افسانہ
میرے بڑے بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ایک طویل عرصے سے جدہ میں مقیم ہیں۔ یہ جنوری ۱۹۹۹ء کی بات ہے۔ وہ دو سال کے بعد اپنی فیملی کے ساتھ لاہور آئے۔ ان کا یہ قیام ۲۲ روزہ تھا۔ ان کے لاہور آنے سے ایک عجیب صورتِ حال پیدا ہو گئی۔ ان کی ساڑھے تین سالہ بچی کو لاہور والا گھر پسند نہ آیا۔ وہ ہر وقت اپنی ماں کے ساتھ چپکی رہتی اور فوری طور پر جدہ واپس جانے کی ضد کرتی رہتی۔ ظاہر ہے یہ ضد پوری نہیں کی جا سکتی تھی، اس لیے اس کی بات کو اہمیت نہ دی گئی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جدہ کا گھر لاہور کے گھر سے بہت اچھا ہے۔ بہتر فرنیچر، ائر کنڈیشنر، کارپٹ، کار، ڈش انٹینا جیسی چیزیں وہاں موجود ہیں، جو یہاں نہیں ہیں۔ پھر جدہ کی صاف ستھری، ہموار اور چوڑی سٹرکیں جبکہ لاہور کی سڑکوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اتفاق سے ان دنوں بارش ہو گئی۔ گلیاں اور سٹرکیں کیچڑ سے بھر گئیں۔ جس سے صورتِ حال مزید خراب ہو گئی۔ ایک دفعہ میں اپنے اُس بھائی کے کمرے میں گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بچی حسبِ عادت اپنی ماں کے ساتھ چپکی ہوئی ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کے سامنے اپنے بازو کھولے۔ اسے اپنی گود میں لینا چاہا، لیکن ناگواری کے تاثرات فوراً اس کے چہرے پر ابھر آئے۔ اس نے اپنا منہ جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس سے پوچھا: جدہ اچھا ہے یا پاکستان؟ وہ بغیر کسی توقف کے چیخ کر بولی: جدہ۔
ابھی لاہور میں اس کے دو دن ہی گزرے تھے کہ وہ بیمار ہو گئی۔ اسہال اور قے معمول بن گئے۔ رنگ پیلا ہو گیا۔ چہرہ مرجھا گیا۔ سات آٹھ دن گزر گئے۔ ڈاکٹر سے دوا لینے کے باوجود طبیعت نہ سنبھلی، حتیٰ کہ جسم میں پانی کی کمی ہو گئی۔ ڈاکٹر نے کہا: اسے ڈرپ لگانی پڑے گی۔ اسے ہسپتال داخل کر لیا گیا۔ اس کی دو راتیں ہسپتال میں گزریں۔ ہسپتال میں اسے ملنے اس کے چچا باربار آتے رہے۔ اس نے رات بارہ بجے کے بعد ایک خاص قسم کی چپس کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ اس وقت سردی بہت شدید تھی۔ اتنی رات گئے اور اس سردی میں بھی وہ چپس میں اس کے لیے لے آیا۔ اس کی چچی بھی اسے ملنے آئی۔ اور اس کے کھانے کے لیے کچھ چیزیں گرم کرکے لائی .... اسے رشتوں کے جذبوں کی لذت ملنے لگی .... اس کی طبیعت کچھ سنبھل گئی .... وہ گھر آ گئی۔ وہاں اسے اس کا ماموں ملنے آیا۔ وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگا۔ وہ بھی اس کے ساتھ کھیلنے لگی۔ اس کا کملایا ہوا چہرہ کھلنے لگا .... اس کا چڑچڑاپن کم ہو گیا .... وہ مسکرانے لگی۔ بعض اوقات تو کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ .... اپنی ماں سے دور رہ کر بھی وقت گزارنے لگی۔ اپنی پھوپھیوں اور چچوں کے ساتھ مذاق کرنے لگی۔ میرا کمرا دوسری منزل پر ہے۔ اس کا کمرا نیچے ہے۔ ایک دفعہ وہ اوپر میرے پاس آئی۔ اکیلی۔ مسکراتی ہوئی۔ وہ میرے قریب آئی۔ اس نے میری کمر کے گرد اپنے بازوؤں کا حلقہ بنا لیا۔ اپنا ایک گال میرے ساتھ لگا لیا۔ میں نے پوچھا: جدہ اچھا ہے یا پاکستان؟ وہ بغیرکسی توقف کے ملائمت کے ساتھ بولی: پاکستان۔
____________
سوچ
ایک دفعہ ایک شخص کو اپنے کھیت میں سے سنگِ مرمرکا ایک خوبصورت مجسمہ ملا۔ وہ اسے کباڑی کے پاس لے گیا۔ جسے تمام نادر اور پرانی چیزیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس شخص نے مجسمہ کو فروخت کے لیے پیش کیا۔ کباڑی نے اسے بھاری رقم پر خرید لیا۔ وہ شخص رقم لے کر چلا گیا۔
جب وہ رقم لے کر گھر واپس جا رہا تھا تو اس نے سوچا اور اپنے آپ سے کہا: اس دولت میں کیسی زندگی مضمر ہے اور ایک پتھر کے بے جان مجسمہ کے عوض جو ہزاروں سالوں سے زمین کے نیچے دبا پڑا رہا اور جوکسی کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا ہو۔ کوئی اتنی بڑی رقم کیسے دے سکتا ہے۔
اب کباڑی اس خوب صورت مجسمے کی طرف دیکھ کر سوچ رہا تھا اور اس نے اپنے آپ سے کہا: کیا زندگی ہے۔ کسی روح کا خواب ہے اور ہزارہا سال کی میٹھی نیند نے اس میں کیا تازگی بھر دی ہے اور کوئی شخص ایسی خوب صورت چیز کو بے جان اور بے حس دولت کے عوض کیونکر فروخت کر سکتا ہے۔ (کلیاتِ خلیل جبران، ص ۶۴)