HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

اخلاص نیت

نیت

نیت سے مراد انسان کے دل کا عزم و ارادہ ہے۔ یہ وہ عمل ہے جسے انسان کی زبان یا اس کے اعضا و جوارح نہیں، بلکہ اس کا دل سرانجام دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دوسرے کی نیت نہیں جان سکتا، لیکن انسان کی یہ نیت ہی وہ چیز ہے جو کسی معاملے میں اس کے اصل پروگرام اور اُس کے حقیقی مقاصد کا پتا دیتی ہے۔

اخلاص نیت

اخلاص نیت سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل سے جس نیت کا اظہار کر رہا ہے، وہی اس کی اصل نیت ہو۔ مثلاً ہمیں جب کوئی آدمی نماز پڑھتا ہوا نظر آتا ہے تو ہم اُس کے اِس عمل سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا کی عبادت کررہا ہے۔ ہمیں یہ گمان کیوں ہوتا ہے؟ اس وجہ سے کہ نماز کا عمل اللہ کی عبادت ہی کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن جیسے یہ بات ہو سکتی ہے کہ یہ شخص واقعتاً اللہ کی عبادت ہی کے لیے نماز پڑھ رہا ہو، اسی طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص محض دوسروں کے ہاں اپنے نمازی ہونے کا تاثر پیدا کرنے کے لیے نماز پڑھ رہا ہو۔ نماز پڑھنے سے اس کے پیش نظر کیا مقصد ہے، یہ ہم اُس وقت تک نہیں جان سکتے جب تک خود وہ شخص ہمیں نہ بتا دے۔ پس اگر وہ واقعتاً اُسی مقصد اور اُسی ارادے سے نماز پڑھ رہا ہے، جسے وہ اپنے عمل سے ظاہر کر رہا ہے، یعنی اس معاملے میں اس کا ظاہر اور باطن یکساں ہے تو ہم یہ کہیں گے کہ وہ اپنے عمل میں مخلص ہے، یعنی اسے نیت کا اخلاص حاصل ہے۔

اخلاص نیت کی اہمیت

عمل کی ساری وقعت اور اس کی قد رو قیمت نیت کے اِس اخلاص ہی پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو بڑے سے بڑا عمل بھی بے وقعت ہو جاتا ہے۔ یہ ایسی بات ہے کہ ہر انسان اِسے فطری طور پر جانتا اور اسی کے مطابق دوسروں کے ساتھ behave کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی شخص اپنے انتہائی محبوب لوگوں کی جانب سے بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ اس کے ساتھ اپنے عمل اور اپنے رویوں میں غیر مخلص ہوں۔ نہ والدین یہ پسند کرتے ہیں کہ اُن کی اولاد اپنے عمل میں اُن کے ساتھ غیر مخلص ہو، نہ بھائی اور بہنیں، نہ کوئی عزیز رشتہ دار اور نہ کوئی دوست یہ گوارا کرتا ہے کہ اس کا دوست اُس کے ساتھ غیر مخلص ہو۔

خدا کی خاطر اخلاص كا حکم

سورۂ بینہ میں اطاعت میں اخلاص كا حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے:


وَمَا٘ اُمِرُوْ٘ا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَﵿ حُنَفَآءَ وَيُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكٰوةَ وَذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ
. (۹۸: ۵)
’’ اُن کو حکم یہی ہوا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں، اطاعت کو اُس کے لیے خالص کرتے ہوئے، پوری یک سوئی کے ساتھ، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ یہی سیدھی ملت کا دین ہے۔‘‘

سورۂ زمر میں اخلاص كا حکم اِن الفاظ میں بیان ہوا ہے :

اِنَّا٘ اَنْزَلْنَا٘ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ.(۳۹: ۲)
’’ ہم نے، (اے پیغمبر)، اِس کتاب کو تمھاری طرف قول فیصل کے ساتھ اتاراہے۔ سو اللہ ہی کی بندگی کرو، اپنی اطاعت کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ ‘‘

سورۂ زمر ہی میں اخلاص کے حوالے سے ارشاد ہوا ہے:

قُلِ اللّٰهَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَّهٗ دِيْنِيْ.(۳۹: ۱۴)
’’ (اے نبی، آپ) کہہ دو کہ میں تو اللہ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اپنی اطاعت کو اُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ ‘‘

قرآن عبادت کی روح اخلاص ہی کو قرار دیتا ہے۔ چنانچہ سورۂ انعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْ٘ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍﵼ دِيْنًا قِيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًاﵐ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ. قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.(۶: ۱۶۱ - ۱۶۲)
’’ اِن سے کہہ دو کہ مجھے تو میرے پروردگار نے ایک سیدھا راستہ دکھا دیا ہے ــــ    دین قیم، یعنی ملت ابراہیم کا راستہ، جو بالکل یک سو تھا اور ہرگز مشرکوں میں سے نہیں تھا۔کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔‘‘

خدا کے لیے اخلاص اختیار کرنے سے مراد

یہ درج بالا آیات اِس حقیقت کو بالكل واضح کر دیتی ہیں كہ اللہ کے ساتھ تعلقِ عبادت و اطاعت کی اصل روح اخلاص ہی ہے۔لہٰذا خدا کی عبادت  و اطاعت شرک کے ہر شائبے سے پاک ہواور اُس سے محض خدا ہی کی رضا اور اُسی کی خوشنودی مطلوب ہو۔

خدا کے لیے اخلاص اختیار کرنے کی اہمیت

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا ہے كہ اُس کو انسان کے اعمال میں صرف اور صرف اخلاص ہی مطلوب ہے۔سورۂ حج میں  ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ.(۲۲: ۳۷)
’’اللہ تعالیٰ کو ہرگز اِن (قربانیوں) کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس تک صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘

اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے مولانا اصلاحی مرحوم لکھتے ہیں :

’’...مطلب یہ ہے کہ خدا قربانیوں کے گوشت یا خون سے محظوظ نہیں ہوتا، جیسا کہ مشرکین نے گمان کر رکھا ہے، بلکہ اس تقویٰ اور اس اسلام و اخبات سے خوشنود ہوتا ہے جو ان قربانیوں سے ان کے پیش کرنے والوں کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ قربانیاں پیش کرتے ہوئے اپنے اندر تقویٰ کی یہ روح پیدا کرو۔ اگر یہ چیز نہ پیدا ہوئی تو یہ محض ایک جانور کا خون بہا دینا ہوا، اس کا حاصل کچھ نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۵/ ۲۵۱)

اللہ تعالیٰ کو ہماری ظاہر اور چھپی ہر چیز کا علم ہے۔ وہ ہمارے ظاہری عمل سے بھی واقف ہوتا ہے اور اس کے پیچھے جو دل کا ارادہ اور نیت ہوتی ہے ، اُسے بھی وہ پوری طرح جانتا ہے۔ درج بالا آیات میں اُس نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اُس نے انسان کو اپنی عبادت و اطاعت میں اخلاص اختیار کرنے كا حکم دیا ہے اور اُس کے ہاں عمل کا ظاہر وزن نہیں پاتا ، بلکہ اُس کے پیچھے موجود تقویٰ و اخلاص وزن پاتا ہے۔

انسان اپنے اعمال کے معاملے میں خداے علیم و خبیر کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ قیامت کے دن وہ جب اپنے بندوں سے اُن کے اعمال کا حساب لے گا تو اُنھیں اُن کی نیتوں کے عین مطابق اجر دے گا۔

حدیث میں اخلاص نیت کی اہمیت اِس طرح بیان ہوئی ہے:

عَنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ عَلَى المِنْبَرِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى». (بخاری، رقم۱)
’’عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر بیٹھے ہوئے یہ روایت بیان کی ، وه کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا دار و مدار تو بس نیتوں پر ہوتا ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی ہو گا جس کی اُس نے نیت کی ہو گی۔‘‘

یہ حدیث واضح طور پر بتا رہی ہے كہ تمام اعمال اپنے پیچھے موجود نیتوں اور ارادوں کے حساب سے وزن پائیں گے۔

خدا پاک ذات ہے، وه اچھائی اور پاکیزگی ہی کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ وه صرف اچھے اور پاکیزہ اعمال ہی کو قبول کرے گا۔ اُس کے ہاں نہ کسی برے عمل کے قبول ہونے کا کوئی امکان ہے اور نہ برے مقاصد سے کیے گئے بظاہر نیک اعمال کی قبولیت کی كوئی گنجایش ہے۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حدیث سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے كہ اچھے اعمال اگر خالص نیت کے ساتھ کیے گئے ہوں گے تبھی قبول ہوں گے، ورنہ نہیں۔ یعنی ایک آدمی اگر دوسرے کی مدد اپنے کسی مفاد کی خاطر کرتا ہے تو یہ شخص دوسرے کی مدد کرنے والوں میں شمار نہیں ہو گا، بلکہ یہ اپنا مفاد حاصل کرنے والوں میں شمار ہو گا۔

ریاكاروں کے اخلاص سے خالی اعمال کا انجام

نیتوں کے خالص نہ ہونے کی وجہ سے قیامت کے دن ریاکاروں کے اعمال کس طرح برباد کر دیے جائیں گے، اِس بات کو واضح کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’قیامت کے دن سب سے پہلے جن تین اشخاص[1]کا فیصلہ کیا جائے گا، اُن میں سے ایک وہ شخص ہو گا جو دنیا میں شہید ہوا تھا، اُسے اللہ تعالیٰ کے حضور میں لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ ان سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ، میں تیری راہ میں لڑا، یہاں تک کہ میں شہید ہو گیا، اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو میری راہ میں نہیں، بلکہ اِس لیے لڑا تھا کہ بہادر کہلائے اور وہ تو کہلا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
دوسرا وہ شخص ہو گا جس نے علم سیکھا اور سکھایا؛ قرآن پڑھا اور پڑھایا تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ، میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیری خوشنودی کے لیے قرآن پڑھا اور پڑھایا۔ پروردگار کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے، میری خوشنودی کے لیے نہیں، بلکہ تو نے علم اس لیے سیکھا اور سکھایا تا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن اس لیے پڑھا اور پڑھایا تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص قاری (قرآن کا معلم) ہے، پس تجھے یہ کہا جا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
تیسرا وہ شخص ہو گا جسے اللہ نے ہر طرح کا مال دیا تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں کو پا کر کیا اعمال کیے؟ وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ، میں نے تیری رضا کی خاطر ہر اُس موقع پر انفاق کیا ہے، جس پر انفاق کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے، میری رضا کے لیے نہیں، بلکہ تو نے اِس لیے مال خرچ کیا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، اور وہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘ (مسلم، رقم ۱۹۰۵)

یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے سے بڑے کسی عمل کو بھی صرف اسی صورت میں قبول کریں گے، جب کہ وہ خالص نیت کے ساتھ کیا گیا ہو گا۔ کوئی شخص بھی خدا کو دھوکا نہیں دے سکے گا۔ خدا کے یہاں صرف وہی عمل قبول ہو گا جو واقعتاً اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا ہو گا۔[2]

اِس حدیث سے مزید ایک بات ہمیں یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے پہلے اپنے سرکشوں اور نافرمانوں کا حساب نہیں لے گا، بلکہ اپنے دھوکا باز فرماں برداروں کا حساب لے گا۔ وہ یہ بات کسی طرح گوارا نہیں کرے گا کہ اُسے دھوکا دیا جائے اور یقیناً وہ اِس سے بہت بلند ہے کہ اُسے دھوکا دیا جا سکے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1] اس سے صرف تین ہی اشخاص مراد نہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سب سے پہلے اِس نوعیت کے افراد کا حساب ہوگا۔

[2] نیت عمل کا محرک اصلی ہوتی ہے۔ درج بالا حدیث میں اخلاص نیت کا معاملہ اسی حوالےسے زیر بحث آیا ہے، یعنی عمل کا محرک اصلی خالص ہونا چاہیے۔ اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ خالص اللہ کے لیے جہاد کرنے والا یا اُس کے لیے خیرات کرنے والا اپنے بارے میں یہ خیال ہی نہیں کر سکتا کہ کل لوگ اُسے بہادر یا سخی سمجھیں گے۔ کسی کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہونا بالکل فطری بات ہے اور یہ اخلاص نیت کے خلاف نہیں ہے ، اخلاص کے خلاف تو یہ بات ہے کہ کوئی شخص لڑے ہی اِس لیے کہ وہ بہادر کہلائےاور ظاہر یہ کرے کہ وہ اللہ کے لیے لڑ رہا ہے، ایسا شخص دھوکا دینے والا شمار ہو گا، چنانچہ یہ کہا جائے گا کہ اِس کی نیت خالص نہیں ہے۔

B