HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۶)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]


حضرت عثمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہ ، نُبیہ بن عثمان رضی اللہ عنہ

نسب نامہ

حضرت عثمان بن ربیعہ قریش کی شاخ بنو جمح سے تعلق رکھتے تھے۔ اہبان ( و ہبان : ابن حزم ) بن وہب ان کے دادا اور حذافہ بن جمح سکڑ دادا تھے۔ حذافہ بن جمع کے پڑ پوتے معمر بن حبیب زمانہ جاہلیت میں اپنے قبیلے میں اہم مرتبہ رکھتے تھے۔ عام الفیل کے بیس برس بعد ہونے والی چوتھی جنگ فجار ( یا فجار اکبر ) میں داد شجاعت دیتے ہوئے انھوں نے جان دی۔ اس جنگ میں قریش اور اس کے اتحادیوں کو فتح حاصل ہوئی۔

قبولیت اسلام

حضرت عثمان بن ربیعہ دعوت اسلامی پر لبیک کہنے والے اولیں اصحاب میں شامل تھے۔

ہجرت حبشہ

وادی بطحا میں اسلام کا سورج طلوع ہوا تو ایمان لانے والے کم زور مسلمانوں پر ظلم و ستم کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ حضرت عثمان بن ربیعہ کے قبیلے بنو جمع کا امیہ بن خلف جو زمانہ جاہلیت میں حاجیوں کو کھانا کھلایا کرتا تھا، مستضعفین پر تشدد کرنے میں بازی لے گیا، اس کا خاص نشانہ اس کے اپنے غلام حضرت بلال حبشی تھے۔ ان حالات میں اہل ایمان کے لیے مکہ میں زندگی بسر کر نادشوار ہو گیا تھا۔ چنانچہ رجب ۵ار نبوی میں صحابہ کا ایک چھوٹا قافلہ حبشہ روانہ ہوا، اس کے بعد اسی سال شوال کے مہینے میں ایک بڑے قافلے نے حبشہ ہجرت کی۔ ابن الحق کہتے ہیں : حضرت عثمان بن ربیعہ حبشہ کی ہجرت ثانیہ کا حصہ تھے۔ بنو جمع کے حضرت قدامہ بن مظعون، حضرت عبد اللہ بن مظعون، حضرت سائب بن عثمان، حضرت حاطب بن حارث، حضرت فاطمہ بنت مجلل، حضرت حارث بن حاطب ، حطاب بن حارث، حضرت فکیہہ بنت بیسار ، حضرت سفیان بن معمر ، حضرت حسنہ ، حضرت جابر بن سفیان اور حضرت جنادہ بن سفیان بھی شریک ہجرت تھے۔

واقدی کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان بن ربیعہ کے بجائے ان کے بیٹے حضرت نبیہ بن عثمان نے حبشہ ہجرت کی۔ بلاذری کی راے بھی یہی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ اور ابو معشر نے باپ بیٹا، دونوں کو مہاجرین حبشہ میں شمار نہیں کیا، جب کہ ابن جوزی نے ان دونوں کے نام مہاجرین کی فہرست میں شامل کیے ہیں۔ ابن کثیر نے ابن الحلق کی طرح حضرت نبیہ بن عثمان کا ذکر نہیں کیا۔

وفات

حضرت جعفر بن ابو طالب ۷ھ میں حبشہ میں رہ جانے والے باقی مہاجرین کو دو کشتیوں پر سوار کر کے مدینہ لائے۔ ابن اسحق نے حضرت عثمان بن ربیعہ کو ان کا ہم سفر بتایا ہے ، انھوں نے ان کی وفات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ بلاذری کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن ربیعہ کے بجاے حضرت نبیہ بن عثمان حضرت جعفر بن ابو طالب کے ساتھ حبشہ سے کشتی پر سوار ہوئے، لیکن دوران سفر میں سمندر ہی میں ان کی وفات ہو گئی۔

بقیہ زندگی

حضرت عثمان بن ربیعہ کی باقی زندگی کی تفصیل اور اق تاریخ میں جگہ نہیں پاسکی۔

مطالعۂ مزيد : السيرة النبويۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر )، انساب الاشراف ( بلاذری)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثير)، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ (ابن حجر)۔

________


حضرت نعمان بن عدی رضی اللہ عنہ

قبیلہ اور خاندان

حضرت نعمان بن عدی مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا کا نام نضلہ (شاذروایت : فضیلہ ) بن عبد العزی تھا۔ عوج بن عدی ساتویں اور بانی قبیلہ عدی بن کعب آٹھویں جد تھے۔ بنو عدی قریش کی شاخ تھی، اس لیے حضرت نعمان عددی، قرشی کہلاتے ہیں۔ بنو عدی بنو ہاشم اور بنوامیہ جیسا مر تبہ نہ رکھتے تھے، لیکن جب ان میں علم و حکمت کا چرچا ہوا تو قریش کے قبائلی اور حربی تنازعات نمٹانے کی ذمہ داری انھیں سونپی گئی، اسے سفارت مفاخرت کہا جاتا تھا۔ حضرت عمر جو بنو عدی کے اہم فرد تھے ، اس منصب پر فائز رہے۔

بنو خزاعہ کے نعحہ بن خویلد ( بعجہ بنت امیہ بنت خویلد : مصعب زبیری) کی بیٹی حضرت نعمان کی والدہ تھیں۔ ابن سعد کے بیان کے مطابق نعیم اور آمنہ حضرت نعمان کے بھائی اور بہن تھے، جب کہ مصعب زبیری اور ابن حزم ان کا ایک ہی بھائی امیہ بتاتے ہیں۔

قبول اسلام

ہجرت حبشہ کے وقت حضرت نعمان بن عدی کی عمر زیادہ نہ تھی۔ ان کے حالات زندگی سے پتا چلتا ہے کہ ان کی شادی بھی حبشہ سے واپسی کے بعد ہوئی۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ایمان لائے۔

حبشہ کی ہجرت ثانیہ

حضرت نعمان اپنے والد حضرت عدی بن نضلہ کے ساتھ حبشہ کی ہجرت ثانیہ میں شریک ہوئے۔ بنو عدی کے حضرت معمر بن عبد اللہ اور حضرت عروہ بن ابو اثاثہ بھی ان کے ہم سفر تھے۔ ابن اسحق اور ان کے متبعین نے حضرت نعمان بن عدی کو مہاجرین حبشہ میں شمار کیا ہے ، جب کہ ابن سعد نے ان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے ان کی ہجرت کا ذکر نہیں کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ طبقات سے استفادہ کرنے والے ابن جوزی نے مہاجرین حبشہ کی فہرست میں حضرت نعمان بن عدی کا نام شامل نہیں کیا۔

عہد اسلامی کا پہلا وارث

حضرت نعمان بن عدی عہد اسلامی کے پہلے فرد تھے، جنھوں نے اسلامی اصولوں کے مطابق اپنے والد حضرت عدی بن نضلہ سے وراثت پائی۔ بلاذری کہتے ہیں کہ حضرت عدی کے دوسرے بیٹے حضرت امیہ بھی شریک وراثت تھے۔ ابن سعد نے حضرت عدی بن نضلہ کی تین اولادوں حضرت نعمان، حضرت نعیم اور حضرت آمنہ کا ذکر کیا اور صرف حضرت نعمان بن عدی کا وارث ہونا بتایا ہے۔ ایک شاذ روایت کے مطابق حضرت عمرو بن اثاثہ ( حضرت عروہ بن ابو اثاثہ ) دور اسلامی کے پہلے فرد تھے جن کی وراثت منتقل ہوئی، حالاں کہ ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔

حبشہ سے مراجعت

ابن اسحٰق کے بیان کے مطابق حضرت نعمان بن عدی جنگ بدر (۲ھ) کے بعد اور حضرت جعفر بن ابو طالب کے قافلہ کی آمد (۷ھ) سے پہلے کسی وقت مدینہ پہنچے۔ وہ بنو عدی کے واحد فرد تھے جو مدینہ لوٹے، ان کے والد ضرت عدی بن نضلہ اور رشتے میں چچا حضرت عروہ بن ابو اثاثہ حبشہ میں وفات پاچکے تھے۔

ازدواج و اولاد

اپنے والد کی وفات کے بعد حضرت نعمان بن عدی بنو عدی کے حضرت نعیم بن عبد اللہ نام کی پرورش میں رہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر نے حضرت نعیم بن عبد اللہ سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو انھوں نے کہا: میں اپنا ماس خون یوں ہی ضائع نہیں ہونے دوں گا۔ میرا ایک ناتواں بھتیجا ہے، اسے کوئی اپنی بیٹی نہیں دیتا، حالاں کہ بچی کی ماں حضرت عاتکہ بنت حذیفہ حضرت عبداللہ بن عمر سے نسبت کرنا چاہتی تھیں، مگر حضرت نعیم نحام نے اپنی پرورش میں رہنے والے یتیم حضرت نعمان بن عدی سے اپنی بیٹی بیاہ دی۔

مصعب زبیری کہتے ہیں کہ حضرت نعمان بن عدی کے ہاں عبد الملک، صالح اور عاتکہ کی ولادت ہوئی۔ عاتکہ کا بیاہ عبد العزیز بن حارث سے ہوا اور محمد نے جنم لیا۔ زبیری، ابن سعد اور ابن حزم کہتے ہیں : حضرت نعمان بن عدی کی اولاد زندہ نہ رہی۔

عہد فاروقی کی گورنری

خلیفۂ دوم حضرت عمر بن خطاب نے اپنے قبیلے بنو عدی کے کسی شخص کو کوئی عہدہ نہ دیا۔ حضرت نعمان بن عدی فرد واحد تھے جنھیں ان کی صلاحیتوں کی بنا پر انھوں نے بصرہ اور واسط کے درمیان، موجودہ ایران کی سرحد پر واقع عراقی صوبے میسان کا گورنر مقرر کیا۔ حضرت نعمان نے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے جانا چاہا۔ وہ نہ مانیں تو انھوں نے بے شمار اشعار لکھ کر انھیں بھیجے ، ان میں یہ بھی تھے :

فَمَن مُبْلِغُ الحَسْنَاءِ أَنَّ حَلِيلَهَا

بِمَيْسَانَ يُسْقَى فِي زُجَاجٍ وَحَنْتَم

’’موہنی حسینہ کو کون بتائے گا کہ میسان میں اس کے شوہر کو زمردیں صراحی سے بلوری جام بھر کر شراب پلائی جاتی ہے۔“

إِذَا شِئْتُ غَنَّتْنِي دَهَاقِينُ قَرْيَةٍ

وَصَنَّاجَةٌ تَحْدُو عَلَى كُلِّ مَيْسَمِ

’’جب میرا من کرتا ہے، بستی کے دہقان مجھے نغمے سناتے ہیں اور جھانجنوں والی رقاصہ ہر بلند راہ پر اونچی لے میں گیت گاتی ہے۔“

إِذَا كُنْتَ نَدْمَانِي فَبِالأَكْبَرِ اسْقِنِي

وَلا تَسْقِنِي بِالْأَصْغَرِ المُتَثَلِمِ

’’اگر تو بادہ خواری میں میرا ندیم ہے تو مجھ کو بڑے جام سے پلانا اور ٹوٹے دندانوں والے چھوٹے پیالے سے نہ پلا دینا۔“

لَعَلَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَسُوءُهُ

تَنَادُمُنَا فِي الجَوْسَقِ المُتَهَدِّمِ

’’شاید امیر المومنین کو اس شکستہ محل میں ہمارا مے کشی کی محفل سجانا برا لگے۔“

ابن اسحٰق اور ابن سعد نے پہلے دو شعر اس طرح لکھے ہیں :

أَلَا هَلْ أَتَى الحَسْنَاءِ أَنَّ حَلِيلَهَا

بِمَيْسَانَ يُسْقَى فِي زُجَاجٍ وَحَنْتَم

إِذَا شِئْتُ غَنَّتْنِي دَهَاقِينُ قَرْيَةٍ

وَرَقَاصَةً تَجْلُو عَلَى كُلِّ مَنْسِمٍ

بلاذری نے پہلے شعر میں ’فَمَن مُبْلِغ‘ کے بجاے ’أَلا أَبْلِغ‘ اور دوسرے شعر میں ’میسم‘ کی جگہ ’منسم‘ (راه: لسان العرب) نقل کیا۔ کسی لغت میں ’میسم‘ کا لفظ موجود ہی نہیں، اس کے بجائے میسم ہے، جس کے معنی ہیں: داغ لگانے کا آلہ ، حدیث میں ہے: ’وفي يده ميسم يسم إبل الصدقة‘ (رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں داغ لگانے والا آلہ تھا، جس سے آپ زکوۃ کے اونٹوں کو داغ رہے تھے ) ( بخاری، رقم ۱۵۰۲۔ السنن الکبری، بیہقی، در قم ۱۳۲۵۵)، حسن و جمال، حریری نے ’میسم‘ سے چہرہ مراد لیا ہے۔ ایک غیر مشہور روایت سے جسے ابن اثیر نے نقل کیا ہے ، عضو کے معنی اخذ کیے گئے ہیں۔ ’علی کل میسم من الانسان صدقة‘ (انسان کے ہر عضو پر صدقہ لازم آتا ہے) (النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر ۱۸۶/۵)۔ یہ تمام معنی اس شعر میں کسی طرح درست نہیں بیٹھتے، اس لیے ہم نے ابن اسحق ، ابن سعد ، مصعب زبیری اور بلاذری کا بیان کردہ ’منْسِم‘ اختیار کر کے ترجمہ کر دیا ہے۔

معزولی

حضرت عمر کے پوتے سالم بن عبد اللہ یہ اشعار گنگناتے رہے ، حضرت عمر کو پتا چلا تو کہا: مجھے یہ اچھے نہیں لگے اور حضرت نعمان کو یہ خط لکھا: ’بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: حُمْ. تَنْزِيلُ الْكِتُبِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ‘، ’’’حٰمٓ ‘، اس کتاب کا اتارا جانا اللہ کی جانب سے ہے جو زبردست، سب کچھ جاننے والا، گناہ معاف کرنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور بڑی قدرت رکھنے والا ہے “ (المومن ( ۱:۴۰-۳)۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے کہا: ہو سکتا ہے، امیر المومنین کو یہ شعر برے لگیں۔ واللہ ، واقعی مجھے یہ برے لگے ہیں۔ پھر انھوں نے حضرت نعمان کی معزولی کا فرمان جاری کر دیا۔

حضرت نعمان نے مدینہ پہنچ کر عذر پیش کیا : امیر المومنین ، واللہ، میں نے شراب پی ہے، نہ مے کشی کی کوئی محفل سجائی ہے۔ میں تو شاعر ہوں، ایک خیال سوچا اور دوسرے شاعروں کی طرح نظم کر دیا۔ حضرت عمر نے کہا: میں سمجھتا ہوں، تم سچ کہہ رہے ہو، لیکن واللہ اب تم کبھی بھی میرے عامل نہیں بنو گے، میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ حضرت نعمان بن عدی فصیح تھے ۔ اہل لغت نے ان کے شعر ’إِذَا كُنْتَ نَدْمَانِي‘ سے استشہاد کیا ہے اور ندمان کو ندیم کے معنوں میں لیا ہے۔

وفات

معزولی کے بعد حضرت نعمان بن عدی بصرہ میں رہے اور تمام معرکوں میں اسلامی افواج میں شامل رہے۔ انھوں نے ۳۰ھ (۶۵۰ء) میں بصرہ میں وفات پائی۔

مطالعۂ مزيد : السيرة النبويۃ ( ابن الحق)، السيرة النبويۃ ( ابن ہشام)، الطبقات الكبرىٰ ( ابن سعد )، نسب قریش (مصعب زبیری)، جمہرة انساب العرب ( ابن حزم ) ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر ) ، انساب الاشراف (بلاذری)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم ( ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر )، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ( ابن حجر )۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B