پاکستان کے سیاسی کلچر کے عناصر متعدد ہیں۔ قومی ریاست، ۱۹۷۳ء کا دستور، سیاسی پارٹیاں، مقتدر ادارے، سیاسی اقدامات میں مداخلت کی طاقت رکھنے والے مختلف سماجی گروہ، مذہب اور عوام وغیرہ۔ یہ سب کیسے سیاست کے روپ اور بہروپ کی تشکیل کرتے ہیں، اسے سمجھے بغیر کسی تبدیلی کے منصوبے کو نہ ترتیب دیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی کامیابی اور ناکامی کے امکانات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
قومی ریاست کا تصور پاکستان کے وجود میں آنے کی تاریخ کا حاصل ہے۔ انگریز آئے اور انھوں نے بالآخر مسلمانوں کی حکومت ختم کرکے ہندوستان کے راج پر قبضہ کر لیا۔ پھر اپنے نظام کو چلانے کے لیے ریاستی ادارے، تعلیمی ادارے، پولیس، عدلیہ، فوج اورعوام کو شریک کرنے کے لیے مختلف سیاسی پارٹیوں کی تشکیل کی۔ ہندوستان کی تقسیم ہندو مسلم اقتدار کی رسہ کشی کاایک حل تھا۔ چنانچہ وہ نافذ ہو گیا۔اس طرح وہ نظام وجود پذیر ہوا جس میں ہم آج بھی جی رہے ہیں۔ اس نظم ریاست کے دو بنیادی کردار ہیں: ایک یہ کہ اس حکمران طبقے کو حکومت کرنے میں یہ تمام نظام مدد گار ہوجو انگریزوں کے طرز حکمرانی کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا۔ دوسرے عوام کی ضرورتیں اس حد تک پوری ہوں کہ کوئی بڑا ردعمل پیدا نہ ہو۔غرض یہ کہ بنیادی طور پر یہ کوئی نظریاتی یا مذہبی ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ ایک علاقے کے عوام کو ایک قانون کی عمل داری میں رکھنے کا انتظام ہے۔
۱۹۷۳ء کا دستور اسی انتظام کی دستاویز ہے۔ بنیادی طور پر یہ مغرب کے صنعتی انقلاب کی کوکھ سے جنم لینے والے ریاستی انتظام کا چربہ ہے۔ چربہ اس لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے قانون کی بہت سی دفعات کا تعلق استعماری نظام سے ہے۔ اور استعماری نظام کی یہ دفعات ہمارے مقتدر طبقات کو بھی سوٹ کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ جوں کی توں قائم ہیں۔ مقصود انھی اقدار کی حفاظت اور اسی قانونی بندوبست کا تسلسل ہے، آزادی کے بعد ہم جس کے وارث بنے تھے۔ بھٹو اور اس کی اپوزیشن، دونوں کا جنم ایک ہی ماں کے پیٹ سے ہوا تھا، اس لیے اس دستاویز کی تدوین عمومی اتفاق سے ہو گئی تھی۔مذہبی طبقات کو مطمئن کرنے کے لیے ریاست کو کلمہ بھی پڑھا دیا گیا تھا۔ شاید کسی کو یہ بات معلوم نہیں تھی یا معلوم نہیں ہے کہ اس انتظام کا کسی نظریےیا عقیدے سے نکاح کاغذی ہے، اس سے کوئی گھر وجود میں نہیں آ سکتا۔
ہماری سیاسی پارٹیاں انگریزوں کے اس فیصلے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھیں کہ یہاں کے عوام کو درجہ بدرجہ ریاستی انتظام میں شامل کیا جائے۔ ان میں سے دو پارٹیاں آزادی کی جدوجہد میں سب سے نمایاں ہو گئیں۔ ایک کے حصے میں بھارت آیا اور دوسرے کے حصے میں پاکستان۔قائد اعظم کی وفات جلد ہوجانے کے بعد مسلسل ایسے سیاسی حوادث ہوئے کہ مسلم لیگ پاکستان میں اپنے نام کے ساتھ تو موجود رہی، لیکن کسی بڑی سیاسی روایت کی امین نہیں بن سکی۔ پیپلز پارٹی ایوب خان کے خلاف موجود اور پیدا کیے گئے رد عمل کی عوامی تنظیم کے خیال سے وجود میں آئی اور آج اپنی مقبولیت کے بڑے حصے سے تہی دامن ہے۔ نون لیگ نواز شریف کی سیاسی صلاحیت کومقتدرہ کے حق میں استعمال کرنے کے لیے بنائی گئی پارٹی ہے اور اب نواز شریف کی مقبولیت کے بقدر اپنا وجود رکھتی ہے۔ تحریک انصاف تاحال عمران خان کے سیاسی وجود کا نام ہے۔باقی پارٹیاں کچھ علاقوں کی پارٹیاں ہیں۔ تمام پارٹیاں شخصی اور جزوی فرق کے ساتھ سرمایہ دارانہ معیشت، موجود استعماری ریاستی نظام، مغربی معیار پر ترقی کے تصور، اسلام کے ساتھ کلچرل وابستگی کے ساتھ سیاست کرنے والی پارٹیاں ہیں۔
ان میں سے چند مذہب پر بنا رکھنے والی پارٹیاں ہیں۔ یہ پارٹیاں اصلاً مذہبی اہداف رکھتی ہیں، لیکن اس سیاسی نظام کا حصہ بن جانے کی وجہ سے اپنے اصل ہدف سے عملاً دست بردار ہیں۔ لیکن ان پارٹیوں نے اپنے اندرونی نظام کو اپنے مذہبی رنگ ہی پررکھا ہوا ہے، اس لیے عوام سے ان کا تعلق محدود رہتا ہے۔ عام پاکستانی عوام انھیں اپنا نمایندہ بنانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ البتہ ان کی تنظیمی طاقت کی وجہ سے بعض اہداف کو حاصل کرنے میں ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اوروہ بوقت ضرورت اٹھا لیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کی سیاست میں مذہبی سیاست ایک بڑے عنصر کے طور پر موجودہے۔ اگرچہ اس کا اقتدار میں حصہ بقدر جثہ بھی اسے حاصل نہیں ہوتا، لیکن وہ اقتدار محل کی غلام گردشوں میں ہلچل برپا کرتے نظر آتے اور بعض اوقات اپنے جثے سے بھی زیادہ حصہ پا لیتے ہیں۔ اس ملک میں اسلامی ریاست، اسلامی نظام اور خلافت جیسے الفاظ بولے جاتے اور ان میں ایک معنوی کشش بھی ہے، لیکن یہ معنویت اصلاً ماضی کی بازیافت کے جذبے کی تعبیر ہے۔ کسی ریاستی نظم کے سوالوں کے جواب اصلاً موجود نہیں اور جو موجود ہیں، وہ محض اسلام کے فرزندوں کی علما کے بیان کردہ بعض بیانیوں سے پیدا ہونے والی توقعات ہیں۔
ہمارے مقتدر ادارے مغرب کی دین ہیں۔ یہ انھی کا طریق کار ہے کہ حکومت مستقل اداروں کے ذریعے سے چلائی جائے، جن کا نظام قواعد وضوابط کے تحت ہو،یہاں تک کہ عزل و نصب اور ترقی و تنزل بھی قواعد کے مطابق ہو۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ ادارے بڑی حد تک خود مختار ہو جاتے ہیں اوربعض اوقات خود ایک مافیا کی طرح عمل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاسی حکمران ان کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مزید ظلم یہ ہوا کہ یہ سب ادارے مالی بددیانتی کے ادارے بھی بنے ہوئے ہیں۔ الا ماشاء اللہ ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ان میں سے فوج کا سیاسی کردار سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے تصور سے پیدا ہونے والی فکر یہ تقاضا کرتی ہے کہ فوج کا سیاست میں کوئی رول نہیں ہے، لیکن یہ تمنا درست ہونے کے باوجود پوری نہیں ہوتی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں خود اس جمہوریت کے تصور کے مطابق نہیں چلائی جا رہیں۔ لہٰذا انھیں وہ اخلاقی اور شعوری طاقت حاصل نہیں ہے جو فوج کو اس کے آئینی کردار تک محدود رکھ سکے۔ پھر فوج کو ہر اقتدار میں آنے والی پارٹی اپنے اقتدار کے حصول، تسلسل اور حفاظت کے لیے استعمال کرتی ہے۔ چنانچہ فوج کا عمل دخل اپوزیشن اور حکومت، دونوں کی طرف سے ان کی طلب کی بنا پر بھی موجود ہے۔ مزید برآں، فوج نے یہ ذمہ داری بھی اٹھا لی ہے کہ اسے پاکستان کی ’’حفاظت ‘‘ اندر سے بھی کرنی ہے اور باہر سے بھی کرنی ہے اور یہ سیاسی جماعتیں، ان کے لیڈر اور ان کی فکر اس لائق نہیں کہ فوج بیرونی خطرات تک خود کو محدود رکھے، لہٰذا یہ ضروری ہے کہ فوج سیاسی عمل پر نگران رہے تاکہ کوئی بڑا نقصان نہ ہو۔
ہمارے ملک میں مزدور تنظیمیں، کسانوں کی تنظیمیں، تاجروں کی تنظیمیں، مذہبی ادارے، مساجداور بہت سے مذہبی اور غیر مذہبی ادارے بھی کام کرتے ہیں۔ اخبارات، ٹی وی چینلز، جرائد، سوشل میڈیا کے ذرائع کا بھی ایک رول ہے۔ یہ تمام عناصر اپنے مقصد کے اعتبار سے مثبت ہیں، لیکن جب یہ کرپٹ افراد کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو ان کا کردار انتہائی منفی ہو جاتا ہے۔ یہ کرپشن اخلاقی بھی ہے اور معاشی بھی۔
کسی ریاست میں موجود سیاسی، انتظامی، معاشی، سماجی، مذہبی، لسانی، نسلی، فکری اور تہذیبی گروہ سماج کی ان ساری جہتوں کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ دو عناصر جب اس تعامل میں شامل ہو جاتے ہیں تو یہ عمل تعمیری نہیں رہتا، تخریبی بنتا چلا جاتا ہے: ایک عنصر یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی اپنی بقا کے خطرے سے دو چار ہو جاتا ہے تو اس صورت میں وہ گروہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ جب ریاست کے ادارے سماج میں عمومی انصاف دینے سے تہی دامن ہو جاتے ہیں تو تمام طبقات اعتماد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جس کی لاٹھی، اس کی بھینس کا قانون عملاً نافذ ہو جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ان دونوں عناصر کا بھی شکار ہے۔ چنانچہ ہر فرد، ہر طبقہ ’ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو‘ کی تصویر بنا ہوا ہے۔
ستم بالاے ستم یہ کہ ہماری ریاست قرض کی معیشت کے اصول پر چلائی جا رہی ہے۔ قرض ادا کرکے اس کو کم کیا جائے، اس کی کوئی صورت موجود نہیں، بلکہ اس کے برعکس سال بہ سال قرض کی مقدار بڑھتی چلی جارہی ہے، اس لیے کہ ہماری معاشی ضرورتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں اور ان کے مطابق ملک میں معاشی امکانات پیدا نہیں کیے جا سکے۔
اس صورت حال میں پاکستان کے دانش ور طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی ایسے لائحۂ عمل کو دریافت کرے اور اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرے جو خلفشارکے اسباب کا خاتمہ کرے۔ محض مرہم پٹی سے یہ مجروح سماج تندرست نہیں ہو سکتا۔
ان سطور میں مقصود صرف کینوس پر سیاسی منظر کے تمام اجزا کی تصویر کشی تھی۔ مقصود یہ ہے کہ تجزیہ کاری کا عمل معروضی ہو اور حل کی تلاش جذبات یا تمناؤں کے بجاے اسباب و علل کے صحیح شعور پر ہو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ