آج کل یہ ظاہرہ عام ہے کہ بہت سے مذہبی ادارے اور خوش حال قسم کے مذہبی افراد اکثر اپنے تمام مادی وسائل کے باوجود یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم ملی، قومی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی انداز کا جو کام کرنا چاہتے ہیں، وہ مطلوب انداز میں ہو نہیں پاتا، ہم اپنے تمام تر اخلاص اور وسائل کے باوجود مذکورہ میدان میں خاطر خواہ نتائج سے محروم ہیں۔مثلاً اپنے ادارے کے تحت تزکیہ وتربیت اور تعلیم ودعوت کا جو کام مطلوب ہے، وہ وہاں انجام پانے سے قاصر ہے۔
تاہم اصل حقیقت اکثر اِس سے بالکل مختلف ہواکرتی ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ اِس ناکامی کا سبب وہ نہیں جو اِس قسم کے مخیر افراد عموماً بیان کرتے ہیں۔ اِس کے برعکس، اِس معاملے میں ناکامی کا سبب خداوندانِ ادارہ کی بڑھی ہوئی انانیت اور اُن کا استحصالی رویہ ہے، اور انا واستحصال (exploitation) کے اِس اخلاقی بحران کے ساتھ دنیا میں کسی پاکیزہ مقصد کا حصول ہرگز ممکن نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ قسم کے بیش تر صاحب خیر افراد اصلاً دین اللہ کے خادم نہیں، بلکہ وہ خود اپنی انا کے پرستار ہواکرتے ہیں۔ اُن کا اصل کنسرن عملاً درد ملت اور فلاح انسانیت سے زیادہ غالباً شہرت و امارت ہوتا ہے۔ چنانچہ جب تک اُن کی اِس اناپرستانہ نفسیات کو غذا پہنچتی رہے، وہ نرم، مخلص اور ہم درد و بااخلاق دکھائی دیتے ہیں، لیکن جیسے ہی اُن کی انا پر زد پڑے، اُن کی اصل شخصیت اُس زہریلے اژدہے کے مانند سامنے آجاتی ہے جو سردی کے موسم میں کنڈلی مار کر بہ ظاہر اِس طرح بے ضرر بن بیٹھے کہ ایک شخص اُس کی اِس ہیئت سے دھوکا کھا جائے، لیکن جیسے ہی اُس کا پاؤں اژدہے کی دُم پر پڑے، وہ فوراً ڈسنے کے لیے کھڑا ہوجا ئے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی اجتماعی کام ہمیشہ سنجیدہ اور باصلاحیت افرادکے ذریعے سے انجام پاتا ہے۔اِسی کے ساتھ کسی بڑے کام کے لیے بڑی قربانی مطلوب ہے، اور یہ بڑی قربانی ہے: باصلاحیت افراد کی قدرشناسی اور حوصلہ افزائی، اِس لیے ضروری ہے کہ اِس قسم کے اجتماعی کام کرنے والے ایک شخص کے اندر وہ چیز بدرجۂ اتم موجود ہو جسے ”خوے دل نوازی“ کہا جاتاہے، جس کے لیے انا ے ذات کی قربانی لازماً مطلوب ہے۔ ایک ہندی مفکر نے انتہائی بامعنی طورپر کہا تھا:
چوٹ سَہے جو شَبَد کی، وائے گرو، میں داس!
یعنی جس شخص کے اندر یہ حوصلہ ہو کہ وہ اپنے خلاف باتوں کو منفی ردعمل کے بجاے معتدل ذہن کے تحت سن سکے، وہی ہمارا مرشد ہوگا، ہم اُس کے غلام ہیں۔
اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کوباربار اپنے خلاف سننا پڑتا ہے۔ایسے موقع پر اگر وہ اُس پر سنجیدگی اور تحمل کے ساتھ غور وفکر کرنے کے بجاے بے برداشت ہوکر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے تو اجتماعی کام مطلوب انداز میں کبھی جاری نہیں رہ سکتا۔تجارت یا پروفیشنل میدان میں شاید اِس طرح کی روش چل سکتی ہو، مگر تعلیم وتربیت جیسے فکری اور اجتماعی امور میں اِ س طرح کا رویہ ہمیشہ صرف برعکس نتیجہ پیدا کرنے والا (counter productive) ثابت ہوگا۔
مزید یہ کہ فکری اور اجتماعی معاملات میں مال کی حیثیت صرف ثانوی ہے۔یہاں اصل اہمیت حکمت و محبت، خوے دل نوازی اور حسن تنظیم کو حاصل ہے۔تجربات بتاتے ہیں کہ عام طور پر مادی اعتبار سے صاحب حیثیت لوگ مال ہی کو اصل اہمیت دیتے ہیں۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مال ہر چیز کی تلافی کے لیے کافی ثابت ہوگا۔تاہم اِس معاملے میں شاید اِس سے بڑا اور کوئی فریب نہیں۔مال کی حیثیت زندگی میں صرف ایک عامل (factor)کی ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔مال اگر سب کچھ ہوتا تو کوئی پیسے والا شخص گھر سے لے کر باہر کی زندگی تک کبھی ناکام ثابت نہ ہوتا۔
لہٰذاجو شخص یہ محسوس کرے کہ اُس کے اندر نظم وبرداشت، تواضع (modesty) اور خوے دل نوازی کا یہ ضروری وصف موجود نہیں، اُسے چاہیے کہ وہ ایسے تمام انتظامی اور اجتماعی معاملات سے پوری طرح کنارہ کش ہوکر زندگی کے دوسرے میدان میں اپنا مثبت تعمیری رول ادا کرے۔اِس معاملے میں اُس کے لیے عملاً جو انتخاب (option)ہے، وہ صرف دوچیزوں کے درمیان ہے: یا تو وہ اجتماعی کام کا خواب نہ دیکھے یا پھر وہ اُس کی ہر قیمت ادا کرنے کے لیے ہمہ وقت تیاررہے۔
اِس معاملے میں تیسرے انتخاب (third option) کا طریقہ اختیار کرنا صرف فکری التباس (confusion) اور کامل ذہنی تباہی (breakdown) کی قیمت پر ہوگا، جو نہ صرف یہ کہ دین و انسانیت، دونوں کے خلاف ہے، بلکہ یہ خود اپنے آپ پر صریح ظلم کے ہم معنی ہے، اور ایک عقل مند شخص کبھی اِس نادانی کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ خود اپنے ساتھ ظلم کا طریقہ اختیار کرے۔
یہی وجہ ہے کہ خدا نے خود اپنے پیغمبر کو بھی یہی بلند اخلاقی روش اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ چنانچہ حکمت و محبت اور خوے دل نوازی کی اِس صفت کو خدا کی خصوصی رحمت اورتوفیق قراردیا گیا ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْﵐ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَﵣ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ. (آل عمران ۳: ۱۵۹)
’’یہ اللہ کی خصوصی عنایت ہے کہ تم اِن کے لیے بڑے نرم خو واقع ہوئے ہو۔ اگر تم درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمام افراد تمھارے پاس سے منتشر ہوجاتے،اِس لیے اِن سے درگذر کرو، اِن کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرو اور متعلق معاملات میں برابر اِن احباب سے مشورہ لیتے رہا کرو۔“
استاذ جاوید احمد غامدی آیۂ بالا کی تشریح کے تحت تحریر فرماتے ہیں:
’’اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ارباب حل وعقد کے لیے عام حالات میں پسندیدہ طریقہ نرمی، چشم پوشی اور عفوودرگذر ہی کا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اِسی سے افراد میں حسن ظن اور اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے اجتماعی نظام میں وحدت، قوت اور استحکام کی برکتیں ظہور میں آتی ہیں۔ سختی اور سخت گیری اِس کی فطرت میں نہیں، بلکہ اِس کے عوارض میں سے ہے۔ جس طرح صحت کے لیے اصل شے غذا ہے، لیکن کبھی کبھی کسی مرض کے علاج کے لیے دواکی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، اِسی طرح اجتماعی نظام میں اصل چیز نرمی ہے، سختی کبھی کبھی ضرورت کے تحت اختیار کرنی پڑتی ہے۔“ (تدبر قرآن۲/ ۲۱۰)‘‘
(البیان ۱/ ۴۱۷)
ایک شخص اگر واقعتاً تزکیہ، فلاح انسانیت اور رضاے الٰہی کا طالب ہے تو اُسے چاہیے کہ یاتو وہ اپنے عظیم ملی، قومی، تعلیمی، دعوتی اور رفاہی مقاصد کی قیمت ادا کرتے ہوئے خود پرستی سے بلند ہوکرحکمت و محبت کے ساتھ کام کرے یا پھرجس شخص یاگروہ کے علم ودیانت پروہ مطمئن ہو، اُس کو اپنا مخلصانہ تعاون دے۔ البتہ وہ خود کسی اجتماعی کام کا بیڑ ا ہرگز نہ اٹھائے۔ اِس شرط کو پورا کیے بغیر اجتماعی کام کرنا خدا اور انسان، دونوں کے نزدیک صرف ایک جرم کے ہم معنی ہوگا۔ چنانچہ اِس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ ایسا شخص خدا کے اُن نامطلوب بندوں میں شامل ہو جائے جن کے متعلق قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْاﵐ وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا٘ اَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ. فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌﶈ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاﵐ وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌۣ ﵿ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ.(البقرہ ۲: ۹-۱۰)
”وہ اللہ اور اہل ایمان، دونوں کو فریب دینا چاہتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں، مگر وہ اِس بات کا شعور نہیں رکھتے۔ اِن کے دلوں میں (کبر و حسد اور نفاق کی) بیماری تھی تو اللہ نے اب اُن کی اِس بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے، اوراپنے قول و عمل، دونوں میں دروغ گو ثابت ہوجانے کے باعث، اِن کے لیے بڑا دردناک عذاب تیار ہے۔“
(ٹمکور،کرناٹک۳۰/ اپریل ۲۰۲۳ء)
ـــــــــــــــــــــــــ