[ مولانا ذکوان ندوی صاحب کا یہ مضمون بھارت میں وطن سے تعلق پر موجود کشمکش کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ لیکن اس سے یہ اصولی بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وطن سے تعلق کے فطری حدود کیا ہیں اور کہاں وہ دین و ایمان کے بالمقابل آجاتا ہے۔ ادارہ]
(۱۵/ اگست ۲۰۲۳ء کے موقع پر ’کیمبرج انٹرنیشنل اسکول‘ (ای پی ایس)کے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے کیے گئے ایک خطاب کا خلاصہ افادۂ عام کے لیے یہاں نقل کیا جاتاہے۔مصنف)
عربی کا ایک مشہور قول ہے: ’حبّ الوطن من الإیمان‘ (حب الوطنی ایمان کا ایک لازمہ ہے)۔ علماے حدیث کے نزدیک ، یہ اگر چہ حدیث رسول نہیں، مگروہ حدیث فطرت ہے، یعنی یہ بالکل ایک فطری چیز ہے کہ آدمی اپنے اندر وطن سے محبت کے درجے کا جذباتی تعلق محسوس کرے۔
بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا حب الوطنی اور اُس کے اظہار کے لیے اختیار کیے جانے والے مختلف طریقے ، مثلاً قومی ترانہ گاتے وقت کھڑے ہونا، جیسی چیزیں شرک کا درجہ رکھتی ہیں؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ حب الوطنی ایک دوسری چیزہے اور وطن پرستی ایک بالکل دوسری چیز۔ دونوں کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔اگر ہم یہ فرق نہ کریں ، تو ہمیشہ اِسی قسم کا فکری التباس (کنفیوژن) پیش آئے گا۔وطن سے تعلق ایک فطری چیز ہے اور اِس تعلق کے اظہار کا طریقہ بھی بالکل فطری ہے۔ تاہم حب الوطنی یا وطن پرستی کا مطلب اگریہ ہو کہ وطن کو پرستش کا وہ درجہ دے دیا جائے جو صرف مالک کائنات کا حق ہے تو یقیناًکسی سچے مذہب کو ماننے والا ایک خداپرست انسان ایسا نہیں کرسکتاکہ وہ خدا کے سوا کسی اور چیز کوخدا کا درجہ دے دے۔ہمیشہ سے قائم خدا کا سچا اور ابدی دین (الدین القیّم) اِسی بات کی تعلیم دیتارہاہے کہ ہم اپنے ’’تمام دل اور اپنی تمام جان‘‘ سے صرف اور صرف اللہ پروردگار عالم سے محبت کریں اور اُسی کو اپنا الہٰ اور معبود تسلیم کریں۔
تاہم ،حب الوطنی یا وطن سے تعلق اور اِس تعلق کے اظہار کو شرک قرار دینا بالکل ایک خلاف فطرت طریقہ ہوگا۔اِس قسم کی موشگافی کے بجاے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دل ودماغ کا منصفانہ جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں انھوں نے اپنے مال واولاد، دنیا پرستی اور اپنی خواہشات کو اِس معبود کا درجہ تو نہیں دے رکھا ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو اطمینان رکھیں، ان شاء اللہ وطن سے تعلق اور اِس تعلق کے اظہار کے فطری طریقے کبھی آپ کے لیے وہ چیز نہیں بن سکتے جسے آپ بطور خود ’’ شرک‘‘ قراردے رہے ہیں۔
اِس طرح کے معاملات کو جائزاور ناجائز جیسا مذہبی موضوع بنانادرست نہیں ۔اِس ذہنیت کو اسلام میں ایک قسم کی مذہبی ’’دیوانگی‘‘ (madness)سے تعبیر کیا گیا ہے۔ہر چیز کو مخصوص قسم کے ’فقہی‘ اور قانونی نقطۂ نظر سے دیکھنا درست نہیں۔اِسی طرح ہر چیز کو دین اور شریعت کا ’’مسئلہ‘‘ اور فتوے کا موضوع بنانا بھی کوئی مطلوب طریقہ نہیں۔ آثار صحابہ اور ارشادات رسول کے مطابق،اِس طرح کی روش محض ایک قسم کی مذہبی دیوانگی کی حیثیت رکھتی ہے۔
اِس سلسلے میں سیدناعبداللہ بن مسعود رضی ا للہ عنہ (وفات:۳۲ ھ/ ۶۵۳ء) جیسے ایک جلیل القدر صحابی رسول جو ’علماے صحابہ‘ میں شامل ہیں، اُن کا ارشاد ہے: ’مَنْ أفتی الناسَ فيْ کُلِّ ما یسئلونه عنه، فھو مجنون‘ (طبرانی، رقم ۸۹۲۴)، یعنی جو شخص ہر معاملے میں مو شگافی اور فتویٰ طرازی کا طریقہ اختیار کرے تویہ عقل مندی نہیں، بلکہ صرف دیوانگی کا ایک طریقہ ہوگا۔
حب الوطنی بالکل ایک فطری چیز ہے۔چنانچہ واقعات سیرت سے معلوم ہوتاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکل رہے تھے توآپ بار بار حسرت ناک انداز میں مکہ کی طرف مڑ مڑ کر دیکھتے اور فرما تے: ’وَاللّٰهِ، إِنَّكِ لَخَیرُ أَرْضِ اللّٰهِ، وَأحَبُّ البلادِِ إِلَی اللّٰهِ، وَلَوْلَا أنِّي ما أخْرِجْتُ مِنْكِ، مَا خَرَجْتُ‘ (ترمذی، رقم ۳۹۲۵)،یعنی اے مکہ، خدا کی قسم، بے شک تواللہ کی سب سے بہترین سرزمین اور اللہ کے ہاں ایک محبوب ترین مقام ہے۔ اگر تیری قوم مجھے یہاں سے نکل جانے پر مجبور نہ کرتی تو میں ہرگز کبھی نکلنے والا نہیں تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس واقعے کو عموماً لوگوں نے ’’فضیلت ِ مکہ‘‘ کے ہم معنی سمجھا ہے، مگریہ درست نہیں، مکہ مکرمہ کی فضیلت اور اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، مگر یہ واقعہ اپنے وطن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فطری اور جذباتی تعلق کو بتارہاہے۔
حب الوطنی کا یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ ہم ملکی قوانین کی پاس داری اور اپنے حکمرانوں کا احترام کریں اور اِسی کے ساتھ اُن کی راست روی کے لیے بھی مسلسل دعا گو رہیں۔ایک سچے محب وطن ہونے کی بناپر ضروری ہے کہ ہم ملک کے لیے اپنا مثبت ، تعمیری اور ہمہ جہتی کنٹری بیوشن دیں۔ ہم ملک کی ترقی، خوش حالی اور بقا و استحکام کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں ۔ملک کے لیے ہمارے جذبات واحساسات وہی ہوں، جسے ’’ترانۂ ہندی‘‘ (سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا)کے خالق علامہ اقبال نے اپنے اِن لافانی الفاظ میں بیان کیا تھا:
ہو مرے دم سے یوں ہی، میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے ، چمن کی زینت!
(۲۳/ اگست ۲۰۲۳ء)
ـــــــــــــــــــــــــ