HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

ایک روایت پر اعتراض

مدیر ماہ نامہ ’’اشراق‘‘ لاہور

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

محترم محمد بلال صاحب نے جنوری ۱۹۹۹ ءکے شمارہ، صفحہ ۲ پر ایک حدیث کا ترجمہ لکھا ہے کہ:

’’بدعتی کی تمام عبادات یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و انفاق قبول نہیں ہوتیں۔ بدعتی اسلام سے ایسے خارج ہو جاتا ہے جیسے گندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے ۔‘‘

میں بحمد اللہ تعالیٰ مبتدع نہیں ہوں اور میں مبتدعین کی وکالت بھی نہیں کرتا لیکن علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ یہ روایت موضوع ہے، اگرچہ اکثر اہلِ حق مبتدعین کی مذمت اور بدعت کی قباحت اسی روایت سے ثابت کرتے ہیں۔

یہ روایت دراصل ابنِ ماجہ کی ہے اور اس کے عربی الفاظ یہ ہیں:

لا یقبل اللّٰه لصاحب بدعة صوما ولا صلاة، ولا صدقة، ولا حجا ولا عمرة، ولا جھاداً، ولا صرفاً ولا عدلاً، یخرج من الاسلام کما تخرج الشعرة من العجین.(حدیث ۴۹ ،المقدمہ، باب ۷)

 اس کا مرکزی راوی محمد بن محصن ہے جس کے متعلق امام بخاری فرماتے ہیں:

’’منکر احادیث بیان کرتا تھا۔‘‘ (التاریخ الکبیر ۱: ۴۰،  ترجمہ ۶۳)

 امام ابنِ ابی حاتم فرماتے ہیں:

’’مجہول وکذاب تھا اور مکذوب و موضوع روایات نقل کرتا تھا۔‘‘ (الجرع و التعدیل ۷: ۱۹۴-  ۱۹۵)
’’امام اوزاعی اور دیگر ثقہ راویوں کے نام لے کر من گھڑت احادیث بیان کیا کرتا تھا۔‘‘(المدخل ای الصحیح ص : ۲۰۰، المجروحین ۲: ۲۸۴)

اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بدعتی، اسلام سے بالکل خارج ہو جاتا ہے۔ تو کیا ہم بھی مبتدعین کو بالکل خارج از اسلام یعنی کافر و مرتد ہی جانیں۔

براہِ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیے۔

بدعت کی مذمت میں ابنِ ماجہ ہی کی ایک روایت یہ بھی ہے:

ابی اللّٰه ان یقبل عمل صاحب بدعة حتی یدع بدعته.(ابنِ ماجہ ۵۰ تاریخِ بغداد ۱۳: ۱۸۶: السنتہ لابن ابی عاصم ۱:  ۲۲)
’’اللہ تعالیٰ نے بدعتی کے عمل کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اس وقت کہ وہ اپنی بدعت کو ترک نہ کر دے ۔‘‘

 لیکن اس روایت کی اسنادی حیثیت بھی کچھ بہتر نہیں۔

 ۱۔ اس کا ایک راوی عبد اللہ بن سعید المقبری المدنی واہی تباہی ہے۔ (الکاشف للذہبی ۲: ۲۹۲)

 ۲۔ ایک راوی بشر بن منصور کے متعلق جرح و تعدیل کے علما بالکل ساکت ہیں، وہ صرف ان کا نام لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

۳۔ ایک راوی ابوزید مجہول ہے۔ (الکاشف ۳: ۳۳۸)

 ۴۔ ایک راوی ابو المغیرہ بھی مجہول ہے۔ (الکاشف ۳ : ۳۸۰)

 براہِ کرم ’’اشراق‘‘ کی اس سلسلہ میں جو بھی رائے ہو وہ ’’اشراق‘‘ ہی کے صفحات پر شائع کریں۔ آپ میری گفتگو کو مناظرہ نہ سمجھیے گا۔ کیوں کہ میں بدعتی نہیں ہوں اور نہ ان کی صفائی پیش کرتا ہوں۔ صرف ’الدین النصیحة باللّٰه ولرسول ولائمته المسلمین وعامتھم‘ کے پیشِ نظر یہ چند سطور حوالۂ قرطاس کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ ان کا برا نہ مانیں گے۔

فقط والسلام ورحمۃ اللہ

ابوسلمان عفا اللہ عنہ

۵ فروری ۱۹۹۹

مردان

ـــــــــــــــ


 محترم ابو سلمان سراج الاسلام صاحب حنیف

السلام علیکم

امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔

محمد بلال صاحب کی جس تحریر پر آپ نے بات کی ہے اس میں انھوں نے مذکورہ روایت کی بنا پر کوئی استدلال نہیں کیا تھا۔ اور وہ کوئی تحقیقی مضمون بھی نہیں تھا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ... اس طرح انھوں نے وہ روایت درج کر دی جس پرآپ نے تنقید کی ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو وہ ایک بیانِ واقعہ ہے۔

 اس روایت پر سند کے پہلو سے آپ کا اعتراض بجا ہے۔ بدعت کے حوالے سے وہی حدیث قابلِ اعتماد ذرائع سے پہنچی ہے جس میں ہر بدعت کو ضلالت قرار دیا گیا ہے۔ اور ہر ضلالت کو جہنم میں لے جانے والی کہا گیا ہے۔ اور اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کہی گئی۔

 ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہماری ایک غلطی کی نشان دہی فرمائی۔ اللہ آپ کو اس کی جزا دے۔

دعا کا طالب 

معز امجد

ـــــــــــــــــــــــــ

B