HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

دانش سرا، پاکستان کا دوسرا سالانہ اجتماع (۱)

(جاوید احمد صاحب غامدی کی افتتاحی تقریر )


دانش سرا ، پاکستان کا تین روزہ دوسرا سالانہ اجتماع ۱۲/ مارچ ۱۹۹۹ء سہ پہر ۴ بجے سے ۱۴/مارچ سہ پہر ۳ بجے تک جاری رہا ۔ یہ اجتماع جامع مسجد ای بلاک ماڈل ٹاؤن لاہور کے سبزہ زار میں منعقد ہوا ۔ مسجد کے احاطے میں واقع ایک اسکول کے کمروں میں دور دراز سے آنے والوں کے رہنے کا اور اسکول کے میدان میں طعام کا بندوبست کیا گیا تھا ۔ مسجد کے سبزہ زار کے ایک حصے پر استقبالیہ اور ایک حصے پر کتابوں ، درسِ قرآن و حدیث اور محاضرات پر مبنی آڈیو وڈیو کیسٹوں کی فروخت کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ اس سبزہ زار کے ایک بڑے حصے پر پنڈال لگایا گیا تھا ۔ پنڈال میں بیٹھنے کے لیے کرسیوں کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ خوب صورت بینروں کے پس منظر کے ساتھ اسٹیج کو اچھے طریقے سے سجایا گیا تھا ۔ پنڈال کا ایک گوشہ خواتین کے لیے بھی خاص کیا گیا تھا ۔ آواز دور تک پہنچانے کے لیے اسپیکرز وغیرہ کے لیے جدید آلات کا انتظام کیا گیا تھا ۔

بہت سے افراد مقررہ وقت سے پہلے ہی اجتماع گاہ میں تشریف لا چکے تھے ۔ اجتماع کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم فکر اور ہم مشن لوگ آپس میں ملیں ۔ ایک دوسرے کا تعارف حاصل کریں ۔ ایک دوسرے کے کردار ، مساعی اور عزم و ہمت سے روشنی پائیں ۔ اپنے مسائل سے ایک دوسرے کو باخبر کریں ۔ اپنے تجربات سے ایک دوسرے کو آگاہ کریں ۔ اگر گلے شکوے ہوں تو وہ روبرو بیٹھ کر دور کر لیں۔ اپنے اندر اجتماعی سوچ پیدا کر لیں۔ جن کے اندر اجتماعی شعور ہے وہ اس شعور کو پختہ کر لیں۔ ’’میں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ کی حِس بیدار کر لیں اور ہم فکری کو ایک حلقے میں اور ایک حلقے کو ایک خاندان میں تبدیل کر لیں۔

یہ کام اجتماع کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی شروع ہو گیا ۔ میں جیسے ہی اجتماع میں داخل ہوا تو دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے بعض لوگوں سے تعارف حاصل ہوا۔ گفتگو شروع ہو گئی ۔ جن لوگوں کو میں نے دیکھا بھی نہیں حتیٰ کہ نام سے بھی واقف نہیں تھا ان کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو گیا ۔ دوسرے دن وہ تعلق دوستانہ تعلق میں تبدیل ہو گیا اور تیسرے دن تو بعض لوگ بے تکلف دوست بن گئے ۔ ایسے ہی خوش گوار تجربات دوسرے لوگوں کو بھی ہوئے۔

جس مسجد کے سبزہ زار میں اجتماع منعقد ہو رہا تھا اس میں ۴۵ : ۴ پر نمازِ عصر ادا کی گئی ۔ اس کے بعد طعام گاہ میں چائے پی گئی ۔ اس موقع پر بھی باہمی تعارف اور گفتگوؤں کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران میں، بعض لوگ دانش سرا کے اہلِ علم سے دین سے متعلق سوال بھی پوچھ رہے تھے۔ نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد دانش سرا پاکستان اور اس اجتماع کے ناظم منظور الحسن صاحب نے اسٹیج سے اجتماع کے باقاعدہ آغاز کا اعلان کیا۔ اور چند افتتاحی کلمات ادا کرنے کے بعد افتتاحی تقریر کے لیے دانش سرا پاکستان کے صدر جاوید احمد صاحب غامدی کو دعوت دی۔

جاوید صاحب نے اپنی تقریر کے آغاز میں دور دراز سے آنے والے رفقاے عزیز کا شکریہ ادا کیا۔ انھیں خوش آمدید کہا۔ اور انھیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اتنا سفر کر کے یہاں آنے کی مشقت دین کی خاطر اٹھائی ہے۔ اس رشتے کی خاطر اٹھائی ہے جو ہمارے درمیان دین کی دعوت اور دین کی نصرت کے جذبے کے تحت پیدا ہوا ہے۔

اس کے بعد جاوید صاحب نے کہا کہ اجتماع کے انعقاد کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دور دراز کے رفقا ایک دوسرے سے ملاقات کر لیں۔ آپس میں بتادلۂ خیالات کر لیں۔ اپنے تجربات سے دوسروں کو آگاہ کر لیں تاکہ پیشِ نظر کام بہتر طریقے پر ہو سکے۔

اس کے بعد جاوید صاحب نے اس بات کی وضاحت کی کہ ہمارے کام کی نوعیت کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ قرآن و سنت، تاریخ کے جید علماے دین اور صالحین کی طرزِ زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمِ دین کے تین کام ہیں۔ ایک یہ کہ جو دین وہ سمجھا ہے اسے اس کی اصل صورت میں، بے کم و کاست دوسروں تک پہنچا دے اور اس کے لیے زمانے کے حالات اور اپنی استطاعت کے لحاظ سے ابلاغ کے بہتر سے بہتر ذرائع اختیار کرے۔

 دوسرے یہ کہ وہ لوگ جو اس سے وابستہ ہوں ان کی تربیت کرے۔ انھیں وہ اس بات کی ترغیب دے کہ جس بات کو وہ سمجھیں اسے اختیار کریں۔ ان کی زندگی اس کا نمونہ بنے۔ جو روشنی انھوں نے حاصل کی ہے وہ ان کے پورے وجود سے منعکس ہو۔

تیسرے یہ کہ دین کے علم کی روشنی نسلاً بعد نسلٍ لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے وہ اپنے جیسے علماے دین تیار کرے۔ ایسے علماے دین جو دین کو اس طرح سمجھتے ہوں کہ جیسے اسے سمجھنے کا حق ہے۔ وہ اصل ماخذ سے مراجعت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اور پھر دنیا کی ہر مخالفت سے بے پروا ہو کر اسے آگے پہنچانے کی جرأت  رکھتے ہوں۔

اس کے بعد جاوید صاحب نے اِن اصولی باتوں کی روشنی میں اپنے حوالے سے بات کی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے زمانے میں دینی اور دنیوی تعلیم میں کوئی فرق نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے علماے دین تیار کرنا ایک آسان کام تھا۔ لیکن جب سے تعلیمی نظام میں بگاڑ آیا ہے یہ کام مشکل ہو گیا ہے۔ اس کے لیے میں نے کچھ ایسے نوجوانوں پر کام کیا جن کے اندر عالمِ دین بننے کی صلاحیت تھی۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آیا جب دین کے فکری ابلاغ کو تیز کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ لہٰذا اس کام میں دلچسپی رکھنے والوں کے مابین ربط و نظام کی صورت پیدا کرنے کے لیے دانش سرا کا قیام عمل میں آیا۔

دانش سرا کے قیام کا پس منظر بڑے اختصار کے ساتھ واضح کرنے کے بعد جاوید صاحب نے اپنے کاموں کے حوالے سے اپنی بات کا رخ دین کے بنیادی مسئلے کی طرف کیا۔ اس ضمن میں انھوں نے کہا کہ نفسِ انسانی دو ہی چیزوں کا مجموعہ ہے۔ ایک علم اور دوسرے عمل۔ اور دین کا بنیادی مقصد لوگوں کے علم و عمل کا تزکیہ ہے۔ پیغمبروں کی بعثت اس لیے ہوئی کہ وہ انسانوں کے علم و عمل کا تزکیہ کریں۔ جس بات کو وہ اپنا بنیادی مسئلہ بنا کر کام کرتے تھے وہ یہی کام تھا۔ یہی کام ان کی دعوت کا مرکز و محور تھا۔ یہی کام ان کا اصلاً نصب العین تھا۔

انھوں نے کہا کہ قرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا انسان کی آزمایش کے لیے بنائی ہے۔ خدا یہ پرکھنا چاہتا ہے کہ وہ کون سے انسان ہیں جو اپنے علم و عمل کا تزکیہ کرتے ہیں۔ تاکہ ان انسانوں کا انتخاب کر کے اس دنیا کو آباد کیا جائے جو قیامت کے بعد وجود پذیر ہونے والی ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں بعض فکری تحریکوں کی وجہ سے دین ایک خارج کا معاملہ بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے اہداف باہر قائم ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی خاص حکومت قائم ہو جائے، وہ دنیا پر اپنا غلبہ قائم کر دے۔ یہ چیزیں دین میں بالکل ضمنی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم نے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ دین کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ دین کا اصل مسئلہ تزکیہ حاصل کرنا ہے۔ یہ بات سب سے اہم ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ بتانے کی ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ سمجھانے کی ہے۔ یہ بات سب سے زیادہ پھیلانے کی ہے۔ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے اور دلوں میں اتارنے کی ہے۔ اس کے بغیر دین کی سب باتیں ہوں گی لیکن ان کا رخ صحیح متعین نہیں ہو گا۔

تزکیہ کے حوالے سے جاوید صاحب نے تصوف کے فکر و فلسفہ پر تنقید بھی کی۔ انھوں نے کہا کہ تزکیہ کا لفظ چونکہ اربابِ تصوف بھی استعمال کرتے ہیں اس لیے ہم نے یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ محض لفظی اشتراک ہے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ قرآن کے تزکیہ اور تصوف کے تزکیہ میں کوئی قدر مشترک تلاش نہیں کی جاسکتی۔

 انھوں نے کہا کہ رفقاے عزیز اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھ لیں۔ یہ بنیادی بات ہے۔ اگر اس بات کو ٹھیک طریقے سے نہ سمجھا گیا تو دین کے سب کام ہوں گے لیکن ان کی سمت غلط ہو گی۔

جاوید صاحب نے کہا کہ ہم نے کوشش کی کہ لوگوں کے سامنے دین کے مطالبات ٹھیک اس طرح پیش کریں جس طرح انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کیا۔ ہمارے ہاں عام طور پر کہا جا رہا تھا کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب کچھ کر لیں۔ دین کی دعوت کا کام کر لیں۔ لیکن جب تک کوئی شخص کسی ’’الجماعتہ‘‘ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گویا اس نے دین کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا۔

ہم نے لوگوں پر واضح کیا کہ اس طرح کا کوئی مطالبہ دین کے اندر موجود نہیں ہے۔ بعض روایات کا مدعا صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے دین میں ایک باطل چیز داخل ہو رہی ہے۔ ہم نے لوگوں کو بتایا کہ ’’الجماعتہ‘‘ پاکستان میں قائم ہے۔ دنیا کے پچاس پچپن ممالک میں قائم ہے۔ ’’الجماعتہ‘‘ کا مطلب مسلمانوں کی ریاست ہے۔ نہ کہ عام گروہ، پارٹیاں اور جماعتیں۔

اس ضمن میں ہم نے لوگوں کو اس بات سے آگاہ کیا کہ دین کی خدمت کرنے والے اہلِ علم سے لوگوں کے تعلق کی نوعیت پیر اور مرید کی اور امیر اور مامور کی نہیں ہے۔ اللہ اور رسول کی تعلیم کے مطابق اس تعلق کی نوعیت معلم اور متعلم کی ہے۔ عالمِ دین سکھاتا اور دوسرا سیکھتا ہے۔ اللہ کے رسول کے ساتھی ’’صحابی‘‘ کہلاتے تھے۔ یعنی صحبت اٹھانے والے۔ پاس بیٹھنے والے۔ سیکھنے والے۔ عربی زبان کی تعبیر کے مطابق ملازمت کرنے والے۔

پیری مریدی کے تعلق میں القا و الہام کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ’’الجماعتہ‘‘ کے غلط تصور سے امت تفرقوں کا شکار ہوتی ہے۔ لہٰذا جاوید صاحب نے اس ضمن میں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب کوئی شخص القا و الہام کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ کوئی شخص رسول اللہ کی امت میں مزید کوئی امت نہیں بنا سکتا۔ اس امت میں انتشار پیدا نہیں کر سکتا۔

پیری مریدی میں ’’مریدوں‘‘ اور ’’الجماعتہ‘‘ کے غلط تصور کے تحت بننے والی جماعتوں میں ’’مامور‘‘ لوگوں کی حیثیت ’’غلاموں‘‘ کی سی ہوتی ہے۔ لہٰذا جاوید صاحب نے اپنے کام کے ایک نتیجے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے انسانوں کو انسانوں کے نہاب سے نجات دلانے کی کوشش کی۔ ہم نے لوگوں کو تعلیم دی کہ وہ عالمِ دین کو ایک استاد کا مقام دیں۔ اس کے نتیجے میں احترام کا جذبہ آپ سے آپ پیدا ہو جائے گا۔

جاوید صاحب نے واضح کیا کہ دین کے کاموں میں اصل اساس کی حیثیت جذبۂ نصرت کو حاصل ہے۔ جب کسی شخص کو یہ معلوم ہو کہ فلاں عالمِ دین کی فکر صحیح ہے۔ اس کے ساتھی قابلِ اعتماد ہیں۔ تو اس پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عالمِ دین کی اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق مدد کرے۔ انھوں نے استطاعت اور استعداد کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مدد کرنے والے لوگوں سے ان کی استطاعت اور استعداد کے مطابق ہی کام لینے کی بیعت لیا کرتے تھے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ کام لینے والے طے کریں کہ کیا کرنا ہے بلکہ صورتِ حال یہ ہوگی کہ دین کا مطالبہ واضح کر دیا جائے گا پھر کام کرنے والے اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق تعاون کریں گے۔ یہ واضح رہے کہ دین کی نصرت گلے کا طوق نہیں ہے۔ کوئی فدائی بننا نہیں ہے۔ ایک مخصوص پس منظر کی وجہ سے اس مسئلے کی تنقیح کے لیے ہمیں بہت سعی و جہد کرنی پڑی۔

اس ضمن میں لوگوں کو اس طرف بھی متوجہ کیا کہ دین کا ماخذ صرف نبی صلی اللہ علیہ کی ذاتِ گرامی ہے۔ ہم لوگ جو کچھ پیش کرتے ہیں اپنے غور و فکر کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں۔ اس میں غلطی ہو جائے تو اعتراف کر لیتے ہیں۔ ابہام ہو تو اسے نشان زد کر دیتے ہیں۔ اشکال ہو تو اسے واضح کر دیتے ہیں۔ ہر جگہ، ہر نج کی مجلس میں، ہر اجتماع میں لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب آپ کوئی فکر اختیار کریں تو اس کے ساتھ فطری عصبیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس لیے امام شافعی کا یہ قول ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ ’’میں اپنی بات صحیح سمجھتا ہوں لیکن اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔ اور دوسروں کی بات کو غلط کہتا ہوں مگر اس میں صحت کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔‘‘

اس طرح ہم نے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی جو تعبیر اختیار کر لی گئی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ اس سے بڑی غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اسلام موجودہ صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ دین ہے۔ اس کی کتاب قرانِ مجید بالکل محفوظ ہے۔ کبھی ایک دن کے لیے ایسا نہیں ہوا کہ یہ کتاب گم ہو گئی ہو یا اس کا کوئی حصہ ضائع ہو گیا ہو یا اس کے علم و عمل میں کوئی انقطاع آ گیا ہو۔ قرآن کے عجائب سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کے نئے نئے پہلو اجاگر ہوتے رہتے ہیں۔ انتہائی انحطاط کے دور میں بھی اس کے بہترین خدام پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند ہی کو لیں۔ اس میں مسلمانوں کے دورِ زوال میں بھی قرآن کے ایسے ایسے خدام پیدا ہوئے ہیں کہ جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لہٰذا اسلام زندہ ہے۔ اپنے پیغمبر کی تاریخ اور سیرت کے ساتھ زندہ ہے۔ اس کے اوپر کبھی ایسا زمانہ نہیں آیا جب اس کے احیا کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ اسے کسی نشاۃ ثانیہ کی ضرورت پیش آئی ہو۔ اسے کبھی بازیافت کی ضرورت لاحق ہوئی ہو۔

اسی طرح دین اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی ہمیشہ واضح رہا ہے۔ صحیح دین ایک تسلسل سے اپنی روح کے اعتبار سے جاری رہا۔ اگر اس میں کوئی بدعت داخل کی گئی یا کوئی انحراف کیا گیا تو ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو بتا دیتے تھے کہ یہ بدعت ہے۔ یہ انحراف ہے۔ یہ گریز ہے۔

لہٰذا اسلام زندہ ہے۔ زندہ رہا ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔ ہاں نشاۃ ثانیہ کا مسئلہ مسلمانوں سے متعلق ہے۔ مسلمان کبھی سرفرازی کے مقام پر تھے۔ انھوں نے دنیا پر حکومت کی اور ایک ہزار سال تک حکومت کی۔ پھر انھیں زوال آیا۔ انھیں اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انھیں زندہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسلام کو اپنانے والے سوتے بھی ہیں۔ گرتے بھی ہیں۔ مرتے بھی ہیں۔ ان کے احیا کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس پہلو سے اسلام اور مسلمانوں میں فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ دعوتِ دین کے پہلو سے ہم نے لوگوں پر یہ حقیقت بھی باربار واضح کی کہ جو شخص قومی سطح پر یہ کام کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی رو سے پہلے دین کے علم میں بصیرت حاصل کرے۔ وہ مسیح علیہ السلام کے قول کے مطابق اندھا راہ بتانے والا نہ بنے۔ دین کا علم اس طرح حاصل کرے جیسے دین کا علم حاصل کرنے کا حق ہے۔ قرآن کی زبان، قرآن کے ادب، نبی کی سنت اور دینی علوم کے پس منظر سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ اور جو دین دوسروں تک پہنچائے وہ ہر غبار سے پاک ہو۔

دعوتِ دین ہی کی جہت سے جاوید صاحب نے مزید کہا کہ دعوت کا کام کرتے ہوئے لوگ بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیں آپ پر اپنے گھر والوں کا، اپنے ماحول کا اور اپنے بچوں کا زیادہ حق ہے۔ اپنے بیوی بچوں کے معاملے میں حساس رہیے۔ حق کا چراغ ان کے دلوں میں بھی جلائیے۔ ان کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ آدمی کا ماحول کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ آدمی اپنے ماحول میں جیتا بستا ہے۔ وہ ماحول جہاں اس کا علم وعظ نہیں بلکہ عمل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ لہٰذا اپنے ماحول میں زیادہ کام کریں مگر اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق۔

یہ ہمارے وہ کام تھے جو علم کے تزکیے کے باب میں کیے گئے۔ علم کا تزکیہ ہو جائے تو عمل کا تزکیہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد جاوید صاحب نے کہا کہ یہ تینوں کام ہم نے بتدریج کیے۔ پہلے میری دلچسپی کا موضوع اصلاً دو چیزیں بنیں۔ ایک دین کے علم میں جو غلط باتیں در آئی تھیں ان کی اصلاح۔ دوسرے دین کے علما کی تیاری۔ اس میں بھی توجہ کبھی ایک طرف زیادہ ہو جاتی تھی اور کبھی دوسری طرف۔

اب میری توجہ عملی تربیت کی جانب ہوئی ہے۔ عملی تربیت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قرآن صالحین کی صحبت اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ صحبت کی بے پناہ تاثیر ہوتی ہے۔ اچھے ماحول سے دلوں کا زنگ اترتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو ایسا ماحول مہیا کیا جائے جہاں ان کو اپنی اصلاح کرنے کا موقع ملے۔ نبیوں کے کاموں میں اس کو ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ہمیں بھی اسے اہمیت دینا ہو گی۔

جاوید صاحب نے عملی تربیت کے کام کے لیے ادارے کی ضرورت واضح کرنے کے لیے دورِ نبوی کا دورِ حاضر سے موازنہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ دورِ نبوی میں یثرب ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ایک آدمی پیدل چل کر اس بستی سے نکل سکتا تھا۔ موجودہ مسجدِ نبوی ٹھیک اسی رقبے پر بنی ہے جس پر اُس وقت مدینہ کی پوری آبادی تھی۔ اس بستی میں لوگوں سے رابطہ رکھنا، ان کی تربیت کرنا، انھیں ایک مسجد میں جمع ہونے کا موقع دینا، بہت آسان تھا۔ لیکن آج ہمارے ملک کی آبادی کروڑوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی آبادی پچاس لاکھ ہے۔ چھوٹے چھوٹے محلوں میں سب افراد کی ذمہ داری ایک شخص نہیں اٹھا سکتا۔ لہٰذا جس طرح دین کی تعلیم کے لیے اداروں کی ضرورت ہے اسی طرح دین کی تربیت کے لیے بھی اداروں کی ضرورت ہے۔ خانقاہ کا ادارہ ہمارے ہاں تصوف کی وجہ سے بدنام ہو گیا ورنہ عملی تربیت کے لیے ایسے اداروں کی بہت ضرورت ہے۔ لوگ دنیا کی ہماہمی میں دین کے مطالبات بھلا بیٹھے ہیں۔ ان کے دلوں پر کچھ زنگ لگ جاتا ہے۔ معاشی جدوجہد، خاندان کے مسائل، زندگی کے نشیب و فراز دین سے دور کر دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں لوگ آ کر صالحین کی صحبت میں، اہلِ علم کی صحبت میں کچھ وقت گزاریں۔

جاوید صاحب نے ’’المورد‘‘ کے حوالے سے کہا کہ دینی علوم کی درس گاہ بن گئی ہے۔ یہاں پڑھنے والوں سے ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ وہ دین کے جید عالم بنیں۔ فرقہ بندیوں سے بلند ہو کر خالص قرآن و سنت کی بنیاد پر دین کے علم بردار بنیں۔ وہ جو علم حاصل کریں اس کی روشنی میں اپنے سفر کی ابتدا کریں۔

دعوت کے عملی پہلو کے حوالے سے جاوید صاحب نے کہا کہ دعوت کا نظام بھی حاصل ہو گیا ہے۔ اس نظام میں اللہ کے کچھ بندے اپنی زندگی لگا کر اس کی کوشش کر رہے ہیں دین کے علم کا ابلاغ کیا جائے۔

اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے لیے تربیت گاہ بنے۔ آپ بھی اس پر غور کریں۔ میں بھی اس پر غور کر رہا ہوں۔ آپ اس میں کیا تعاون کر سکتے ہیں۔ کیا قدم اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے بارے میں بتائیں۔ اپنی تجاویز دیں۔ میں ان پر غور کروں گا۔

انھوں نے کہا کہ تربیت گاہ کے بننے سے ہمارے کام کے اجزا مکمل ہو جائیں گے۔ ورنہ ہمارے کام میں اس کمی کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ دین کا علم تو ہم سے حاصل کریں گے مگر باقی ضرورتیں دوسروں کے پاس جا کر پوری کریں گے۔ اس سے اندیشہ ہے کہ کوئی نہ کوئی ان کے علم و فکر کی عمارت میں بھی نقب لگا لے گا۔ میں یہ مسئلہ آپ کے سامنے ایک بہت اہم مسئلے کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔ اس میں آپ جو سوال کرنا چاہیں میں اس کے لیے بہت سا وقت صرف کرنے کے لیے تیار ہوں۔

(جاری)


ـــــــــــــــــــــــــ

B