وہ بزرگ بہت پریشان تھے۔ ان کی حالت قابلِ رحم تھی۔ انھوں نے بتایا کہ میرے گھریلو مسائل ایسے ہیں کہ میں کسی مذہبی ’’جماعت‘‘ کا رکن نہیں بن سکتا۔ اس رکنیت کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ لیکن اس بزرگ کو یہ تشویش بھی تھی کہ اگر انھوں نے کسی ’’جماعت‘‘ کے ساتھ وابستگی اختیار نہ کی تو وہ جاہلیت کی موت مریں گے۔ وہ بزرگ جن صاحب سے عربی پڑھتے اور جن کا درسِ قرآن سنتے تھے انھوں نے ان پر یہ حدیث واضح کر دی تھی کہ جو شخص ’’جماعت‘‘ سے وابستہ ہوئے بغیر مر گیا، وہ جاہلیت یعنی کفر کی موت مرے گا۔ اور انھیں یہ بھی بتا دیا تھا کہ ہماری ایک ’’جماعت‘‘ ہے۔ اس کا ایک امیر ہے۔ وہ سمع و طاعت کی بیعت لیتا ہے۔ ہم نے اس کی بیعت کر رکھی ہے۔ اور اپنی جماعت کا رکنیت فارم بھی انھیں دے دیا تھا۔
میں نے اس بزرگ کو تسلی دی اور انھیں کہا کہ آپ جاہلیت کی موت نہیں مریں گے۔ اس لیے کہ آپ ’’جماعت‘‘ کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس کے تحت ہی زندگی گزار رہے ہیں حتیٰ کہ اس ’’جماعت‘‘ کے امیر کی اطاعت بھی کر رہے ہیں۔
میری بات سن کر وہ بزرگ بہت حیران ہوئے۔ میں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کی اور دوسرے دن ’’اشراق‘‘ کے وہ شمارے جن میں ’’التزامِ جماعت‘‘ کی بحثیں شائع ہوئی تھیں، ان تک پہنچا دیے۔
کچھ دنوں کے بعد وہ بزرگ میرے سامنے شکر گزاری کا اظہار کر رہے تھے۔
التزامِ جماعت کے متعلق احادیثِ نبوی کے بارے میں ہمارے ہاں بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے گوناگوں مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور کل مزید سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہماری یہ کوشش ہے کہ اس معاملے میں ہر غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے، لہٰذا اس شمارے میں ’’دین و دانش‘‘ کے ذیل میں معز امجد صاحب نے ’’التزامِ جماعت ــــــ اعتراضات کا جائزہ‘‘کے زیر ِ عنوان مذکورہ مسئلے کے متعلق چند مزید غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ بحث بہت طویل ہو چکی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بحث بہت ضروری ہے۔ وہ لوگ جو اس مسئلے میں پہلے سے واضح ہیں ان سے ہماری درخواست ہے کہ وہ ایسی تحریروں کا تنقیدی نقطۂ نگاہ سے مطالعہ کریں اور اس ضمن میں ہمارے کام میں کوئی خامی پائیں تو ہماری توجہ اس جانب مبذول کرائیں۔ یہ چیز مسئلے کی تنقیح کرنے میں بہت مفید ثابت ہو گی۔
ہمارے معاشرے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دینِ اسلام کے بانی ہیں اور اسلام سے قبل عرب میں انبیا کے دین کے کوئی آثار موجود نہیں تھے۔ اس وقت ’’دین و دانش‘‘ ہی کے ذیل میں ’’اصول و مبادی‘‘ کے زیرِ عنوان جاوید احمد صاحب غامدی کی تحریر شائع کی گئی ہے۔ یہ تحریر اس غلط فہمی کو بھی دور کرے گی۔
دورِ حاضر میں مستشرقین نے انٹرنیٹ کے ذریعے سے بھی اسلام پر اعتراضات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہمارا جدید پڑھا لکھا طبقہ مغرب سے پہلے ہی بہت مرعوب ہے اس لیے مستشرقین کے ان اعتراضات سے وہ بہت جلد منفی طور پر متاثر ہو جاتا ہے اور تشکیک اور الحاد کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ لہٰذا ان اعتراضات کا جواب دینا بہت ضروری ہے۔ معز امجد صاحب پچھلے دو سال سے یہ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کا یہ کام انگریزی زبان میں ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ معز صاحب کے اس تمام کام کا قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے لیے اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ فی الحال ایسی ایک تحریر کا ترجمہ اس وقت شائع کیا گیا ہے۔
’’ملاقات‘‘ کے ضمن میں احمد جاوید صاحب کے انٹرویو کا دوسرا حصہ اس وقت شائع نہیں کیا گیا۔ دراصل احمد جاوید صاحب کے ساتھ بروقت ملاقات کا اہتمام نہ ہو سکا۔ ان شاء اللہ اگلے شمارے میں یہ انٹرویو مکمل ہو جائے گا۔
’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’دانش سرا کی سرگرمیاں‘‘ اور ’’ادبیات‘‘ کے سلسلے حسبِ سابق موجود ہیں۔
ـــــــــ محمد بلال
ـــــــــــــــــــــــــ