الصافات - ص
۳۷ –– ۳۸
الصافات - ص
یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا موضوع منکرین توحید کو تہدید و وعید ہے۔پہلی سورہ میں ، البتہ انکار اور دوسری میں استکبار پر تنبیہ کی گئی ہے جو مخاطبین کے انکار کا اصلی سبب ہے۔ اِس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو اِن مستکبرین کے مقابل میں صبر و استقامت کی تلقین کا مضمون بھی دوسری سورہ میں نمایاں ہے۔ چنانچہ انبیا علیہم السلام کی جو سرگذشتیں اِس سورہ میں سنائی گئی ہیں، اُن میں یہ دونوں چیزیں ملحوظ ہیں۔
اِن سورتوں میں خطاب اصلاً قریش ہی سے ہے اور اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ اتمام حجت میں نازل ہوئی ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سورة الصافات
(۱)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ١ﶫ فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا ٢ﶫ فَالتّٰلِيٰتِ ذِكْرًا ٣ﶫ اِنَّ اِلٰهَكُمْ لَوَاحِدٌ ٤ﶠ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِقِ ٥ﶠ
ـــــــــــــــــــ ۱ ـــــــــــــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے ، جس کی شفقت ابدی ہے ۔
صفیں باندھے حاضر رہنے والے فرشتے گواہی دیتے ہیں،[1]پھر شیطانوں کو جھڑک کر ڈانٹنے والے،[2] پھر خدا کو یاد کرنے والے[3] کہ تمھارا معبود ایک ہی ہے۔[4] وہی جو زمین اور آسمانوں اور اُن کے درمیان کی سب چیزوں کا پروردگار ہے اور مشرق و مغرب کے تمام اطراف کا پروردگار۔[5] ۱- ۵
اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِزِيْنَةِ اِۨلْكَوَاكِبِ ٦ﶫ وَحِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطٰنٍ مَّارِدٍ ٧ﶔ لَا يَسَّمَّعُوْنَ اِلَي الْمَلَاِ الْاَعْلٰي وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبٍ ٨ﶾ دُحُوْرًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ ٩ﶫ اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ١٠
اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارے قریبی آسمان[6] کو ہم نے تاروں کی زینت سے آراستہ کیا ہے اور ہر سرکش شیطان کی دراندازی سے اُس کو بالکل محفوظ کر دیا ہے۔ وہ ملاء اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور لگائیں توبھگانے کے لیے ہر طرف سے دھتکارے جاتے ہیں اور یہ اُن کے لیے دائمی عذاب ہے۔ تاہم کوئی شیطان اگر کچھ لے اڑے تو ایک دہکتا شعلہ اُس کا تعاقب کرتا ہے۔[7] ۶- ۱۰
فَاسْتَفْتِهِمْ اَهُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمْ مَّنْ خَلَقْنَاﵧ اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِيْنٍ لَّازِبٍ ١١ بَلْ عَجِبْتَ وَيَسْخَرُوْنَ ١٢ﶝ وَاِذَا ذُكِّرُوْا لَا يَذْكُرُوْنَ ١٣ﶝ وَاِذَا رَاَوْا اٰيَةً يَّسْتَسْخِرُوْنَ ١٤ﶝ وَقَالُوْ٘ا اِنْ هٰذَا٘ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ ١٥ﶗ ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ١٦ﶫ اَوَ اٰبَآؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ ١٧ﶠ
اب اِن سے پوچھو کہ اِنھیں بنانا زیادہ مشکل ہے یا اُن کو جنھیں ہم (اِن سے پہلے) بنا چکے ہیں؟[8] حقیقت یہ ہے کہ اِنھیں تو ہم نے چپکتی مٹی سے پیدا کر دیا تھا۔[9]نہیں، یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے، بلکہ تمھیں تعجب ہے ( کہ ایسی واضح حقیقت کو یہ مانتے کیوں نہیں) اور یہ مذاق اڑا رہے ہیں ( کہ تم یہ کیسی باتیں مانتے ہو)؟ اورجب اِنھیں یاددہانی کی جاتی ہے تو یاددہانی حاصل نہیں کرتے اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اُس کی ہنسی اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کچھ نہیں، یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا دوبارہ اٹھائے جائیں گے؟ اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی؟ ۱۱- ۱۷
قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ١٨ﶔ فَاِنَّمَا هِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَا هُمْ يَنْظُرُوْنَ ١٩ وَقَالُوْا يٰوَيْلَنَا هٰذَا يَوْمُ الدِّيْنِ ٢٠ هٰذَا يَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ ٢١
کہو کہ ہاں اور تم ذلیل بھی ہو گے۔ چنانچہ وہ ایک ڈانٹ ہی ہو گی، پھر اُسی وقت (اٹھ کر) دیکھنے لگیں گے[10] اور کہیں گے کہ ہاے ہماری کم بختی، یہ تو جزا کا دن ہے ــــــ جی ہاں، یہ وہی فیصلے کا دن ہے جس کو تم لوگ جھٹلاتے رہے تھے۔[11] ۱۸- ۲۱
اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ ٢٢ﶫ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰي صِرَاطِ الْجَحِيْمِ ٢٣ وَقِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَ ٢٤ﶫ مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ ٢٥ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ ٢٦
حکم ہو گا: اِن ظالموں[12] کو اکٹھا کرو اور اِن کے ہم مشربوں کو اور اُن کو بھی جنھیں یہ اللہ کے سوا پوجتے رہے ہیں، پھر اِن سب کو دوزخ کا راستہ دکھا دو۔ اور ہاں، اِنھیں ذرا ٹھیراؤ تو، اِن سے کچھ پوچھنا بھی ہے۔ کیا بات ہے، اِس وقت تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کر رہے ہو؟ کچھ نہیں بولتے، بلکہ یہ تو آج بڑے فرماں بردار بنے ہوئے ہیں! [13]۲۲- ۲۶
وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ ٢٧ قَالُوْ٘ا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ ٢٨ قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ ٢٩ﶔ وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍﵐ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِيْنَ ٣٠ فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا٘ﵲ اِنَّا لَذَآئِقُوْنَ ٣١ فَاَغْوَيْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِيْنَ ٣٢ فَاِنَّهُمْ يَوْمَئِذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ ٣٣
اُس وقت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے کہ باہم سوال و جواب کریں۔ (چنانچہ اپنے پیشواؤں سے)کہیں گے: یہ تم ہی ہمارے پاس آتے تھے دائیں سے... [14] وہ(بات کاٹ کر) جواب دیں گے: نہیں، بلکہ تم خود ہی ایمان لانے والے نہیں تھے اور تمھارے اوپر ہمارا کوئی زور نہیں تھا، بلکہ تم خود ہی سرکش لوگ تھے۔ سو ہمارے پروردگار کی بات ہم پر پوری ہو گئی ہے۔[15] کچھ شک نہیں کہ اُس کا مزہ اب ہم کو چکھنا ہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم بہکے ہوئے تھے، سو ہم نے تمھیں بھی بہکا دیا۔ اِس طرح یہ سب اُس دن عذاب میں مشترک ہوں گے۔[16] ۲۷- ۳۳
اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ ٣٤ اِنَّهُمْ كَانُوْ٘ا اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ يَسْتَكْبِرُوْنَ ٣٥ﶫ وَيَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِكُوْ٘ا اٰلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ٣٦ﶠ بَلْ جَآءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِيْنَ ٣٧
ہم مجرموں کے ساتھ یہی کریں گے۔ اُن کا حال یہ تھا کہ جب اُن سے کہا جاتا تھا کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تو اکڑ بیٹھتے اور، (قریش کے لوگو، تمھاری طرح وہ بھی)کہتے تھے کہ کیا ہم ایک خبطی شاعر کے کہنے سے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ ہرگز نہیں،[17] بلکہ وہ حق لے کر آیا ہے اور وہ رسولوں کی پیشین گوئیوں کا مصداق ہے۔[18]۳۴- ۳۷
اِنَّكُمْ لَذَآئِقُوا الْعَذَابِ الْاَلِيْمِ ٣٨ﶔ وَمَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ٣٩ﶫ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ ٤٠ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ ٤١ﶫ فَوَاكِهُﵐ وَهُمْ مُّكْرَمُوْنَ ٤٢ﶫ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ٤٣ﶫ عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ ٤٤ يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍۣ ٤٥ﶫ بَيْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ ٤٦ﶔ لَا فِيْهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ ٤٧ وَعِنْدَهُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِيْنٌ ٤٨ﶫ كَاَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُوْنٌ ٤٩
(اُسے نہیں مانو گے تو) تم کو لازماً دردناک عذاب چکھنا ہو گا اور (یہ کوئی زیادتی نہیں ہو گی)، تم اُسی کا بدلہ پاؤ گے جو کرتے رہے ہو۔ اللہ کے منتخب بندے،[19] مگر اِس سے محفوظ ہوں گے۔ یہ لوگ ہیں کہ جن کے لیے معلوم روزی[20] ہو گی، ہر طرح کے میوے ۔اور راحت کے باغوں میں وہ بڑی عزت سے ہوں گے، تختوں پر آمنے سامنے[21] بیٹھے ہوں گے، اُن کے لیے شراب ناب کے جام گردش میں ہوں گے، بالکل صاف شفاف، پینے والوں کے لیے لذت ہی لذت! نہ اُس میں خمار ہو گا اور نہ اُس سے اُن کی عقل خراب ہو گی۔ اُن کے پاس نیچی نگاہوں والی[22] غزال چشم عورتیں ہوں گی، گویا کہ (شتر مرغ کے) چھپے ہوئے انڈے ہیں۔[23] ۳۸- ۴۹
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰي بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ ٥٠ قَالَ قَآئِلٌ مِّنْهُمْ اِنِّيْ كَانَ لِيْ قَرِيْنٌ ٥١ﶫ يَّقُوْلُ ءَاِنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِيْنَ ٥٢ ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِيْنُوْنَ ٥٣ قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ ٥٤ فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِيْ سَوَآءِ الْجَحِيْمِ ٥٥ قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِيْنِ ٥٦ﶫ وَلَوْلَا نِعْمَةُ رَبِّيْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ ٥٧ اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ ٥٨ﶫ اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰي وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ ٥٩ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ٦٠ لِمِثْلِ هٰذَا فَلْيَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ ٦١
پھر وہ ایک دوسر ے کی طرف متوجہ ہوں گے کہ باہم گفتگو کریں۔ اُن میں سے ایک کہنے والا کہے گا کہ میرا ایک ساتھی تھا جو (بڑے تعجب کے ساتھ) مجھ سے پوچھا کرتا تھا کہ کیا تم بھی قیامت کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو کیا ہم بدلہ پائیں گے؟ وہ کہے گا: ذرا جھانک کر دیکھو گے ( کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہے)؟ یہ کہہ کر وہ جھانکے گا تو اُس کو دوزخ کے بیچ میں دیکھ لے گا۔[24] (پھر بے ساختہ) بول اٹھے گا: خدا کی قسم، تم تو مجھے تباہ کر دینے والے تھے! اگر میرے پروردگار کا فضل شامل حال نہ ہوتا تو میں بھی اُنھی میں ہوتا جو پکڑے ہوئے آئے ہیں۔ پھر کیا وہی نہیں ہوا کہ پہلی موت جو ہم کو آنی تھی، آ چکی، اب ہمیں مرنا نہیں ہے اور نہ ہمیں کوئی عذاب دیا جائے گا؟[25] بے شک، یہی بڑی کامیابی ہے۔ سو عمل کرنے والوں کو ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنا چاہیے۔[26] ۵۰- ۶۱
اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ ٦٢ اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ ٦٣ اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِيْ٘ اَصْلِ الْجَحِيْمِ ٦٤ﶫ طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ ٦٥ فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ ٦٦ﶠ ثُمَّ اِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْبًا مِّنْ حَمِيْمٍ ٦٧ﶔ ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَهُمْ لَا۠ اِلَي الْجَحِيْمِ ٦٨ اِنَّهُمْ اَلْفَوْا اٰبَآءَهُمْ ضَآلِّيْنَ ٦٩ﶫ فَهُمْ عَلٰ٘ي اٰثٰرِهِمْ يُهْرَعُوْنَ ٧٠ وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ اَكْثَرُ الْاَوَّلِيْنَ ٧١ﶫ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا فِيْهِمْ مُّنْذِرِيْنَ ٧٢ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِيْنَ ٧٣ﶫ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِيْنَ ٧٤
(اِن سے پوچھو)، یہ ضیافت اچھی ہے یا زقوم کا درخت؟ ہم نے اُس کو اِن ظالموں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے۔[27] وہ ایسا درخت ہے جو دوزخ کی تہ میں اگتا ہے۔[28] اُس کے شگوفے گویا شیطانوں کے سر ہیں۔[29] سو یہ ظالم اُسی سے کھائیں گے اور اُسی سے پیٹ بھریں گے۔ پھر اُس کے اوپر اُن کو کھولتا ہوا پانی ملا کر دیا جائے گا۔ پھر اُن کو ہر حال میں دوزخ ہی کی طرف لوٹنا ہو گا۔[30] (یہ وہ لوگ ہیں کہ) اِنھوں نے اپنے باپ دادا کو گم راہی میں پایا۔ پھر یہ اُنھی کے نقش قدم پر دوڑتے رہے۔[31] اِن سے پہلے اگلوں میں بھی اکثر اِسی طرح گم راہ ہوئے تھے۔ ہم نے اُن میں بھی خبردار کرنے والے بھیجے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ جنھیں خبردار کیا گیا تھا، اُن کا انجام کیا ہوا! خدا کے منتخب بندے ہی اُس سے محفوظ رہے۔ ۶۲- ۷۴
[1]۔ اصل الفاظ ہیں:’وَالصّٰٓفّٰتِ صَفًّا‘۔ اِن میں ’وَ‘قسم کے لیے ہے۔ قرآن میں اِس طرح کی قسمیں تعظیم کے لیے نہیں، بلکہ مقسم علیہ پر شہادت کے لیے آتی ہیں۔ چنانچہ ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس سے مراد وہ فرشتے ہیں جو ملاء اعلیٰ میں عرش الہٰی کے ارد گرد صف بستہ رہتے ہیں۔ سورۂ زمر (۳۹) کی آیت ۷۵ میں اُن کا ذکر ہوا ہے۔
[2]۔ یعنی جب وہ سن گن لینے کے لیے ملاء اعلیٰ کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
[3]۔ یعنی اُس کی حمد و تسبیح کرنے والے۔ اِن صفات میں، اگر غور کیجیے تو اُسی طرح کی ترتیب ہے جو ہماری نمازوں میں ہوتی ہے کہ ہم پہلے صف باندھتے ہیں، پھر شیاطین سے تعوذ کرتے ہیں، پھر خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہوتے ہیں۔
[4]۔ یہ مقسم علیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کو خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہو، وہ خود گواہی دیتے ہیں کہ خدا کے بندے ہیں اور ہمہ وقت اُس کی حمد و تسبیح میں سرگرم رہتے ہیں۔
[5]۔ یہ خبر کے بعد دوسری خبر ہے۔ آیت میں ’مَشَارِق‘ کے بعد ’مَغَارِب‘ کا لفظ بربناے وضاحت قرینہ محذوف ہے اور اِس کی جمع عربیت کے اسلوب پر وسعت اطراف کو ظاہر کر رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدا کی ناپیدا کنار کائنات کے کسی دور دراز گوشے میں بھی اُس کے سوا کسی کی بادشاہی نہیں ہے۔ وہی ہر جگہ اور ہر ایک کا پروردگار ہے۔
[6]۔ اِس سے وہ عالم بالا مراد ہے جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنی دوربینوں سے جس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس سے ماورا چھ عالم اور بھی ہیں جن میں سے ہر ایک میں ہماری زمین کی طرح زندگی کی رعنائیوں سے آباد ایک زمین بھی ہے۔
[7]۔ اوپر ملائکہ کے بارے میں مشرکین کے مزعومات کی تردید فرمائی تھی۔ اُس کے بعد اب یہ جنوں کے بارے میں بھی واضح کر دیا ہے کہ اُن کے پاس ہرگز کوئی غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اِس لیے جو لوگ اُن کے اور خدا کے درمیان رشتہ جوڑنے کی کوشش کرتے اور اُن کی پرستش کرتے ہیں، وہ بھی بالکل احمق ہیں۔
[8]۔ یعنی ملائکہ اور جنات وغیرہ۔ ’مَنْ خَلَقْنَا‘کے الفاظ سے ذہن اِسی طرف جاتا ہے، اِس لیے کہ ’مَنْ‘ بالعموم ذوی العقول کے لیے آتا ہے۔
[9]۔ یعنی اُسی چپکتی مٹی سے جس کی بہت بڑی مقدار اِس وقت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ لہٰذا اِن کے بنانے کے لیے نہ اُس وقت ہمیں کوئی خاص سروسامان کرنا پڑا تھا اور نہ اب کرنا پڑے گا۔
[10]۔ یہ قرآن نے نہایت بلیغ اسلوب میں اُس دہشت اور سراسیمگی کی تصویر کھینچ دی ہے جس سے یہ لوگ دوچار ہوں گے۔
[11]۔ یہ، ظاہر ہے کہ اُن کی بات پر فرشتے کہیں گے۔
[12]۔ آیت میں ’الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‘کے الفاظ ہیں۔ یعنی ’ظَلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ‘۔اِس سے قرآن میں شرک مراد لیا جاتا ہے جو سب سے بڑا ظلم ہے اور یہ ظلم انسان دوسروں پر نہیں، بلکہ اپنے اوپر کرتا ہے۔
[13]۔ یہ اُس ذلت اور بے بسی کی تصویر ہے جس کے بارے میں اوپر فرمایا تھا کہ ہاں، اٹھائے جاؤ گے اور ذلیل بھی ہو گے۔
[14]۔ اصل الفاظ ہیں:’تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ‘۔ اِن کے بعد ’وَعَنِ الشِّمَالِ‘ہونا چاہیے تھا، لیکن اُن کے پیشواؤں نے بات پوری نہیں ہونے دی۔ چنانچہ صورت حال کی تصویر کے لیے قرآن نے بھی اُسی طرح چھوڑ دیا ہے۔
[15]۔ یعنی وہ بات جو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے جواب میں کہی تھی کہ میں تجھے اور تیرے پیرووں کو جہنم میں بھر دوں گا۔
[16]۔ اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنی عقل ہر شخص کو دے کر دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ حق و باطل میں امتیاز کرسکے۔ چنانچہ پیرووں کا یہ عذر اُس دن مسموع نہ ہو گاکہ اُن کی گم راہی کے ذمہ دار اُن کے لیڈر اور پیشوا ہیں۔
[17]۔ یعنی ہرگز خبطی اور شاعر نہیں ہے۔ یہ قریش کوجواب دیاہے اور اِس طرح کلام کو مطابق حال کر دیا ہے۔
[18]۔ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت مسیح تک تمام رسولوں کی پیشین گوئیوں کا مصداق، جو اِس کے رسول برحق ہونے کی نہایت واضح دلیل ہے۔
[19]۔ یعنی وہ جو اپنے ایمان و عمل سے اِس کا استحقاق پیدا کر لیں گے کہ خدا کی جنت کے لیے منتخب کر لیے جائیں۔
[20]۔ یعنی ایسی روزی جو اُن کے منشا کے مطابق، اُن کا اپنا انتخاب اور ہر لحاظ سے جانی پہچانی ہو گی جس کو دیکھ کر کسی وحشت یا انقباض کا امکان نہ ہو۔
[21]۔ ’آمنے سامنے‘ کے الفاظ اُن کی باہمی محبت اور خوش دلی کے اظہار کے لیے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے سے منہ پھیر کر نہیں، بلکہ پورے التفات کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھتے اور آپس میں باتیں کرتے ہوں گے۔
[22]۔ یہ عورتوں کے با حیا ہونے کی تعبیر ہے۔ اہل عرب اِسی کو عورت کا سب سے بڑا حسن قرار دیتے تھے۔
[23]۔ یہ تمام تشبیہات عربوں کے خاص ذوق کے مطابق ہیں، اِس لیے کہ وہی اِس کلام کے اولین مخاطبین ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...کلام عرب میں نازنینوں کی تشبیہ شتر مرغ کے انڈوں سے بہ کثرت ملتی ہے اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اِس تشبیہ میں عفت، صیانت اور رنگ، تینوں چیزوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔ ’مَكْنُوْن‘ سے اُن کے اچھوتے ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ امر یہاں ملحوظ رہے کہ جس طرح اہل عرب کنواریوں کی حفاظت میں بڑے غیور و حساس تھے، اُسی طرح شتر مرغ بھی اپنے انڈوں کی حفاظت میں جان لڑا دیتا ہے۔ تشبیہ میں یہاں سنہرے رنگ کے انڈے مراد ہیں۔ نازنینوں کے سنہرے رنگ کا شعراے عرب بہت ذکر کرتے ہیں۔ ’معشوقہ‘ کے لیے ’صفراء‘ کی صفت اُن کے ہاں بہت معروف ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۶۷)
[24]۔ یعنی اُسی جگہ بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور اُس سے بات بھی کر لے گا۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جنت میں جانے کے بعد لوگوں کی قوتیں اور صلاحیتیں کیا سے کیا ہو جائیں گی۔
[25]۔ اِن الفاظ سے جس مسرت اور بے خودی کا اظہار ہو رہا ہے، اُس کا اندازہ ہر صاحب ذوق کر سکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...مطلب یہ ہے کہ اگر یہ بازی ہم نے جیت لی تو سب سے بڑی بازی جیت لی۔ اسلوب کلام پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ اُن کی کامیابی اُن کی توقعات سے اتنی زیادہ ہو گی کہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اُنھیں اپنے اوپر اعتبار نہیں ہو گا اور وہ اپنے ساتھیوں سے اُس کی تصدیق چاہیں گے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۶۸)
[26]۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی بات پر استدراک ہے۔
[27]۔ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ قرآن کے مخاطبین جب یہ سنتے کہ دوزخ میں زقوم کا درخت ہو گا تو اُس سے عبرت حاصل کرنے کے بجاے ٹھٹھا مار کر کہتے: لو اب نئی سنو، اِن کا کہنا ہے کہ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں درخت بھی اگیں گے۔
[28]۔ یعنی جو چاہے کہیں، حقیقت یہی ہے کہ یہ دوزخ میں اگتا اور اُسی میں پھلتا پھولتا ہے۔
[29]۔ یہ تخییلی نوعیت کی تشبیہ ہے۔ اِس طرح کی تشبیہات دنیا کی ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...بعض مرتبہ تشبیہ کسی خیالی چیز سے دی جاتی ہے، لیکن وہ مرئی و مشاہد چیزوں سے زیادہ ذہنوں سے قریب ہوتی ہے۔ مثلاً آپ کسی پراگندہ حال و پراگندہ بال شخص کو کہیں کہ کیا بھوت کی سی شکل بنا رکھی ہے! بھوت اگرچہ ایک خیالی چیز ہے، لیکن اُس کا ایک تصور ہر شخص کے ذہن میں موجود ہے۔ اِس وجہ سے یہ تشبیہ اُس شخص کو جس خوبی کے ساتھ مصور کرے گی، کوئی دوسری تشبیہ مشکل ہی سے کرسکے گی۔ اِسی طرح یہاں دوزخ کے زقوم کے پتوں اور کانٹوں کو شیاطین کے سروں سے تشبیہ دی ہے، گویا بہت سے شیاطین ننگے سر کھڑے ہوں۔ ہر چند یہ تشبیہ ہے خیالی، لیکن ذہنوں میں شیاطین کا ایک خوف ناک تصور موجود ہے۔ اِس وجہ سے اِس کو سن کر دل پر ایک کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۶/ ۴۶۹)
[30]۔ یعنی اِس ضیافت کے بعد۔ اوپر آیت میں اِس کے لیے ’نُزُل‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اِس کے معنی اولین ضیافت کے ہیں جو آتے ہی مہمان کو پیش کی جائے۔ مدعا یہ ہے کہ داخل ہوتے ہی زقوم کا پھل اور کھولتا ہوا پانی ملے گا۔پھر ہمیشہ کی سزا کے لیے اپنے اصل ٹھکانے کی طرف بھیج دیے جائیں گے۔
[31]۔ اِس سے معلوم ہوا کہ گم راہی کے عوامل میں سب سے بڑا عامل اپنے آبا و اجداد اور بزرگوں کی اندھی تقلیدہی ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ