بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةًﵧ قَالُوْ٘ا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَﵐ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَﵧ قَالَ اِنِّيْ٘ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ٣٠ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَي الْمَلٰٓئِكَةِ فَقَالَ اَنْۣبِـُٔوْنِيْ بِاَسْمَآءِ هٰ٘ؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٣١ قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا٘ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاﵧ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ ٣٢ قَالَ يٰ٘اٰدَمُ اَنْۣبِئْهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْﵐ فَلَمَّا٘ اَنْۣبَاَهُمْ بِاَسْمَآئِهِمْﶈ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْ٘ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِﶈ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ ٣٣
اور [67] (یہود کے اِس رویے کو سمجھنے کے لیے، اے پیغمبر) یاد کرو [68] وہ واقعہ جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں [69] سے کہا: میں زمین میں ایک ایسی مخلوق بنانے والا ہوں جسے اقتدار دیا جائے گا۔[70] اُنھوں نے عرض کیا: کیا آپ اُس میں وہ مخلوق بنائیں گے جو وہاں فساد کرے گی اور خون بہائے گی [71] دراں حالیکہ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ آپ کی تسبیح و تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں؟[72] فرمایا: میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے[73] اور (اُنھیں سمجھانے کے لیے) آدم کو سب نام سکھا دیے۔[74] پھر (جن کے نام سکھائے)، اُن (ہستیوں) کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔ پھر فرمایا: مجھے اِن لوگوں کے نام بتاؤ،[75] اگر تم (اپنے اِس خیال میں) سچے ہو۔[76] اُنھوں نے عرض کیا: آپ کی ذات ہر عیب سے منزہ ہے، ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں، جتنا آپ نے بتایا ہے، علیم و حکیم تو اصل میں آپ ہی ہیں۔[77] فرمایا: آدم، تم اِن ہستیوں کے نام اِنھیں بتاؤ۔ پھر جب اُس نے اُن کا تعارف اُنھیں کرادیا تو فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کے بھید میں ہی جانتا ہوں،[78] اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کر رہے ہو[79] اور جو تم چھپا رہے تھے،[80] ۳۰ - ۳۳
[67]۔ ابلیس و آدم کی یہ سرگذشت ایک آئینہ ہے جس میں اُس ردِعمل کی پوری تصویر دکھا دی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے آپ کے مخاطبین، بالخصوص یہود پر ہوا۔ زمین میں ایک صاحبِ اقتدار مخلوق کی پیدایش کے بارے میں جو شبہات فرشتوں نے پیش کیے، وہ چونکہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی اسکیم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے، اس لیے پوری اسکیم سامنے آ جانے کے بعد دور بھی ہو گئے، لیکن ابلیس کا اعتراض حسد اور تکبر کی بنا پر تھا وہ نہ دور ہوا، نہ ہو سکتا تھا۔ بعینہٖ یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر پیش آیا۔ حق کے سچے طالب اپنے شبہات لے کر آئے اور ان کے دور ہو جانے کے بعد ایمان لے آئے۔ یہود کا حسد و تکبر، اس کے برعکس اُن کے لیے ابدی محرومی کا باعث بن گیا، لیکن جس طرح ابلیس کی مخالفت کے علی الرغم آدم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نافذ ہو کے رہا، اسی طرح یہود کے مخالفت کے علی الرغم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت بھی اس زمین پر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی۔
یہ سرگذشت جس سیاق میں یہاں بیان ہوئی ہے، اس کی رو سے اس کا مدعا یہی ہے، لیکن اس کے ساتھ، اگر غور کیجیے تو قرآن کا علم الانسان بھی پوری وضاحت کے ساتھ اس میں بیان ہو گیا ہے۔ اس کے جو نکات اس سرگذشت سے سامنے آتے ہیں، وہ یہ ہیں:
۱۔انسان کو صرف ارادہ و اخیتار ہی نہیں ملا، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین کا اقتدار بھی اسے بخشا ہے۔ یہ چیز ظاہر ہے کہ نشۂ قوت پیدا کر دینے کا باعث بن سکتی ہے، لہٰذا اس پر واضح رہنا چاہیے کہ: صاحب نظراں نشۂ قوت ہے خطرناک۔ وہ اگر اس معاملے میں متنبہ نہ رہا تو اس کا نتیجہ وہی نکلے گا جو فرشتوں نے بیان کیا ہے کہ وہ زمین میں فساد پیدا کرے گا اور خون بہائے گا۔
۲۔ اسے جس آزمایش میں ڈالا گیا ہے، وہ ہرگز اس کے تحمل سے زیادہ نہیں ہے۔ چنانچہ ہر زمانے میں اور ہر شہر اور ہر بستی میں صالحین کا وجود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ حوصلہ کرے تو اپنے پروردگار کی مدد اور توفیق سے اس آزمایش میں پورا اتر سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں اپنی جنتِ گم گشتہ دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔
۳۔ دنیا کی زندگی میں جو سب سے بڑا امتحان اسے پیش آئے گا، وہ انانیت اور جنسی جبلت کے راستے سے پیش آئے گا۔ پہلی صورت میں اسے فرشتوں کا نمونہ اپنے سامنے رکھنا چاہیے جو ایک برتر مخلوق ہونے کے باوجود اللہ کے حکم پر اُس کے سامنے جھک گئے اور دوسری صورت میں اپنے باپ آدم کا نمونہ جو شیطان کے بہکانے پر جذبات میں بہ تو گئے، لیکن اس کیفیت سے نکلتے ہی فوراً اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آئے۔ چنانچہ اللہ نے اُن کی توبہ قبول کی، انھیں برگزیدہ کیا اور ان کی کمزوری کے پیشِ نظر اُن پر یہ عنایت فرمائی کہ اُن کی اولاد کے لیے اپنی ہدایت بھیجنے کا وعدہ فرمایا۔
۴۔ غلطی کر لینے کے بعد، ابوالبشر آدم کی ندامت اور توبہ و انابت اس بات کی دلیل ہے کہ انسان اپنے پروردگار کی ذات و صفات کا علم اور خیر وشر کا شعور لے کر اس دنیا میں آیا ہے۔ انبیا کی ہدایت اس کے بعد اور اس روشنی پر روشنی ہے اس لیے وہ قیامت کے دن یہ عذر پیش نہ کر سکے گا کہ ان بنیادی حقائق سے متعلق بھی اسے کسی پیغمبر کے انذار کی ضرورت تھی۔
۵۔ انسان کا نصب العین ازل ہی سے جنت الفردوس ہے۔ وہ اسی کو پانے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، لہٰذا اس کے تمام اعمال کا محرک یہی جنت ہے۔ وہ اگر اس کی اصلی جگہ پر اس کے حصول کی جدوجہد نہ بھی کر رہا ہو تواس سے بے پروا نہیں ہو سکتا۔ اپنے علم و عمل کی تمام صلاحیتیں وہ پھر اسی دنیا میں اسے پا لینے کی جدوجہد میں صرف کر دیتا ہے۔ یہ چیز اس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسی نصب العین کے لیے جیتا اور اسی کے لیے مرتا ہے۔
[68]۔ یہ سرگذشت چونکہ انسان کی اپنی ہی سرگذشت ہے جس کی روایت اس کے باپ آدم سے نسلاً بعد نسلٍ اسے منتقل ہوتی رہی ہے، اس لیے ــــــ ’یاد کرو‘ ــــــ کا یہ اسلوب اس کے لیے موزوں ہوا۔
[69]۔ فرشتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو مکالمہ ان آیات میں نقل ہوا ہے، اس سے واضح ہے کہ وہ محض قوتیں نہیں ہیں جنھیں ’ملئكة‘کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، بلکہ نہایت پاکیزہ صفات کی حامل ایک مستقل مخلوق کی حیثیت رکھتے ہیں۔
[70]۔ اصل میں لفظ ’خليفة‘استعمال ہوا ہے۔ سورۂ ص (۳۸) کی آیت ۲۶ سے واضح ہے کہ یہ جس طرح نائب اور جانشین کے معنی میں آتا ہے، اسی طرح نیابت اور جانشینی کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض صاحبِ اقتدار کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
[71]۔ فرشتوں نے انسان کے بارے میں اس اندیشے کا اظہار لفظ ’خليفة‘کی بنا پر کیا ہے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ جب ایک صاحبِ اختیار مخلوق کو زمین کا اقتدار دیا جائے گا تو اقتدار پا کر وہ یقیناً بہکے گی اور اس بہکنے کا نتیجہ خوں ریزی اور فساد کی صورت ہی میں ظاہر ہو گا۔
[72]۔ یہ بات انھوں نے تخلیقِ آدم کی حکمت معلوم کرنے کے لیے کہی ہے۔ گویا مدعا یہ ہے کہ اس تخلیق کا مقصد محض تسبیح و تقدیس تو ہو نہیں سکتا، اس لیے کہ یہ کام تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ چنانچہ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس فتنۂ عالم کی تخلیق سے آپ کے پیشِ نظر کیا ہے؟ تسبیح کے ساتھ حمد اور تقدیس کے جو الفاظ انھوں نے استعمال کیے ہیں، ان سے تشبیہ میں پوشیدہ تنزیہہ کے ساتھ اثبات کوظاہر کرنا مقصود ہے۔ یعنی ہم آپ کی شانِ الوہیت کے منافی صفات سے آپ کو پاک قرار دیتے اور اس کے ساتھ ان صفات سے متصف قرار دیتے ہیں جن کی بنا پر آپ سزا وارِ حمد و شکر ہیں۔
[73]۔ مطلب یہ ہے کہ میری اسکیم کے سارے پہلوؤں پر تمھاری نظر نہیں ہے۔ یہ جب واضح ہو جائیں گے تو تمھارا اشکال بھی ختم ہو جائے گا۔
[74]۔ اصل الفاظ ہیں: ’علم آدم الاسماء كلها‘ان میں ’اسماء‘پر الف لام عہد کا ہے اور مراد اس سے آدم علیہ السلام کی ذریت میں سے بالخصوص ان لوگوں کے نام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ اختیارات پاکر خود بھی ان کا حق ادا کریں گے اور دوسروں کو بھی ان کا حق ادا کرنے کی ترغیب دیں گے، یہاں تک کہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بارہا اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے۔ یعنی اولادِ آدم میں سے انبیا و رسل، مجددین، مصلحین اور شہدا و صدیقین۔
[75]۔ ’نام بتاؤ‘ ــــــ یعنی تعارف کراؤ۔ اس مفہوم کے لیے یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی معروف ہے۔
[76]۔ یعنی اپنے اس خیال میں کہ اولادِ آدم کو زمین کا اقتدار دیا گیا تو وہ اس میں فساد برپا کر دے گی۔
[77]۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کی شان اس سے بلند ہے کہ آپ کا کوئی کام حکمت سے خالی ہو۔ ہم نے اپنا جو شبہ ظاہر کیا ہے، وہ محض ہمارے علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ ہمارا علم محدود ہے، علم و حکمت کا اصلی خزانہ تو آپ ہی کے پاس ہے۔
[78]۔ یعنی اس کارخانۂ حکمت کی ساری حکمتیں اور مصلحتیں مجھے ہی معلوم ہیں۔ مجھ سے اس قدر قرب کے باوجود تم ان کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
[79]۔ اس سے تخلیقِ آدم کی اسکیم کے وہ پہلو مراد ہیں جو فرشتوں نے سوال کی صورت میں سامنے رکھ دیے تھے۔
[80]۔ یعنی ہماری اسکیم کی حکمت کو سمجھنے کی وہ خواہش جو تم نے الفاظ میں بیان نہیں کی، لیکن تمھارے سوال کے پیچھے درحقیقت وہی چھپی ہوئی تھی۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ