HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

متفرق سوالات

’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ

قرآن میں تضاد؟


سوال: قرآنِ مجید میں بیان کیا گیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور یہ فیصلہ کن کتاب ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر اس میں متضاد باتیں کیوں ہیں۔ مثلاً ستاروں کو سجدہ کرنے سے روکا بھی ہے اور حضرت یوسف کو ستارے سجدہ بھی کرتے ہیں۔ ایک جگہ خدا کے بارے میں ارشاد ہے کہ ’ليس كمثله شيء‘اور دوسری جگہ اللہ کے ہاتھوں کا ذکر ہے جو کشادہ ہیں۔ سورۂ بقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا اور سورۂ کہف میں بتایا گیا ہے کہ وہ جن تھا۔ قرآن میں جگہ جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ رازق اللہ تعالیٰ ہے لیکن سورۂ توبہ میں ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول نے منافقین کو اپنے فضل سے غنی کر دیا۔ ان مقامات کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ (سید بلیغ الدین، کراچی)

جواب: قرآنِ مجید حتمی کتاب ہے اور یہی فیصلہ کن ہے۔ یہ بات خود قرآنِ مجید میں قرآن کے نزول کے ایک مقصد کی حیثیت سے بیان ہوئی ہے۔

قرآن میں کوئی تضاد نہیں ہے اور نہ ایسا ممکن ہے۔ اس لیے کہ ایک مصنف کی باتیں علم کی کمزوری ہی کی وجہ سے مختلف ہو جاتی ہیں۔ قرآن اس ہستی کی کتاب ہے جو ہر کمزوری سے بالا اور پاک ہے۔ آپ نے جن مقامات میں تضادات محسوس کیے ہیں۔ ان کی وضاحت حسبِ ذیل ہے:

۱۔ حضرت یوسف کو ستاروں کا سجدہ کرنا اور تمام اجرامِ فلکی کا خدا کے آگے سربسجود ہونا باہم دگر متضاد نہیں ہیں۔ بے شک انبیا کا خواب سچا ہوتا ہے لیکن اس میں جو واقعات دکھائے جاتے ہیں وہ حقیقی بھی ہوتے ہیں اور تمثیلی بھی۔ حضرت یوسف کو جو واقعہ دکھایا گیا اس کی نوعیت تمثیلی ہے۔

۲۔ ’’خدا کے ہاتھ کھلے ہیں‘‘ کی ترکیب میں ہاتھ کا لفظ مجازاً استعمال ہوا ہے۔ یعنی اس سے کوئی عضو مراد نہیں ہے۔ جس طرح اردو میں ہاتھ تنگ ہونا مالی حالت کو بیان کرتا ہے اسی طرح یہ عربی میں بھی اسی معنی میں آیا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے یہ آیت ’ليس كمثله شيء‘ سے متضاد نہیں ہے۔

۳۔ ابلیس جنات ہی میں سے تھا۔ سورۂ بقرہ میں عدمِ ذکر ہے۔ سورۂ کہف میں تصریح ہے۔ تضاد تو تب تھا کہ سورۂ بقرہ میں فرشتہ قرار دینے کے الفاظ موجود ہوتے۔


قادرِ مطلق

سوال:  اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں۔ قرآن کے ان الفاظ کا مفہوم کیا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ اس کی قدرت رکھتے ہیں کہ ایسا پتھر بنائیں جسے اٹھا نہ سکیں۔ کسی کو اپنی کائنات سے باہر نکال دیں۔ دو اور دو کا پانچ بنا دیں یا خودکشی کر لیں؟ (صدیق رضا، کراچی)

جواب: اللہ تعالیٰ کے ہر چیز پر قادر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو بھی کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔

آپ نے جو کام اللہ تعالیٰ سے کرانے کی بات کی ہے، اس میں سوال قدرت کا نہیں ہے۔ مثلاً بھاری اور ہلکے کا تصور کششِ ثقل سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے، خدا کی نسبت سے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔

خدا کی بادشاہی کیا ہے ؟ کائنات کی حدود کیا ہیں؟ یہ ساری باتیں ہمارے تصور سے ماورا ہیں۔ جب تک ہمیں ان کا حقیقی فہم حاصل نہ ہو، اس وقت تک یہ سوالا ت ایک دو سال کے بچے کے سوالات کی طرح ہیں جو اپنے والدین سے بچے کے پیدا ہونے کا عمل جاننا چاہتا ہے۔

دو اور دو چار ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے اور اتنا قوی اور یقینی ہے کہ ہم اس کے خلاف ہر جواب کو غلط قرار دیتے ہیں۔ اس کا قدرت سے کیا تعلق؟ کیا اللہ تعالیٰ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ جب بھی دو اور دو چیزیں اکٹھی رکھیں تو وہ اس میں پانچویں رکھ دے؟

اللہ تعالیٰ کا غیر مخلوق ہونا اور اس کی زندگی اور عدمِ موت کا تصور، ہمارے لیے خاص معنی کا رکھتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ غیر مخلوق ہے تو یہ صرف اس چیز کی نفی ہے کہ اس کو کسی نے پیدا نہیں کیا۔ اسی طرح اس کی زندگی سے مقصود درحقیقت اس کے ہمیشہ رہنے کو بیان کرنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ ہم اس کی ذات کی حقیقت سے واقف نہیں۔ جب ہم اس کی ذات ہی سے آگاہ نہیں ہیں تو یہ سوالات بھی بے معنی ہیں۔

اصل میں، ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ ہم کیا جان سکتے ہیں اور کیا نہیں جان سکتے۔ جب یہ بات واضح ہو جائے تو پھر ہمیں اس دائرے تک محدود ہو جانا چاہیے جو ہمارے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔


زیورات کی زکوٰۃ

سوال:  میری شادی شعبان میں ہوئی ہے۔ کیا اس رمضان میں شادی کے موقع پر (بری اور جہیز) کے زیورات کی زکوٰۃ اداکروں گا۔ کیا کچھ زیورات زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں؟ کیا نصاب بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہو گا ؟ کیا میں اپنی بیوی کی ملکیت کے زیورات کی زکوٰۃ دوں گا ؟ (ظفر حسین، چکوال)

جواب: زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ حکومت سال میں ایک مہینا مقرر کر دے اور اگر حکومت زکوٰۃ وصول نہ کرتی ہو تو فرد مقرر کر لے اور اس مہینے کے آنے پر جو رقوم یا مال موجود ہو اس پر زکوٰۃ ادا کرے۔ اس قاعدے کے مطابق اگر آپ نے رمضان کا مہینا مقرر کر رکھا ہے تو آپ شعبان تک حاصل ہونے والے مال کی بھی زکوٰۃ ادا کریں گے۔

زیورات میں سے وہ زیور زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہیں جو خواتین عام طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مثلاً ہر وقت کانوں میں رہنے والے کانٹے یا پہنی جانے والی انگوٹھی وغیرہ۔

نصاب زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے یا نہیں؟ اس معاملے میں دو آرا ہیں۔ بعض علما نصاب کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور بعض اسے شامل کر کے زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ بتاتے ہیں۔ میرا رجحان دوسری رائے کے حق میں ہے۔

زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری اصولاً تو اسی کی ہے جو مال کا مالک ہے۔ اس لحاظ سے بیوی اپنے ملکیتی زیورات کی زکوٰۃ ادا کرنے کی مکلف ہے اور شوہر اپنے ملکیتی زیورات کی۔ لیکن وہ خواتین جو کماتی نہیں ہیں ظاہر ہے، وہ یہ زکوٰۃ شوہر کی آمدنی ہی سے ادا کریں گی۔ اگر شوہر یہ زکوٰۃ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ عورت زیور کا کچھ حصہ بیچ کر زکوٰۃ ادا کرے ۔


دینی جماعتوں کا وجود

سوال:  مختلف دینی جماعتوں کی موجودگی میں عام آدمی کیا کرے۔ کیا ایک عام آدمی صحیح رائے تک پہنچ سکتا ہے؟ (الطاف احمد، کراچی)

جواب: دینی جماعتوں کے حوالے سے آپ کا بیان درست ہے، لیکن ان کی موجودگی سے جو مشکل پیدا ہوئی ہے اس کی حقیقت وہ نہیں جو آپ نے بیان کی ہے۔

کوئی عام آدمی دینی و فکری اعتبار سے کسی خلا میں نہیں ہوتا۔ وہ اپنے والدین یا اساتذہ سے کوئی فکر لے کر اور اسے اپنا کر جی رہا ہوتا ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کے مطابق عمل کرے اور اپنے نقطۂ نظر پر ہونے والی تنقید کا بے تعصبی سے جائزہ لیتا رہے۔ جہاں اسے معلوم ہو کہ اس نے جو بات مانی ہوئی تھی اس کے درست ہونے کی کوئی دلیل باقی نہیں رہی وہ اپنی رائے تبدیل کر لے۔ یہ عمل ہر عام آدمی بہت آسانی سے کر سکتا ہے اور اس سے نہ اس کی اپنی زندگی میں اور نہ معاشرے میں کوئی علمی یا عملی خلفشار پیدا ہوتا ہے۔

ہماری یہ تمنا کہ تمام مسلمان ہم فکر ہوں، کوئی دوسرے سے اختلاف نہ کرے کبھی نہ پوری ہونے والی تمنا ہے۔ اس لیے کہ جب تک انسان پیدا ہوتے رہیں گے سوچنے کا عمل جاری رہے گا۔ نئی آرا قائم ہوتی رہیں گی۔ چنانچہ نئے نئے گروہ وجود میں آتے رہیں گے۔ سارے انسان ایک رنگ میں رنگ جائیں یہ آمریت خدا نے قائم نہیں کی۔ کسی آدمی یا کسی فکر کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ آمریت قائم کر دے۔


’توام‘ کے معنی

سوال: توام کے کیا معنی ہیں۔ جاوید احمد صاحب غامدی نے اپنی تفسیر ’’البیان‘‘ میں یہ لفظ کس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اختیار کیا ہے ؟ (محمد اسرار اللہ، پشاور)

جواب: ’توام‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی جوڑے کے ہیں۔ جاوید صاحب نے یہ لفظ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے اختیار کیا ہے کہ قرآنِ مجید کی ہر دو سورتیں اپنے مضمون کے اعتبار سے ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں یا ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔

قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے ’مثانی‘ کا لفظ اختیار کیا ہے۔ مثانی جمع ہے اور اس کا واحد مثنیٰ ہے۔ اس کے معنی بھی جوڑے کے ہیں۔

قرآنِ مجید کی تمام سورتیں ایک دو استثنا کے سوا اسی طرح جوڑا جوڑا ہیں۔ اس کی واضح ترین مثالیں معوذتین اور بقرہ اور آلِ عمران کے جوڑے ہیں۔

___________

B