HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: البقرہ ۲: ۳۴- ۳۹ (۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْ٘ا اِلَّا٘ اِبْلِيْسَﵧ اَبٰي وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ٣٤ وَقُلْنَا يٰ٘اٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَاﵣ وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ ٣٥ فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِﵣ وَقُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّﵐ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ ٣٦ فَتَلَقّٰ٘ي اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِﵧ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ٣٧ قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًاﵐ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًي فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ٣٨ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا٘ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِﵐ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ ٣٩

اور [81]یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو[82] تو وہ سجدہ ریز ہو گئے، لیکن ابلیس [83] نہیں مانا[84]۔ اُس نے انکارکیا اور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا۔ اور ہم نے آدم سے کہا:  تم اور تمھاری بیوی، دونوں اِس[85] باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چاہو، فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت [86]کے پاس نہ جانا ورنہ ظالم قرار پاؤ گے۔ پھر شیطان[87]  نے اُن کو وہاں سے پھسلا دیا[88]اور جس حالت میں وہ تھے، اُس سے اُنھیں نکلوا کر چھوڑا۔ اور ہم نے کہا:  یہاں سے اتر جاؤ[89]۔ اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو[90]  اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسرکرنی ہے۔ پھر آدم نے اپنے پروردگارسے (توبہ کے) چند الفاظ سیکھ لیے[91] (اور اُن کے ذریعے سے توبہ کی[92]) تو اُس کی توبہ اُس نے قبول کر لی[93]۔ وہ بے شک، بڑا معاف فرمانے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اتر جاؤ[94]، پھر میری طرف سے اگرکوئی ہدایت تمھارے پاس آئے[95] تو (یاد ر کھو کہ تم میں سے) جو لوگ میری اِس ہدایت کی پیروی کریں گے، (اُن کا صلہ جنت ہے)، اُنھیں (وہاں) کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ (کبھی) غم زدہ ہوں گے[96]، اورجنھوں نے اِس کا انکار کیا، اورہماری آیتوں کو جھٹلا دیا، وہ دوزخ والے ہیں، وہ ہمیشہ اُسی میں رہیں گے۔ ۳۴- ۳۹

[81]۔ اصل الفاظ ہیں: ’واذ قلنا‘ آیت ۳۰ کی ابتدا میں پہلے ’اذ‘ کے بعد یہ دوسرا ’اذ‘ اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ یہ ایک مستقل واقعہ ہے، لہٰذا ضروری نہیں کہ یہ پہلے واقعے کے بعد ہی پیش آیا ہو۔

[82]۔ یہ سجدۂ تعظیمی تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا، اس لیے اس میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اطاعت کا یہ امتحان جس وجہ سے لیا، وہ یہ تھی کہ اولاً، آدم پر واضح ہو جائے کہ اصلی سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے، لہٰذا اسے بھی اپنی انانیت کو ایک طرف رکھ کر ہمیشہ حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ ثانیاً وہ یہ سمجھ لے کہ اُسے جب اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہے کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تو یہ بات کسی طرح اس کے شایانِ شان نہیں ہے کہ وہ کسی برتر سے برتر مخلوق کو بھی خدا کا شریک سمجھ کر اس کی پرستش کرے۔ بندگی اور پرستش اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے، وہ اگر اس حق میں کسی کو شریک کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی اہانت نہیں کرتا، بلکہ خود اپنی بھی اہانت کرتا ہے۔

اس سلسلۂ بیان میں یہ واقعہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل بھی اس کی روشنی میں یہ فیصلہ کر سکیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں وہ فرشتوں کی روش اختیار کرنا چاہتے ہیں یا ابلیس کی جس نے حسد اور تکبر کی بنا پر آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔

[83]۔ یہ ’ابلس‘ سے ’افعيل‘ کے وزن پر اُس جن کا لقب ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ ’ابلس‘ کے معنی مایوس اور غم زدہ ہونے کے ہیں۔ بعض لوگ اسے فرشتہ سمجھتے ہیں، لیکن قرآن میں صراحت ہے کہ یہ جنات میں سے تھا۔

[84]۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنات چونکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے فرشتوں سے زیادہ دور نہیں ہیں، اس لیے انھیں جب سجدہ کا حکم دیا گیا تو علی سبیل التغلیب جنات بھی اس حکم میں شامل تھے۔

[85]۔ یہ غالباً اسی دنیا کا کوئی باغ تھا جسے آدم و حوا کا مستقر قرار دیا گیا۔ اس میں جو امتحان انھیں پیش آیا، اس سے دونوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ شیطان ان پر حملہ کرے گا تو کہاں سے کرے گا۔

[86]۔ سورۂ طٰہٰ( ۲۰) کی آیت ۱۲۰ میں اسے ’شجرة الخلد‘ کہا گیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ لفظ ’الشجرة‘ یہاں مجازی مفہوم میں ہے۔ ’شجرة الخلد‘ کے لفظ سے جو معنی متبادر ہوتے ہیں اور اس درخت کا پھل کھانے کے جو اثرات قرآن کے دوسرے مقامات پر بیان ہوئے ہیں، دونوں اس بات کی طرف صاف اشارہ کرتے ہیں کہ اس سے مراد وہی شجرۂ تناسل ہے جس کا پھل کھانے ہی سے انسان اس دنیا میں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہے، لیکن آج بھی دنیا میں اس کے لیے سب سے بڑی آزمایش اگر کوئی ہے تو یہی درخت ہے۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سب سے بڑھ کراسی کو فتنے کا ذریعہ بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس قرار دیا اور انھیں اجازت دی کہ وہ یہ لباس پہن کر اس درخت کا پھل کھائیں، لیکن شیطان ہمیشہ انھیں اس لباس کے بغیر ہی اس کا پھل کھانے کی ترغیب دیتا رہتا ہے۔

[87]۔ اس سے مراد وہی ابلیس ہے جس کا ذکر اوپر کی آیات میں ہوا ہے۔

[88]۔ اس نے آدم و حوا سے کہا کہ حیاتِ جاوداں اور ابدی بادشاہی کا راز اسی درخت کے پھل میں ہے جس سے تمھیں محروم کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس ترغیب سے وہ اس پھل کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی خواہش میں جو غیر معمولی کیفیت انسان پر طاری ہو جاتی ہے، اس سے مغلوب ہو کرشیطان کے فریب میں آگئے اور یہ پھل کھا بیٹھے۔

[89]۔ اصل میں لفظ ’اهبطوا‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں ’اترو‘کا مفہوم وہی ہے جو اسی سورہ کی آیت ۶۱ کے الفاظ ’اهبطوا مصراً‘ میں ہے۔ یعنی اے آدم و حوا اور ابلیس، تم سب اس باغ سے نکل کر زمین میں اتر جاؤ۔

[90]۔ یعنی ابلیس تمھارا دشمن ہے اور تم اس کے دشمن ہو۔ تمھارے اور اس کے درمیان فطری تعلق دشمنی ہی کا ہے، لہٰذا تم کو ہمیشہ اسے اپنا دشمن ہی سمجھنا چاہیے۔

[91]۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی سنت معلوم ہوتی ہے کہ انسان جب گناہ کر لینے کے بعد ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو وہ نہ صرف یہ کہ اسے توبہ کی توفیق دیتا ہے، بلکہ اس کے لیے موزوں الفاظ بھی اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ آدم علیہ السلام کو جو الفاظ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سکھائے، وہ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۳ میں بیان ہوئے ہیں۔

[92]۔ اس لیے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے کوئی مجرم نہیں ہے۔ وہ اگر گناہ کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں کرتا کہ وہ ازلی گنہ گار ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ و اختیار کی جو نعمت اسے عطا فرمائی ہے، اس کے سوء استعمال کی وجہ سے گناہ کرتا ہے۔ اس گناہ سے اپنے آپ کو پاک کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے توبہ و اصلاح کا طریقہ اسے بتایا ہے، اس کے لیے کفارے کا کوئی عقیدہ وضع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

[93]۔ اصل الفاظ ہیں: ’فتاب عليه‘۔ اس میں ’علي‘ اس بات پر دلیل ہے کہ یہ ’اقبل‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا التفات اور توجہ اسے پھر حاصل ہو گئی۔ یہ رحمت و عنایت کا مضمون ہے جسے ’انه ھو التواب الرحیم‘ کے الفاظ میں قرآن نے واضح کر دیا ہے۔

[94]۔ یہ الفاظ دو مرتبہ دہرائے گئے ہیں۔ ایک مرتبہ آدم علیہ السلام کی لغزش کا ذکر کرنے کے بعد اور دوسری مرتبہ یہاں اُن کی توبہ کے بعد۔ لغزش کے بعد یہ اُس لغزش کا نتیجہ بیان کرنے کے لیے آئے ہیں اور توبہ کے بعد اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ یہی امتحان اب تمھیں دنیا میں درپیش ہے، اس کے لیے جاؤ، تمھاری لغزش اور توبہ سے وہ مقصد پورا ہو گیا جس کے لیے تم اس باغ میں رکھے گئے تھے۔ تمھارا مستقر اب دنیا ہے اور تمھیں ایک خاص وقت تک اسی میں رہنا ہے۔

[95]۔ یعنی تم جس امتحان میں ڈالے گئے ہو، وہ بڑا سخت امتحان ہے۔ اس میں تنہا اپنی عقل وفطرت کی رہنمائی سے تمھیں کامیابی میں مشکل ہو سکتی ہے۔ میری رحمت کا تقاضا ہے کہ اس میں تمھاری ہدایت کا سامان کروں، لہٰذا میں یہ سامان کروں گا تاکہ جس نے ہدایت پانی ہے وہ ہدایت پائے اور جس نے گمراہی کے راستے پر چلنا ہے، وہ پوری طرح اتمامِ حجت کے بعد چلے اور جزا و سزا کے دن اپنا کوئی عذر پیش نہ کر سکے۔

[96]۔ قرآنِ مجید میں یہ الفاظ جنت کی تعبیر کے لیے خاص ہیں۔ یعنی ایسی جگہ جہاں نہ مستقبل کا کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ ماضی کا کوئی پچھتاوا۔ ’خوف‘ اور ’حزن‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، وہ اسی مفہوم پر دلالت کرتے ہیں، اس لیے کہ خوف کسی پیش آنے والے خطرے کا ہوتا ہے اور حزن رفتہ و حاضر کے کسی نقصان کا۔ دنیا کی زندگی، اس کے برعکس، اگر دیکھیے تو مستقبل کے اندیشوں اور ماضی کے پچھتاووں ہی کا نام ہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B