خیال و خامہ
O
یہ نغمہ دردِ فرقت سے نواے غم ہوا آخر
یہی فرقت کا رشتہ، رشتۂ محکم ہوا آخر
مہ و انجم سے روشن تھا کبھی اپنا یہ میخانہ
وہ اِس کا غلغلہ اب گریۂ پیہم ہوا آخر
یہی آدم و حوا ہے باعثِ تخلیق آدم بھی
یہ افسانہ بھی جزوِ قصۂ آدم ہوا آخر
سنا ہے اب کہیں ابلیس بھی صدیوں کی محنت سے
فرنگی بت گروں کے راز کا محرم ہوا آخر
صدا آئی یہ دینِ حق جب اترا آسمانوں سے
جہاں میں اختلاطِ شعلہ و شبنم ہوا آخر
یہی گھر تھے جہاں کچھ روحِ مشرق دیکھ لیتے تھے
یہ شیرازہ بھی اس تہذیب میں برہم ہوا آخر
اِسی دل سے فروزاں تھے زمین و آسماں لیکن
وہ ظلمت ہے کہ اس کا نور بھی مدھم ہوا آخر
ترے حرفِ عنایت سے میں بے گانہ رہا برسوں
مرے زخمِ جگر پہ اب وہی مرہم ہوا آخر
تعجب ہے زمیں کو، آسماں بھی محوِ حیرت ہے
وہ اک اُمّی تھا، لیکن سرورِ عالم ہوا آخر
ـــــــــــــــــــــــــ