سورۂ احزاب کی آیت اور اس موضوع سے متعلق احادیث کی روشنی میں جمہور مفسرین ومحدثین اور فقہا کا اس پر ایک عمومی اتفاق ہے کہ اس ہدایت کے نازل ہونے کے بعد اجنبی مردوں کے لیے ازواج مطہرات کے روبرو ہو کر ان سے بات کرنا ممنوع ٹھیرایا گیا تھا۔ بدیہی طور پر اس میں یہ بھی مضمر تھا کہ غیر محرموں کے لیے ازواج کے چہروں کو دیکھنا ممنوع ہے۔ ظاہر ہے، جب ازواج سے روبرو بات کرنے کو ممنوع ٹھیرایا گیا تو ان کے چہروں کو دیکھنے کی ممانعت خود بخود اس ہدایت میں شامل تھی۔ البتہ چہرے کو غیر محرموں سے چھپا کر رکھنے کی پابندی ضمناً تھی، جب کہ اصل ہدایت اس سے آگے بڑھ کر یہ تھی کہ اجنبی مرد بات کرتے ہوئے ازواج کے سامنے بھی نہ ہوں، بلکہ پردے کے پیچھے سے گفتگو کریں۔ چنانچہ جمہور فقہا، محدثین اور مفسرین حکم کے ان دونوں پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ غیر محرموں کے روبرو ہونے اور ان سے اپنے چہروں کو چھپا کر رکھنے کا حکم امہات المومنین کے لیے ایک خصوصی پابندی تھی جو عام مسلمان خواتین پر لازم نہیں کی گئی تھی۔
اس ضمن کی چند منتخب تصریحات یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔
جلیل القدر تابعی امام ابراہیم نخعی (وفات ۹۶ھ) ’اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أبیح للناس أن ینظروا إلی ما لیس بمحرم علیھم من النساء إلی وجوھھن واکفھن، وحرم ذالک علیھم من أزواج النبي صلی اللّٰه علیه وسلم لما نزلت آیة الحجاب ففضلن بذالک علی سائر الناس. (شرح معانی الآثار ۴ / ۳۳۲)
’’عام لوگوں کے لیے اس کو مباح رکھا گیا ہے کہ وہ غیر محرم خواتین کے چہروں اور ہاتھوں کو دیکھ سکتے ہیں، لیکن جب آیت حجاب نازل ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے باب میں اس کو لوگوں پر حرام ٹھیرا دیا گیا۔ یوں ازواج مطہرات کو باقی تمام لوگوں پر ایک فضیلت عطا کر دی گئی۔“
جلیل القدر تابعی مجاہد (وفات ۱۰۴ھ) سے مروی ہے:
عن مجاهد في قوله ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا﴾ قال: أزواج النبي علیھن الحجاب. (الدر المنثور ج ۱۲/ ۱۱۰)
”مجاہد نے ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا‘ کی تفسیر میں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب لازم ہے۔“
تیسری صدی کے ممتاز ادیب اور عالم، ابو عثمان الجاحظ (وفات ۲۵۵ھ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے خاص معاملے کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
فلم يزل الرجال يتحدثون مع النساء في الجاهلية والإسلام، حتَّى ضرب الحجاب على أزواج النبيّ ﷺ خاصَّة. (رسائل الجاحظ ۲ / ۱۴۹)
’’مرد، زمانۂ جاہلیت اور اسلام، دونوں میں خواتین کے ساتھ بات چیت کرتے رہے ہیں، یہاں تک کہ خاص طور پر صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب کو لازم کر دیا گیا۔“
مالکی فقیہ، قاضی بکر بن العلاء (وفات ۳۴۴ھ) فرماتے ہیں:
قال بكر: ولما أنزل اللّٰه في أمهات المؤمنين: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾، فكُنّ لا يجوز للناس كلامُهن إلا من وراء حجاب، خصصن بذالك دون سائرَ الناس من النساء، ولا يجوز أن يرَوْنَهن منتقبات ولا مُنتشِرات.(احکام القرآن، بکر بن العلاء ۲ / ۳۱۸)
’’جب اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کے متعلق یہ آیت نازل فرما دی کہ ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘تو لوگوں کے لیے ان کےساتھ کلام کرنا جائز نہ رہا، الاّ یہ کہ وہ پردے کے پیچھے رہ کر بات کریں۔ یہ پابندی باقی تمام خواتین کو چھوڑ کر خاص طور پر صرف ازواج مطہرات پر لازم کی گئی اور لوگوں کے لیے جائز نہ رہا کہ وہ انھیں دیکھیں، چاہے انھوں نے چہرے پر نقاب کی ہو یا ان کے چہرے کھلے ہوں۔“
امام بغوی (وفات ۵۱۶ھ) لکھتےہیں:
فبعد آية الحجاب لم يكن لأحد أن ينظر إلى امرأة من نساء رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم منتقبة كانت أو غير منتقبة. (تفسیر البغوی ۳ / ۶۵۷)
’’آیت حجاب کے بعد کسی کے لیے یہ جائز نہ رہا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے کسی کو بھی دیکھے، چاہے انھوں نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی ہو یا نہ ڈالی ہو۔“
اندلس کے مالکی عالم، قاضی ابن الفرس (وفات ۵۹۹ھ) لکھتے ہیں:
قال بعضهم لما أنزل اللّٰه تعالى في أمهات المؤمنين: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾ خصصن بذالك دون سائر الناس. ولا يجوز أن يرون منتقبات. وكن إذا طفن بالبيت يستترن من الناس فلا يشاركن في الطواف. وأمر عمر أن لا يخرج في جنازة زينب بنت جحش إلا ذو محرم مراعاة للحجاب.(احکام القرآن، ابن الفرس ۳ / ۴۳۹)
’’بعض اہل علم نے کہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کے متعلق یہ آیت نازل فرما دی کہ ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘تو یہ پابندی باقی تمام خواتین کو چھوڑ کر خاص طور پر صرف ازواج مطہرات پر لازم کی گئی اور لوگوں کے لیے جائز نہ رہا کہ وہ انھیں دیکھیں، چاہے ان کے چہرے پر نقاب ہو۔ چنانچہ ازواج مطہرات جب بیت اللہ کا طواف کرتی تھیں تو لوگوں سے چھپ کر کرتی تھیں اور لوگوں کے ساتھ طواف میں شریک نہیں ہوتی تھیں۔ سیدنا عمر نے اسی لیے،حجاب کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ سیدہ زینب بنت جحش کے جنازے میں صرف ان کے محرم مرد نکلیں۔“
مفسر ابن جزی (وفات ۷۴۱ھ) اس نقطۂ نظر کے استدلال کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهذه الآية نزلت في احتجاب أزواج النبي ﷺ ... قال بعضهم لما نزلت في أمهات المؤمنين ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾ كن لا يجوز للناس كلامهن إلا من وراء حجاب، ولا يجوز أن يراهن متنقبات ولا غير متنقبات، فخصصن بذلك دون سائر النساء. (تفسیر ابن جزی ۲ / ۱۵۷)
’’یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے حجاب کے سلسلے میں نازل ہوئی۔ بعض اہل علم نے کہا کہ جب امہات المومنین کے متعلق یہ ہدایت نازل ہو گئی کہ تمھیں جب ان سے کوئی چیز مانگنی ہو تو حجاب کے پیچھے سے مانگا کرو تو اس کے بعد لوگوں کے لیے ان کے ساتھ حجاب کے بغیر کلام کرنا جائز نہ رہا۔ اسی طرح ان کو نقاب کی حالت میں یا بغیر نقاب کے دیکھنا بھی جائز نہ رہا اور باقی تمام خواتین کو چھوڑ کر خاص طور پر ازواج مطہرات کے لیے یہ پابندی لازم کر دی گئی۔ “
شاہ عبد القادر دہلوی (وفات ۱۲۳۰ھ) فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں حکم ہوا پردے کا کہ مرد، حضرت کے ازواج کے سامنے نہ جاویں۔ سب مسلمانوں کی عورتوں پر یہ حکم واجب نہیں۔ اگر عورت سامنے ہو کسی مرد کے، سب بدن کپڑوں میں ڈھکا تو گناہ نہیں اور اگر نہ سامنے ہو تو بہتر ہے۔‘‘ (موضح قرآن ۵۵۲)
نواب صدیق حسن خان (وفات ۱۳۰۷ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
(فَسْـَٔلُوْهُنَّ) المتاع (مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ) أي من وراء ستر بينكم وبينهن فبعد آية الحجاب لم يكن لأحد أن ينظر إلى امرأة من نساء رسول اللّٰه (صلى اللّٰه عليه وسلم) متنقبة كانت أو غير متنقبة ..... (وما كان) أي ما صح ولا استقام (لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللّٰهِ) بشيء من الأشياء كائنًا ما كان ومن جملة ذالك دخول بيوته بغير إذن منه، واللبث فيها على غير الوجه الذي يريده، وتكليم نسائه من دون حجاب.(فتح البیان فی مقاصد القرآن ۱۱ / ۱۳۰)
’’ان سے حجاب کے پیچھے سے مطلوبہ چیزیں طلب کیا کرو، یعنی تمھارے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہونا چاہیے۔ چنانچہ آیت حجاب کے بعد کسی کے لیے جائز نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے کسی کو دیکھ سکے، چاہے وہ نقاب میں ہوں یا نقاب کے بغیر ہوں۔ (آگے فرمایا کہ) تمھارےلیے اللہ کے رسول کو کسی بھی طریقے سے اذیت پہنچانا روا نہیں جس کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ آپ کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہوا جائے اور آپ کی منشا کے خلاف وہاں ٹھیرا جائے اور حجاب کے بغیر آپ کی ازواج سے بات چیت کی جائے۔“
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
﴿واتقين اللّٰه﴾ فِي كل الْأُمُور الَّتِي من جُمْلَتهَا الحجاب، قَالَ ابْن عَبَّاس: نزلت هَذِه فِي نسَاء النَّبِي خَاصَّة يَعْنِي وجوب الاحتجاب عَلَيْهِنَّ لَا على سَائِر نسَاء الْأمة فَإِن الحجاب فِي حقهن مُسْتَحبّ لَا وَاجِب وَلَا فرض. (حسن الاسوۃ بما ثبت من اللہ ورسولہ فی النسوۃ ۱/ ۲۰۵)
’’(اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی کی بیویو)، تمام معاملات میں اللہ سے ڈرو جن میں سے ایک معاملہ حجاب کا بھی ہے۔ ابن عباس نے کہا کہ یہ حکم خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق نازل ہوا ہے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ آپ کی ازواج پر حجاب واجب تھا، جب کہ امت کی باقی خواتین کا حکم یہ نہیں، کیونکہ ان کے حق میں حجاب صرف پسندیدہ ہے، نہ واجب ہے اور نہ فرض۔“
محدثین کے ہاں حجاب کے حکم کی خصوصی نوعیت متعدد احادیث کی تشریح وتوضیح کے ذیل میں زیر بحث آتی ہے، جن میں ازواج مطہرات پر حجاب لازم کیے جانے کا ذکر ہوا ہے یا اس کے برعکس عام خواتین کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ وہ حالت حجاب میں نہیں تھیں۔
اس نوعیت کی چند اہم تصریحات یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔
امام بیہقی نے ایک حدیث کی تشریح امام شافعی (وفات ۲۰۴ھ)سے یوں نقل کی ہے:
عظم اللّٰه به أزواج النبي ﷺ امهات المومنین رحمهن اللّٰه وخصهن به وفرق بینهن وبین النساء إن اتقین ثم تلا الآیات في اختصاصهن بأن جعل علیهن الحجاب من المومنین وهن أمهات المومنین ولم یجعل علی امرأة سواهن أن تحتجب ممن یحرم علیه نکاحها.(بیہقی، السنن الکبریٰ ۲۱/۴۷۴)
’’اللہ تعالیٰ نے اس حکم کے ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور امہات المومنین کی تعظیم کا حکم دیا ہے اور ان میں اور عام خواتین میں فرق کرتے ہوئے خاص طور پر امہات المومنین کے لیے حجاب کا حکم دیا ہے۔ امام شافعی نے امہات المومنین کے خصوصی احکام سے متعلق آیات نقل کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ اللہ نے ازواج پر اہل ایمان سے حجاب میں رہنے کو لازم کیا ہے، حالاں کہ ان کا درجہ امہات المومنین کا ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور عورت پر اللہ نے لازم نہیں کیا کہ وہ غیر محرم مردوں سے حجاب میں رہے۔“
امام ابوجعفر الطحاوی (وفات ۳۲۱ھ) ایک حدیث کا محل واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ أَرَادَ بِذَالِكَ حِجَابَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنَّهُنَّ قَدْ كُنَّ حُجِبْنَ عَنِ النَّاسِ جَمِيعًا إِلَّا مَنْ كَانَ مِنْهُمْ ذُو رَحِمٍ مَحْرَمٍ. فَكَانَ لَا يَجُوزُ لِأَحَدٍ أَنْ يَرَاهُنَّ أَصْلًا إِلَّا مَنْ كَانَ بَيْنَهُنَّ وَبَيْنَهُ رَحِمٌ مَحْرَمٌ وَغَيْرُهُنَّ مِنَ النِّسَاءِ لَسْنَ كَذَالِكَ لِأَنَّهُ لَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ الرَّجُلُ مِنَ الْمَرْأَةِ الَّتِي لَا رَحِمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا وَلَيْسَتْ عَلَيْهِ بِمَحْرَمَةٍ إِلَى وَجْهِهَا وَكَفَّيْهَا. (شرح معانی الآثار ۴ / ۳۳۲)
’’ممکن ہے کہ اس سے حجاب کا وہ حکم مراد ہو جو امہات المومنین کے لیے تھا، کیونکہ ان کو محرم رشتہ داروں کے علاوہ تمام لوگوں سے حجاب میں رہنے کا پابند کیا گیا تھا۔ چنانچہ کسی کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں ان کو دیکھ سکے، سواے ان کے جو ان کے محرم رشتہ دار ہوں، جب کہ ان کے علاوہ عام خواتین کا معاملہ یہ نہیں ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ آدمی کسی غیر محرم عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھ لے۔“
قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَكُنَّ أُمَّهَاتُ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ خُصِصْنَ بِالْحِجَابِ مَا لَمْ يُجْعَلْ فِيهِ سَائِرُ النَّاسِ مِثْلَهُنَّ. (شرح معانی الآثار ۴ / ۳۳۴)
’’امہات المومنین پر خاص طور پر حجاب کی پابندی لازم کی گئی، جس میں باقی تمام عورتیں ان کے مانند نہیں ہیں۔“
صحیح بخاری کے شارح، علامہ ابن بطال (وفات ۴۴۹ھ) لکھتے ہیں:
وفيه: أن نساء المؤمنين ليس لزوم الحجاب لهم فرضًا في كل حال كلزومه لأزواج النبي، ولو لزم جميع النساء فرضًا لأمر النبي الخثعمية بالاستتار، ولما صرف وجه الفضل عن وجهها، بل كان يأمره بصرف بصره، ويعلمه أن ذالك فرضه، فصرف وجهه﵇ وقت خوف الفتنة وتركه قبل ذالك الوقت. وهذا الحديث يدل أن ستر المؤمنات وجوههن عن غير ذوى محارمهن سنة، لإجماعهم أن المرأة أن تبدي وجهها في الصلاة، ويراه منها الغرباء، وأن قوله: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾ على الفرض في غير الوجه، وأن غض البصر عن جميع المحرمات وكل ما يخشى منه الفتنة واجب. (ابن بطال، شرح صحیح البخاری ۹ / ۱۱)
’’اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عام مسلمان خواتین پر حجاب ہر ہر حالت میں فرض نہیں ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر تھا۔ اگر سب خواتین پر حجاب فرض ہوتا تو آپ بنو خثعم کی خاتون کو اپنا چہرہ چھپانے کی ہدایت فرماتے اور صرف فضل بن عباس کے چہرے کو اس خاتون کے چہرے کی طرف سے نہ پھیرتے۔ آپ نے خاتون کو چہرہ چھپانے کے بجاے فضل سے کہا کہ وہ اپنی نگاہ دوسری طرف کر لیں اور ان کو بتایا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے (نہ کہ خاتون کی ذمہ داری)۔ چنانچہ آپ نے فضل کا چہرہ اسی وقت پھیرا جب فتنے کا خوف محسوس کیا، جب کہ اس سے پہلے ایسا نہیں کیا۔ یہ حدیث اس پر بھی دلالت کرتی ہےکہ مومن عورتوں کے لیے غیر محرموں سے اپنے چہرے کو چھپانا (فرض نہیں، بلکہ) سنت ہے، کیونکہ فقہا کا اس پر اجماع ہے کہ عورت نماز میں اپنے چہرے کو ننگا رکھے گی اور غیر محرم بھی اس کو اس حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد ’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ‘سے مراد یہ ہے کہ چہرے کے علاوہ باقی جسم سے نگاہوں کو نیچا رکھنا فرض ہے اور یہ کہ تمام حرام چیزوں اور ہر ایسی چیز سے نگاہ کو نیچا رکھنا واجب ہے جس میں فتنے کا خوف ہو۔“
ایک اور حدیث کے ذیل میں ابن بطال لکھتے ہیں:
وفيه: أن الحجاب ليس بفرض على نساء المؤمنين، وإنما هو خاص لأزواج النبي، كذالك ذكره اللّٰه في كتابه بقوله: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾.(ابن بطال، شرح صحیح البخاری ۶ / ۳۵)
’’اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عام مسلمان خواتین پر حجاب فرض نہیں ہے، بلکہ یہ پابندی صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس آیت میں یہی بات بیان فرمائی ہے کہ ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘۔“
ابن بطال، امام طبری سے نقل کرتے ہیں :
قال الطبري: في حديث عائشة فرض الحجاب على أزواج النبي﵇ لقول عمر للنبي (أحجب نساءك) وقال في حديث آخر: (يا رسول اللّٰه، لو حجبت أمهات المؤمنين فإنه يدخل عليهن البر والفاجر. فنزلت آيه الحجاب). قال غيره: ويدل على صحة ذالك قول الفقهاء أن إحرام المرأة في وجهها كفيها، وإجماعهم أن لها أن تبرز وجهها للأشهاد عليها، ولايجوز ذالك في أمهات المؤمنين. وقد اختلف السلف في تأويل قوله تعالىٰ: ﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾ .... والظاهر واللّٰه أعلم يدل على أنه الوجه والكفان، لأن المرأة يجب عليها أن تستر في الصلاة كل موضع منها إلا وجهها وكفيها، وفي ذالك دليل أن الوجه والكفين يجوز للغرباء أن يروه من المرأة. (شرح صحیح البخاری ۹ / ۲۰)
’’طبری کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب فرض کیا گیا تھا، کیونکہ سیدنا عمر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اپنی بیویوں کو حجاب میں رکھیے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ، اگر آپ امہات المومنین کو حجاب میں رکھیں تو بہتر ہوگا، کیونکہ آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ اس پر حجاب کی آیت نازل ہوئی۔ اس کی وضاحت فقہا کے اس قول سے ہوتی ہے کہ عورت کا احرام اس کے چہرے اور ہاتھوں میں ہے، (یعنی ان کو ننگا رکھنا حالت احرام میں اس پر لازم ہے)۔ اسی طرح فقہا کا اجماع ہے کہ عام خواتین کے لیے گواہی سے متعلق معاملات میں اپنے چہرے کو ننگا کرنا جائز ہے، جب کہ امہات المومنین کے معاملے میں یہ جائز نہیں تھا۔ علماے سلف کا اس آیت کی تفسیر میں اختلاف ہے کہ ’وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘۔ آیت اپنے ظاہر کے لحاظ سے دلالت کرتی ہے کہ ظاہری زینت سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں، کیونکہ عورت کے لیے نماز میں اپنے پورے جسم کو چھپانا فرض ہے، سواے چہرے اور ہاتھوں کے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو غیر محرم دیکھ سکتے ہیں۔“
جلیل القدر مالکی عالم قاضی عیاض (وفات ۵۴۴ھ) نے بھی اس نکتے کی وضاحت متعدد مقامات پر کی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وفيه دليل على إحرام المرأة في وجهها، قيل: وفيه أن الحجاب مرفوع عن النساء، ثابت على أزواج النبي ﷺ على نص التلاوة؛ إذ لم يأمرها النبي ﵇ بستر وجهها، وقد يقال: إن هذا كان قبل نزول الآية بإدناء الجلابيب والستر. قال أبو عبد اللّٰه: والاستتار للنساء سنة حسنة والحجاب على أزواج النبي ﷺ فريضة. (اکمال المعلم ۴ / ۴۴۰ )
’’اس میں دلیل ہے کہ احرام کی حالت میں عورت کا چہرہ ننگا ہونا چاہیے، کیونکہ آپ نے اس خاتون کو اپنا چہرہ چھپانے کے لیے نہیں کہا۔ کہا گیا ہے کہ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عام خواتین پر تو حجاب کی پابندی لازم نہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں پر لازم تھی، جیساکہ قرآن کی آیت میں تصریح ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ معاملہ اس آیت کے نزول سے پہلے کا تھا جس میں بڑی چادر جسم پر ڈالنے اور جسم کو چھپانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ابو عبد اللہ کہتے ہیں کہ عام خواتین کے لیے اپنے جسم کو ڈھانپنا ایک بہت پسندیدہ طریقہ ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب فرض تھا۔“
ایک اور حدیث کے تحت بھی قاضی ابو عبد اللہ کا یہی قول نقل کرتے ہیں:
قال القاضي أبو عبد اللّٰه بن المرابط: الاستتار للنساء سنة حسنة، والحجاب على أزواج النبي ﷺ فريضة. (اکمال المعلم ۴ /۲۸۳ )
’’قاضی ابو عبد اللہ المرابط کہتے ہیں کہ عام خواتین کے لیے اپنے جسم کو ڈھانپنا ایک بہت پسندیدہ طریقہ ہے، جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر حجاب فرض تھا۔“
ایک اور مقام پر قاضی عیاض نے لکھا ہے:
فرض الحجاب مما اختص به أزواج النبي ﷺ، ولا خلاف في فرضه عليهن في الوجه والكفين الذي اختلف في ندب غيرهن إلى ستره. قالوا: ولا يجوز لهن كشف ذالك لشهادة ولا غيرها، ولا ظهور أشخاصهن وإن كن مستترات إلا ما دعت إليه الضرورة من الخروج للبراز كما جاء في الحديث، وقد كن إذا خرجن جلسن للناس من وراء حجاب، وإذا خرجن لضرورة حجبن وسترن أشخاصهن. كما جاء في حديث حفصة يوم موت عمر، ولما ماتت زينب صنع على نعشها قبة تستر جسمها، وقد قال تعالىٰ: ﴿وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ﴾.(اکمال المعلم ۷ / ۵۷)
’’حجاب کی فرضیت کا حکم خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے دیا گیا تھا۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ازواج مطہرات پر چہرے اور ہاتھوں کو چھپا کر رکھنا فرض تھا، جب کہ ان کے علاوہ عام خواتین کے لیے اس کے مستحب ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ علما کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات کے لیے گواہی کے لیے یا کسی بھی دوسرے معاملے کے لیے اپنے چہرے کو ننگا کرنا جائز نہیں تھا۔ اسی طرح ان کے لیے گھروں سے باہر نکلنا بھی درست نہیں تھا، چاہے انھوں نے اپنے جسم ڈھانپ رکھے ہوں، الاّ یہ کہ رفع حاجت جیسی ناگزیر ضرورت کے لیے نکلنا پڑے، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ چنانچہ جب وہ باہر نکلتیں تو لوگوں کے ساتھ بات چیت کے لیے پردے کی اوٹ میں بیٹھتی تھیں اور جب کسی ضرورت کے تحت نکلتیں تو بھی حجاب کا اور اپنے جسم کو چھپا کر رکھنے کا اہتمام کرتی تھیں، جیسا کہ سیدنا عمر کی وفات کے موقع پر سیدہ حفصہ کے واقعے میں آیا ہے۔ اور جب سیدہ زینب کی وفات ہوئی تو ان کے جسم کے اوپر ایک چھتری تان دی گئی جس سے ان کا جسم چھپ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ‘۔“
ایک اور بحث میں لکھتے ہیں:
وفي هذا كله عند العلما حجة أنه ليس بواجب أن تستر المرأة وجهها، وإنما ذالك استحباب وسنة لها، وعلى الرجل غض بصره عنها. وغض البصر يجب على كل حال في أمور: كالعورات وأشباهها. ويجب مرة على حال دون حال مما ليس بعورة، فيجب غض البصر إلا لغرض صحيح من شهادة أو تقليب جارية للشراء، أو النظر لامرأة للزواج، أو نظر الطبيب، ونحو هذا. وقد اختلف السلف من العلما في معنى قوله: ﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾، فذهب جماعة من السلف: أنه الوجه والكفان. قال القاضي إسماعيل: وهو الظاهر لأن المرأة يجب عليها أن تستر في الصلاة كل موضع منها لا يراه الغرباء إلا وجهها وكفيها، فدل أنه مما يجوز للغرباء أن يروه وهو قول مالك. قالوا: والمراد بالزينة مواضع الزينة، وقيل: المراد: الثياب، ولا خلاف أن فرض ستر عورة الوجه مما اختص به أزواج النبي ﷺ منذ نزل الحجاب.(اکمال المعلم ۷ / ۳۸)
’’علما کے نزدیک ان تمام دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کے لیے اپنے چہرے کو چھپا کر رکھنا واجب نہیں، بلکہ مستحب اور سنت ہے، البتہ مردوں پر لازم ہے کہ وہ خواتین کی طرف دیکھنے سے گریز کریں۔ غض بصر بعض اعضا سے متعلق تو ہر حال میں واجب ہے، جیسے جسم کے پوشیدہ حصے، جب کہ پوشیدہ اعضا کے علاوہ جسم کے باقی حصوں میں غض بصر بعض حالات میں واجب ہے اور بعض میں نہیں۔ مثلاً کوئی بھی جائز غرض ہو تو اس کے لیے غض بصر واجب نہیں، جیسے گواہی دینا یا کسی باندی کو خریدنے کے لیے اس کے جسم کو الٹ پلٹ کر دیکھنا یا نکاح کے لیے کسی عورت کو دیکھنا یا معالج کا مریضہ کو دیکھنا وغیرہ۔ علماے سلف کا اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا‘کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ ایک جماعت کی راے یہ ہے کہ اس سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔ قاضی اسماعیل کہتے ہیں کہ یہی واضح بات ہے، کیونکہ عورت پر نماز میں اپنے پورے جسم کو چھپانا واجب ہے تاکہ اجنبی نہ دیکھ سکیں، لیکن چہرہ اور ہاتھ چھپانا واجب نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ چہرے اور ہاتھ کو دیکھنا (نماز کے علاوہ بھی) غیر محرموں کے لیے جائز ہے اور امام مالک کا بھی یہی قول ہے۔ علما نے کہا ہے کہ آیت میں زینت سے مراد وہ اعضا ہیں جن پر زینت کی گئی ہو۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد لباس ہے۔ بہرحال اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد چہرے کو چھپا کر رکھنے کی فرضیت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے ایک خصوصی حکم تھا۔“
مذکورہ اقتباس میں قاضی عیاض نے اہل علم کایہ موقف نقل کیا ہے کہ عورت پر اپنے چہرے کو چھپانا واجب نہیں، بلکہ مستحب ہے، البتہ مردوں کو چاہیے کہ ان سے غض بصر کریں۔ قاضی عیاض کے اس بیان کو حسب ذیل شارحین اور فقہا نے نقل کر کے اس کی تائید کی ہے:
امام نووی (شرح صحیح مسلم ۱۴ / ۱۳۹)۔
عبد الرؤف المناوی (فیض القدیر ۱ / ۵۳۰) ۔
ملا علی القاری (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ۵ / ۲۰۵۲) ۔
علامہ طیبی (الکاشف عن حقائق السنن ۷ / ۲۲۷۰) ۔
علامہ قسطلانی (المواہب اللدنیہ ۲ / ۳۶۳) ۔
الصنعانی (التحبیر لایضاح معانی التیسیر ۶ / ۶۶۱) ۔
شرف الحق عظیم آبادی (عون المعبود شرح ابی داؤد ۶ / ۱۳۱) ۔
عبد الرحمٰن مبارک پوری (تحفۃ الاحوذی ۸ / ۵۰) ۔
خلیل احمد سہارنپوری (بذل المجہود ۸ / ۸۶) ۔
وہبہ الزحیلی (الفقہ الاسلامی وادلتہ ۴ / ۲۶۵۲) ۔
قاضی ابو العباس القرطبی (وفات ۶۵۶ھ) ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
وفيه دليل على أن المرأة تكشف وجهها في الإحرام، وأنها لا يجب عليها ستره وإن خيف منها الفتنة، لكنها تندب إلى ذالك، بخلاف أزواج النبي ﷺ، فإن الحجاب عليهن كان فريضة. (المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم ۳ / ۴۴۱)
’’اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت حالت احرام میں اپنے چہرے کو ننگا رکھے گی اور اس پر اس کو چھپانا واجب نہیں، چاہے اس سے فتنے کا خوف ہو، البتہ اس کے لیے (خوف فتنہ کے وقت) ایسا کرنا مستحب ہے۔ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کا حکم اس سے مختلف ہے، کیونکہ ان پر (ہر حالت میں) حجاب فرض تھا۔“
نزول حجاب سے متعلق سیدہ عائشہ کی روایت کے تحت لکھتے ہیں:
قلت: وهذا الحجاب الذي أمر به أزواج النبي ﷺ وخُصِّصن به هو في الوجه والكفين. قال القاضي عياض: لا خلاف في فرضه عليهن في الوجه والكفين الذي اختلف في ندب غيرهن إلى ستره، قالوا: ولا يجوز لهن كشف ذالك لشهادة ولا غيرها، ولا ظهور أشخاصهن، وإن كن مستترات إلا ما دعت إليه الضرورة من الخروج إلى البراز، وقد كن إذا خرجن جلسن للناس من وراء حجاب، وإذا خرجن لحاجة حجبن وسترن.(المفہم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم ۵ / ۴۹۷)
’’یہ حجاب جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کو حکم دیا گیا اور خاص طور پر انھی کو اس کا پابند کیا گیا، اس کا تعلق چہرے اور ہاتھوں سے تھا۔ قاضی عیاض کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ازواج مطہرات پر چہرے اور ہاتھوں کو چھپا کر رکھنا فرض تھا، جب کہ ان کے علاوہ عام خواتین کے لیے اس کے مستحب ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ علما کہتے ہیں کہ ازواج مطہرات کے لیے گواہی کے لیے یا کسی بھی دوسرے معاملے کے لیے اپنے چہرے کو ننگا کرنا جائز نہیں تھا۔ اسی طرح ان کے لیے گھروں سے باہر نکلنا بھی درست نہیں تھا، چاہے انھوں نے اپنے جسم ڈھانپ رکھے ہوں، الاّ یہ کہ رفع حاجت جیسی ناگزیر ضرورت کے لیے نکلنا پڑے۔ چنانچہ جب وہ باہر نکلتیں تو لوگوں کے ساتھ بات چیت کے لیے پردے کی اوٹ میں بیٹھتی تھیں اور جب کسی ضرورت کے تحت نکلتیں تو بھی ان کے لیے حجاب اور ستر کا اہتمام کیا جاتا تھا۔“
صحیح بخاری کے شارح، علامہ ابن الملقن (وفات ۸۰۴ھ) لکھتے ہیں:
وفيه: فرض الحجاب على أمهات المؤمنين؛ لقول عمر﵁: (احجب نساءك). وقال في حديث آخر: يا رسول اللّٰه، لو حجبت أمهات المؤمنين فإنه يدخل عليهن البر والفاجر. فنزلت آية الحجاب يوضحه قول الفقهاء: إن إحرام المرأة في وجهها وكفيها، وإجماعهم أن لها أن تبرز وجهها للإشهاد عليها، ولا يجوز ذالك في أمهات المؤمنين. (التوضیح لشرح الجامع الصحیح ۲۹ / ۴۹)
’’اس حدیث سےامہات المومنین پر حجاب کی فرضیت معلوم ہوتی ہے، کیونکہ سیدنا عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ، اپنی بیویوں کو حجاب میں رکھیے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا کہ یارسول اللہ، اگر آپ امہات المومنین کو حجاب میں رکھیں تو بہتر ہوگا، کیونکہ آپ کے پاس نیک اور بد ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ اس پر حجاب کی آیت نازل ہوئی۔ اس کی وضاحت فقہا کے اس قول سے ہوتی ہے کہ عورت کا احرام اس کے چہرے اور ہاتھوں میں ہے، (یعنی ان کو ننگا رکھنا حالت احرام میں اس پر لازم ہے)۔ اسی طرح فقہا کا اجماع ہے کہ عام خواتین کے لیے گواہی سے متعلق معاملات میں اپنے چہرے کو ننگا کرنا جائز ہے، جب کہ امہات المومنین کے معاملے میں یہ جائز نہیں تھا۔“
ایک اور حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
أن الحجاب إنما فرض على أزواج النبي ﷺ خاصة، كما نص عليه في كتابه بقوله: ﴿يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ﴾.(التوضیح ۲۵ / ۱۱۲)
’’حجاب تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج پر فرض کیا گیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ’يَا نِسَآءَ النَّبِيِّ‘
کہہ کر تصریح کی ہے۔“
امام بدر الدین العینی (وفات ۸۵۵ھ) ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَالْأَحَادِيث الْمَذْكُورَة فِي هَذَا الْبَاب كلهَا دَالَّة على الحجاب، وَحَدِيث عَائِشَة هَذَا الْمَذْكُور وَإِن لم يذكر فِيهِ الحجاب صَرِيحًا لِأَن ظَاهره عَدمه وَلَكِن فِي أَصله مَذْكُور فِي مَوضِع آخر، وَعَن هَذَا قَالَ عِيَاض: فرض الحجاب مِمَّا اخْتصَّ بِهِ أزواجه ﷺ فَهُوَ فرض عَلَيْهِنَّ بِلَا خلاف فِي الْوَجْه وَالْكَفَّيْنِ.(عمدۃ القاری ۱۹ / ۱۲۴)
’’اس باب میں مذکورہ تمام احادیث حجاب پر دلالت کرتی ہیں۔ سیدہ عائشہ کی مذکورہ حدیث میں اگرچہ حجاب کا ذکر صراحتاً نہیں ہوا، کیونکہ بظاہر اس سے حجاب کا لازم نہ ہونا، (یعنی ضرورت کے تحت ازواج کا گھروں سے نکلنا) معلوم ہوتا ہے، لیکن دوسرے مقام پر اس روایت میں حجاب کا ذکر موجود ہے۔ اسی وجہ سے قاضی عیاض نے کہا ہے کہ حجاب کی فرضیت کا تعلق خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج سے تھا اور کسی اختلاف کے بغیر ان پر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو پردے میں رکھنا فرض تھا۔“
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
أنهن قد حجبن عن الناس جميعًا إلا مَن كان منهم ذو رحم محرم، وقد فُضِّلْنَ بذالك على سائر النساء وهن لسن كذالك لأنه يجوز أن ينظر الرجل إلى وجه الأجنبية وكفيها لقوله تعالى: ﴿وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا﴾.(نخب الافکار فی تنقیح مبانی الاخبار ۱۴ / ۲۱۱)
’’ازواج مطہرات کو محرم رشتہ داروں کے علاوہ تمام لوگوں سے پردے میں رہنے کا پابند کر دیا گیا۔ اس معاملے میں ان کو باقی تمام خواتین پر فضیلت دی گئی ہے اور ازواج کا معاملہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے، کیونکہ عام خواتین کے معاملے میں مرد کے لیے غیر محرم کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خواتین اپنی زینت نمایاں نہ کریں، سواے اس کے جو خود بخود ظاہر ہو۔“
علامہ قسطلانی (وفات ۹۲۳ھ) ’’المواہب اللدنیہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
ومنها أنه يحرم رؤية أشخاص أزواجه في الأزر وكذا يحرم كشف وجوههن وأكفهن لشهادة أو غيرها، كما صرحه به القاضي عياض، وعبارته: فرض الحجاب مما اختصصن به، فهو فرض عليهن بلا خلاف في الوجه والكفين، .... وأما حكم نظر غير أزواجه ففي الروضة وأصلها عن الأكثرين: جواز النظر إلى وجه حرة كبيرة أجنبية وكفيها إذا لم يخف فتنة، مع الكراهة. (۲ / ۳۶۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی ازواج کو معمول کے لباس میں دیکھنا، (جب کہ ان کا پورا جسم ڈھانپا نہ گیا ہو) حرام تھا۔ اسی طرح ان کے لیے گواہی یا کسی دوسرے مقصد کے لیے بھی اپنے چہرے کو ننگا کرنا حرام تھا، جیسا کہ قاضی عیاض نے تصریح کی ہے۔ ان کی عبارت یہ ہے کہ حجاب کی فرضیت ازواج مطہرات کےلیے خصوصی حکم تھا، چنانچہ کسی اختلاف کے بغیر ان پر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو چھپا کر رکھنا فرض تھا۔ جہاں تک ازواج مطہرات کے علاوہ عام خواتین کی طرف دیکھنے کا معاملہ ہے تو ’’روضہ‘‘ اور اس کے اصل متن میں اکثر علما کا قول یہ نقل کیا گیا ہے کہ آزاد اور بالغ غیر محرم عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے، اگرچہ ناپسندیدہ ہے، جب کہ فتنے کا خوف نہ ہو۔“
امام سیوطی نے ’’الخصائص الکبریٰ‘‘ میں ’’باب اختصاصہ صلی اللہ علیہ وسلم بتحریم رویۃ اشخاص ازواجہ فی الازر وسوالہن مشافہۃ‘‘ کے عنوان سے یہی موقف فقہاے شوافع میں سے رافعی، بغوی اور امام نووی سے بھی نقل کیا ہے (۲/ ۴۳۸)۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ