’’ملاقات‘‘ کے اس سلسلے کا مقصد قارئینِ ’’اشراق‘‘ کو اہم شخصیات کے خیالات سے انھی کی زبانی آگاہ کرنا اور دین پر غور و فکر کے دوسرے زاویوں سے باخبر رکھنا ہے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ اور بغیر کسی تعصب کے مذہبی آرا کی صحت اور عدمِ صحت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔
یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ان شخصیات کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ مدیر
’’حقیقتِ تزکیۂ نفس‘‘ ایک پمفلٹ ہے۔ اسے ڈاکٹر محمد امین صاحب نے تحریر کیا ہے۔ ہم نے تبصرے کی غرض سے اس کا مطالعہ کیا۔ اس پمفلٹ کا پیش لفظ بڑا چونکا دینے والا تھا۔ تصوف کے حوالے سے ایک ایسے شخص کی رائے تھی جو خود صوفی بھی ہیں اور تصوف کے علمی پس منظر سے بخوبی آ گاہ بھی۔ ان کی طرف سے یہ رائے واقعی قابلِ غور تھی۔
’’اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بدعقیدگی اور بے عملی کی کوئی بھی قسم ہو، یہ ممکن نہیں کہ اس کے ڈانڈے تصوف سے نہ ملتے ہوں۔ اور یہ شاخسانہ ہے شخصیت پرستی، خودنمائی اور حبِ دنیا کا جن کی بنیاد پر متداول تصوف کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ ان حالات میں اہلِ علم اور مردانِ عمل کی یہ ذمہ داری تھی کہ تصوف میں اور تصوف سے پیدا ہونے والے فساد کا بروقت ادراک کرتے اور اس کے اثرات کے مختلف طبقات میں پھیلنے سے روکنے کی عملی کوشش کرتے ....۔‘‘
یہ جناب احمد جاوید کے خیالات تھے جو اقبال اکیڈیمی میں ریسرچ انوسٹی گیٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کے یہ خیالات ہی ان سے ملاقات کا محرک بنے۔ ہم نے سوچا کہ تصوف کے حوالے سے احمد جاوید صاحب سے بڑی چشم کشاگفتگو ہو سکتی ہے، چنانچہ ہم نے انھیں ’’اشراق‘‘ کے لیے کچھ وقت نکالنے کی درخواست کی۔ ہماری دعوت انھوں نے قدرے پس و پیش کے بعد قبول کر لی اور آخرکار ان سے ملاقات کا دن آ ہی گیا اور وہ ہماری گزارش پر ’’اشراق‘‘ کے دفتر تشریف لے آئے۔ اس مکالمے میں طالب محسن صاحب اور محمد بلال صاحب بھی شریک ہوئے۔
پہلا سوال طالب محسن صاحب نے کیا۔ ’’دین کی طرف آپ کا رجحان کیسے ہوا ؟‘‘
’’میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جہاں جدید تعلیم بہت پہلے سے تھی۔ میرے دادا الٰہ آباد میں انگریزی کے پروفیسر تھے۔ ان کے والد اور چچا بھی جدید تعلیم سے آراستہ تھے۔ اس جدید تعلیم کے ہمراہ کوئی دینی تعلیم نہیں دی گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین تو کجا وہ دین داری کے مراسم سے بھی نابلد ہو گئے۔ چنانچہ میری آنکھ ایک ایسے ماحول میں کھلی جہاں دین اپنی بگڑی ہوئی شکل میں بھی موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد ہم لوگ پاکستان آ گئے۔ جس وقت میری والدہ کا انتقال ہوا، میری عمر دس برس تھی۔ والدہ کے انتقال کے بعد مجھے فارسی شاعری کا شوق ہوا۔ فارسی ادب خاص طور پر شاعری کے مطالعے سے آدمی کو دوہرا فائدہ ہوتا ہے۔ اوّل یہ کہ اس کے احوال میں ترفع پیدا ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ اس کے اندر فہم کی دیگر سطحوں کا مذاق پیدا ہوتا ہے۔ دراصل میں بچپن ہی سے ایک ذہنی آدمی ہوں۔ میری تربیت ایک مناسب علمی ماحول میں ہوئی اور بڑے مسائل کی طرف کشش مجھے بچپن ہی سے تھی۔ اس نعمت کے میسر آنے کے ساتھ ساتھ ایک اور خوش قسمتی میرے ساتھ یہ ہوئی کہ اتفاقاً میری ملاقات کراچی کی ایک مشہور شخصیت مولانا محمد ایوب دہلوی سے ہوئی۔ ان کی زندگی صحابہ کی زندگی کی مثل تھی۔ حکیم سعید اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے بڑے لوگ ان کے معتقدین میں شامل تھے۔
میری نظر میں، وہ ایک مکمل انسان تھے۔ میں نے ان کا یہ تاثر دینی احساس سے قائم نہیں کیا تھا۔ میرے سامنے دینی شخصیات کی عظمت کے کوئی پیمانے موجود ہی نہیں تھے۔ میں نے محض ایک رومانوی انداز میں انھیں آئیڈیل سمجھا۔ ان کا معمول تھا کہ وہ بالکل عام آدمی کی طرح رہتے تھے۔ یعنی عالمانہ بات بھی عام لہجے میں کرتے۔ ہاں البتہ جب گفتگو کرنے بیٹھتے تو بدل جاتے اور بالکل عالم لگتے ورنہ عام حالات میں، ابے ابے اور یار یار کر کے بات کرتے۔ ان کی شخصیت کا یہی سحر مجھے ان کی مجالس میں لے جاتا۔ مجھے ان کی علمی گفتگوؤں کا ایک لفظ بھی سمجھ میں نہ آتا اور پھر میرے میٹرک پاس کرنے کے بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ لیکن میں یہ جان چکا تھا کہ ان کی علمی فضیلت اور شخصی وقار کا اعتراف بڑی بڑی شخصیتوں نے کیا ہے۔ اس پس منظر میں لاشعوری طور پر میرے ذہن میں زندگی کی ایک دینی معنویت اور انسانیت کا ایک عملی معیارتشکیل پانے لگا۔ یوں دین سے میرا تعارف لفظ سے نہیں بلکہ شخص کے ذریعے سے ہوا اور میں اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ کیونکہ لفظ کے بجائے شخص، مفہوم کے بجائے احساس اور ذہن کے بجائے طبیعت میں جو چیز اترتی ہے وہ زیادہ گہری اور زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔‘‘
طالب صاحب نے دوسرا سوال کیا: ’’آپ کو تصوف کی طرف کس چیز نے راغب کیا؟‘‘
’’میں نے عرض کیا کہ بڑے مسائل کی طرف کشش مجھے بچپن ہی سے تھی۔ مولانا کا فیض اس میں یہ تھا کہ میں نے ان سے یہ بات سیکھی کہ ذہنی امور طبعی امورکس طرح بنتے ہیں۔ اس دوران میں میرا مطالعہ بھی بڑھتا گیا۔ خاص طور پر فلسفے کی بعض چیزیں میں نے اپنی سطح کے مطابق سیکھ لی تھیں۔ پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ الحمد للہ مجھ پر دین کے انکار کا دور کبھی نہیں آیا۔ لیکن ماحول کی وجہ سے میرے ذہن میں بعض سوالات ضرور پیدا ہوئے۔ ان کے حل کے لیے اب مولانا کی شخصیت تو تھی نہیں۔ میں نے خود کوشش کی اور معروف دینی لوگوں سے رجوع کیا لیکن اکثر یہی احساس ہوا کہ وہ اصل مسئلے کو سمجھتے ہی نہیں....‘‘
اس موقع پر ہم نے معذرت کے ساتھ مداخلت کرتے ہوئے کوئی مثال دینے کی فرمایش کی۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے:
’’مثال کے طور پر میں نے سوچا، کیا عقل سے غیب کا اثبات محال ہے ؟ کانٹ کے مطابق تو مابعد الطبیعیات (Mataphysics) کوئی علم ہی نہیں اور علم صرف وہ ہے جس کی تصدیق عام ہو اور وہ تصدیق پذیر ہو۔ مثلاً یہ میز ہے تو یہ ثابت ہے کہ یہ میز ہے۔ حواس ہی سے اس کا علم حاصل ہوتا ہے اور حواس ہی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ اب عقل حواس کی مدد کے بغیر یا دائرۂ محسوسات کے باہر جو تصورات قائم کرتی ہے وہ تکنیکی طور پر تصدیق پذیر یا ’Valid ‘ نہیں ہو سکتے۔ اس وجہ سے تمام مذہبی یا اخلاقی قضایا اپنا ایک اخلاقی تحکم تو رکھتے ہیں لیکن وہ علم نہیں کہلا سکتے۔ یہ کانٹ کا مشہور فلسفہ ہے، جس کو سرِ دست رد نہیں کیا جا سکا۔ اب یہ گھمبیر مسئلہ اور اس میدان میں آنے والے نئے نئے آدمی کا چھوٹا سا ذہن۔ چنانچہ اس مسئلے کو لے کر کئی لوگوں کے پاس گیا اور اس احساس کے ساتھ مایوس لوٹا کہ وہ اس سوال کو سمجھے ہی نہیں۔ اس سے کسی کی توہین مقصود نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اس طرح کے سوالات کا جواب دینا سکھلایا ہی نہیں جاتا۔
وہ کچھ لمحے کے لیے رکے اور طالب صاحب کے سوال کے جواب کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے:
’’تو میں کہہ رہا تھا کہ جب مجھے اس طرح کے سوالات کے جواب نہ ملے تو میں نے اللہ سے سمجھوتا کر لیا۔ اور یہ مان لیا کہ آدمی بہت سارے حقائق کو صرف بربناے عقل ہی تسلیم نہیں کرتا۔ عقل تو محض محسوسات کو پرکھنے کے لیے دی گئی ہے اور جہاں تک دین کو عقل سے پرکھنے والوں کا تعلق ہے تو وہ خود ہی مسائل اور سوال پیدا کرتے ہیں اور پھر خود ہی جواب دے دیتے ہیں۔ اس مقام پر آ کر میں نے سوچا کہ اس کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ دین کی ایک مضبوط (Strong) اور زندہ ’Presence ‘ کو ’Face ‘ کیا جائے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے دوسرے لوگوں کی تلاش شروع کر دی۔ اب ایسے لوگوں کے بارے میں ہمارے ہاں متداول تصور صوفیہ کا ہے۔ چنانچہ اس طرح میں مجبوراً تصوف کی طرف گیا اور وہاں سے مجھے کچھ ایسے لوگ ملے جنھوں نے اشکال سے پیدا ہونے والے اس خلا کو پر کیا جن کو میں ذہن سے حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پھر میں اس حقیقت کو جاننے لگا کہ دین کے بارے میں وہ اشکال جو مجھے کسی منفی جہت کی طرف لے جانے کی قابلیت رکھتا ہے وہ خود ہی فطری نہیں۔ یعنی جو چیز دین کی طرف مجھے شک کی طرف لے جا سکتی ہو، وہ خود ہی فطری نہیں۔ یہ اشکالات اور سوالات عقل اور اس کے مقدمات پر اس کی حدود کو جانے بغیر انحصار کرتے ہیں۔ میرے اندر اس طرح کے اشکالات کی ایک غیر فطری کارفرمائی شروع ہو گئی تھی۔ جو الحمد للہ رک گئی۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں لاینحل قسم کے سوالات میں الجھ کر رہ جاتا کیونکہ میں آج بھی کانٹ کے تمام اعتراضات کو لاینحل سمجھتا ہوں اور اس کے کسی سوال کا جواب نہیں لا سکتا۔‘‘
’’اس تلاش میں یقیناً آپ کی ملاقات کسی ایسی شخصیت سے ہوئی ہو گی جس کی زندگی دین کا عملی اظہار ہو گی اور جس سے آپ کے اندر کوئی ٹھوس عملی تبدیلی آئی ہو گی؟‘‘
’’ایسے کئی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ سبھی غیر معروف تھے۔ ان میں جو قابلِ ذکر تھے، وہ ایک افغافی تھے۔ ان دنوں میں نوشہرہ میں رہتا تھا۔ ان کے متعلق معلوم ہوا تو میں ان کے پاس گیا۔ وہاں ایک سادہ سا واقعہ میرے ساتھ ہوا اور میں اس واقعے کی آج تک کوئی اطمینان بخش توجیہ نہیں کر سکا۔ جب میں ان سے ملنے گیا تو میں نماز نہیں پڑھتا تھا، جمعہ اور عید کی بھی نہیں۔ اس کے باوجود اپنی دانست میں مسلمان بھی تھا۔ اب میں اپنے ذہن میں یہ طے کر کے آیا تھا کہ ان سے تصوف پر گفتگو کروں گا اور میری نیت سراسر علمی تخریب کاری کی تھی۔ وہ آزاد قبائلی علاقہ تھا۔ سب لوگ مجھے بڑے مستعد اور متحرک نظر آئے۔ کوئی دیوار بنا رہا تھا، کوئی گڑھا کھود رہا تھا، کوئی پانی کا پائپ ٹھیک کر رہا تھا۔ میں پہنچا تو ظہر کی نماز ہو چکی تھی۔ میں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ یہ نہ بھانپ لیں کہ میں نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ میں نے وضو کیا اور ایک کونے میں نماز پڑھ ڈالی۔ ظاہر ہے یہ نماز میں نے اپنے دفاع میں پڑھی تھی۔ پھر جب میں ان صاحب کے پاس جانے لگا تو وہ کسی کو قرآنِ مجید کھول کرکچھ بتا رہے تھے۔ یہ ساری گفتگو پشتو میں ہو رہی تھی۔ اور پوچھنے والاشخص ان کے سامنے تھا اور یوں میں ان کو دیکھ نہیں رہاتھا۔ جب سائل درمیان سے ہٹا تو میں نے ان کا چہرہ دیکھا۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ ان جیسا خوب صورت آدمی میں نے پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ روحانی اور ظاہری دونوں طرح سے اور ان سے ملاقات کے بعد بھی ان جیسا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ اس وقت میں ایک ’Trance ‘ میں آ گیا (یعنی مسحور ہو گیا) ایسا ہونا میرے تجربے اور طبیعت کے خلاف تھا۔ میں کچھ دیر وہاں پر یونہی بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ مجھ پر ہیبت طاری ہونے لگی۔ اس طرح کا تجربہ مجھے پہلی بار ہوا تھا۔ میں وہاں سے دس پندرہ منٹ بعد اٹھ آیا۔ کوئی سوال نہ کر سکا۔ اس واقعے کے بعد میں نے مہینوں کوئی نماز جماعت کے ساتھ نہیں چھوڑی۔ میں واپس گیا تو راستے میں آنے والی نمازیں مسجدوں میں پڑھتا ہوا گیا اور اس دن سے پہلے مجھے کوئی دن یادنہیں جب میں نے سورج کو نکلتے دیکھا ہو!‘‘
’’اس واقعے کو کتنے برس بیت گئے؟‘‘
’’کوئی سترہ اٹھارہ برس۔ اس چیز نے مجھے ایک دم....‘‘ انھوں نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا اور پھر خلا میں گھورتے ہوئے بولے: ’’ آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک آدمی کا اتنا اہم اور دیرینہ مسئلہ حل ہو گیا ہو تو اس میں اس شخص کے لیے کس قدر تشکر ہو گا اور اس کے ڈسپلن کے لیے کس قدر احترام ہو گا... پھر میں نے جا کر ان سے بیعت کی۔ بیعت کے بعد ان کی تعلیمات کے ذریعے سے میں ان کے مزید قریب آ گیا اور جن مظاہر کو میں نے ان کے ہاں دیکھا ہے، ان کی طرف ایک یکسوئی اور اعتماد پیدا ہو گیا۔‘‘
’’تو گویا آپ کشف کو مانتے ہیں؟‘‘
’’دراصل صاحبِ کشف ہونا، کشف کو ماننا یا نہ ماننا، اس سے کسی دینی موقف کی تائید یا تردید نہیں ہوتی۔ لیکن کشف کو کوئی اہمیت دیے بغیر، کشف ہونا اور کشف کے وقوع کا تو میں اب بھی قائل ہوں۔‘‘
’’یہاں اہمیت سے مراد مذہبی اہمیت ہے؟‘‘
’’مذہبی بھی، نفسیاتی بھی اور علمی بھی!‘‘ دراصل یہ ایک نفسیاتی مظہر ہے۔ بعض لوگوں کے ہاں علم بہت ترقی کر جاتا ہے اور ایسا عام طور پر انھی چیزوں میں ہوتا ہے، جن میں آپ کا اشتغال زیادہ ہو۔ یہ بات ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ کسی بات پر ہم مہینوں سوچتے ہیں لیکن پھر بھی اس کا سرا ہاتھ نہیں آتا، اس کے بعد ہم شعوری طور پر اسے اٹھا کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ مگر پھر چھ مہینوں بعد یکایک بیٹھے بیٹھے وہ مسئلہ اپنے حل کے ساتھ ہمارے ذہن میں آ جاتا ہے اور ایسا ہر آدمی کے ساتھ اپنی اپنی فیلڈ میں ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا یہ کشف ہے؟‘‘
’’بس اس سے ملتا جلتا ہے۔ ماہیت یہی ہوتی ہے۔‘‘ انھوں نے مختصر جواب دے کر اپنی بات کے مکمل ہونے کا اشارہ دیا۔
ہم نے موضوع بدل کر سوال کیا: ’’آپ کی گفتگو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ عقل کو اس کے عام اور معروف معنوں میں نہیں لیتے، آپ کس چیز کو عقل مانتے ہیں؟‘‘
’’مخبرِ صادق کی خبرکو۔ خبر مذہبی معنوں میں۔ اگر آپ کا ’Object‘ ان شرائط کے ساتھ موجود نہیں ہے جن کے ساتھ ہم موجود ہیں تو اس تک عقل یا خبر کے علاوہ کوئی بھی ’Approach‘ کامل اور درست نہیں ہو سکتی۔ اس سے میرا علمی یا سمجھنے کا تعلق بھی بربناے خبر ہوگا، بربناے نظر یعنی عقل یا بربناے کشف نہیں ہو گا۔‘‘
’’مگر یہ کیسے معلوم ہو گا کہ مخبر صادق کون ہے؟‘‘
’’کسی مخبر کا صادق معلوم ہونا بھی ایک خبر ہے، یہ خبر کی دوسری قسم ہے۔ یعنی وسیلے اور ذریعے کے ثقہ (Authentic) یا غیر ثقہ ہونے کی خبر۔ اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق مانتے ہیں تو ایسا نہیں کہ ہم نے ان کے تمام افعال اور ان کی تمام اطلاعات کی تصدیق کر لی ہے۔ یہ اس طرح کے منطقی قضایا نہیں ہیں۔ جن کی تصدیق ممکن ہے۔ میں ان معنوں میں انھیں صادق نہیں سمجھتا۔ یعنی یہ صادق کے چھوٹے معنی ہیں۔ دراصل صادق ہونا پوری شخصیت کا ایک عنوان ہے جو بعض ٹھوس تجربات سے لوگوں کے ذہن میں متعین ہوتا ہے اور ان ٹھوس تجربات کی بنیاد پر ایسی شخصیت کے متعلق ایک تصور بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس شخصیت کا ہر ہر جز تجربے میں آنا ضروری نہیں ہے، لیکن میں اس کے ہر جز کو ازروے تجربہ تصدیق یا تائید کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہوں۔ ایک صادق وہ ہے جو حقیقی معنوں میں صادق ہے یعنی جس کے اعمال اور اقوال نے اس کے صدق کو مستقل کر دیا اور دوسرا یہ ہے ’Perceived‘صادق۔ تو جب اس اصل صادق کا صدق مجھے ’Perceive ‘ ہوا تو میں نے اس پورے صدق کا ایک کل اپنے شعور کا حصہ بنا لیا۔ اس کا کوئی بھی جز اصل صادق سے متصادم نہیں ہے لیکن’Actual‘ صادق سے متبادل بھی نہیں۔ چنانچہ ایسی صداقت اور ایسا صدق جو خود صدق سے ’Tally ‘ ہونے کے بعد صدق کی پوزیشن حاصل کر لے اس کو مخبرِ صادق کہتے ہیں۔ یعنی خود صدق اپنی ’Validity‘ کے لیے اس کی تائید، توثیق اور تصدیق کرے۔
’’آپ تصوف کسے کہتے ہیں؟‘‘
احمد جاوید صاحب نے پہلو بدلا اور بولے: ’’مختصراً میں یہ کہوں گا کہ تصوف کا مقصود تزکیۂ نفس ہے۔ آدمی کی حقیقی افتادِ طبع کو دینی مقاصد کے تابع کرنے کی کوشش کرنا۔ اور یہی تزکیۂ نفس ہے۔ انسان بعض امور میں صرف جزوی وابستگی کی حد تک منسلک ہوتا ہے۔ مگر دین آپ سے مکمل وابستگی کا تقاضا کرتا ہے۔ جب میں لا الٰہ الا اللہ کہہ کر دین میں داخل ہوتا ہوں تو اللہ سے یہ کہتا ہوں کہ میں جیسا کچھ ہوں۔ جتنا کچھ ہوں، اے اللہ آپ کے لیے ہوں اور مجھے جو کچھ بننا ہے، وہ آپ ہی کے تعمیلِ ارشاد میں بننا ہے اسے مکمل وابستگی (Total commitment) کہتے ہیں۔ اب اس مکمل وابستگی میں کچھ احکام یا شرائط ایسی ہوتی ہیں جن پر لفظی طور پر یازبانی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ وہاں کسی قسم کی لچک پیدا کرنے کی اجازت نہیں۔
لیکن ایک ایسی سطح ہے جس کا مرکز فرد ہے۔ اس میں مکمل وابستگی کے کچھ تقاضے بہرکیف ایسے ہیں جن کی تکمیل کے ذرائع میں مشروط طور پر آزادی اور اختیار کی اجازت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لا الٰہ الا اللہ سے وابستگی اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے میرے اندر انفرادی طور پر کچھ موانع اور کچھ معاونات ہیں۔ یاد رہے یہ انفرادی ہیں۔ یعنی یہ ممکن نہیں کہ بنی نوع انسان میں ہر فرد کے اندر اس کی نوعیت یکساں ہو۔ ان معاونات اور موانع کی پہچان پیدا کرنا ایک اہم کام ہے۔ پھر شخصیت کے منفی اور مثبت تمام عناصر کو کسی جائز ذریعے سے اس طرح مجتمع کرنا کہ وہ انسان کو متذکرہ مکمل وابستگی کے سائے میں رکھے۔ دوسرا اہم کام ہے۔ یہ دونوں کام ایک صوفی ہی کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ بنی نوع انسان کے ہر فردکے اندر پائے جانے والے معاونات اور موانع یکساں ہیں، بالبداہت غلط ہے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایسا کوئی ذریعہ معروضی طور پر (Objectively) نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس کی موجودگی انسان کو مجبور بنا دیتی ہے۔‘‘
احمد جاوید صاحب نے اس جواب کے ذریعے سے تصوف پر وارد ہونے والے کئی سوالات کے اجمالاً جواب دینے کی سعی کی تھی مگر ہم نے معاملے کو واضح تر کرنے کے لیے پوچھا:
’’کیا اسلام کا مقصد تزکیۂ نفس ہے؟‘‘
انھوں نے اثبات میں جواب دیا تو ہمارا اگلا سوال تھا: ’’کیا کچھ اضافی چیزیں بھی ہیں یا تزکیۂ نفس ہی اصلاً سب کچھ ہے؟‘‘
’’دیکھیں، دین مجھ سے جن جن فضائل کا تقاضا کرتا ہے وہ نفس کی مزکّی سطح سے عمل میں آئیں گے اور نفس کی مزکی سطح ہی پر ختم ہوں گے:
’’جب یہ ساری چیزیں اسلام کے پیشِ نظر ہیں تو پھر تصوف کے خاص لفظ یا اس کے نام سے ایک خاص مکتبِ فکر بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’یہ اصرار محض ایک ضد ہو گی اور تصوف والا اگر اس پر اڑ جائے کہ تصوف عین دین ہے تو یہ ایک غلط رویہ ہو گا۔ ان دنوں کا دفاع شاید کوئی صحیح الدماغ نہ کر سکے۔ جن لوگوں نے تصوف کو دین سے متصادم قرار دیا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دین سے وابستہ رہنے کی جو بھی ضرورت ہو سکتی ہے، وہ دین نے بیان کر دی ہے اور جو رکاوٹ ہو سکتی ہے وہ بھی متعین کر کے اس کا علاج بتا دیا گیا ہے۔ بعض جذباتی لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا نہ ماننے سے دین میں یہ نقص آئے گا کہ دین بطور ہدایت نامکمل ہے۔ لیکن ذہن اس کو نہیں مانتا۔ کیونکہ ہدایت کے حصول کی ہر ہر چیز کی موجودگی اور ہدایت سے روکنے والی چیزوں اور ان کے ازالے کی ہر صورت اگر بیان کر دی جاتی تو انسان اور درخت میں کوئی فرق نہ رہ جاتا اور ایسا ماننے سے انسان کو صاحبِ اختیار قرار دینے کی بھلا کیا دلیل ہو گی؟‘‘
احمد جاوید صاحب نے کچھ لمحوں کا توقف کیا تو ہم نے ان سے اپنی بات کی مزید وضاحت کی درخواست کی۔ وہ گویا ہوئے: ’’جب اصولِ ہدایت کے ایک ایک منفی اور مثبت جز کے تعین پر اصرار کیا جائے اور اس کو بھی وحی کے ذریعے سے حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جائے تو پھر انسان کے مکلف ہونے کے کیا معنی ہوئے؟ اور یہ مکلف ہونا انسان کی آزادی اور اللہ کا عطا کردہ اختیار ہی تو ہے۔ اور اختیار یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اٹل حدود و قیود سے تجاوز یا انحراف کیے بغیر اپنے فطری مسائل کا حل نکال سکے۔ اسی اختیار کو بروے کار لا کر دین سے عملی یا علمی وابستگی پیدا کرنے کے لیے تصوف سمیت تمام نظم (Discipline) پیدا ہوئے۔ اب یہ نظم (Discipline) اپنی اپنی تفسیر میں صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ تصوف میں تزکیۂ نفس اپنی ماہیت میں ایک ایسا ہی مظہر یا عمل ہے۔ اس میں نفس کے تمام محرکات اور مؤثرات کا احاطہ کرکے پاکیزگی کا حصول یعنی اس کی حالت اور نفس میں خرابی کا تعین یعنی اس کی آوارگی کا بیان کافی سے زیادہ ہے۔ اب اس آوارگی کے مختلف اجزا ہیں، ان کا علاج ہے اور اس کے حصول کی تجاویز ہیں۔ یہ انسانی استعداد کی پیدا کردہ ہیں اور ان پر وہی حکم لگایا جائے گا جو کسی بھی انسان کے فعل یا خیال پر لگایا جا سکتا ہے۔‘‘
’’دراصل تصوف پر کیا جانے والا اعتراض، نظم یا ’Discipline‘ کی جائز حدود کے اندر وسعت پر اعتراض سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے کہ دین میں تزکیہ کا نظم نہیں بلکہ طریقہ بتایا گیا ہے۔ مثلاً نماز اس کے تزکیہ کا ایک طریقہ ہے جبکہ اہلِ تصوف اس سے آگے بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نماز ایک خاص مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ کچھ اذکار بھی ہونے چاہییں۔ اس کی وضاحت آپ کیسے کریں گے؟‘‘
’’ایک حوالے سے آپ کا اعتراض درست ہے۔ لیکن تصوف کا بڑا حلقہ، جو صوفیہ کی نمائندگی کرنے کا مستحق ہے، ان کی بہت بڑی اکثریت کا اس سلسلے میں موقف یہ نہیں۔ تقریباً تمام سلاسلِ تصوف میں جن دو اعمال پر زور دیا جاتا ہے وہ نماز اور تلاوتِ قرآنِ مجید اور اس پر تدبر ہے۔ نماز کواعمال کی فہرست میں رکھ لیں اور سہولت کی خاطر اس کے دو اجزا کر لیں ایک اعمالِ عبودیت اور دوسرے اشغالِ تزکیہ۔ اب اشغالِ تزکیہ انسانی تجربات ہیں۔ ان کا اگر موثر ہونا ثابت ہو جائے تو اس کے عمل پر اتفاق ہو جاتا ہے۔ اور یہ ان اشغال کے رواج کی وجہ بنتی ہے۔ یہ اشغال ان معنوں میں ہرگز دینی عمل نہیں جن معنوں میں سادہ طور پر ہم انھیں سمجھتے ہیں۔ ان اشغال کا اصل مقصد نماز روزے میں کمال پیدا کرنا ہے۔ اس کمال کی صوفیانہ تعبیر یہ ہے کہ نماز کی صورت بھی مکمل ہے اور حال بھی (اب حال کا مکمل ہونا ایک ’Subjective‘ چیز ہے)۔ حال کے مکمل ہونے کی نشانی یہ ہے کہ احسان کے دونوں اجزا میں سے کوئی ایک جز میسر ہو، اور اس درجے میں میسر ہو کہ ہم کہہ سکیں کہ ہم نے نماز اس کیفیت میں پڑھی کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا تھا گویا احسان اور حسنِ ادائیگی تصوف کے مقاصد ہیں۔ چنانچہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اشغال اختیار کیے جاتے ہیں۔‘‘
’’لیکن نماز کے لیے یہ جو چیزیں آپ بیان کر رہے ہیں، اس کا تو دین میں کہیں تذکرہ نہیں...؟‘‘ ’’دیکھیں۔ کسی نتیجہ خیز گفتگو کے لیے ضروری ہے کہ ہم آپس میں تھوڑی سی ہم نوائی پیدا کر لیں۔ وہ یہ کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ اشغال انسانوں کے ایجاد کردہ ہیں اور ان اشغال کا مقصد یہ ہے کہ نفس میں احوالِ عبودیت کی سمائی کی استعداد پیدا ہو جائے یا بڑھ جائے۔ اب صورت یہ ہے کہ صحابہ یا اس سے متصل دور میں حسنِ معاشرت کی وجہ سے یہ صدقِ حال میسر تھا۔ یعنی صدقِ حال اور صدقِ اعمال میں ہم آہنگی تھی۔ مطلب یہ کہ اندرونی حال، عمل سے متصادم نہیں تھا۔ لیکن جب معاشرے میں بگاڑ آیا تو فرد جس معاشرے سے جو کچھ اپنے نفس کے لیے حاصل کر رہا تھا، اس سے محروم ہو گیا۔ اب اس محرومی کی تلافی کے لیے اشغال کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ غلطی یہاں پیدا ہوتی ہے کہ معترض اسے دین سمجھ کر اس کی مخالفت کرتا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ خلافِ دین ثابت ہو جائے جبکہ دوسرا اسے عین دین قرار دینے کی آرزو رکھتا ہے۔ میری رائے میں یہ دونوں موقف غلط ہیں۔‘‘
’’اصل میں، میری الجھن یہ ہے کہ ہم نے اگر حال کی تکمیل ہی کو اصل مقصد قرار دیا ہے تو اس کے حصول کے لیے آخر اشغال کو ذریعہ کیوں بنایا جاتا ہے، نماز کو کیوں نہیں؟‘‘ طالب محسن صاحب کے اس سوال کی تحسین کرتے ہوئے احمد جاوید صاحب گویا ہوئے:
’’اصل میں مشکل یہ ہے کہ عملِ مقصود اپنی بہتری کا ذریعہ رکھنے کی نفسیاتی گنجایش نہیں رکھتا۔ مثال کے طور پر مجھے اگر اپنی نماز بہتر کرنی ہے تو بہت سے لوگوں کی نفسیاتی بناوٹ ایسی ہوتی ہے کہ جس عمل میں انھیں کمال اور بہتری مقصود ہے، اس عمل کی تکرار سے انھیں فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ نفسیات (Clinical Psychology) کا اصول ہے کہ جس لفظ کے معنی جاننے ہوں اس کی تکرار نہیں کرنی چاہیے۔ بلکہ معنی جاننے کی صلاحیت کو دیگر الفاظ سے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بڑی نازک بات ہے اس سے یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ میں نماز میں تقاضاے عبودیت پورا نہ کرنے کا نقص مان رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے۔ نماز ایک ایسا مظہر ہے جس کے ایک سرے پر میں ہوں جس کی اپنی کچھ خوبیاں اور خامیاں ہیں۔ میں نماز سے مخلص بھی ہوں اور نماز وہ پل ہے جس پر چل کر میں اللہ تک پہنچ سکتا ہوں۔ اب ان سب چیزوں کا اقرار کرنے کے باوجود میں ایک ایسا آدمی ہوں جس کو کچھ ایسے مسائل لاحق ہیں جو اس کی نماز کو اچھا نہیں ہونے دے رہے۔ اب ان مسائل کو حل کرنے کی دو بڑی صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ میں نماز میں زیادہ سے زیادہ وقت لگاؤں یا اس کی مشق اور تکرار کرتا رہوں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھانے کی کچھ ایسی تدابیر اختیار کروں جس سے مجھے یہ احساس ہو کہ میں اس عمل کا ’Active participant‘ہوں۔ چنانچہ اشغال اس دوسری صورتِ حال کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ پہلی صورت متقدمین صوفیہ نے اختیار کی ہے۔ وہ اعمالِ عبودیت میں کمال پیدا کرنے کے لیے اسی عمل کی تکرار کرتے تھے جسے وہ مجاہدہ کا نام دیتے تھے۔ اب نماز کی بہتری کی مجھے ذہنی خواہش ہے۔ لیکن اس کے لیے جو کشٹ جھیلنے پڑتے ہیں وہ میں نہیں جھیل سکتا۔ اب وہ آدمی جو نماز کو تکلفاً یا خفیف سا بہتر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ اس ارادے کی تکمیل کے لیے مطلوبہ محنت بھی نہیں کرنا چاہتا تو ایسے متاخرین کو یہ مسئلہ پیش آیا اور انھوں نے اشغال کا سہارا لیا۔ اس طرح کی باتوں میں میرا عقیدہ یا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر ذرا بھی شبہ پیدا ہو جائے کہ یہ چیز خلافِ سنت یا خلافِ قرآن ہو سکتی ہے تو میں اسے غیر قانونی زبان میں واجب الترک یا واجب التعطل قرار دوں گا۔
اس موقع پر ہم نے ان سے ایک دوسرے پہلو سے سوال پوچھا کہ تزکیۂ نفس کیا ہے؟
بولے: ’’اس کی دو سطحیں ہیں۔ ایک آدمی کے نزدیک تزکیۂ نفس یہ ہے کہ وہ اپنے دینی شعور کو اس قدر بلند کرے کہ بلا شرط اور بلاچون و چرا اپنے ارادے کو دین کا تابع کر دے۔ دوسرا آدمی کہتا ہے کہ یا اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میرے داعیاتِ طبیعت شریعت کے تابع ہو جائیں۔ اور میرا پورا طرزِ احساس اور پورا احوالی ڈھانچا شریعت کے تابع ہو جائے۔ میری طبیعت میں کوئی ایسا نقص نہ رہے جو مجھے گناہ پر اکسائے۔ اس سطح کے تزکیۂ نفس کو حاصل کرنے کے لیے تصوف ایجاد کیا گیا۔ یعنی تصوف ایک ضرورت کی پیداوار ہے اور جب یہ بنایا گیا تو ایک بہت بہتر معاشرت میں بنایا گیا۔ اس وقت یہ اپنی ضروریات کی تکمیل اور تعمیل میں اعلیٰ درجے کی قوت رکھتا تھا۔ بعد کے ادوارمیں اعتقاداً نہ سہی عملاً ان تدابیر پر ایسا اصرارکیا گیا کہ یہ مقاصد ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔ اب چونکہ ہم تصوف کی اصل (Original) صورت کا دفاع کر رہے ہیں اس لیے بعد کے ادوار زیرِ بحث نہیں۔
ہم اس کی ایک مثال لیتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ نماز میں یکسوئی نہیں رہتی۔ اب یکسوئی پیدا کرنے کے لیے کوئی ماہر بتاتا ہے کہ ڈسپرین کھا لیا کرو میں نے ایسا ہی کیا اور مسئلہ قابلِ اطمینان حد تک حل ہو گیا۔ اب اس حل کو دیکھنے کے دو انداز ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ ڈسپرین کھانے کی کوئی دینی معنویت نہیں ہے۔ دوسرا کہتا ہے کہ اعمالِ عبودیت میں جو انتہا ہے اس کو پانے کے لیے اور بندگی کا جو خلاصہ ہے اس کے حصول کے لیے اس نے میری معاونت کی ہے اور میں نے ڈسپرین کو ڈسپرین سمجھ کر کھایا ہے کوئی من و سلویٰ سمجھ کر نہیں کھایا۔ میرے خیال میں ان دونوں رایوں میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جس کی بنیاد پر ہم کسی ایک کو دینی حوالے سے غلط یا درست کہہ سکیں۔‘‘
’’کیا یہ بدعت نہ ہو گی؟‘‘
’’نہیں، بدعت تب ہے جب میں ڈسپرین کو دین سمجھ کر کھاؤں اور اس کی تعلیم و ترغیب اور تاکید کے لیے کام کروں۔‘‘
(جاری)
ـــــــــــــــــــــــــ