ہمارے معاشرے میں جب کسی عالمِ دین کے بارے میں یہ بات کی جائے کہ یہ صاحب دروس ومحاضرات کا اہتمام کر رہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کو تیار کر رہے ہیں۔ لوگوں کی اخلاقی تربیت کر رہے ہیں۔ دینی موضوعات پرکتابیں تصنیف کر رہے ہیں تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ عالمِ دین ایک ’’بے عمل‘‘ عالمِ دین ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ’’باعمل‘‘ عالمِ دین تو وہ ہے جو سیاست کے میدان میں اترا ہوا ہے۔ جو آئے روز ریلیاں منعقد کررہا ہے۔ جو لوگوں کو سڑکوں پر لا رہا ہے۔ جو ایوانِ اقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر رہا ہے۔ جو حکمرانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو للکار رہا ہے۔ جو اس نظامِ حکومت کو چند دنوں میں جڑ سے اکھیڑ کر چند دنوں میں اسلامی نظام لانے کی نوید سنا رہا ہے۔ یا وہ عالمِ دین حقیقی عالمِ دین ہے جو ملکی نظام کی تبدیلی کے لیے جہاد و قتال کی راہ دکھا رہا ہے۔ لوگوں کو ڈنڈے کے زور پر درست کرنے کی بات کر رہا ہے۔ اور اس ’’مشن‘‘ کی تکمیل کے لیے ’’فدائی‘‘ اور ’’فوجی‘‘ بھرتی کر رہا ہے۔ یعنی عالمِ دین کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں اصلاً کسی دنیوی فلاح کا تصور ابھرتا ہے۔ اس تصور کے نہ صرف عام لوگ بلکہ بہت سے علماے دین بھی قائل نظر آتے ہیں۔
اس وقت ’’دین و دانش‘‘ میں جاوید احمد صاحب غامدی کی ایک تحریر ’’علما کا انذار‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت شائع کی گئی ہے۔ اس تحریر میں جاوید صاحب نے علماے دین کے اصل کام کے پہلو سے قرآن کی ایک نص کی وضاحت کی ہے۔ عالمِ دین کو ایک سیاسی انقلابی آدمی سمجھنے والوں کے لیے اس تحریر میں ہدایت کا بہت سامان ہے۔
اسی طرح ’’دانش سرا کی سرگرمیاں‘‘ کے ضمن میں دانش سرا، پاکستان کے دوسرے سالانہ اجتماع کی رپورتاژ تحریر کی گئی ہے۔ اس قسط میں جاوید احمد صاحب غامدی کی افتتاحی تقریر مرتب کی گئی۔ اس تقریر کے پس منظر میں بھی مذکورہ مسئلے کی سنگینی پوری طرح موجود ہے۔
’’دین ودانش‘‘ کے ذیل میں جاوید احمد صاحب غامدی کا سلسلہ ’’اصول و مبادی‘‘ بڑی باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا ہے۔ لیکن اس اشاعت میں اس کی قسط کا اہتمام نہیں کیا جا سکا۔ دراصل اس ماہ جاوید صاحب حجِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے گئے تھے۔ وہاں ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔ پاکستان آنے کے بعد بھی طبیعت سنبھلنے میں کچھ دن لگ گئے، جس کی وجہ سے وہ یہ تحریر نہ لکھ سکے۔
’’ملاقات‘‘ کے ضمن میں احمد جاوید صاحب سے ایک مکالمہ طبع کیا گیا ہے۔ اس مکالمے میں قارئینِ ’’اشراق‘‘ کو ایسی باتیں بھی پڑھنے کو ملیں گی جو ہمارے طرزِ فکر سے مختلف ہوں گی۔ اس صورتِ حال میں ہمارے بعض قارئین جھنجلا جاتے ہیں۔ اختلافی امور سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ ایک پہلو سے دیکھیں تو اختلافی امور اپنے اندر بہت سے افادی پہلو رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان قارئین سے ہماری یہ درخواست ہے کہ مذکورہ صورتِ حال میں مسائل کے جو نئے پہلو ان کے سامنے آئیں ان پر وہ سنجیدگی اور غیر جانبداری سے غور کریں۔ اپنی قائم شدہ آرا کو ازسرِ نو پرکھیں۔ اس تحقیق، تنقید اور تنقیح سے دو میں سے ایک نتیجہ ضرور نکلے گا۔ یا انھیں یہ احساس ہو جائے گا کہ جو نقطۂ نظر انھوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یا جس نقطۂ نظر کے وہ حامل ہیں اس کی صحت پر ان کا ایمان مزید مضبوط ہو جائے گا۔ یعنی دونوں صورتوں میں انھی کا فائدہ ہو گا۔
زندگی میں روز و شب بہت سے واقعات پیش آتے ہیں۔ یہ واقعات ہمارے لیے ایک تجربہ بن جاتے ہیں۔ ان واقعات کا مخصوص رنگ، ان کا نفسیاتی تاثر اور کسی حقیقت کی دریافت ایک لکھنے والے کو قلم اٹھانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ قلم اٹھاتا ہے اور اس طرح کے واقعات کو سادگی سے بیان کر دیتا ہے۔ ایک ایسے ہی واقعے کو ’’چیزیں اور جذبے‘‘ کے نام سے ایک افسانہ کے قالب میں لکھا گیا ہے۔ یہ افسانہ بھی ’’ادبیات‘‘ کے ذیل میں شاملِ اشاعت ہے۔
اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘ اور ’’یسئلون‘‘ کے سلسلے حسبِ روایت موجود ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــ