(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۲۳)
وعن ابی موسی الاشعری، قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: قال اللّٰه تعالیٰ: ما احد اصبر علی اذی یسمعه من اللّٰه، یدعون له الولد، ثم یعافیھم ویرزقھم.
لغوی بحث
’اصبر‘: ’صبر‘ سے ’افعل‘،کا صیغہ ہے۔ صبر بے کسی اور بے چارگی کی کیفیت کا نام نہیں بلکہ اس رویے کا نام ہے جسے ہم عزم، حوصلے اور استقلال کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا عملی اظہار جادۂ مستقیم پر استقامت اور ردِ عمل کے اظہار میں بردباری اور وقار کے تقاضے ملحوظ رکھنے سے ہوتا ہے۔ صبر کی ضرورت خارجی شدائد کے مقابلے کے لیے بھی ہوتی ہے اور داخلی کرب کی برداشت کے لیے بھی۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ کے فوراً گرفت نہ کرنے اور انسانوں کو اصلاح کا موقع دینے پر ہوا ہے۔
’اذی‘: یہ مصدر ہے اور تکلیف، تکلیف دہ اور انتہائی ناگوار کے معنی میں آتا ہے۔
’یدعون له‘: یہ لفظ ’د‘ کے سکون کے ساتھ ’يدْعون‘ بھی روایت ہوا ہے اور تشدید کے ساتھ ’یدَّعون‘ بھیز ہمارے نزدیک اصلاً ’يدْعون‘ ہے۔ اس ترجیح کی دلیل قرآنِ مجید میں اسی مضمون کو بیان کرنے کے لیے اسی فعل کا استعمال ہے:
اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا . (مریم ۱۹: ۹۱)
’’ کہ انھوں نے خدا کے لیے اولاد کا دعوی کیا‘‘
’یعافیھم‘: عافیت میں رکھنا۔ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اس کے معنی مخلوق کو نقصانات اور مصائب سے بچانے کے ہوں گے۔
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرمانِ خداوندی ہے: اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ لوگ اس کی اولاد کے مدعی ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ انھیں عافیت میں رکھتا اور انھیں رزق دیتا رہتا ہے۔‘‘
اس روایت کے متون بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ایک روایت میں ’یدعون له ..... الخ‘ کے بجائے ’یجعلون له ندا ویجعلون له ولدا و ھوا مع ذلك یرزقھم و یعافیھم و یعطیھم‘ اور ایک دوسری روایت میں ’انه یشرك به و یجعل له ولد و ھو یعافیھم و یدفع عنھم و یرزقھم‘ آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی فرق ہیں۔ لیکن وہ بہت معمولی ہیں۔ انھیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے ایک پہلو کو واضح کیا گیا ہے۔ تمام انبیا انسانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے آئے تھے کہ یہ زندگی امتحان کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہلتِ عمر میں حق و باطل کو اختیار کرنے کا کھ موقع دیا ہے۔ یہ موقع دینے کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ انھی جرائم میں سے ایک شرک کا جرم ہے۔ شرک جہاں ایک پہلو سے انسان کی بے بصیرتی کا مظہر ہے، ایک دوسرے پہلو سے اللہ تعالیٰ کی توہین بھی ہے۔ شرک کی کسی بھی صورت کا مطالعہ کریں وہ خدا کی صفات کے باب میں شرک کرنے والے کے تصور کی خامی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے، وہ ہستی جو ہر طرح کے نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے، اس کے ساتھ شرک، اس کی صریح توہین ہی بنتا ہے۔ بطورِ خاص، خدا کے لیے اود کا تصور اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی توہین ہے۔ وہ ہستی جس نے ہر ہر شے کو عدم سے وجود بخشا ہے، وہ جو ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی، اس کے بارے میں یہ گمان کرنا کہ اس کی اولا د ہے، لاریب ایک بڑی گستاخی ہے۔ اس روایت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اس طرح کے جرائم کے باوجود اللہ تعالیٰ آزمایش کی اس مہلت میں انسانوں کو نہ رزق سے محروم کرتا ہے اور نہ انھیں کسی عمل سے زبردستی روکتا ہے۔
قرآنِ مجید میں بھی آزمایش کی اس مہلت کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ سورۂ انفال میں کفار پر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ تمھاری غلط روی اور سنگین جرائم کے باوجود تمھیں صفحۂ ہستی سے مٹایا نہیں گیا، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ نے جو مہلت دے رکھی ہے وہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے:
لَوْلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيْمَا٘ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ . (الانفال ۸: ۶۸)
’’ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی اس کے باعث تم پر ایک عذابِ عظیم آدھمکتا۔‘‘
بخاری، کتاب الادب، باب ۱، کتاب التوحید، باب ۳، مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ، باب ۱۰۔ احمد عن ابی موسیٰ الاشعری۔
___________