پچھلے دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وطنِ عزیز میں سود کے خاتمے کے ضمن میں ایک سوال نامہ جاری کیا۔ میں نے بھی اپنی بساط کے مطابق اس کا جواب لکھ کر ارسال کیا۔
اب قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے استفادے کے لیے محمد بلال صاحب نے اس انگریزی میں لکھے گئے خط کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ (مدیر )
۲۰ مارچ ۱۹۹۹ء
جناب رجسٹرار
سپریم کورٹ آف پاکستان
اسلام آباد
موضوع : سپریم کورٹ آف پاکستان کے سوال نامے کا جواب
جنابِ عالی،
میں ’’ربا‘‘ اور پاکستانی معیشت کو ’’ربا‘‘ سے پاک کرنے کے متعلق فاضل عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالوں کے جواب ارسال کر رہا ہوں۔ اگر میرے کسی جواب کا کوئی پہلو تشنہ رہ جائے تو میں اس تشنگی کو دور کرنے اور اس کی مزید وضاحت کرنے کے لیے حاضر ہوں تاکہ ’’ربا‘‘ پر مبنی معیشت اور معاملات سے حکومتِ پاکستان کو نجات دلانے میں اپنا صحیح کردار ادا کر سکوں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پسندیدہ راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مخلص
معز امجد
مدیر ماہنامہ ’’اشراق‘‘ (اردو)
۱۲۳ بی ماڈل ٹاؤن لاہور ۔
ــــــــ ـــــ
قرآنِ مجید نے ’’ربا‘‘ کی ممانعت فرمائی ہے۔ اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں آپ اس کی کیا تعریف اور تعبیر کریں گے؟
لفظ ’’ربا‘‘ کا مفہوم متعین کرنے کے معاملے میں یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ قرآنِ مجید نے لفظ ’’ربا‘‘ اصطلاحی نہیں بلکہ سادہ لغوی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اگر یہ لفظ قرآن میں بطور اصطلاح کے استعمال کیا گیا ہوتا تو یہ ضروری تھا کہ اس کا مفہوم متعین کرنے کے لیے قرآن مجید ہی کو بنیاد بنایا جاتا۔ چونکہ یہ لفظ اپنے سادہ لغوی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے اس لیے اس کا مفہوم متعین کرنے کے لیے قرآنِ مجید ہی پر انحصار ضروری نہیں رہا ہے۔ لہٰذا ہم اس کے لیے وہی طریق کار اختیار کریں گے جوکسی بھی زبان کے کسی بھی لفظ کا مفہوم متعین کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
فاضل عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ ’’ربا‘‘ کی تعریف اور تعبیر قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کی جائے۔ یہ تقاضا اسی صورت میں پورا کیا جا سکتا تھا اگر ’’ربا‘‘ کا لفظ قرآن میں لغوی کے بجائے اصطلاحی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہوتا یا قرآن و حدیث میں عربی الفاظ کے معنی بیان کرنے والے الگ ابواب بھی قائم کئے گئے ہوتے۔ قرآن نے یہ لفظ اپنے لغوی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ اس لیے میں اپنی تحقیقات کی بنیاد مستند لغات اور عربی زبان کے دوسرے ماخذوں ہی پر ر کھوں گا۔
عربی فعل ’’ربا‘‘ ’’یربو‘‘ کا اکثر عربی لغات میں حسبِ ذیل لغوی مفہوم بیان کیا جاتا ہے:
۱۔ ’زادو نما‘ (بڑھنا۔ نشوونما پانا)
اسمِ ’’ربا‘‘ یا ’’الربا‘‘ جو قرآن میں عام طور پر استعمال ہوا ہے اس کے معنی سب سے مستند اور معروف عربی لغت ’’اقرب الموارد‘‘ میں ’العینة.....والفضل ‘ بیان کیے گئے ہیں:
یعنی لفظ ’’ربا‘‘ یا ’’الربا‘‘ بطور اسم حسبِ ذیل دو مفاہیم کا حامل ہے:
۱۔ اضافہ۔ ۲۔العینة۔
’’اقرب الموارد‘‘ لفظ ’’عین‘‘ کے تحت ’’بیع العینة‘‘ کے حسبِ ذیل معنی بیان کرتا ہے:
’’ایک شخص دوسرے شخص سے قرض مانگتا ہے اب چونکہ قرض کی رقم سے کچھ زائد رقم وصول کرنا ممنوع ہے اس لیے قرض دینے والا قرض دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ لہٰذا وہ قرض مانگنے والے سے کہتا ہے کہ میں تمھیں یہ کپڑا بارہ درہم میں ادھار ایک خاص مدت کے لیے دیتا ہوں، جبکہ اس کپڑے کی اصل قیمت دس درہم تھی۔ پھر قرض خواہ قرض دار سے دو درہم زائد اس مخصوص مدت کے لیے وصول کرتا ہے۔ (یہ دو درہم ’’ربا‘‘ ہی ہیں)۔‘‘
یہاں اس بات کی وضاحت بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ لفظ ’’ربا‘‘ اور ’’الربا‘‘ کے مطلب اور تعبیر میں وقت کے ساتھ کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ اس لفظ کا مطلب جدید عربی لغات میں حسبِ ذیل بیان کیا جاتا ہے:
’’الراید‘‘ کے مطابق:
’’۱۔ زائد (مثلاً زائد رقم) یا اضافہ۔
۲۔ قرض کے اوپر کوئی وصولی ۔‘‘
’’لاروس‘‘کے مطابق:
’’۱۔ زائد (مثلاً زائد رقم) ،وصولی یا منافع جو قرض دینے والا قرض پر وصول کرتا ہے۔ معاشیات کی اصطلاح میں) وہ رقم جو قرض کی رقم لینے والا قرض کے علاوہ کچھ مخصوص شرائط (مثلاً مدت اور شرح کے تعین) پر ادا کرتا ہے۔‘‘
اسی نوعیت کا مطلب ’’المعجم الوسیط‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔
اوپر درج ’’ربا‘‘ کے مطالب کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ (’’اقرب الموارد‘‘،’’لاروس‘‘ اور ’’المعجم الوسیط‘‘ میں بتائے گئے مفہوم کی بنیاد پر) لفظ ’’ربا‘‘ کے معنی یہ ہیں:
۱۔ کوئی اضافہ۔
۲۔ قرض پر مدت اور شرح کے پیشگی تعین کی شرائط کے ساتھ لیا جانے والا اضافہ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ’’ربا‘‘ کا لفظ ان دونوں مفاہیم میں کس مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ ’’ربا‘‘ سے متعلق آیات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بڑے قطعی انداز سے کہی جا سکتی ہے کہ اوپر مذکور دونوں مطالب میں سے قرآن کے پیشِ نظر دوسرا مطلب ہے۔ ہماری اس ترجیح کی حسبِ ذیل وجوہ ہیں:
۱۔ اگر قرآن نے یہ لفظ محض ’’اضافہ‘‘ کے مفہوم میں استعمال کیا ہوتا تو ’’اضافہ‘‘ کا ہر قسم کے کاروبار پر بھی اطلاق ہوتا۔ لیکن قرآن کے الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ قرآن کی ان آیات میں لفظ ’’ربا‘‘ میں اس قسم کے ’’اضافہ‘‘ کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ قرآن کہتا ہے:
قَالُوْ٘ا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰواﶉ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا.(البقرہ ۲: ۲۷۵)
’’وہ کہتے ہیں: تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کہا: اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا اور ربا سے منع کیا ہے۔‘‘
ان جملوں سے صاف واضح ہے کہ کسی کاروبار سے حاصل ہونے والا ’’اضافہ‘‘ (نفع) ’’ربا‘‘ نہیں ہے۔
۲۔ مزید دیکھیے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْﵐ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ. (۲: ۲۷۹)
’’اور اگر تم توبہ کر لو تو اصل رقم کا تمھیں حق ہے۔ نہ تم کسی کا حق مارو، نہ تمھارا حق مارا جائے۔‘‘
اس آیت نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ یہاں ’’ربا‘‘ سے مراد خاص وہ اضافہ ہے جس کا مطالبہ قرض دینے والا مقروض سے کرتا ہے۔
۳۔ اس کے بعد غور کریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَاِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰي مَيْسَرَةٍﵧ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ . (البقرہ ۲: ۲۸۰)
’’اور اگر (مقروض) تنگ دست ہو تو فراخی تک اس کو مہلت دو اور بخش دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔‘‘
اس تفصیل سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ قرآن نے ’’ربا‘‘ کا لفظ اسی مفہوم میں استعمال کیا ہے جس مفہوم میں انگریزی زبان میں (قرض کے اوپر) انٹرسٹ (Interest) اور اردو زبان میں ’سود‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
’’ربا‘‘ کے اطق کا دائرہ کیا ہے ؟ کیا ’’ربا‘‘ کی اصطلاح کا اطلاق بنکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے انٹرسٹ پر حاصل کیے گئے تجارتی اور پیداواری قرضوں پر بھی ہوتا ہے؟
پہلے سوال کے جواب سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ لفظ ’’ربا‘‘ کے اطلاق میں اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ وہ ’’ربا‘‘ پر لیا گیا قرض ذاتی (غیر کاروباری) مقاصد کے لیے ہے یا کاروباری مقاصد کے لیے۔ قرآن کی رو سے ’’ربا‘‘ ممنوع ہے خواہ وہ ذاتی استعمال کے قرض پر لیا جائے یا کاروباری استعمال کے قرض پر۔
اگر کوئی شخص اس نقطۂ نظر کا حامل ہے کہ ’’ربا‘‘ سے متعلق قرآنی آیات ذاتی قرض سے متعلق ہیں تو اس صورت میں یہ بات ثابت کرنے کی ذمہ داری محض اس شخص پر ہو گی جو شخص یہ بات کہتا ہے، اور اس ضمن میں وہی دلیل قابلِ قبول ہو گی جس میں کلاسیکی عربی زبان سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ ’’ربا‘‘ کا لفظ صرف ذاتی (غیرکاروباری) قرضوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ یا یہ ثابت ہو جائے کہ قرآن میں جہاں یہ حکم بیان ہوا ہے اس کا سیاق و سباق اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ’’ربا‘‘ کے مفہوم میں کاروباری قرض بھی شامل کیا جائے۔ اگر کوئی ایسی دلیل یا کوئی ایسا قرینہ نہیں ہے تو پھر ’’ربا‘‘ کو غیر کاروباری قرض کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
یہ بات سورۂ روم کی ایک آیت سے مزید مستحکم ہو جاتی ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت لوگ تجارتی قرض پر سود دیا کرتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیے وہ آیت:
وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّيَرْبُوَا۠ فِيْ٘ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰهِﵐ وَمَا٘ اٰتَيْتُمْ مِّنْ زَكٰوةٍ تُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ . (۳۰: ۳۹)
’’ اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ وہ دوسرے کے مال کے اندر پروان چڑھے تو اللہ کے ہاں پروان نہیں چڑھتا اور جو تم زکوٰۃ دو گے اللہ کی رضا جوئی کے لیے یہی لوگ ہیں جو اللہ کے ہاں اپنے مال کو بڑھانے والے ہیں ۔‘‘
اس آیت کے ان الفاظ ’’اور جو سودی قرض تم اس لیے دیتے ہو کہ وہ دوسروں کے مال کے اندر پروان چڑھے ‘‘ سے واضح ہوتا ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت ذاتی قرضوں کے علاوہ تجارتی قرضے بھی دیے جا رہے تھے۔ لہٰذا اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ’’ربا‘‘ کی ممانعت کے دائرے میں غیر کاروباری اور کاروباری ہر قسم کا قرض آتا ہے۔ اور اس طرح قرآن کی متعلقہ آیات کا اطلاق بنکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے ان تمام قرضوں پر ہوتا ہے جن پر سود وصول کیا جاتا ہے۔
پاکستانی بنک اور کچھ دوسرے مالیاتی ادارے مارک اپ (Markup) کے اوپر بائی بیک (Buy Back) کی بنیاد پر اپنے کلائنٹ کی سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس طریق کار میں بنک کے کلائنٹ کا منشا ہوتا ہے کہ وہ کوئی مخصوص جنسِ تجارت بنک کو فروخت کرے اور اسی طرح زیادہ قیمت پر اقساط میں ادائیگی کی بنیاد پر اسے دوبارہ خریدے۔ مارک اپ کی ایک خاص (مثلاً سالانہ) شرح کا مذکورہ دوسری فروخت پر اطلاق ہوتا ہے۔ کیا یہ معاملہ ’’ربا‘‘ کے تحت آتا ہے؟
جیسا کہ میں نے پہلے سوال کے جواب میں عرض کیا اس قسم کا معاملہ ’بیع العینة‘یا ’العینة‘کہلاتا ہے۔ یہ معاملہ بھی اس سود پر حاصل کئے گئے قرض سے مشابہ ہے جو ’’اقرب الموارد‘‘ میں ’’ربا‘‘ کی اصل تعریف کے ضمن میں بیان کیا گیا۔ یہ معاملہ بھی حسبِ ذیل دو خصوصیات کے جمع ہو جانے کے باعث ’’ربا‘‘ ہی کے تحت آتا ہے:
۱۔ ادھار فروخت پر ایسا منافع لینا جو نقد پر فروخت کے منافع کے علاوہ ہے۔
۲۔ مارک اپ (Markup ) کی ایک خاص (مثلاً سالانہ) شرح کا مذکورہ دوسری فروخت پر اطلاق ہونا۔
ان دونوں خصوصیات کے جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرض (ادھار فروخت) پر پیشگی ایک شرط (مارک اپ کی ایک شرح) طے کی گئی ہے، جس کا قرض دینے والا قرض لینے والے سے اس بات پر تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس مالی اثاثے کو ایک خاص وقت (مثلاً ایک سال) تک استعمال کرے۔ میرے پہلے سوال کے جواب کے مطابق یہ معاملہ سرتاسر ’’ربا‘‘کے تحت آتا ہے۔
کیا ’’ربا‘‘کی ممانعت کے حوالے سے مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق ہے؟ کیا ’’ربا‘‘کی ممانعت کے دائرے میں وہ قرضے بھی آتے ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل کیے جاتے ہیں یا ان مسلم ممالک سے لیے جاتے ہیں جن کے قوانین اور پالیسیاں بین الاقوامی مالی قوانین اور پالیسیوں کے مطابق ہیں اور جن پر پاکستان کی ریاست کا کنٹرول نہیں ہے؟
قرآنِ مجید سے یہ بات بالکل قطعی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست کسی شخص کو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ’’ربا‘‘ لینے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس معاملے میں ایک اسلامی ریاست میں مسلمان اور غیر مسلم، شہری میں بالکل کوئی فرق روا نہیں رکھا جا سکتا۔
یہاں یہ بات بھی بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ریاستِ پاکستان یا کوئی اورمسلم ریاست جب افراد کے حوالے سے ’’ربا‘‘ پر پابندی لگائے گی تو اس میں مسلم اور غیر مسلم کا فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔ اسی طرح وہ تمام ادارے خواہ مسلمانوں کے ہوں یا غیر مسلموں کے اگر ریاست کے دائرۂ اختیار (Jurisdiction) میں آتے ہیں، ان میں بھی اس ضمن میں کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔
یہاں ایک اور نکتہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن درحقیقت ’’ربا‘‘ لینے سے منع کرتا ہے، ’’ربا‘‘ دینے کی ممانعت احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آئی ہے جو درحقیقت ’’ربا‘‘ لینے ہی کی ممانعت کا ایک نتیجہ ہے۔ یعنی ’’ربا‘‘ لینے ہی کی ممانعت حقیقی اور بنیادی ممانعت کی حیثیت رکھتی ہے۔
یہ ایک باریک نکتہ ہے اس لیے ہم اس کی مزید تفصیل کرتے ہیں۔
جیسا کہ قرآنی آیات سے یہ واضح ہے اصل ممانعت ’’ربا‘‘ لینے سے متعلق ہے۔ قرآن کی ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جو ’’ربا‘‘ دینے سے منع کرتی ہو۔ اس کی وجہ سادہ ہے۔ قرآن کے نزدیک اصل اخلاقی خرابی، ناانصافی اور زیادتی ’’ربا‘‘ لینے ہی میں پائی جاتی ہے نہ کہ ’’ربا‘‘ دینے میں۔ قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرِ قیادت ریاستِ مدینہ کا اصل زور ’’ربا‘‘ لینے کے خاتمے پر ہے نہ کہ ’’ربا‘‘ دینے کے خاتمے پر۔ اس سارے عرصے کے دوران میں قرآن ’’ربا‘‘ لینے والوں کو اس سزا سے ڈراتا ہے جو انھیں قیامت کے دن بھگتنا پڑے گی۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی ریاست کے حکمران کی حیثیت سے ’’ربا‘‘ لینے والوں کو الٹی میٹم دیا کہ اگر وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو ان کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جائے گا (البقر ۲ : ۲۷۹)۔
اس دوران میں ایک آیت بھی ایسی نازل نہیں ہوئی جس نے لوگوں کو ’’ربا‘‘ دینے سے روکا ہو اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ’’ربا‘‘ دینے سے منع فرمایا۔ اس کے برعکس قرآن ’’ربا‘‘ دینے والے کو مقروض کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا، اس سے اصل رقم لینے کے سلسلے میں مناسب مہلت دینے کی ہدایت کرتا بلکہ بعض حالات میں اپنی رقم لینے ہی سے دست کش ہو جانے کی نصیحت کرتا ہے۔ اور یہ ترغیب دیتا ہے کہ اگر وہ رقم مقروض کو انفاق کر دے تو اس کا صلہ وہ روزِ آخرت میں پائے گا۔
اس کے بعد جب دورِ نبوی کی ریاستِ مدینہ میں ’’ربا‘‘ لینا مکمل طور پر ختم ہو گیا اور کسی ایک شخص کو بھی ’’ربا‘‘ لینے کی اجازت نہ رہی معاشرہ اس برائی سے پاک ہو گیا اور ’’ربا‘‘ لینا ایک قابلِ سزا جرم قرار پا گیا، تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ وہ لوگ جو ’’ربا‘‘ پر قرض دیتے ہیں یا جو خاموشی سے ’’ربا‘‘ دینے کی حامی بھرتے ہیں یا جو ’’ربا‘‘ کی دستاویز لکھتے ہیں یا جو اس دستاویز پر گواہ بنتے ہیں اور یہ معاملہ ریاست کے نوٹس میں نہیں لاتے تو انھوں نے ریاستی احکام کی خلاف ورزی کی ہے جس کی بنا پر یہ سب ملعون اور سزا کے مستحق ہیں۔
قرآنِ مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے یہ واضح ہوا کہ اصل جرم ’’ربا‘‘ لینا ہے جبکہ ’’ربا‘‘ دینا اس وقت جرم بنتا ہے جب معاشرہ ’’ربا‘‘ سے بالکل پاک ہو چکا ہو اور ’’ربا‘‘ دینا ریاست کی سطح پر ممنوع اور قابلِ سزا جرم قرار دیا جا چکا ہو۔
اب ہم وہ اقدامات بیان کرتے ہیں جو ’’ربا‘‘ کے خاتمے کے لیے ریاست کو ابتداً کرنے چاہییں:
۱۔ اپنی ریاستی حدود میں تمام شہریوں اور اداروں کو کسی شخص سے خواہ وہ ملک میں رہتا ہو یا دوسرے ملک میں مقیم ہو، ہر مالی معاملے میں ’’ربا‘‘ لینے سے منع کیا جائے۔
۲۔ اپنی ریاستی حدود میں تمام شہریوں اور اداروں کو کسی ادارے سے، خواہ وہ ادارہ ملکی ہو یا غیرملکی اور خواہ وہ ادارہ ملکی حدود کے اندر کام کرتا ہو یا ان سے باہر، ہر قسم کے مالی معاملے میں ’’ربا‘‘ لینے سے منع کیا جائے۔
۳۔ کسی شخص سے، خواہ وہ ملکی ہو یا غیرملکی کسی مالی معاملے میں حکومت ’’ربا‘‘ لینے سے باز رہے۔
۴۔ کسی ادارے سے، خواہ وہ ملکی ہو یا غیر ملکی اور خواہ وہ ملکی حدود میں کام کرتا ہو یا ان حدود سے باہر، ہر قسم کے مالی معاملے میں حکومت ’’ربا‘‘ لینے سے باز رہے۔
۵۔ کسی دوسرے ملک سے کسی قرض یا امداد پر ’’ربا‘‘ لینے سے اجتناب کیا جائے۔
۶۔ ریاست کے اندر رہنے والے اور ریاستی حدود میں کام کرنے والے ایسے ادارے جو ان پابندیوں کی خلاف ورزی کریں، ان کے خلاف قوانین بنائے جائیں اور انھیں سزا دی جائے۔
۷۔ ان شہریوں اور اداروں کے خلاف قوانین بنائے جائیں اور انھیں مجرم سمجھ کر سزا دی جائے جو ملکی حدود میں کسی مالی معاملے میں کسی دوسرے شہری اور ادارے کو ’’ربا‘‘ دینے پر راضی ہو جاتے ہیں اور یہ بات ریاست کے نوٹس میں نہیں لاتے۔
۸۔ ایسے ملکی شہریوں اور اداروں کو مجرم سمجھ کر ان کے خلاف قوانین بنائے جائیں اور ان پر سزا نافذ کی جائے جو کسی ’’ربا‘‘ پر مبنی دستاویز کو تحریر کرتے یا اس پر گواہ بنتے اور ایسے معاملے کو ریاست کے نوٹس میں نہیں لاتے۔
اس ضمن میں ’’ربا‘‘ کی ممانعت پر مبنی بنائے گئے قوانین پاکستان سے باہر کے ان لوگوں اور اداروں پر لاگو نہیں ہوں گے جو ’’ربا‘‘ پر قرض دیتے ہیں۔ اسی طرح، ملکی حدود کے باہر رہنے والے لوگوں یا ان سے باہر کام کرنے والے اداروں سے حاصل کیے گئے قرض پر ’’ربا‘‘ کی ادائیگی، ممانعتِ ’’ربا‘‘ کے قوانین کے دائرے میں نہیں آئے گی۔ حکومتِ پاکستان کو البتہ واضح طور پر ہدایت کی جانی چاہیے کہ وہ اس بات کی حتی الوسع کوشش کرے کہ جب قرض لے تو وہ ’’ربا‘‘ کی شرط کے ساتھ نہ ہو۔ لیکن مشہور ہے کہ ’’بھکاری انتخاب کا حق نہیں رکھتے‘‘، اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ ’’ربا‘‘ کی ادائیگی کے بغیر معاملہ نہ ہو پا رہا ہو تو ظاہر ہے کہ پھر معاہدوں کی پابندی کرتے ہوئے ’’ربا‘‘ کی ادائیگی کی جائے گی۔ مگر اس سے ممانعتِ ’’ربا‘‘ کے قانون کی ان شقوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جن کا اوپر ہم ذکر کر آئے ہیں۔
حکومت پاکستان اورحکومت کے تحت کچھ دوسرے ادارے بانڈز اور سر ٹیفکیٹ وغیرہ جاری کر کے قرض حاصل کرتے ہیں۔ پھر یہ سرٹیفکیٹس اور بانڈز رکھنے والوں کو مقررہ منافع دیتے ہیں۔ کیا یہ منافع بھی ’’ربا‘‘ کے زمرے میں آتا ہے ؟
حکومتِ پاکستان اور حکومت کے تحت دوسرے ادارے سر ٹیفیکٹس اور بانڈز کے اجرا سے جو رقم بطور قرض حاصل کرتے ہیں، اس پر دیا جانے والا ’’منافع‘‘ چونکہ پیشگی طور پرمتعین شدہ شرح پر دیا جاتا ہے، اس وجہ سے یہ ’’منافع‘‘ دراصل ’’ربا‘‘ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ کاغذی کرنسی کی قدر (Value) افراطِ زر کے باعث کم ہو جاتی ہے۔ جب قرض دینے والے کو ایک خاص مدت کے بعد اس کی رقم لوٹائی جاتی ہے تو اس وقت اس افراطِ زر کے باعث اسے نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس صورت میں قرض دینے والا اس نقصان کی تلافی کے لیے قرض لینے والے سے کچھ زائد رقم کا تقاضا کرے تو کیا یہ تقاضا بھی ’’ربا‘‘ ہی شمار ہو گا ؟
اگر افراطِ زر کی صحیح شرح کے مطابق قرض کی اصل رقم سے کچھ زائد رقم کا تقاضا کیا جائے تو وہ ’’ربا‘‘ شمار نہیں ہو گا۔ اس صورت میں نہ قرض دینے والا قرض کے استعمال پر پہلے سے متعین شدہ زائد رقم کا تقاضا کرتا ہے اور نہ اس زائد رقم کو حقیقی طور پر نفع کہا جا سکتا ہے۔
افراطِ زر یا روپے کی حقیقی قدر میں کمی بیشی کے لحاظ سے قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے عدل و قسط پر مبنی کوئی طریقہ بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر:
۱۔ یہ معاملہ حکومتِ پاکستان کی طرف سے اعلان کی گئی افراطِ زر کی شرح کے مطابق کیا جائے ۔
۲۔ یہ معاملہ ملک میں سب سے زیادہ صرف ہونے والی چند چیزوں کی اوسط قیمت کے مطابق کیا جائے ۔
۳۔ یہ معاملہ ملک میں سونے کی قیمت میں جو اتار چڑھاؤ آتا ہے اس کے مطابق کیا جائے۔ مثال کے طور پر قرض کے لین دین کے موقع پر دونوں فریقین اس وقت مارکیٹ میں سونے کی قیمت کے لحاظ سے معاہدے میں یہ شرط رکھ لیتے ہیں کہ قرض کی واپسی کے وقت مارکیٹ میں سونے کی جو قیمت ہو گی اس کے مطابق ادائیگی کی جائے گی۔ فرض کریں، اسلم خاور کو ۱۰۰ روپے قرض دیتا ہے اور اس وقت مارکیٹ میں سونے کی قیمت ۱۰۰ روپے فی گرام ہے، تو اس وقت یہ طے پائے گا کہ خاور نے اسلم سے ۱۰۰ گرام سونا قرض لیا ہے۔ پھر جب خاور قرض اتارتا ہے اور اس وقت سونے کی قیمت ۱۵۰ روپے فی گرام ہے تو اسے ۱۵۰ روپے واپس کرنا ہوں گے۔ اسی طرح اگرقرض لوٹاتے وقت سونے کی قیمت ۹۰ روپے فی گرام ہو تو خاور اسلم کو ۹۰ روپے واپس کرے گا۔
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے نزدیک قرض کے لین دین میں افراطِ زر کے مطابق ایڈجسٹمنٹ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے۔ جس طرح ایک قرض دینے والا ’’ربا‘‘ وصول کر کے قرض لینے والے پر ظلم کرتا ہے اسی طرح قرض لینے والا قرض اتارتے وقت افراطِ زر کی حقیقت نظر انداز کر کے قرض دینے والے پر ظلم کرتا ہے۔
اگر انٹرسٹ اور مارک اپ کی تمام صورتیں اسلامی احکام سے متصادم ہیں تو سرمایہ کاری کے حسبِ ذیل معاملات کے لیے آپ کیا تجویز کرتے ہیں؟
۱ ۔تجارتی سرمایہ کاری۔ ۲۔ صنعت کاری ۔۳۔ بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے سرمایہ کاری۔ ۴۔ غیر ملکی قرض کا حصول۔ ۵۔ اور اسی طرح کی دوسری ضرورتیں اور مقاصد۔
اس نوعیت کے مسائل حل کرنا علماے دین کا کام نہیں ہے۔ اس کے لیے مسلمان ماہرینِ معیشت کی جانب رجوع کرنا چاہیے۔ علماے دین سے دین و شریعت کے احکام ہی سے متعلق رہنمائی لینی چاہیے۔ علماے دین چونکہ معیشت کے ایسے علم سے صحیح طور پر واقف نہیں ہوتے اس لیے وہ اس معاملے میں صحیح جواب نہیں دے پاتے۔ ایسے سوال تاحال جواب سے اس لیے محروم ہیں کہ علماے دین اس سطح کی معاشی پیچیدگیوں کا ادراک نہیں کر پاتے لیکن وہ پھر بھی جواب دے دیتے ہیں جس سے مسئلہ جوں کا توں قائم رہتا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں ملک اور امتِ مسلمہ کے ماہرینِ معیشت سے تجاویز لی جائیں۔ اس کے بعد علماے دین سے یہ رہنمائی لی جائے کہ ان تجاویز میں قرآن و سنت کی رو سے کوئی قباحت تو نہیں پائی جاتی۔
اس ضمن میں یہ رہنما اصول ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سرمایہ کاری کا ہر وہ نظام جس میں قرض پر پہلے سے طے شدہ زائد رقم کی شرح (مثلاً سالانہ شرح) مقرر کر لی جائے تو وہ ’’ربا‘‘ ہے جو اسلامی شریعت میں ممنوع ہے۔ سرمایہ کاری کا جو نظام اس چیز سے پاک ہے اسے ’’ربا‘‘ سے پاک قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں مجوزہ یا متبادل ہر نظام کے شرعاً جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔
اگر آپ اس نقطۂ نظر کے حامل ہیں کہ انٹرسٹ کی تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں تو آپ اس کو ملکی معیشت سے ختم کرنے کے لیے کیا طریق کار تجویز کرتے ہیں ؟ اگر اس معاملے میں کوئی تدریجی طریقہ اپنایا جائے تو اس کے لیے کیا حکمتِ عملی اختیار کی جائے جو قرآن و سنت کے تقاضوں کو بھی مجروح نہ کرے؟
ساتویں سوال کی طرح یہ سوال بھی مسلمان ماہرینِ معیشت سے کرنا چاہیے۔ البتہ، مسلمان ماہرینِ معیشت اگر اس مسئلے کا کوئی تدریجی حل پیش کرتے ہیں تو پھر علماے دین سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اسلام اس طریقے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں ؟
اس ضمن میں عرض ہے کہ معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ تدریجی طریقہ ہی اختیار کیا جائے۔ کسی نظام یا برائی کی اصلاح میں تدریجی طریقے کو اختیار کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں غلامی جیسی برائی کے خاتمے کی کوشش کو پیشِ نظر رکھیں۔ نزولِ قرآن کے وقت یہ برائی معاشرے میں موجود تھی۔ قرآن ہمیشہ اس برائی کا مخالف رہا لیکن چونکہ یہ برائی بہت سنگین شکل اختیار کیے ہوئے تھی اور معاشرے میں اپنی جڑیں گہرائی میں پھی چکی تھی اس لیے قرآن نے اس کی اصلاح کے لیے ۲۳ سال کے عرصے میں پھیلے ہوئے ایسے اقدام کیے جن سے اس برائی کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی۔
اسی طرح، ماہرین کے نزدیک معیشت کو ’’ربا‘‘ سے پاک کرنے کے لیے اگر تدریجی طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے، تو پھر اسی طریقے کو اختیار کرنا ہو گا۔ معیشت کو ’’ربا‘‘ سے پاک کرنے کے لیے اٹھنے والا پہلا قدم، خواہ اس کے لیے جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے، صحیح سمت میں اٹھنے والا ہو گا۔
اگر تمام مالی معاملات خلافِ شرع ہیں تو ا س ضمن میں ماضی میں کیے گئے معاملات اور معاہدات کا کیا کیا جائے گا ؟ خاص طور پر حکومت پچھلے غیر ملکی قرضوں کے معاملے میں کیا طریق کار اختیار کرے ؟
اس معاملے میں بغیر کسی استثنا کے تمام غیر ملکی قرض دینے والوں کے ساتھ کیے گئے معاہدات کی پاس داری کی جائے اور معاہدات میں ’’ربا‘‘ دینے سے متعلق فریقین کے مابین جو شرائط طے ہوئی تھیں انھیں پورا کیا جائے گا، الّا یہ کہ باہمی رضا مندی سے معاہدے میں کوئی ترمیم کر لی جائے۔
’’ربا‘‘ کے خاتمے پر مبنی قانون سازی کرنے کے بعد حکومتِ پاکستان ’’ربا‘‘ لینے سے ہر حال میں گریز کرے گی۔ البتہ اسے غیر ملکی قرض خواہوں کو معاہدات کے مطابق ’’ربا‘‘ ادا کرنا ہو گا۔ مستقبل کے حوالے سے عدالتِ عظمیٰ کو حکومتِ پاکستان کو یہ ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ ان امور سے متعلق اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جس حد تک ممکن ہو آیندہ طے پانے والے معاہدات کو ’’ربا‘‘ سے پاک رکھے۔
جہاں تک اندرونِ ملک قرضوں کا معاملہ ہے تو ’’ربا‘‘ کی ممانعت پر مبنی قانون سازی کے بعد ایک ریاست ’’ربا‘‘ کی ادائیگی فوری طور پر روک سکتی ہے۔ مگر ایسا کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ حکومت عوام سے لیے گئے قرضے بھی فوری طور پر واپس کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ لیکن یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حکومت کی موجودہ مالی پوزیشن میں یہ ممکن نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں خاص طور پر جبکہ لوگوں کی ایک ناقابلِ تعین تعداد کی معیشت کا انحصار حکومت کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفیکٹس اور بانڈز ہی کی آمدنی پر ہے، حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے جو ’’ربا‘‘ سے بچنا چاہتے ہیں، ’’ربا‘‘ سے پاک متبادل مہیا کرے۔ جب تک حکومت ان تقاضوں کو پورا کرنے کی پوزیشن حاصل نہیں کر پاتی اس وقت تک اسے چاہیے کہ وہ شہریوں کو ’’ربا‘‘ لینے کے جرم کی کراہیت سے قرآن و سنت کی روشنی میں متنبہ کرے اور ’’ربا‘‘ لینے کے معاملے میں ان کی اخلاقی لحاظ سے حوصلہ شکنی کرے۔
کیا قرض دینے والا قرض سے متعلق منافع حاصل کرنے کا وقت اور اس کی شرح مقرر کر سکتا ہے جبکہ مقروض یہ کہہ رہا ہو کہ وہ مطلوبہ روپیہ کمانے اور بروقت رقم لوٹانے کے قابل ان شاء اللہ ہو جائے گا۔ اور اگر اس کے بعد مقروض رقم کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو گارنٹی دینے والا منافع، بونس یا تلافی کے لیے زائد رقم دے سکتا ہے۔ اگر اس صورتِ حال میں انشورنس کا نظام متعارف کرایا جائے تو دین اس پر کوئی اعتراض کرتا ہے؟
قرض پر پیشگی ’’منافع کی شرح‘‘ مقرر کرنا واضح طور پر ’’ربا‘‘ ہے۔ جو شخص ایسے ’’منافع‘‘ کے لیے ضامن بنتا ہے وہ دراصل ’’ربا‘‘ کی ادائیگی کا ضامن بنتا ہے۔ اس صورت میں منافع کی انشورنس کرنے والے کی بھی وہی پوزیشن ہو گی جو ’’ربا‘‘ کی ادائیگی کے ضامن کی ہو گی۔
’’ربا‘‘ کا ضامن بننا دراصل شریعت کے ٹھیرائے ہوئے ایک منکر کا ضامن بننا ہے۔ ان معاملات میں جو شخص یا ادارہ ’’ربا‘‘ حاصل کر رہا ہے وہ شریعت کی نظرمیں ایک بڑے جرم کا ارتکاب کر رہا ہے۔[1]
ـــــــــ معز امجد /محمد بلال
___________
[1]۔ جو لوگ اس تحریر کے اصل مسودے کا مطالعہ کرنا چاہیں وہ ہمارے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ (ادارہ)