مولانا گوہر رحمٰن صاحب نے اپنے مضمون میں ’’الجماعتہ‘‘ کے کم از کم تین یا چار مختلف معنی بیان فرمائے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ایسی حکومت ہے جو ’’اقامتِ دین‘‘ کا ’’فرض‘‘ انجام دیتی ہو۔ (ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵ء، ص ۲۷)۔ دوسرے مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’جماعتہ المسلمین‘‘ اور امتِ مسلمہ ہم معنی الفاظ ہیں، گویا ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد ’’امتِ مسلمہ‘‘ ہے (ص ۳۳) اور ایک تیسرے مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد امت کا ’’سوادِ اعظم‘‘ اور ’’اہلِ سنت‘‘ ہیں (ص ۳۱)۔ پہلی تینوں باتوں (یعنی یہ کہ ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد ’’اقامتِ دین‘‘ کا فرض انجام دینے والی حکومت یا امتِ مسلمہ یا سوادِ اعظم ہے) کا جواب ہمارے مضمون کے پہلے حصے میں گزر چکا ہے۔ ہم یہاں مولانا کی چوتھی رائے، یعنی یہ کہ ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد ’’اہلِ سنت‘‘ ہیں، کی تنقیح کریں گے۔
مولانا محترم اس حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جماعتِ ناجیہ کو بعض احادیث میں الجماعتہ کہا گیا ہے، بعض میں السواد الاعظم کہا گیا ہے اور بعض میں ’ما انا علیه واصحابی‘ کہا گیا ہے۔ ان تینوں کا مفہوم ایک ہے اس لیے کہ الجماعتہ میں الف لام عہد کے لیے ہے اور مراد ہے وہ جماعت جو سنتِ رسول اور سنتِ اصحابِ رسول پر قائم ہو، یہ جماعت بدعتی فرقوں کے مقابلے میں ہر ہر دور میں اکثریت ہی میں نہیں بلکہ غالب ترین اکثریت میں رہی ہے۔ اس لیے اس کو السواد الاعظم کا نام بھی دیا گیا ہے۔ لیکن ’الاعظم‘ کے معنی ’اعظم شأنا و رفعة‘بھی آتے ہیں، یعنی بڑی شان اور رفعت و درجے والی جماعت، اگرچہ اس کی تعداد سب سے کم ہو۔ احادیث میں آیا ہے کہ قیامت کے قریب ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ حق پر قائم رہنے والے مسلمان بہت کم ہوں گے اور معاشرے میں وہ غریب اور اجنبی ہوں گے۔‘‘ ( ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵ء، ص ۳۱ )
مولانا محترم کی اس بات کے حوالے سے ہم سب سے پہلے تو ان کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ عربی زبان میں ’اعظم‘ کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس معنی میں ہم اردو زبان میں لفظِ ’’بڑا‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ لفظ ’’بڑا‘‘ ہی کی طرح، عربی زبان میں ’اعظم‘ کے معنی وہ اسم موصوف طے کرتا ہے، جس کی صفت کے طور پر یہ لفظ جملے میں استعمال ہوا ہو۔ چنانچہ دیکھیے کہ ’’بڑا جسم‘‘ سے مراد جسامت میں بڑائی ہی کے ہوتے ہیں، اس سے مراد بڑی قدر و منزلت والے جسم کے نہیں ہوتے۔ اسی طرح ’’بڑا گروہ‘‘ سے مراد لوگوں کا وہی گروہ ہوتا ہے، جس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہو، اس سے کوئی ایسا گروہ مراد نہیں لیا جا سکتا جو اپنے مرتبے اور درجے کے اعتبار سے بہتر ہو۔ اس کے لیے ’’بڑے لوگوں کا گروہ‘‘ یا ’’بڑی قدر و منزلت والا گروہ‘‘ کہا جائے گا۔ بالکل اسی طرح، عربی زبان میں بھی ’السواد الاعظم‘ (بڑا گروہ) سے مراد وہ گروہ ہے، جس میں لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو۔ دوسرے معنی، یعنی بڑی قدر و منزلت والے گروہ کے لیے عربی زبان میں ’السواد أعظم درجة ومنزلة‘ یا اس سے ملتے جلتے الفاظ استعمال کیے جائیں گے۔
چنانچہ، مولانا کی یہ بات کہ ’السواد الاعظم‘ سے مراد تعداد میں بڑے ہونے کے بھی ہیں اور مرتبے اور درجے میں بڑے ہونے کے بھی ہیں، عربیت کی رو سے کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
اب محولہ اقتباس میں مولانا محترم کی اصل بات کی طرف آئیے۔ مولانا نے اپنی اس بات (الجماعتہ سے مراد ’ما أنا علیه وأصحابی‘ ہے) کی بنیاد جس روایت پر ر کھی ہے، وہ صحاح میں سے سنن ترمذی کی کتاب الایمان میں آئی ہے۔ مگر اس روایت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الجماعتہ‘‘ کی تعریف نہیں فرمائی، بلکہ التزامِ جماعت کا مسئلہ اصلاً وہاں زیرِ بحث ہی نہیں بلکہ اس میں اس سے ہٹ کر ایک دوسرے مسئلے کی طرف رہنمائی فرمائی گئی ہے۔ روایت کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: لیأتین علی أمتی ما أتی علی بنی اسرائیل حذو النعل بالنعل حتی ان کان منھم من أتی أمه علانیة لکان فی أمتی من یصنع ذلك و ان بنی اسرائییل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملة و تفترق أمتی علی ثلاث و سبعین ملة کلھم فی النار الا ملة واحدة قالوا ومن ھی یا رسول اللّٰه قال ما أنا علیه وأصحابی.(سنن الترمذی، کتاب الایمان )
’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت بھی بعینہٖ وہی کچھ کرے گی، جو بنی اسرائیل نے کیا یہاں تک کہ اگر ان میں کوئی ایسا شخص تھا، جس نے کھلم کھلا اپنی ماں سے بدکاری کی، تو میری امت میں بھی ایسا کوئی شخص ہوگا۔ اور بنی اسرائیل بہتر مذہبی گروہوں میں بٹ گئے تھے، اور میری امت تہتر مذہبی گروہوں میں بٹ جائے گی۔ اور سوائے ایک کے ان میں سے ہر گروہ جہنم میں جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ، یہ کون سا گروہ ہو گا ؟ آپ نے فرمایا: یہ وہ گروہ ہو گا، جو اس دین پر قائم رہے گا، جس پر میں اور میرے صحابی قائم ہیں۔‘‘
اس روایت پر غور کیجیے تو اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ ’ما أنا علیه وأصحابی‘ والا حصہ ’’الجماعتہ‘‘ کے معنی بیان کر رہا ہے۔ ہمارے نزدیک ’’الجماعتہ‘‘ اور ’ما أنا علیه وأصحابی‘ کے الفاظ اگر اکٹھے بھی آئے ہوں، تب بھی دوسری تمام روایات کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’’الجماعتہ‘‘ سے مراد ’ما أنا علیه وأصحابی‘ ہے۔
ان دونوں باتوں میں فرق اور ان کی الگ الگ اہمیت اور حیثیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات سمجھنی بہت ضروری ہے کہ امتِ مسلمہ میں تفرقے کی دو ہی بنیادی وجوہ ہوئی ہیں۔ ایک سیاسی بنیاد پر امت کا گروہوں میں بٹ جانا اور دوسرے مذہبی بنیاد پر الگ الگ گروہوں کا تشکیل پانا۔ ہمارے نزدیک، ’’التزامِ جماعت‘‘ کی ہدایت مسلمانوں کو سیاسی گروہ بندیوں سے اور ’ما أنا علیه وأصحابی‘ کی ہدایت انھیں مذہبی گروہ بندیوں سے بچنے کے لیے دی گئی ہے۔
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے معنی، دراصل یہ ہیں کہ مذہب کے نام پر ہر ایسا گروہ جو میرے اور میرے صحابیوں کے عقیدہ و عمل سے ہٹ کر ہو گا ،وہ گمراہی ہی کی دعوت لے کر اٹھے گا۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو اپنے آپ کو کسی گروہ سے وابستہ کرتے ہوئے اس بات پر لازماً غور کرنا چاہیے کہ جس عقیدے اور عمل کی دعوت انھیں دی جا رہی ہے وہ ،دین کی حیثیت سے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ہاں پایا جاتا تھا یا نہیں۔ اگر یہ عقیدہ اور عمل، دین کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں پایا جاتا تھا، تو اسے اختیار کرنا ہی دین ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس اس عقیدہ و عمل کی کوئی شہادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے ہاں نہیں ملتی، تو یہ دین میں ایک ایسی اجنبی چیز ہے، جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں ہر اضافہ بدعت، ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے۔ اس سے ہر عام و خاص کے ہاتھ میں ایک ایسی واضح میزان آ جاتی ہے، جس پر وہ ہر عمل کو پرکھ کر اس بات کا بآسانی فیصلہ کر سکتا ہے کہ جس عمل کی اسے ترغیب دی جا رہی ہے، وہ عمل کرنا درست بھی ہے یا نہیں۔
ہمارے نزدیک ’’التزامِ جماعت‘‘ اور ’ما أنا علیه وأصحابی‘ دو الگ الگ ہدایات ہیں۔ ان میں سے ایک کا تعلق سیاسی لحاظ سے اپنے نظمِ اجتماعی سے جڑے رہنے کے ساتھ اور دوسرے کا تعلق مذہبی لحاظ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے کے ساتھ ہے۔
’’الجماعتہ‘‘ کو بیک وقت، ’’اقامتِ دین کا فرض انجام دینے والی حکومت‘‘، ’’امتِ مسلمہ‘‘، ’’امت کا سوادِ اعظم (امت کی اکثریت)‘‘ اور ’ما أنا علیه وأصحابی‘ قرار دینا، اور پھر یہ کہنا کہ افصح العرب نے اپنی یہ اصطلاح ان سبھی معنی میں استعمال کی ہے، بالکل درست معلوم نہیں ہوتا۔ مولانا محترم کو اگر اپنی بات پر اصرار ہو، تو ہماری گزارش ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں ’’الجماعتہ‘‘ کی جگہ پر یہ سارے معنی رکھ کر ہمیں یہ سمجھائیں کہ اس کے نتیجے میں ان روایات کے کیا معنی بنتے ہیں۔
مولانا محترم نے آٹھویں بات یہ فرمائی ہے کہ اگر اسلامی حکومت موجود ہی نہ ہو، تو پھر اس کے لیے منظم اور اجتماعی جدوجہد کرنا ایک دینی فریضہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس فرض کو ادا کرنے کے لیے جو جماعتیں، دین و شریعت اور سنتِ رسول اور سنتِ اصحابِ رسول کے اصول و ہدایات کے مطابق کام کر رہی ہوں، ان میں سے جس پر زیادہ اعتماد ہو، اس میں شمولیت اختیار کرنا اور اس کے نظم کا التزام کرنا، لازم ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
’’آج پورے عالمِ اسلام میں اور ہمارے ملک پاکستان میں بھی ’’الجماعتہ‘‘ یعنی اقامتِ دین کا فرض انجام دینے والی اسلامی حکومت موجود نہیں ہے بلکہ ایسی حکومتیں قائم ہیں جو عملاً لا دین سیاست کے اصول پر کام کررہی ہیں۔ تو کیا اس نظام کو بدلنے اور اسلامی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا امتِ مسلمہ پر فرض ہے یا نہیں ؟ اگر فرض نہیں ہے، تو پھر طاغوت سے انکار، نہی عن المنکر اور جہاد سے متعلق آیات کا مفہوم کیا ہے ؟ اور اگر فرض ہے اور یقیناً فرض ہے تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس فرض کی ادائیگی کے لیے انفرادی جدوجہد کافی ہے، یا اس کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنا ضروری ہے ؟ میرے خیال میں اس سوال کا جواب ہر ایک کو معلوم ہے کہ ایک اجتماعی نظام کو مٹانے اور اس کی جگہ اسلام کا اجتماعی نظام لانے کے لیے اجتماعی جدوجہد کا نظام قائم کرنا ضروری ہے۔ اور اسی اجتماعی جدوجہد کے نظام کو جماعت اور تنظیم کہا جاتا ہے۔ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ فرض کا موقوف علیہ بھی فرض ہوتا ہے۔ لہٰذا اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے دینی جماعتیں بنانا ضروری ہے۔‘‘ ( ماہنامہ ’’فاران‘‘ جون ۱۹۹۵ء، ص ۳۳ )
مولانا محترم کی یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ اگر ’’اقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد کرنا فرض ہے تو پھر ہر ایسا انتظام جو اس جدوجہد کے لیے ناگزیر ہو، آپ سے آپ لازم ہو جائے گا۔ مگر ہمارا مولانا سے سوال یہ ہے کہ ’’اقامتِ دین‘‘ کے لیے ’’جدوجہد‘‘ قرآنِ مجید کی کس آیت کے تحت ’’فرض‘‘ ہوئی ہے؟
مولانا محترم مثبت طور پر اس بات کی کوئی دلیل دینے کے بجائے، یہ فرماتے ہیں کہ اگر ’’اقامتِ دین‘‘ کی جدوجہد فرض نہیں ہے تو پھر طاغوت کے انکار، نہی عن المنکر اور جہاد سے متعلق آیات کا مفہوم کیا ہے؟ ہم افسوس کے ساتھ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ طاغوت کے انکار، نہی عن المنکر اور جہاد سے متعلق آیات کا ’’اقامتِ دین‘‘ کے لیے کسی جدوجہد کے ساتھ کوئی تعلق ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’طاغوت سے انکار‘‘ کے معنی شیطان کی پیروی کرنے سے انکار کرنے کے ہیں۔ قرآنِ مجید میں ’’طاغوت‘‘ کا لفظ خدا اور رسول کے مقابلے میں قائم ہونے والی عدالتوں کے لیے بھی آیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید سے زیادہ سے زیادہ جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ جب ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ ایک طرف اللہ کا قانون نافذ ہو اور دوسری طرف، اس کے مقابلے میں شیطانی نظام بھی کام کر رہا ہو، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ’’طاغوت سے اجتناب‘‘ کریں۔ اس سے ہرگز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ کا نظام جہاں نافذ نہ ہو، وہاں اس کے نفاذ کی جدوجہد ’’طاغوت کا انکار‘‘ کرنے کی آیت کے تحت فرض ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ’’نہی عن المنکر‘‘ کے معنی بری بات سے روکنے کے ہیں۔ یہ کام افراد کو اپنی سطح پر اور اجتماعیت کو اپنی سطح پر انجام دینا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’نہی عن المنکر‘‘ کے الفاظ میں وہ کون سی چیز ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اگر اجتماعیت یہ کام انجام نہیں دے رہی، تو اس اجتماعیت کو بدل کر ایک ایسی اجتماعیت کو بنانے کی جدوجہد کرنا ’’فرض‘‘ ہے، جو یہ کام انجام دے۔ مزید یہ کہ قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں، ایک عام آدمی کے لیے ’’نہی عن المنکر‘‘ اصلا ً اپنے ماحول اور اپنے ملنے جلنے والوں میں حق اور حق پر ثابت قدمی کی خیرخواہانہ نصیحت کرنا ہے۔ جہاں تک جہاد و قتال کا تعلق ہے، اس کے بارے میں بھی قرآنِ مجید سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ شرائط پوری کرنے کے بعد، بعض صورتوں میں ایک اسلامی ریاست کے لیے مسلح اقدام کرنا جائز اور بعض صورتوں میں ضروری ہو سکتا ہے۔ اس سے بھی یہ بات کسی طرح نہیں نکلتی کہ اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی جہاد نہیں کر رہا تو مسلمانوں پر یہ لازم ہے کہ وہ انفرادی طور پر جہاد کے لیے نکل پڑیں یا ایسی حکومت قائم کرنے کی اجتماعی جدوجہد شروع کردیں جو مولانا کے الفاظ میں اقامتِ دین کا فریضہ انجام دیتی ہو۔
دین و شریعت میں کسی چیز کو فرض، واجب یا نفل قرار دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ پیغمبر کے بعد یہ کسی شخص کا مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے قیاس و اجتہاد سے کسی چیز کو ’’فرض‘‘ قرار دے۔ دین میں کسی چیز کو غلط طور پر فرض، واجب یا مستحب قرار دینے سے دین کا مجموعی توازن بگڑ سکتا ہے۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک، مولانا محترم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں ایسی واضح نصوص کی طرف ہماری رہنمائی فرمائیں، جو ’’اقامتِ دین‘‘ کا ’’فریضہ‘‘ انجام دینے والی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کو فرض قرار دیتی ہیں۔ ظاہر ہے، اگر یہ جدوجہد مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے فرض ٹھہرائی ہے تو مولانا محترم کو کسی منطقی استدلال کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ انھیں دین کے ماخذ میں ایسی واضح اور قطعی نصوص مل جائیں گی، جن کے نتیجے میں ان کا مقدمہ آپ سے آپ ثابت ہو جائے گا۔ دین میں جو کچھ فی الواقع، فرض ہے، اس کی فرضیت کے بارے میں قرآنِ مجید اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے واضح اور قطعی ارشادات موجود ہیں کہ ان ارشادات ہی کو نقل کردینے سے ہر شخص پر ان معاملات کا لازمی ہونا ظاہر ہو جاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ’’اقامتِ دین‘‘ کرنے والی حکومت بنانے کی جدوجہد کا معاملہ اس سے مستثنیٰ ہو ؟
ـــــــــــــــــــــــــ