حدیث سیل
ترجمہ و تدوین: شاہد رضا
رُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللّٰهِ تَعَالىٰ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ».
وَرُوِيَ أَنَّهُ سُئِلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: أَيُّ الْعَمَلِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: الدَّائِمُ. فَسُئِلَتْ: مَتَى كَانَ يَقُومُ؟ قَالَتْ: كَانَ يَقُومُ إِذَا سَمِعَ الصَّارِخَ.
وَرُوِيَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي امْرَأَةٌ. فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ؟» فَقُلْتُ: امْرَأَةٌ لاَ تَنَامُ تُصَلِّي. قَالَ: «عَلَيْكُمْ مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ. فَوَ اللّٰهِ لاَ يَمَلُّ اللّٰهُ حَتَّى تَمَلُّوا». وَكَانَ أَحَبَّ الدِّينِ إِلَيْهِ مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ.
وَرُوِيَ أَنَّهُ سُئِلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: هَلْ كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْتَصُّ مِنْ الْأَيَّامِ شَيْئًا؟ قَالَتْ: لَا، كَانَ عَمَلُهُ دِيمَةً وَأَيُّكُمْ يُطِيقُ مَا كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُطِيقُ؟
وَرُوِيَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَأَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ لَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُهُ». قَالُوا: وَلَا أَنْتَ، يَارَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: «وَلَا أَنَا، إِلَّا أَنْ يَتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ مِنْهُ بِرَحْمَةٍ. وَاعْلَمُوا أَنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَى اللّٰهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ».
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے، اگرچہ وہ عمل چھوٹا ہو۱۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند تھا؟ سیدہ عائشہ نے جواب دیا: وہ عمل جو ہمیشہ ادا کیا جائے۔سیدہ سے پھر سوال کیا گیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) کس وقت قیام فرماتے تھے؟سیدہ نے جواب دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مرغ کی آواز کے ساتھ قیام فرماتے تھے۲۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، جب کہ میرے پاس ایک خاتون تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ وہ خاتون ہے جو رات بھر سوتی نہیں اور نماز میں حالت قیام میں رہتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: اپنے اوپر وہ عمل لازم کرو جس کی تم (دائمی طور پر) طاقت رکھتے ہو۔ خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ (تمھارے اعمال سے) بے زار نہیں ہوتا، مگر تم (ان سے) بے زار ہو جاؤ گے۳۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند تھا جسے صاحب عمل ہمیشہ ادا کرے ۔
اور روایت کیا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاص عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ سیدہ عائشہ نے جواب دیا: نہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا (ہر) عمل مداومت کے ساتھ ہوتا تھا۔ اور تم میں سے کون عمل کی اتنی طاقت رکھتا ہے، جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے۴؟
اور روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (اللہ کی راہ کی جانب) لوگوں کی رہنمائی کرو، قرب الٰہی کے لیے دوسروں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور لوگوں کو خوش خبری دو، اس لیے کہ کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو گا، صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے عرض کیا: یا رسول اللہ، آپ بھی نہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جواب دیا: میں بھی نہیں، سواے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ دے۵۔ اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے، اگرچہ وہ عمل چھوٹا ہو۔
۱۔ بنیادی طور پر یہ متوازن زندگی ہی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی کامیابی کی ضامن ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر بیان فرما دیا ہے کہ جس طرح مداومت کسی شخص کی نفل عبادت میں بہت اہمیت کی حامل ہے، اسی طرح اس کی زندگی میں توازن کو بھی برقرار رکھنے کے لیے یہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہ روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی واضح طور پر نشان دہی کرتی ہیں کہ چند راتوں کے لیے ساری رات قیام کرنے اور پھر اسے مکمل طور پر ترک کر دینے کے بجاے آدمی کو اس حد تک نمازیں ادا کرنی چاہییں کہ وہ انھیں مداومت کے ساتھ ادا کر سکے۔
۲۔ دوسری روایت میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہمیں بتاتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے تھوڑا پہلے نماز تہجد کی تیاری شروع کر تے تھے اور اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تھے۔ اس طرح کی روایات سے بالبداہت واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات نماز میں نہیں گزارتے تھے۔ اور تیسری روایت سے واضح طور پر اشارہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات بھر قیام و نماز میں گزارنے کے لیے کسی کو پابند بھی نہیں کیا ہے۔
۳۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اچھے اعمال سے بے زار نہیں ہوتے، مگر جب ہم اپنے اوپر ایسے اعمال لازم کر لیں گے جن کو ہم مداومت کے ساتھ اختیار کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو جلد یا بہ دیر ہماری بنیادی فطرت اس پر اثرانداز ہو گی اور بالآخر ہمیں اس طرح کے اعمال سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق اور ربط تھا، اس لیے اپنے حدود کو حقیقت کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انھی نفلی عبادات پر عمل پیرا ہونا چاہیے جنھیں ہم مداومت کے ساتھ ادا کرنے کی طاقت رکھتے ہوں۔
۵۔ کسی شخص کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ وہ محض اپنے اعمال اور عبادات کی بنیاد پر جنت میں اللہ تعالیٰ کی ابدی نعمت کا مستحق ہو جائے گا۔ یہ سوچ انسان کو اپنے اعمال اور عبادات میں ایسے عدم توازن اور عارضی مشغولیت کی جانب مائل کر سکتی ہے جس کے برقرار رہنے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے برعکس، انسان کو ہمیشہ پوری کوشش کرنی چاہیے، اور اپنے معمولی سے معمولی اعمال کے صلے اور اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسا رکھنا چاہیے۔
پہلی روایت، بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۶۰۹۷، ۶۱۰۰؛ مسلم ، رقم ۷۸۲ ب ۷۸۳ب؛ موطا امام مالک، رقم ۴۱۹؛ ترمذی،رقم ۲۸۵۶؛ ابوداؤد، رقم ۱۳۶۸؛ ابن ماجہ، رقم ۴۲۴۰؛ ابن حبان، رقم ۳۲۲- ۳۲۳؛ احمد، رقم ۸۵۸۴، ۲۴۰۸۹، ۲۴۱۷۰، ۲۴۸۶۳، ۲۵۳۵۶، ۲۵۴۵۲ ، ۲۵۴۷۰، ۲۵۴۷۸، ۲۵۵۱۲، ۲۶۰۰۵، ۲۶۵۲۲، ۲۶۷۶۱، ۲۶۷۷۳؛ نسائی، رقم ۸۳۸؛ بیہقی ، رقم ۴۳۴۲؛ ابویعلیٰ، رقم۴۵۳۳، ۴۵۷۳، ۶۹۶۹ اور عبدالرزاق، رقم۲۰۵۶۷ میں روایت کی گئی ہے۔
دوسری روایت، بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۱۰۸۰، ۶۰۹۶؛ مسلم ، رقم۷۴۱؛ ابوداؤد، رقم ۱۳۱۷؛ احمد، رقم ۲۴۶۷۲، ۲۴۸۳۳، ۲۵۱۸۶، ۲۵۷۱۲ ، ۲۶۴۳۳؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۳۱۶؛ بیہقی ، رقم ۴۴۳۵، ۴۴۳۶، ۴۵۱۲ اور ابن حبان، رقم۲۴۴۴ میں روایت کی گئی ہے۔
تیسری روایت، بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۴۳؛ مسلم ، رقم ۷۸۵ب؛ نسائی، رقم ۱۶۴۲، ۵۰۳۵؛ ابن ماجہ، رقم ۴۲۳۸؛ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۳۰۷، ۱۱۷۶۶؛ ابن خزیمہ، رقم ۱۲۸۲؛ احمد، رقم ۲۴۲۳۵، ۲۴۵۸۴، ۲۵۶۷۳، ۲۵۹۸۷ ، ۲۶۱۱۸؛ بیہقی ، رقم ۴۵۱۴-۴۵۱۵ ؛ ابن حبان، رقم ۱۵۷۸؛ ابویعلیٰ، رقم۴۶۵۱اور عبدالرزاق، رقم۲۰۵۵۶ میں روایت کی گئی ہے۔
چوتھی روایت، بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۶۱۰۱، ۱۸۸۶؛ مسلم ، رقم۷۸۳الف؛ ابوداؤد، رقم ۱۳۷۰؛ ابن خزیمہ، رقم ۱۲۸۱؛ احمد، رقم ۲۴۲۳۵، ۲۴۵۸۴، ۲۵۶۷۳، ۲۵۹۸۷ ، ۲۶۱۱۸؛ ابن حبان، رقم ۳۶۴۷؛ احمد، رقم ۲۴۲۰۸، ۲۴۳۲۷، ۲۵۶۰۳ اور بیہقی، رقم۸۲۵۵ میں روایت کی گئی ہے۔
پانچو یں روایت، بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم ۶۰۹۹؛ مسلم ، رقم۲۸۱۸ اور احمد، رقم ۲۴۹۸۵، ۲۶۳۸۶ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۶۰۹۷ میں ’أحب الأعمال إلى الله تعالىٰ أدومها ‘ (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے) کے الفاظ کے بجاے ’أحب العمل الذي يدوم عليه صاحبه‘ ( پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جسے صاحب عمل مداومت کے ساتھ ادا کرے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم۷۸۲ب میں یہ الفاظ ’أحب العمل أدومه‘ (پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جو مداومت کے ساتھ ہو) روایت کیے گئے ہیں؛بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۶۵۲۲ میں یہ الفاظ ’أحب العمل ما دام عليه‘ (پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جس پر آدمی نے مداومت اختیار کی ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم ۴۵۷۳ میں یہ الفاظ ’ما دام عليه صاحبه‘ (جس پر آدمی نے مداومت کی ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابویعلیٰ، رقم ۶۹۶۹ میں یہ الفاظ ’ما دووم عليه‘( جس پر مداومت اختیار کی گئی ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاًعبدالرزاق، رقم ۲۰۵۶۷ میں یہ الفاظ ’أحب العبادة إلى اللّٰه ما ديم عليها‘ (اللہ کی بارگاہ میں پسندیدہ ترین عبادت وہ ہے جو مداومت کے ساتھ کی گئی ہو) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۸۶۳ میں ’وإن قل‘(اگرچہ وہ چھوٹا ہو) کے الفاظ کے بجاے ’وإن كان يسيرًا‘ (اگرچہ وہ ہلکا ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات میں یہ الفاظ ’وإن قلت‘(اگرچہ وہ چھوٹا ہو) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات،مثلاًاحمد، رقم ۲۶۷۷۳ میں اسی طرح کا مضمون قدرے مختلف اور درج ذیل الفاظ میں آیا ہے:
روي أن أم سلمة رضي اللّٰه عنها قالت: ما مات النبي صلى اللّٰه عليه وسلم حتى كان أكثر صلاته قاعدًا غير الفريضة وكان أحب العمل إليه أدومه وإن قل.
’’روایت کیا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک فرض نماز کے علاوہ اکثر (نفل)نماز بیٹھ کر ادا فرمائی؛ اور آپ کی نگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جو مداومت کے ساتھ ہو، اگرچہ وہ چھوٹا ہو۔‘‘
بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم ۳۲۲ میں اسی طرح کا مضمون ان الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:
روي أن عائشة رضي اللّٰه عنها سئلت عن عمل رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، فقالت: كان عمله صلى اللّٰه عليه وسلم ديمة.
’’روایت کیا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے بارے میں پوچھا گیا تو سیدہ نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت کے ساتھ ہوتا تھا۔‘‘
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۷۴۱ میں ’الدائم‘ (جو مداومت کے ساتھ ہو) کے الفاظ کے بجاے ’كان يحب الدائم‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم مداومت کو پسند کرتے تھے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۴۵۱۲ میں یہ الفاظ ’أنه كان يحب الدائم من العمل‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائمی عمل کو پسند کرتے تھے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن حبان، رقم ۲۴۴۴ میں یہ الفاظ ’وكان أحب العمل إليه أدومه وإن قل‘(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجو مداومت کے ساتھ ہو، اگرچہ وہ چھوٹا ہو) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۷۴۱ میں ’يقوم إذا سمع الصارخ‘ (آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جب مرغ کی آواز سنتے تو قیام فرماتے تھے) کے الفاظ کے بجاے ’كان إذا سمع الصارخ قام فصلى‘ (آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جب مرغ کی آواز سنتے تو نماز کے لیے قیام فرماتے تھے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۶۷۲ میں یہ الفاظ ’إذا سمع الصرخة‘ (آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) جب مرغ کی آواز سنتے) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۶۰۹۷ میں ’عليكم من العمل ما تطيقون‘ (اپنے اوپر وہ عمل لازم کرو جس کی تم (دائمی طور پر) طاقت رکھتے ہو) کے الفاظ کے بجاے ’مه، عليكم ما تطيقون‘ (ا یسا کرنا چھوڑ دو، اپنے اوپر وہ عمل لازم کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۵۰۳۵ میں یہ الفاظ ’مه، عليكم من العمل ما تطيقون‘ (ا یسا کرنا چھوڑ دو، اپنے اوپر وہ عمل لازم کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۱۳۰۷ میں ان کے مترادف الفاظ ’مه، عليكم من العمل بما تطيقون‘ (ا یسا کرنا چھوڑ دو، اپنے اوپر وہ عمل لازم کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۵۶۷۳ میں یہ الفاظ ’مه مه، خذوا من العمل ما تطيقون‘ (ا یسا کرنا چھوڑ دو، ا یسا کرنا چھوڑ دو ۔ وہ عمل اختیار کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم ۲۰۵۶۶ میں یہ الفاظ ’مه، خذوا من العمل ما تطيقون‘ (ا یسا کرنا چھوڑ دو، وہ عمل اختیار کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۴۵۱۵ میں ان الفاظ کے بجاے ’مه ‘ (ا یسا کرنا چھوڑ دو) کا لفظ آیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۵۶۷۳ میں ’لا يمل اللّٰه حتى تملوا‘ (اللہ تعالیٰ (تمھارے اعمال سے) بے زار نہیں ہوتا، مگر تم (ان سے) بے زار ہو جاؤ گے) کے الفاظ کے بجاے ’فإن اللّٰه عز وجل لا يمل حتى تملوا‘ ( بے شک، اللہ عز و جل (تمھارے اعمال سے) بے زار نہیں ہوتا، مگر تم (ان سے) بے زار ہو جاؤ گے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۱۶۴۲ میں ’وكان أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه‘ (اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند تھا جسے صاحب عمل ہمیشہ ادا کرے) کے الفاظ کے بجاے ’ولكن أحب الدين إليه ما داوم عليه صاحبه‘ (مگر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند تھا جسے صاحب عمل ہمیشہ ادا کرے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم ۲۰۵۶۶ میں یہ الفاظ ’وأحب العمل ما دام عليه صاحبه‘ (اور سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جسے صاحب عمل ہمیشہ ادا کرے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۵۰۳۵ میں ان کے مترادف الفاظ ’كان أحب الدين إليه ما دام عليه صاحبه‘ (اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند تھا جسے صاحب عمل ہمیشہ ادا کرے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۲۸۲ میں یہ الفاظ ’وكان أحب الدين إليه الذي يدوم عليه صاحبه‘ (اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند تھا جسے صاحب عمل ہمیشہ ادا کرے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۵۹۸۷ میں ان کے مترادف الفاظ ’أحب الدين إلى اللّٰه عزوجل ما يداوم عليه صاحبه‘ (اللہ عز وجل کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند ہے جسے صاحب عمل مداومت کے ساتھ ادا کرے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۲۳۵ میں یہ الفاظ ’إن أحب الدين إلى اللّٰه عز وجل ما دووم عليه وإن قل‘ (بے شک، اللہ عز وجل کو سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسند ہے جسے مداومت کے ساتھ ادا کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۴۵۱۵ میں یہ الفاظ ’وأحب الدين ما دوم عليه‘ (اور سب سے زیادہ وہ دینی عمل پسندیدہ ہے جسے مداومت کے ساتھ ادا کیا جائے) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابوداؤد، رقم ۱۳۷۰ میں ’كان عمله ديمة‘ ( آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا عمل مداوت کے ساتھ ہوتا تھا) کے الفاظ کے بجاے ’كان كل عمله ديمة‘ (آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا ہرعمل مداوت کے ساتھ ہوتا تھا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۶۱۰۱ میں ’وأيكم يطيق ما كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يطيق‘ (اور تم میں سے کون عمل کی اتنی طاقت رکھتا ہے، جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے) کے الفاظ کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’ وأيكم يستطيع ما كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يستطيع‘ (اور تم میں سے کون عمل کی اتنی طاقت رکھتا ہے، جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۳۲۷ میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا جواب درج ذیل الفاظ میں روایت کیا گیا ہے:
وأيكم يستطيع ما كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يستطيع؟ كان عمله ديمة.
’’اور تم میں سے کون عمل کی اتنی طاقت رکھتا ہے، جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا عمل مداوت کے ساتھ ہوتا تھا ۔‘‘
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۴۹۸۵ میں ’وأبشروا‘ (اور خوش خبری دو) کے لفظ کے بجاے اس کا مترادف ’ويسروا‘ (اور آسانی پیدا کرو) آیا ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۶۰۹۹ میں ’فإنه لن يدخل الجنة أحدًا عمله‘ (اس لیے کہ کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو گا) کے بجاے ’واعلموا أنه لن يدخل أحدكم عمله الجنة‘ (اور یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو گا) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۶۳۸۶ میں ’أحب العمل إلى اللّٰه أدومه‘ (اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے) کے الفاظ کے بجاے ’وإن أحب الأعمال إلى اللّٰه أدومها‘ (اور بے شک، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۱۸۶۹میں اسی طرح کا مضمون قدرے مختلف سیاق میں درج ذیل الفاظ میں آیا ہے:
روي أن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت: لم يكن النبي صلى اللّٰه عليه وسلم يصوم شهرًا أكثر من شعبان. فإنه كان يصوم شعبان كله وكان يقول: «خذوا من العمل ما تطيقون. فإن اللّٰه لا يمل حتى تملوا». وأحب الصلاة إلى النبي صلى اللّٰه عليه وسلم ما دووم عليه وإن قلت.
’’روایت کیا گیا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں کثرت سے روزے نہیں رکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) شعبان کا پورا مہینا روزے رکھتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ارشاد فرماتے: وہ عمل اختیار کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ (تمھارے اعمال سے) بے زار نہیں ہوتا، مگر تم (ان سے) بے زار ہو جاؤ گے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ وہ نماز پسند تھی جو مداومت کے ساتھ ادا کی جائے، اگرچہ وہ مختصر ہو۔‘‘
بعض اختلافات کے ساتھ یہ روایت بخاری، رقم ۱۸۶۹ اور احمد، رقم ۲۵۰۱۱، ۲۵۹۹، ۲۶۱۶۶ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً بخاری، رقم ۵۵۲۳ میں اسی طرح کا مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
روي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يحتجر حصيرًا بالليل فيصلي ويبسطه بالنهار فيجلس عليه فجعل الناس يثوبون إلى النبي صلى الله عليه وسلم فيصلون بصلاته حتى كثروا فأقبل عليهم فقال: «ياأيها الناس، خذوا من العمل ما تطيقون. فإن الله لا يمل حتى تملوا. وإن أحب الأعمال إلى الله ما دام، وإن قل». وكان إذا صلى صلاة أثبتها.
’’روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بھوسے کی چٹائی کی چھت بنا لیتے اور اس کے نیچے نماز ادا فرماتے اور دن کے وقت اسی کو بچھا کر بیٹھ جاتے تھے۔ چنانچہ لوگ (رات کے وقت) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہونے لگے، یہاں تک کہ جب لوگ زیادہ جمع ہونے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کی طرف توجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو، وہ عمل اختیار کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ (تمھارے اعمال سے) بے زار نہیں ہوتا، مگر تم (ان سے) بے زار ہو جاؤ گے۔ اور بے شک، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا ہو۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کوئی نماز ادا کرتے تو اس پر مداومت اختیار کرتے۔‘‘
یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ بخاری، رقم۵۵۲۳؛ مسلم ، رقم ۷۸۲ الف؛ نسائی، رقم ۷۶۲؛ ابن خزیمہ، رقم ۱۶۲۶، ۲۰۷۹؛ ابن حبان، رقم ۲۵۷۱؛احمد، رقم ۲۴۳۶۷، ۲۶۰۸۰ اور بیہقی ، رقم ۵۰۱۹، ۵۰۲۰ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۶۲۶ میں ’خذوا من العمل ما تطيقون‘ ( وہ عمل اختیار کرو جس کی تم (دائمی طور پر) طاقت رکھتے ہو) کے الفاظ کے بجاے ’أكلفوا من العمل ما تطيقون‘ (اس عمل کی ذمہ داری اٹھاؤ جس کی تم (دائمی طور پر) طاقت رکھتے ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً مسلم، رقم ۷۸۲ الف میں یہ الفاظ ’عليكم من الأعمال ما تطيقون‘ ( اپنے اوپر وہ عمل لازم کرو جس کی تم (دائمی طور پر) طاقت رکھتے ہو) روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۱۶۲۶ میں ’فإن أحب الأعمال إلى اللّٰه ما دام، وإن قل‘ (بے شک، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا ہو) کے الفاظ کے بجاے ’وكان أحب الأعمال إليه ما ديم عليه، وإن قل‘ (اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جو مداومت کے ساتھ ہو، اگرچہ وہ چھوٹا ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۶۰۸۰ میں یہ الفاظ ’وكان أحب العمل إليه أدومه، وإن قل‘ (اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ ہے جو مداومت کے ساتھ ہو، اگرچہ وہ چھوٹا ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابن خزیمہ، رقم ۲۰۷۹ میں یہ الفاظ ’وكان أحب الصلاة إليه ما داوم عليها وإن قلت‘ (اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نگاہ میں پسندیدہ ترین نماز وہ تھی جو مداومت کے ساتھ ہو، اگرچہ وہ مختصر ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۵۰۱۹ میں یہ الفاظ ’فإن أحب الأعمال إلى اللّٰه ما دووم عليه، وإن قل‘ (بے شک، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہےجسے ہمیشہ ادا کیا جائے، اگرچہ وہ چھوٹا ہو) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۵۲ میں اسی طرح کا مضمون درج ذیل الفاظ میں روایت ہوا ہے:
روي أنه عائشة رضي اللّٰه عنها قالت: ما كان رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم يمتنع من وجهي وهو صائم. وما مات حتى كان أكثر صلاته قاعدًا، إلا المكتوبة. وكان أحب العمل إليه ما دام عليه الإنسان، وإن كان يسيرًا.
’’روایت کیا گیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں مجھ سے محبت کرنے سے گریز نہیں فرماتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک فرض نماز کے علاوہ اکثر نماز بیٹھ کر ادا فرمائی۔ اور آپ کی نگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ تھا جس پر انسان مداومت اختیار کرے، اگرچہ وہ ہلکا ہو۔‘‘
یہ روایت بعض اختلافات کے ساتھ نسائی، رقم ۱۶۵۲، ۱۶۵۴، ۱۶۵۵؛ ابن ماجہ، رقم ۱۲۲۵، ۴۲۳۷؛ السنن الکبریٰ، رقم ۱۳۵۷، ۱۳۵۹؛ ابن حبان، رقم ۲۵۰۷؛ احمد، رقم ۲۶۱۷۴، ۲۶۶۴۱، ۲۶۶۴۷، ۲۶۷۵۲، ۲۶۷۶۹ ؛ ابویعلیٰ، رقم ۶۹۳۳، ۶۹۷۳ اور عبدالرزاق ، رقم۴۰۹۱ میں روایت کی گئی ہے۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم ۱۲۲۵ میں ’كان أكثر صلاته قاعدًا‘ ( آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اکثر نماز بیٹھ کر ادا فرماتے) کے الفاظ کے بجاے ’و كان أكثر صلاته وهو جالس‘ (آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اکثر نماز بیٹھ کر ادا فرماتے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً عبدالرزاق، رقم ۴۰۹۱ میں یہ الفاظ ’كان كثير من صلاته قاعدًا‘ ( آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زیادہ تر نماز بیٹھ کر ہوتی) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۱۶۵۴ میں ’إلا المكتوبة‘ ( سواے فرض نماز کے) کے بجاے ان کے مترادف الفاظ ’إلا الفريضة‘ (سواے فرض نماز کے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۶۶۴۷ میں یہ الفاظ ’إلا الصلاة المكتوبة‘ (سواے فرض نماز کے) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابو یعلیٰ، رقم ۶۹۳۳ میں یہ الفاظ ’غير الفريضة‘ (فرض نماز کے علاوہ) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً ابن ماجہ، رقم ۱۲۲۵ میں ’وكان أحب العمل إليه‘ (اور آپ کی نگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ تھا) کے بجاے ’وكان أحب الأعمال إليه‘ (اور آپ کی نگاہ میں پسندیدہ ترین اعمال وہ تھے) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً احمد، رقم ۲۶۶۴۱ میں یہ الفاظ ’وكان أعجب العمل إليه‘ (اور آپ کی نگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ تھا) روایت کیے گئے ہیں؛ بعض روایات، مثلاً ابو یعلیٰ، رقم ۶۹۷۳ میں یہ الفاظ ’ وكان أحب العمل إلى اللّٰه عز وجل‘ (اور اللہ عز وجل کی بارگاہ میں پسندیدہ ترین عمل وہ ہے) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۱۶۵۴میں ’ما دام عليه الإنسان‘ (جس پر انسان کی مداومت ہو) کے بجاے ’أدومه‘ (جو مداومت کے ساتھ ہو) کا لفظ روایت کیا گیا ہے؛ نسائی، رقم ۱۶۵۵میں یہ الفاظ ’ما داوم عليه‘ (جس پر آدمی کی مداومت ہو) روایت کیے گئے ہیں؛ ابن ماجہ، رقم ۱۲۲۵میں یہ الفاظ ’العمل الصالح الذي يدوم عليه العبد‘ (عمل صالح جس پر بندے کی مداومت ہو) روایت کیے گئے ہیں۔
بعض روایات، مثلاً نسائی، رقم ۱۶۵۴میں ’وإن كان يسيرًا‘ (اگرچہ وہ ہلکا ہو) کے بجاے ’وإن قل‘ (اگرچہ وہ چھوٹا ہو) کے الفاظ روایت کیے گئے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ