمرہ کن چیزوں کے نام ہیں۔ قرآن نے ان میں سے کسی چیز کی ابتدا نہیں کی، ان کی تجدید و اصلاح کی ہے۔ اور وہ ان سے متعلق کسی بات کی وضاحت بھی اسی حد تک کرتا ہے، جس حد تک تجدید و اصلاح کی اس ضرورت کے پیشِ نظر اس کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔ دینِ ابراہیمی کی یہ ساری روایت اس کے نزدیک خدا کا دین ہے اور اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو وہ اسے پورا کا پورا اپنانے کی تلقین کرتا ہے:
ثُمَّ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵧ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. (النحل ۱۶: ۱۲۳)
’’پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملتِ ابراہیم کی پیروی کرو جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
تیسری چیز وہ صحیفے ہیں جو اس وقت تورات، زبور اور انجیل کی صورت میں بائبل کے مجموعۂ صحائف میں موجود ہیں۔ ان کے بدقسمت حاملین نے ان کا ایک حصہ اگرچہ ضائع کر دیا اور ان میں بہت کچھ تحریفات بھی کردی ہیں، لیکن اس کے باوجود خدا کی نازل کردہ حکمت اور شریعت کا ایک بڑا خزانہ اب بھی ان میں دیکھ لیا جاسکتا ہے۔ قرآن کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس نے جگہ جگہ ان کے حوالے دیے ہیں، نبیوں کی جو سرگزشتیں ان میں بیان ہوئی ہیں، ان کی طرف بالاجمال اشارے کیے ہیں اوران میں یہود و نصاریٰ کی تحریفات کی تردید اور ان کی پیش کردہ تاریخ پر تنقید کی ہے۔ اہلِ کتاب پر قرآن کا سارا اتمامِ حجت انھی صحائف پر مبنی ہے اور وہ صاف اعلان کرتا ہے کہ اس کا سرچشمہ وہی ہے جو ان صحیفوں کا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ. مِنْ قَبْلُ هُدًي لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَﵾ اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌﵧ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ ذُو انْتِقَامٍ. (آلِ عمران ۳: ۳ - ۴)
’’اس نے تم پر کتاب اتاری ہے، (اے پیغمبر)، حق کے ساتھ، اُس کی مصداق بنا کر جو اِس سے پہلے موجود ہے، اور اس نے تورات اور انجیل اتاری، اس سے پہلے لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور (اس کے بعد) یہ فرقان اتارا ہے۔ بے شک، وہ لوگ جو اللہ کی آیتوں کے منکر ہوئے، اُن کے لیے بڑا سخت عذاب ہے، اور اللہ زبر دست ہے، وہ انتقام لینے والا ہے۔‘‘
اِنَّا٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ كَمَا٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّبِيّٖنَ مِنْۣ بَعْدِهٖﵐ وَاَوْحَيْنَا٘ اِلٰ٘ي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰي وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَﵐ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا. (النساء ۴: ۱۶۳)
’’ہم نے تمھاری طرف وحی کی، (اے پیغمبر)، اسی طرح جس طرح نوح کی طرف وحی کی اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں کی طرف اور ابراہیم کی طرف وحی کی اور اسمٰعیل، اسحٰق، یعقوب، اس کی اولاد اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔‘‘
قرآن کا یہی پس منظر ہے جس کی رعایت سے یہ چند باتیں اس کی شرح و تفسیر میں بطورِ اصول ماننی چاہییں:
اول یہ کہ پورا دین خوب و ناخوب کے شعور پر مبنی ان حقائق سے مل کر مکمل ہوتا ہے جو انسانی فطرت میں روزِ اول سے ودیعت ہیں اور جنھیں قرآن معروف اور منکر سے تعبیر کرتا ہے۔ شریعت کے جو اوامر و نواہی تعین کے ساتھ قرآن میں بیان ہوئے ہیں، وہ ان معروفات و منکرات کے بعد اور ان کی اساس پر قائم ہیں۔ انھیں چھوڑ کر شریعت کا کوئی تصور اگر قائم کیا جائے گا تو وہ ہر لحاظ سے ناقص اور قرآن کے منشا کے بالکل خلاف ہو گا۔
دوم یہ کہ سنت قرآن کے بعد نہیں، بلکہ قرآن سے مقدم ہے، اس لیے وہ لازماً اس کے حاملین کے اجماع و تواتر ہی سے اخذ کی جائے گی۔ قرآن میں اس کے جن احکام کا ذکر ہوا ہے، ان کی تفصیلات بھی اسی اجماع و تواتر پر مبنی روایت سے متعین ہوں گی۔ انھیں قرآن سے براہِ راست اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ قرآن کے بزعم خود بعض مفکرین نے اس زمانے میں کی ہے اور اس طرح قرآن کا مدعا بالکل الٹ کررکھ دیا ہے۔
سوم یہ کہ یہود و نصاریٰ کی تاریخ انبیاے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اس طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے۔ بحث و تنقید کی ساری بنیاد انھی پر رکھی جائے گی۔ اس باب میں جو روایتیں تفسیر کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں، انھیں ہرگز قابل التفات نہ سمجھا جائے گا۔ ان موضوعات پر جو روشنی قدیم صحیفوں سے حاصل ہوتی ہے اور قرآن کے الفاظ جس طرح ان کی تفصیلات کو قبول کرتے یا ان کی تردید کر کے اصل حقائق کو واضح کرتے ہیں، اس کا بدل یہ روایتیں ہرگز نہیں ہو سکتیں جن سے نہ قرآن کے کسی طالب علم کے دل میں کوئی اطمینان پیدا ہوتا ہے اور نہ اہلِ کتاب ہی پر وہ کسی پہلو سے حجت قرار پا سکتی ہیں۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ