(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۲۴- ۲۵)
عن معاذ رضی اللّٰه عنه: كنت ردف رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم علی حمار، لیس بینی و بینه الا موخرة الرحل. فقال: یا معاذ، ھل تدری ما حق اللّٰه علی عبادہ؟ وما حق العباد علی اللّٰه؟ قلت: اللّٰه ورسوله اعلم. قال: فان حق اللّٰه علی العباد ان یعبدوہ ولا یشركوا به شیأ وحق العباد علی اللّٰه ان لا یعذب من لا یشرك به شیأ. فقلت یا رسول اللّٰه افلا ابشر به الناس؟ قال: لا تبشرھم فیتکلوا.
’ردف‘: سوار کے پیچھے بیٹھنے والا۔ اسی معنی میں ’ردیف‘ بھی آتا ہے۔
’مؤخرة‘:کجاوے کا ابھرا ہوا پچھلا حصہ۔
’تدری‘: ’دری‘ اہلِ لغت اس کے معنی ’کوشش‘ اور ’سعی سے جاننا‘ بیان کرتے ہیں۔ زمخشری کی رائے میں ’درایة‘ وہ معرفت ہے جو چالاکی یا فریب سے حاصل کی جائے۔ اردو میں اس کا صحیح مترادف ملنا محال ہے۔
’حق‘:یہاں حق کا لفظ ’واجب و لازم‘ کے معنی میں آیا ہے۔
’فیتکلوا‘:تکیہ کرنا۔ ’ اتکال‘ یہاں اس سے مراد وہ بھروسا ہے، جس کے ساتھ سعی و جہد موجود نہ ہو۔
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گدھے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا تھا۔ میرے اور آپ کے مابین صرف کجاوے کی ہتھی تھی۔ (اس طرح ہم جارہے تھے) کہ آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کے بندوں پر اس کا کیا حق ہے ؟ اور بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے ؟ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے بتایا: لاریب، اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھیرائیں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ اس کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ شرک نہ کرے۔ اس پر میں نے عرض کی: تو کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دوں؟ آپ نے کہا: بشارت نہ دو لوگ اسی پر تکیہ کر لیں گے۔‘‘
یہ روایت اور اس سے اگلی روایت ایک ہی روایت کے دو متن ہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اس روایت میں ادب وعقیدت کے وہ کلمات بیان نہیں ہوئے جو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے کے بعد ادا کیے تھے۔
بعض روایات میں ’ردف‘ اور ’مؤخرة‘ کی جگہ ’ردیف‘ اور ’اخرة‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح کچھ روایات میں گدھے کا نام ’عفیر‘ بتایا گیا ہے۔
بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سوالات الگ الگ پوچھے تھے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے دونوں بار ’اللّٰه ورسوله اعلم‘کہہ کر اپنی سعادت مندی کا اظہار کیا تھا۔ ایک روایت میں یہ تصریح بھی ہے کہ حضرت معاذ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے کے باعث یہ بات ساری زندگی بیان نہیں کی۔ البتہ وفات کے موقع پر انھیں اس احساس نے بیان کرنے پر مجبور کر دیا کہ ان کے پاس دین کی ایک اہم حقیقت ہے اور انھیں اسے لوگوں تک پہنچا دینا چاہیے۔
بہر حال کوئی متن اس روایت میں کسی اہم معنوی پہلو کا اضافہ نہیں کرتا۔
اس روایت میں بنیادی طور پر شرک کی شناعت اور نجات کے لیے اس سے اجتناب کا مضمون بیان ہوا ہے۔ دین کی تعلیمات سے آگاہ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ توحید کو اس میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ انسان کی سنگین ترین غلطیوں میں سے سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ خالق و مالک کائنات کے ساتھ کسی ہستی کو کسی بھی پہلو سے شریک مانے۔ چنانچہ تمام انبیا بنی نوع انسان کو اس غلطی سے بچاتے اور اس کے خوف ناک انجام سے باخبر کرتے رہے ہیں۔ قرآنِ مجید کے موضوعات میں بھی توحید کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے ذریعے سے بھی اور اپنے الفاظ میں بھی اس حقیقت کو واضح کرتے رہے اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ کا حق قرار دیا ہے۔ اس سے آپ کے پیشِ نظر یہ حقیقت واضح کرنا ہے کہ توحید کی حیثیت صرف ایک علمی مسئلے ہی کی نہیں ہے بلکہ اس کا خیال رکھنا تمھارے اخلاقی وجود کا تقاضا بھی ہے۔
اس روایت کا دوسرا اہم پہلو بشارت سے متعلق ہے۔ اس روایت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ جو شخص شرک کے گناہ سے بچا رہے گا، اس کا اللہ تعالیٰ پر یہ حق قائم ہو جاتا ہے کہ وہ اسے بخش دے۔ لیکن یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس بشارت کے مستحق وہ مسلمان ہیں جن سے روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی موٹی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اس کے مخاطب وہ مجرمین نہیں ہیں جو خون بہاتے، وارثت کا مال ہڑپ کر جاتے، ساری عمر برائی کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے اور موت کے آجانے پر بھی تائب نہیں ہوتے۔ اگلی روایت میں ’صدقاً من قلبه‘ کے الفاظ بھی اسی حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔
اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی بھی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس سے آپ کے اپنے مخاطب کو اپنی طرف پور ی طرح متوجہ کرنے کا طریقہ سامنے آتا ہے۔ آپ حضرت معاذ کو ایک اہم دینی نکتہ بتانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ حضرت معاذ پوری طرح متوجہ ہوں اور بات کو اچھی طرح سمجھ کر ذہن میں محفوظ کر لیں۔ اسی طرح یہ روایت ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بات کو بیان کرتے ہوئے اپنے مخاطب کی شخصیت کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ آپ نے حضرت معاذ کو بات بتادی لیکن اسے عام کرنے سے روک دیا۔ اس طرح آپ نے یہ واضح کر دیا کہ یہ نکتہ صرف ان کے لیے ہے جن کی سیرت دین کے سانچے میں ڈھل چکی ہے۔ آپ کے اس طریق کار سے دین کے داعیوں کے لیے یہ اصول واضح ہوتا ہے کہ ظرف قدح خوار کو ملحوظ رکھنا کس قدر ضروری ہے۔
اسی طرح ہمیں اس واقعے سے صحابہ کی سعادت مندی اور بالخصوص حضرت معاذ کے مقام و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
قرآنِ مجید میں مختلف پیغمبروں کی دعوت بیان ہوئی ہے۔ ان میں اس بات کو بنیادی نکتے کی حیثیت حاصل ہے کہ اگر ان کی دعوت قبول کر لی گئی تو اس کا نتیجہ عذاب سے نجات ہے۔ مثًلا دیکھیے سورۂ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت میں یہی بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:
قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّيْ لَكُمْ نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ. اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوْهُ وَاَطِيْعُوْنِ. يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي. (۷۱: ۲ -۴)
’’ (حضرت نوح علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم کے لوگو، میں تمھارے لیے صاف صاف خبردار کر دینے وا ہوں۔ (میں تم کو دعوت دیتا ہوں) کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کی حدود کے پابند رہو اور میری بات مانو۔ (میں تمھیں بتاتا ہوں کہ اس کے نتیجے میں) اللہ تمھارے (وہ) گناہ معاف فرمائے گا (جو اس سے پہلے تم سے ہوئے) اور تمھیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دے گا۔‘‘
اگرچہ سیاق میں جس مہلت کا ذکر ہوا ہے اس کا تعلق اس دنیا سے ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دنیا کے عذاب سے بچنے کی خبر دی گئی ہے۔ لیکن گناہوں سے مغفرت کے الفاظ ہی سے واضح ہے کہ اس مغفرت میں، دنیا و آخرت دونوں شامل ہیں۔ اور یہ مغفرت اللہ تعالیٰ کے ایک وعدے کی حیثیت رکھتی ہے یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی قوم سے کہی:
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْ٘ا اِنْ يَّنْتَهُوْا يُغْفَرْ لَهُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ. (۸: ۳۸)
’’ ان کفر کرنے والوں سے کہہ دو کہ اگر یہ باز آجائیں تو جو کچھ ہو چکا وہ معاف کر دیا جائے گا۔‘‘
ان آیات سے یہ بات واضح ہے کہ پیغمبر کی دعوت قبول کرلینا، جس کا اہم ترین نکتہ توحید ہے، مغفرت کی ضمانت ہے۔ یہی ضمانت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بندوں کے حق کی حیثیت سے بیان کرکے اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین و اعتماد کو نئی جہت دی ہے۔
بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب ۳۶، کتاب اللباس، باب ۱۰۰، کتاب الاستئذان، باب ۳۰، کتاب الرقاق، باب ۳۷، کتاب التوحید، باب ۱۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۱۰۔ ترمذی، کتاب الایمان، باب ۱۷۔ ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب ۴۷۔ ابنِ ماجہ، کتاب الزہد، باب ۳۵۔ اور مسندِ احمد عن انس بن مالک اور عن معاذ بن جبل۔
______
عن انس رضی اللّٰه عنه: ان النبی صلی اللّٰه علیه وسلم، و معاذ ردیفه علی الرحل، قال: یا معاذ. قال لبیك یا رسول اللّٰه و سعدیك. قال: یا معاذ. قال لبیك یا رسول و سعدیك. قال یا معاذ. قال: لبیك یا رسول اللّٰه و سعدیك ــــــ ثلاثا ــــــ قال: ما من احد یشھد ان لا الٰه الا اللّٰه و ان محمدا رسول اللّٰه، صدقا من قلبه الا حرمه اللّٰه علی النار. قال یا رسول اللّٰه، افلا اخبربه الناس فیستبشروا. قال: اذا یتکلوا. فاخبربھا معاذ عند مرته تاثما.
’لبیك‘: یہ ’لب‘ سے تثنیہ کا صیغہ ہے۔ اور اس سے تکرار کے معنی مراد ہیں۔ پوری بات اس طرح سے ہے: ’اجبت لك اجابة بعد اجابة ‘۔ اس ترکیب کا یہ مفہوم ادا کرنے کے لیے اردو میں ایک ہی لفظ کو دہرایا جاتا ہے۔ یہی حقیقت لفظ ’سعدیك‘ کی ہے۔
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (سوار تھے) اور معاذ (رضی اللہ عنہ) کجاوے پر آپ کے پیچھے بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا: اے معاذ۔ معاذ نے کہا: حاضر، اللہ کے رسول حاضر، میرے نصیب، میری خوش بختی۔ آپ نے پھر بلایا: اے معاذ۔ انھوں نے پھر جواب دیا: حاضر، اللہ کے رسول حاضر، میرے نصیب، میری خوش بختی۔ آپ نے پھر آواز دی: اے معاذ۔ انھوں نے پھر جواب دیا: حاضر، اللہ کے رسول حاضر، میرے نصیب، میری خوش بختی ــــــ تین مرتبہ ــــــ حضرت انس کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا: کوئی نہیں ہے جو یہ گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اپنے دل کی سچائی کے ساتھ، مگر یہ کہ اللہ اس پر آگ حرام کر دے۔ (آپ کی یہ بات سن کر معاذ نے) کہا: یا رسول اللہ کیا میں اس کی لوگوں کو خبر نہ دوں کہ وہ بھی یہ بشارت پائیں۔ آپ نے کہا: اس طرح تو وہ اسی پر تکیہ کرنے لگیں گے۔ چنانچہ معاذ نے یہ بات اپنی وفات کے وقت اس خوف سے بتادی کہ کہیں انھیں گناہ نہ ہو۔‘‘
یہ حدیث اصل میں حدیث نمبر ۲۴ ہی ہے۔ ظاہر ہے ’’متن‘‘،’’معنی‘‘ اور ’’قرآن سے تعلق‘‘ کے مباحث بھی وہی ہیں۔
بخاری، کتاب العلم باب ۴۹۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۱۰۔ مسند احمد عن انس بن مالک۔
___________