HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

قانون دعوت (۲)

میزان


(نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد)

 

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَآفَّةًﵧ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْ٘ا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ .(التوبہ ۹ : ۱۲۲)
’’اور سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کام کے لیے نکل کھڑے ہوتےو لیکن ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو انذار کرتے، جب (علم حاصل کر لینے کے بعد) اُن کی طرف لوٹتے، اس لیے کہ وہ بچتے۔‘‘

دعوت کا یہ حکم علما کے ساتھ خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ان کی ہر جماعت میں سے کچھ لوگوں کو لازماً اس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کے لیے نذیر بن کر اسے آخرت کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں۔

سورۂ توبہ کی اس آیت پر غور کیجیے تو اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دعوت کا جو حکم اس میں بیان ہوا ہے، اس کا مکلف اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو قرار نہیں دیا۔ آیت کی ابتدا ہی اس جملے سے ہوئی ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس کام کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔ ہر صاحبِ ایمان سے یہ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کے حکم: ’وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر‘ کے تحت اپنے ماحول میں، اپنے اعزہ و اقارب اور اپنے احباب کو حق کی نصیحت کرتا رہے، لیکن اپنی قوم کی اصلاح اور اس کو انذار، یہ وہ چیز نہیں ہے جس کی توقع ہر مسلمان سے کی جائے۔ اِس امت میں وہ لوگ بھی ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں سے نوازا ہے اور وہ لوگ بھی ہیں جن کے لیے اپنے روزانہ کے کاموں کو بھی عقل و بصیرت کے ساتھ انجام دینا بارہا مشکل ہو جاتا ہے۔ صنعت و حرفت، زراعت و تجارت اور دنیا کے دوسرے علوم و فنون کی خدمت ہی کو اپنا اصل کام بنانے والے بھی اس میں شامل ہیں اور وہ بھی جن کی ساری دل چسپی علومِ عربیت اور قرآن و سنت میں تدبر ہی سے ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف واضح کر دی ہے کہ تمام مسلمانوں کو نہیں، بلکہ ان کے ہر گروہ میں سے چند لوگوں ہی کو اس کام کے لیے نکلنا چاہیے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ اس کام کے لیے نکلنے کا حوصلہ کریں، اُن کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دین کا علم حاصل کریں۔ اس کے لیے آیت میں ’لیتفقھوا فی الدین‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین میں بصیرت پیدا کریں، اِس کے فہم سے بہرہ مند ہوں اور اِس کی حقیقتوں کو سمجھیں۔ لوگوں کے لیے اندھے راہ بتانے والے بن کر نہ اٹھیں، بلکہ اٹھنے سے پہلے دین کو اس طرح جان لیں جس طرح اسے جاننے کا حق ہے۔ یہ چیز دین کے منابع، یعنی قرآن و سنت سے براہِ راست تعلق پیدا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اس کام کے لیے اٹھنے والے قرآن و سنت کے علوم میں گہری بصیرت پیدا کریں تاکہ پورے اعتماد کے ساتھ وہ لوگوں کے سامنے دین کی شرح و وضاحت کر سکیں۔

تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دین کا علم حاصل کر لینے کے بعد دعوت کی جو ذمہ داری اُنھیں ادا کرنی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ’’انذار‘‘ اور صرف ’’انذار‘‘ ہے، یعنی یہ کہ حیاتِ اخروی کی تیاریوں کے لیے لوگوں کو بیدار کیا جائے۔ یہ اگر غور کیجیے تو بعینہٖ وہی کام ہے جو اللہ کے نبی اور رسول اپنی قوم میں کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے بعد ’’انذار‘‘ کا کام اس امت کے علما کو منتقل ہوا ہے اور ختمِ نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اب قیامت تک انھیں ہی ادا کرنی ہے۔

چوتھی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس دعوت کے ہر داعی کے لیے اصل مخاطب کی حیثیت اُس کی اپنی قوم ہی کو حاصل ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’ولیندذروا قومھم اذا راجعوا الیھم‘ (اور اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتے، جب ان کی طرف لوٹتے)۔ آیت کا یہی حصہ ہے جس سے اس دعوت کا دائرہ بالکل متعین ہو جاتا اور اس چیز کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ اس کے داعی اصل حق داروں کو چھوڑ کر یہ دولت جہاں تہاں دوسروں میں بانٹتے پھریں۔

پانچویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس دعوت کا مقصد ہر حال میں یہی ہونا چاہیے کہ لوگ اللہ پروردگارِ عالم کے معاملے میں متنبہ رہیں۔ آیت میں یہ مقصد ’لعلھم یحذرون‘ (تاکہ وہ بچیں) کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ یعنی لوگ محتاط رہیں کہ اُن کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین کے جو مطالبات بھی اُن سے متعلق ہوتے ہیں، اُن کے بارے میں غفلت، تساہل یا تمرد اور سرکشی کا رویہ دنیا اور آخرت میں اُن کے لیے ہلاکت کا باعث نہ بن جائے۔ دنیا کی قیادت صالحین کو منتقل ہو جائے، دین کا غلبہ قائم ہو جائے اور اللہ کی بات ہر بات سے اونچی قرار پائے، یہ بے شک، ہر داعی کی تمنا ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے، لیکن دعوت کا اصلی مقصد اس آیت کی رو سے یہی ہے کہ لوگ آخرت کے عذاب سے بچیں اور قیامت میں انھیں کسی رسوائی سے دوچار نہ ہونا پڑے۔

اس سے واضح ہے کہ سورۂ توبہ کی یہ آیت علما کو اس بات کا مکلف ٹھیراتی ہے کہ ’جاھدوا فی اللّٰه حق جھادہ‘[1] کے جذبے سے وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق امت کی ہر بستی اور ہر قوم میں اس دعوت کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ وہ اپنی قوم اور اس کے اربابِ حل و عقد کو اُن کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں پوری دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ خبردار کرتے رہیں۔ اُن کے لیے ہر سطح پر دین کی شرح و وضاحت کریں۔ اُنھیں ہر پہلو اور ہر سمت سے حق کی طرف بلائیں۔ اُس سے اعراض کے نتائج سے خبردار کریں اور جب تک زندہ رہیں، ان نتائج سے انھیں خبردار کرتے رہیں، یہاں تک کہ ظالم حکمرانوں کا ظلم بھی اُنھیں اِس کام سے باز نہ رکھ سکے۔ علما کے لیے یہی سب سے بڑا جہاد ہے جو اس دنیا میں وہ ہمیشہ کر سکتے ہیں۔

امت کی تاریخ میں دعوت و عزیمت کے عنوان سے جو کام ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، اُن کا ماخذ درحقیت یہی آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور اُن لوگوں سے خالی نہیں رہا۔ جو بدعت و ضلالت کے تہ بہ تہ اندھیروں میں اپنے چراغ کی لو تیز کر کے سرِ راہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہوکر لوگوں کو حق کی راہ دکھاتے ہیں۔ وہ اس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور کن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُن کی ساری دل چسپی بس حق ہی سے ہوتی ہے اور وہ اسی کے تقاضے دنیا کو بتانے کے لیے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں صرف کر دیتے ہیں۔ وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے، بلکہ اپنے پروردگار سے جو کچھ پاتے ہیں، بڑی فیاضی کے ساتھ ان کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں۔ چنانچہ ہر دور میں وہ ہستی کا ضمیر، وجود کا خلاصہ اور زمین کا نمک قرار پاتے اور اس طرح غربت کے اُس مقام پر فائز ہو جاتے ہیں جس کے بارے میں پیغمبر کا ارشاد ہے کہ: ’بدأ الاسلام غریباً ثم یعود غریباً کما بدأفطوبی للغرباء الذین یصلحون اذا فسد الناس‘۔[2]

اس دعوت کی یہی نوعیت ہے جس کے پیشِ نظر یہ چند باتیں اس میں لازماً ملحوظ رہنی چاہییں:

اوّل یہ کہ اس کے لیے اٹھنے والے جس حق کو لے کر اٹھیں، اُس پر اُن کا اپنا ایمان بالکل راسخ ہونا چاہیے۔ وہ جو بات بھی لوگوں کے سامنے پیش کریں، اس پر ان کے دل و دماغ کو اس طرح مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خود بھی یہ محسوس کریں کہ یہ ان کے دل کی آواز اور روح کی صدا ہے جو ان کی زبان پر آئی ہے۔ وہ اپنی ساری شخصیت کو اپنے رب کے حوالے کر کے اس میدان میں اتریں اور جس چیز کی طرف لوگوں کو بلائیں، اس کے بارے میں سب سے پہلے خود یہ اعلان کریں کہ وہ پورے دل اور پوری جان سے اس پر ایمان لائے ہیں:

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. لَا شَرِيْكَ لَهٗﵐ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ. (الانعام ۶ : ۱۶۳ - ۱۶۴)
’’ کہہ دو میری نماز اور میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ پروردگارِ عالم کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو یہی حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں۔‘‘

دوم یہ کہ ان کے قول و عمل میں کسی پہلو سے کوئی تضاد نہ ہو۔ وہ جس چیز کے علمبردار بن کر اٹھیں، سب سے پہلے خود اسے اپنائیں اور جس حق کی لوگوں کو دعوت دیں، اُن کا عمل بھی اسی کی شہادت دے۔ قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ یہ بے عمل واعظوں کا نہیں، بلکہ اُن اربابِ عزیمت کا کام ہے جو اپنی نصیحت کا مخاطب سب سے پہلے اپنے نفس کو بناتے اور پھر اُسے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ بالکل آخری درجے میں اس حق کو اختیار کرے جو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر واضح ہوا ہے۔ چنانچہ اُس نے علماے یہود کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم دین و شریعت کے عالم ہو اور خوب جانتے ہو کہ عقل و نقل کی رو سے تم پر عمل کی ذمہ داری دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے، لیکن تم پر افسوس ہے کہ عوام کو بڑے زوروں سے حقوق و فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتے ہو، مگر یہ تلقین کرتے وقت اپنے آپ کو بالکل بھول جاتے ہو:

اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.(البقرہ ۲: ۴۴)
’’ کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو ؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

سوم یہ کہ حق کے معاملے میں وہ کبھی کسی مداہنت سے کام نہ لیں۔ دین کی چھوٹی سے چھوٹی حقیقت بھی جو ان پر واضح ہو جائے، اسے دل سے قبول کریں۔ اس کی زبان سے گواہی دیں اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر اسے بے کم و کاست دنیا کے سامنے پیش کردیں۔ وہ کسی حال میں بھی اس میں کوئی ترمیم و اضافہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ پورا حق جس طرح کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے، اس کی ساری ہدایت اور سارے احکام سمیت لوگوں کو بتائیں اور ہر وہ چیز جو کسی پہلو سے اس کے خلاف ہو، اس کو بغیر کسی تردد کے رد کر دیں۔ دین کے بارے میں جو بات بھی ان سے پوچھی جائے، وہ اگر دین میں ہے تو اسے ہرگز نہ چھپائیں اور اُس کو اُسی طرح پیش کریں جس طرح کہ وہ فی الواقع ہے اور جس طرح کہ وہ اُسے مانتے ہیں۔ تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ موقع بے موقع ہر بات کہتے رہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ حق کو ہمیشہ صحیح طریقے سے، صحیح موقع پر اور صحیح مخاطب کے سامنے ظاہر ہونا چاہیے، لیکن کسی ذاتی مفاد، کسی خطرے، کسی عصبیت یا کسی مصلحت کی خاطر اسے چھپانا اور اس کی گواہی سے احتراز کرنا، یہ وہ چیز نہیں ہے کہ جس کی کوئی گنجایش کم سے کم ان اہلِ دعوت کے لیے دین میں مانی جائے۔

چنانچہ اللہ کے جو نبی اس کام کے لیے مبعوث ہوئے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ایک قانون کی حیثیت سے بیان کی ہے کہ اللہ نے جو حالات و مراحل بھی ان کے لیے مقسوم کیے ہیں وہ کسی زحمت کے لیے نہیں کیے، اس وجہ سے ان کے لیے یہی زیبا ہے کہ اپنی ذمہ داری بے خوفِ لومتہ لائم ادا کریں اور اس معاملے میں اللہ کے سوا کسی سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں:

مَا كَانَ عَلَي النَّبِيِّ مِنْ حَرَجٍ فِيْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗﵧ سُنَّةَ اللّٰهِ فِي الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُﵧ وَكَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا. اِۨلَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَيَخْشَوْنَهٗ وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَﵧ وَكَفٰي بِاللّٰهِ حَسِيْبًا. (الاحزاب ۳۳: ۳۸ - ۳۹)
’’اور نبی کے لیے اللہ نے جو کچھ فرض کیا، اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ یہی اللہ کی سنت ان سب نبیوں کے بارے میں رہی ہے جو پہلے گزرے ہیں ــــــ اور اللہ کے فیصلے کے لیے ایک وقت مقرر تھا ــــــ وہ جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے تھے اور اسی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ اور حساب کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے۔‘‘

سورۂ مائدہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح فرمائی ہے:

وَاَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ عَمَّا جَآءَكَ مِنَ الْحَقِّﵧ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًاﵧ وَلَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَعَلَكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلٰكِنْ لِّيَبْلُوَكُمْ فِيْ مَا٘ اٰتٰىكُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرٰتِﵧ اِلَي اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ. وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ اَنْ يَّفْتِنُوْكَ عَنْۣ بَعْضِ مَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكَﵧ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّصِيْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْﵧ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۸ - ۴۹)
’’اور اے پیغمبر، ہم نے تمھاری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری، اُس کتاب کو سچا کرتی جو اس سے پہلے موجود ہے اوراس کے لیے کسوٹی بنا کر، اس لیے تم اُن کے درمیان فیصلہ کرو اُس ہدایت کے مطابق جو اللہ نے نازل کی اور اس حق کو چھوڑ کر جو تمھارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو۔ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اُس نے چاہا کہ جو کچھ اُس نے تمھیں دیا ہے، اُس میں تمھیں آزمائے۔ چنانچہ بھلائیوں کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا وہ سب چیزیں جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ اور (تم پر یہ کتاب اتاری، اس لیے) کہ تم اُن کے درمیان فیصلہ کرو اُس ہدایت کے مطابق جو اللہ نے نازل کی اور اُن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور اُن سے ہوشیار رہو کہ مبادا وہ تمھیں کسی حکم سے بہکا دیں جو اللہ نے تمھاری طرف اتارا ہے۔ پھر اگر وہ اعراض کریں تو جان لو کہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ اُن کو اُن کے بعض گناہوں کی سزا دے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ ان لوگوں میں سے زیادہ نافرمان ہی ہیں۔‘‘

اسی طرح فرمایا ہے:

يٰ٘اَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا٘ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَﵧ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗﵧ وَاللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِﵧ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ.(المائدہ ۵: ۶۷)
’’اے پیغمبر، تم پر جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اس کو اچھی طرح پہنچا دو۔ اور (جان لو کہ) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور (اطمینان رکھو کہ) اللہ لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا۔ بے شک، اللہ اِن کافروں کو کبھی راہ یاب نہ کرے گا ۔‘‘
وَلَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ وَدَعْ اَذٰىهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِﵧ وَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا.(الاحزاب ۳۳:  ۴۸)
’’اور تم ان کافروں اور منافقوں کی بات کا دھیان نہ کرو اور اِن کی اذیتوں کو نظر انداز کرو اور اللہ پر بھروسا کرو اور اللہ اِس کے لیے بالکل کافی ہے کہ معاملہ اُس کے سپرد رہے۔‘‘
فَلِذٰلِكَ فَادْعُﵐ وَاسْتَقِمْ كَمَا٘ اُمِرْتَﵐ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْﵐ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍﵐ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْﵧ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْﵧ لَنَا٘ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْﵧ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْﵧ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاﵐ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ . (الشوریٰ ۴۲: ۱۵)
’’پس تم اسی دین کی دعوت دو اور اس پر جمے رہو، جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو اور اعلان کر دو کہ میں اس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ نے اتاری ہے اور مجھے یہ حکم ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دوں۔ اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے اور تمھارے درمیان (اب) کسی بحث کا موقع نہیں رہا۔ اللہ ہم سب کو (قیامت میں) جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔‘‘

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]۔ الحج  ۲۲: ۷۸، ’’اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ اس جدوجہد کا حق ہے۔‘‘

[2]۔ احمد بن حنبل، ج ۴، ص ۷۳، ’’اسلام کی ابتدا ہوئی تو وہ اجنبی تھا۔ وہ پھر اسی طرح اجنبی ہو جائے گا۔ پس مبارک ہیں وہ اجنبی جو لوگوں کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑے ہوں جب وہ فساد میں مبتلا ہو جائیں۔‘‘

یہ روایت الفاظ کے معمولی تغیر کے ساتھ امام مسلم کی ’’الجامع الصحیح ‘‘ میں بھی بیان ہوئی ہے۔


B