HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

کوسووا میں ظلم

ساتویں صدی عیسوی کا آخری عشرہ تھا۔ گاتھ نامی ایک قوم کی اندلس (موجودہ اسپین) پر حکومت تھی۔ حکمران کا نام وٹینزا تھا۔ اس وقت وہاں پادریوں کا بہت اثر و رسوخ تھا۔ وہ لوگوں کو بہت ستاتے تھے اور خاص طور پر یہودیوں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ وٹینزا نے پادریوں کی قوت ختم کرنے کی کوشش کی مگر پادریوں نے یہ پروپیگنڈا کر دیا کہ وٹینزا یہودیوں کا خیر خواہ ہے۔ یہودیوں کی خیر خواہی ایک ناقابلِ معافی جرم تھا۔ لہٰذا پادریوں کو وٹینزا کو معزول کرنے میں زیادہ دقت نہ ہوئی۔ اس طرح پادریوں نے اپنے پسندیدہ ایک فوجی سردار لرزیق (راڈرک )کو تخت نشیں کر کے لوگوں پر مسلط کر دیا۔ لہٰذا پادریوں کی قوت اور حرکتوں میں کوئی فرق نہ آیا۔

جولین وٹینزا کا داماد تھا۔ لرزیق نے جولین کی جوان بیٹی کی عصمت دری کر ڈالی جس پر جولین طیش میں آ گیا۔ لیکن اس نے ظلم کی تلافی کے لیے عقل و بصیرت سے کام لیا۔

موسیٰ بن نصیر، خلیفہ ولید بن عبد الملک کی طرف سے مغربی ممالک کا وائسرائے تھا جس کا قیام قیروان میں تھا۔ جولین چند عیسائی سرداروں کے ہمراہ قیروان پہنچا۔ موسیٰ بن نصیر سے ملاقات کی۔ موسیٰ اس عیسائی وفد کو عزت و تکریم سے ملا۔ جولین اور اس کے وفد نے موسیٰ سے کہا : حکومتِ اندلس عوام پر ظلم کر رہی ہے۔ آپ عوام کو اس ظلم سے نجات دلائیں۔ آپ کے سوا دنیا میں کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے پاس ہم اپنی فریاد لے کر جائیں۔

موسیٰ نے خلیفہ ولید کی اجازت سے جولین کے بیان کی تصدیق حاصل کی۔ پھر اس نے اپنے ایک بہادر اور قابل گورنر طارق بن زیاد کو اندلس پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا۔ طارق نے حکم کی تعمیل کی۔ طارق کے پاس بارہ ہزار اور لرزیق کے پاس ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ جنگ شروع ہوئی۔ بارہ ہزار ایک لاکھ پر غالب آئے۔ اس طرح ایک ظلم کا خاتمہ ہوا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلمان ایمانی اور مادی قوت کے حامل تھے۔ وہ ایک تھے۔ وہ ملکوں، فرقوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے۔ وہ موت سے ڈرے ہوئے نہیں تھے۔ وہ ذوقِ شہادت سے عاری نہیں تھے۔

آج کوسووا [1] (Kosovo) میں لرزیق کے اندلس سے بڑھ کر ظلم ہو رہا ہے۔ لیکن اِس وقت مسلمان ایمانی اور مادی قوت کے حامل نہیں ہیں۔ وہ ایک نہیں ہیں۔ وہ ملکوں، فرقوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ وہ موت سے خائف ہیں۔ ذوقِ شہادت سے عاری ہیں۔ وہ کسی ’’موسی بن نصیر‘‘ سے محروم ہیں۔

 کوسووا میں ظلم کی تلافی کا آئیدیل حل کیا تھا؟ اس کا آئیڈیل حل یہ تھا کہ اسلامی ممالک کی حکومتیں ایک ہوجاتیں۔ وہ سربیا کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے سفارتی ذرائع بروے کار لاتیں۔ مناسب مہلت پوری ہو جانے کے بعد جہاد وقتال کا اعلان کرتیں۔ وہ ’’موسیٰ بن نصیر‘‘ بن جاتیں اور کسی ’’طارق بن زیاد‘‘ کو سربوں پر چڑھائی کا حکم دیتیں۔ اول تو فوجی قوت اور مالی وسائل کی کمی کا مسئلہ درپیش نہ ہوتا لیکن بالفرض ایسی صورتِ حال پیدا ہوبھی جاتی تو اس کے لیے وہ عام مسلمانوں سے اپیل کرتیں۔ اس صورت میں ہم بھی قلم چھوڑ کرخودکو پیش کردیتے۔ آسمان سے اللہ کی مدد زمین پر اترتی۔ پھر کوسووا پر فضائی اور زمینی حملے کیے جاتے اور سربوں کو کوسووا کی سرحدوں سے دھکیل کر انھیں ان کی حدود سے آشنا کر دیا جاتا بلکہ مونٹی نیگرو[2] کے مظلوموں کو بھی سرب درندگی سے نجات دلانے کی کوشش کی جاتی۔

لیکن مسلمان اس وقت دنیا میں پستی کے مقام پر ہیں۔ وہ کسی غیر مسلم پرظلم کی تلافی تو دور کی بات کسی مسلمان پرظلم رکوانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ وہ نیٹو کی افواج پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کے کوسووا میں زمینی اقدام نہ کرنے پر گلہ کر رہے ہیں۔ یوگوسلاویہ پر عراق کے مقابلے میں ان کی کم اور نشانے سے ہٹی ہوئی بم باری پر شکوہ کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی مسلم دوستی میں سے مسلم دشمنی آشکار کر رہے ہیں۔ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو یہ گلے اور شکوے دراصل ہماری پستی اور کمزوری ہی کی علامت ہیں۔ مسلمان یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کوسووا ان کا مسئلہ ہے، اسے انھیں ہی حل کرنا چاہیے تھا۔

سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس پستی کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان خود اس وقت اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔ وہ آخرت پر دنیا کو ترجیح دے کر ظلم کر رہے ہیں۔ وہ دین کو زندگی میں اس کا اصل مقام نہ دے کر اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔ وہ علم و ہنر کے ماہرین اور اخلاقی مصلحین پر فنکاروں اور کھلاڑیوں کو فوقیت دے کر اپنے اوپر ظلم کر رہے ہیں۔ وہ خود کو ملکوں، فرقوں اور طبقوں میں تقسیم کر کے خود پر ظلم کر رہے ہیں۔ جب تک یہ اپنے اوپر ظلم بند نہیں کریں گے، اغیار بھی ان کے اوپر ظلم بند نہیں کریں گے۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شیاطینِ جن و انس کو قیامت تک اپنا کام کرنے کی مہلت حاصل ہے۔ اس لیے دنیا میں کوسووا جیسے ظلم کا ارتکاب ہوتا رہنا ہے۔ اس ظلم کے خاتمے کا صحیح اور باوقار حل یہ ہے کہ مسلمان اپنے اوپر ظلم کرنا بند کریں اور میدانِ عمل میں اتریں، ورنہ کشمیر، فلسطین اور کوسووا جیسے مسائل جنم لیتے ہی رہیں گے۔

ـــــــــ  محمد بلال 

___________

[1]۔  کوسووا کے مسئلے کی مختصر تاریخ یہ ہے۔ ۱۳۸۹ ء میں سلطنتِ عثمانیہ نے سربوں کو شکست دی۔ کوسووا عثمانیوں کے تحت آ گیا۔ اس طرح یہاں اسلام آیا۔ اور پھر اس خطے اور اس کے گردوپیش میں اسلام پھیلا۔

 ۱۹۱۳ء کی جنگِ بلقان کے نتیجے میں یہاں ترکی کا اثر کم ہو گیا۔ سربوں کا اثر بڑھ گیا اور بلقان کے علاقے چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی صورت میں خودمختار ہو گئے۔ ۱۹۲۹ء میں کوسووا یوگوسلاویہ کی فیڈریشن کا خودمختار حصہ بنا دیا گیا۔ یوگوسلاویہ مشرقی یورب کا خوش حال اور پرامن ملک تھا۔ اس کے مغرب اور سوویت بلاک، دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ۱۹۹۰ء میں یوگوسلاویہ سوویت یونین کی طرح شکست ریخت کا شکار ہوا۔ اسی سال سربیا کے صدر ملاسووک (Milosevic) نے جو پہلے سربین کیمونسٹ پارٹی کا سربراہ تھا، عظیم تر سربیا (Greater Serbia) بنانے کے پیشِ نظر منتخب ادارے توڑنے اوران کی خودمختاری ختم کرنے کا یکطرفہ اعلان کر دیا۔ کوسووا کے باشندوں نے یہ آمرانہ فیصلہ تسلیم نہ کیا۔ ۱۹۹۲ء میں کوسووا میں ریفرنڈم ہوا۔ کوسووا میں ۹۰ فی صد البانوی نژاد مسلمان اور ۹ فی صد سرب تھے۔ ریفرنڈم کا نتیجہ نکلا۔ ۹۹ فی صد آبادی کی حمایت سے آزاد جمہوریہ کوسووا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ ۱۹۹۸ء میں یہاں دوبارہ الیکشن ہوئے اور ابراہیم روگروا صدر منتخب کر لیے گئے، مگر عیسائی اکثریت کا حامل سربیا کوسووا کی آزادی کی راہ میں حائل ہو گیا ـــــــ سربیا اسی طرح بوسنیا کی آزادی کی راہ میں بھی حائل ہوا تھا لیکن بوسنیا بالآخر آزاد ہو گیا تھا ـــــــ اور کوسووا کے ریفرنڈم اور الیکشن کو رد کر دیا۔ پھر کوسووا پر اپنی مسلح افواج کے ذریعے سے ظلم و ستم، عصمت دری اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کر دیا۔ لاکھوں مسلمانوں کو زبردستی وہاں سے نکال کر انھیں جلا وطنی اور خانہ بدوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا اور خود کوسووا پر قبضہ کرلیا۔

سربوں کا یہ کہنا ہے کہ کوسووا سربیا کا اٹوٹ انگ ہے۔ آج سے چھ سو سال پہلے مسلمان یہاں باہر سے آئے تھے، اس لیے یہ خطۂ ارضی ان کا نہیں ہمارا ہے مسلمانوں کو یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، حالانکہ اس اصول پر امریکہ بھی سفید فام امریکیوں کا نہیں ہے اور سرب بھی سربیا میں ہمیشہ سے نہیں رہ رہے۔ کوسووا کے مسلمان کئی نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اسلام یہاں کے مقامی لوگوں نے بڑی تعداد میں قبول کیا۔ اس لیے عدل و انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ کوسووا کے باشندوں پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ ایک خودمختار صوبے کی حیثیت سے البانیہ کے ساتھ فیڈریشن بنانا چاہتے ہیں یا سربیا کے ساتھ۔

[2]۔  یہ بھی یوگوسلاویہ کی ایک ریاست ہے۔ اس کے باشندے بھی سربوں کے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

B