(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۲۲)
عن ابی ھریرہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: قال اللّٰه تعالیٰ: یؤذینی ابن آدم یسب الدھر، بیدی الامر، اقلب اللیل والنھار.
لغوی بحث
’یؤذینی ‘: اس سے جسمانی تکلیف بھی مراد ہوتی ہے اور ذہنی بھی ۔ گویا یہ ہاتھ سے تکلیف پہنچانے کے معنی میں بھی آتا ہے اور ایسے قول و فعل کے لیے بھی جو دوسرے کو ناگوار گزرے۔ اس روایت میں یہ اسی دوسرے مفہوم میں آیا ہے ۔
’یسب‘: گالی دینا۔ برا بھلا کہنا۔ یعنی کوئی ایسی بات کہنا جس سے دوسرے کی توہین ہوتی ہو یا اس کے کردار اور وقار پر حرف آتا ہو۔
’الدھر‘:یہ ’عصر‘سرخ کا مترادف ہے۔ اس کا اطلاق لمبی مدت پر بھی ہوتا ہے اور ازل سے ابد تک کے عرصے پر بھی اسی طرح یہ محض گردشِ لیل و نہار کے لیے بھی آ جاتا ہے۔ اس روایت میں یہ اسی معنی میں ہے۔
’بیدی الامر‘: ’الامر بید فلان‘ کا مطلب ہے کہ فلاں معاملے کا ذمہ دار ہے۔ اس روایت میں ’امر‘ کا لفظ امورِ کائنات کے لیے آیا ہے۔ لہٰذا اس کا ترجمہ ’نظامِ عالم‘ کرنا موزوں ہو گا۔
’اقلب‘: پھیر دینا۔ پلٹ دینا۔ یہاں رات کو دن میں اور دن کو رات میں بدل دینے کے لیے آیا ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابنِ آدم زمانے کو گالی دے کر مجھے اذیت دیتا ہے، حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں۔ تمام نظامِ عالم میرے ہاتھ میں ہے اور دن اور رات کو بھی میں گردش میں رکھتا ہوں۔‘‘
کتبِ حدیث میں اس روایت کے متعدد متون روایت ہوئے ہیں۔ بعض متون میں فرق بہت معمولی ہے۔ مثلاً بعض روایا ت میں ’بیدی الامر‘ بعض میں ’اقلب اللیل والنھار‘، اور بعض میں یہ دونوں ہی جملے موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح بعض روایات میں یہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے قول کی حیثیت میں روایت نہیں ہوئی بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو زمانے کو گالی دینے سے منع فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو زمانے میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔
اس سے ملتے جلتے مضمون کی ایک اور روایت بھی ملتی ہے۔ بخاری میں ہے:
عن ابی ھریرہ رضی اللّٰه عنه عن النبی صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لا تسموا العنب الکرم ولا تقولوا خیبة الدھر فان اللّٰه ھو الدھر.( کتاب التوحید باب ۳۵)
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انگور (کی بیل) کو کرم نہ کہو اور نہ (کسی کو) نامرادِ زمانہ کہو۔ اس لیے کہ اللہ ہی زمانہ ہے۔‘‘
مسلم کی ایک روایت (کتاب الالفاظ من الادب وغیرھا، باب ۲) میں تصریح ہے کہ انگور کو کرم (صاحبِ فیض) اس لیے نہ کہو کہ یہ حیثیت مسلمان کی ہے۔
ان روایات کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ جیسے یہ دونوں روایات ایک ہی موقعے کی گفتگو کے اجزا ہیں۔
اس روایت میں اصلاً جو بات بتائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں روز و شب جو واقعات پیش آتے ہیں، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ لہٰذا وقت، زمانہ، چرخ اور آسمان کی طرف مصائب و آلام کی نسبت کرکے ہم انھیں برا بھلا کہتے ہیں۔ یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کے بارے میں نارواگفتگو کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح کی باتوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
بعض لوگوں نے ’انا الدھر‘ کے الفاظ کو تصورِ زمان سے متعلق فلسفے کی بحث سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اس جملے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ روز و شب کی گر دش میں جو کچھ وجود میں آتا ہے، اس کو وجود میں نے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ان الفاظ کی یہی حقیقت روایت کے آخری جملے ’اقلب اللیل والنھار‘ سے بھی واضح ہوتی ہے۔
جس طرح ہمارے ہاں برے حالات کی نسبت زمانہ، گردشِ دوراں یا فلکِ پیر کی طرف کی جاتی ہے اور پھر انھیں برا بھلا کہا جاتا ہے، اسی طرح یہ طریقہ اہلِ عرب کے ہاں بھی رائج تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس طریقے سے روک دیا۔ عربوں کے اس طریقے کے بارے میں قرآنِ مجید میں کوئی بات نہیں کہی گئی۔ البتہ قرآنِ مجید کی آخرت کی دعوت کا انکار کرتے ہوئے عربوں نے جو مختلف موقف اختیار کیے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا:
وَقَالُوْا مَا هِيَ اِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوْتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا٘ اِلَّا الدَّهْرُﵐ وَمَا لَهُمْ بِذٰلِكَ مِنْ عِلْمٍﵐ اِنْ هُمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ. (الجاثیہ ۴۵: ۲۴)
’’ اور وہ کہتے ہیں کہ ہماری زندگی تو بس اسی دنیا کی زندگی تک ہے۔ یہیں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہم کو بس گردشِ روزگار ہلاک کرتی ہے۔ اور ان کو اس باب میں کوئی علم نہیں۔ محض اٹکل کے تیر تکے چلا رہے ہیں۔‘‘
قرآن مجید نے یہاں یہ بات واضح کی ہے کہ تمھارا یہ خیال غلط ہے کہ تمھاری زندگی صرف اسی دنیا تک محدود ہے اور عروج وزوال اور نعمت و نقمت کے حالات محض مادی اسباب و علل کے مرہون ہیں۔ اس کائنات کا نظام خدا کے ہاتھ میں ہے۔ وہ تمھارے اعمال کی پاداش میں تمھیں دنیا میں بھی تنبیہ کرتا ہے اور آخرت میں بھی تم اپنے کیے کو بھگتو گے۔
بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب ۲۸۳، کتاب الادب، باب ۱۰۱، کتاب التوحید، باب ۳۵، مسلم، کتاب الالفاظ من الادب و غیرھا، باب ۱، باب ۲، ابو داؤد، کتاب الادب، باب ۱۸۱، مسندِ احمد عن ابی ہریرہ۔
___________