HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۵)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت سعید بن عمرو رضی اللہ عنہ

حسب نسب

حضرت سعید (شاذروایت : معبد ) بن عمر و بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سترھویں جد الیاس بن مضر کے تین بیٹے مدر کہ (عامر) ، طابخہ (عمرو) اور جمعہ (عمیر) ہوئے۔ آپ مدرکہ کی اولاد میں سے ہیں، جب کہ طابخہ بن الیاس حضرت سعید بن عمرو کے جد ہیں۔ تمیم بن مر جن سے بنو تمیم کا قبیلہ منسوب ہے، اد بن طابخہ کے پوتے تھے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو تمیم ( زمانۂ جاہلیت میں ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے (المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۲۷۳۹)۔

بنو تمیم کے شاعر اور جلیل القدر صحابی حضرت قیس بن عاصم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ آپ کو نبوت ملنے ۔ سے پہلے ہم شام کے سفر پر تھے کہ ایک گر جا کے پادری نے بتایا کہ مصر کی اولاد میں اللہ کے آخری نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پیدا ہوں گے ، یوں ہمیں آپ کی بعثت سے بہت پہلے آپ کی نبوت کا علم ہو گیا تھا۔ ہم نے اپنے نو مولود وں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیے تھے ( معجم الکبیر ، طبرانی رقم ۱۳۷۲۳)۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میری امت میں سے بنو تمیم دجال پر بھاری ہوں گے ( بخاری، رقم ۲۵۴۳۔ مسلم، رقم ۶۵۳۸ ۔ مسند احمد ، رقم ۹۰۶۸ - صحیح ابن حبان، رقم ۶۸۰۸ ۔ مصنف عبد الرزاق ، رقم ۲۰۸۳۳۔ مند ابو یعلی در قم ۶۱۰۱) ۔ مسند احمد کی روایت در قم ۱۷۵۳۳) میں اضافہ ہے : بنو تمیم کے لیے بھلا ہی کہو، وہ دجال پر نیزہ زنی کرنے میں سب سے آگے ہوں گے۔

حضرت تمیم بن حارث حضرت سعید بن عمرو کے ماں شریک بھائی تھے۔ ان دونوں کی والدہ بنو عامر بن صعصہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ حرثان بن حبیب ان دونوں کے نانا تھے۔

حضرت سعید بن عمر و بنو سہم کے حلیف تھے۔

حبشہ کی طرف ہجرت

۵/ نبوی (۶۱۵ء): کم زور اور ضعیف اہل ایمان پر مشرکین مکہ کا سلسلۂ ظلم در از ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ ماہ رجب میں حضرت عثمان بن عفان کی قیادت میں گیارہ صحابہ اور چار صحابیات پر مشتمل قافلہ حبشہ روانہ ہوا۔ یہ ہجرت اولی تھی۔ پھر ماہ شوال سے قبل حضرت جعفر بن ابو طالب کی سر براہی میں سڑسٹھ اہل ایمان نے حبشہ کا رخ کیا۔ اسے ہجرت ثانیہ کہا جاتا ہے۔ حضرت سعید بن عمرو اس ہجرت کا حصہ تھے۔ ان کے حلیف قبیلے بنو سہم کے حضرت حارث بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت بشر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت عبداللہ بن حارث حضرت معمر بن حارث، حضرت ابو قیس بن حارث، حضرت خنیس بن حذافہ ، حضرت عبداللہ بن حذافہ ، حضرت قیس بن حذافہ ، حضرت عمیر بن رئاب اور حضرت محمید بن جزءان کے ہم سفر تھے۔

حبشہ سے مدینہ

حضرت سعید بن عمرو ان صحابہ میں شامل تھے، جو جنگ بدر کے بعد کسی وقت مدینہ پہنچے اور انھوں نے حضرت جعفر بن ابو طالب کے ساتھ مدینہ کا سفر ہجرت نہیں کیا۔ ابن اسحق نے اس زمرہ میں بنو سہم کے حضرت عبداللہ بن حارث، حضرت حارث بن حارث، حضرت معمر بن حارث، حضرت بشر بن حارث، حضرت سعید بن حارث، حضرت سائب بن حارث، حضرت ابو قیس بن حارث، حضرت قیس بن حذافہ اور حضرت عبد اللہ بن حذافہ سمیت کل چونتیس اصحاب کا شمار کیا ہے۔

غزوات

حضرت سعید غزوہ بدر کے وقت حبشہ میں تھے ، بعد کے غزوات میں ان کی شرکت کی تفصیل نہیں ملتی۔

خلافت راشده، جنگ اجنادین

۶/ جمادی الاولیٰ ۱۳ھ ، ۱۰/ جولائی ۶۳۴ء (واقدی، ذہبی ، Walter Kaegi بتصرف) یا ۵اھ ۶۳۶ء (طبری، ابن جوزی، ابن کثیر ) کو موجودہ اسرائیل کے بیت غوفرین یا بیت جبرین (Beit Guvrin) اور رملہ کے در میان واقع مقام اجنادین پر رومی باز نطینی اور اسلامی افواج کے درمیان پہلا بڑا معرکہ ہوا۔ اسے جنگ اجنادین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ابتدائی جھڑ ہیں حضرت معاویہ بن ابو سفیان کی قیادت میں ہوئیں۔ حضرت عمرو بن العاص، حضرت شرحبيل بن حسنہ اور حضرت خالد بن ولید کے دستے شامل ہوئے تو اسلامی فوج کی نفری تینتیس ہزار ہو گئی۔ نوے ہزار پر مشتمل رومی فوج کا سپہ سالار قیصر روم ہر قل کا بھائی تھیوڈور (Theodore، تذارق) تھا۔ عہدے کے اعتبار سے اسے ارطبون یا military tribune کہا جاتا تھا۔

بُصری میں شکست کھانے کے بعد ہر قل نے تھیوڈور کو اجنادین کے مقام پر فوجیں جمع کرنے کا حکم دیا۔ اس نے ایک زبردست فوج تو اپنے پاس اجنادین میں رکھی اور دوسری رملہ اور بیت المقدس میں تعینات کی۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے فلسطین کے سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص کو اجنادین جانے کا حکم دیا۔ اجنادین میں زبر دست معرکہ آرائی ہوئی، انجام کار ارطبون تھیوڈور شکست کھا کر بیت المقدس کو فرار ہو گیا اور اجنادین پر حضرت عمر و بن العاص کا قبضہ ہو گیا۔

شکاگو یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر Walter Kaegi (۱۹۳۷ء تا۲۰۲۲ء) کا کہنا ہے کہ اس بات کا کم احتمال ہے کہ حضرت عمرو بن العاص نے جنگ اجنادین میں فوج کی کمان کی ہو ( بیز نظہ والفتوحات الاسلامیۃ المبكرة ۱۴۵)۔

واقدی کا بیان

واقدی کا بیان مختلف ہے : رومی فوج کا سالار وردان اور جیش اسلامی کے قائد حضرت خالد بن ولید تھے۔ جنگ کی ابتدا میں وردان نے حضرت خالد کو بلا کر مال و دولت کا لالچ دیا اور انھوں نے اسلام قبول کرنے، جزیہ دینے یا جنگ کرنے کی پیش کش کی۔ حضرت خالد بن ولید سے معانقہ کرنے کے بعد اس نے اپنی فوج کو صلیب کی حفاظت کرنے کے لیے حملہ کرنے کا حکم دے دیا، لیکن اس سے پہلے صحابہ لیکے اور حضرت خالد کے حکم پر حضرت ضرار بن از در نے وردان کا سر پاش پاش کر دیا۔ پھر حضرت خالد کے حکم پر انھوں نے وردان کا سر اٹھایا اور سپاہ اسلامی رومی فوج پر ٹوٹ پڑی۔ صبح سے شام تک تلواریں چلتی رہیں۔ حضرت ضرار نے کئی رومیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ حضرت ہشام بن العاص سپاہیوں کی ہمت بندھاتے رہے۔ دودن کی لڑائی میں پچاس ہزار رومی جہنم واصل ہوئے اور بچ جانے والے دمشق اور قیساریہ کو فرار ہوئے ( فتوح الشام، واقدی ۵۹/۱-۶۰)۔

جنگ اجنادین میں پانچ سو پچھتر مسلمانوں نے شہادت کا نذرانہ پیش کیا۔ شہدا میں حضرت سعید بن عمرو، حضرت تمیم بن حارث، حضرت ہبار بن سفیان، حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عکرمہ بن ابو جہل، حضرت ابان بن سعید ، حضرت خالد بن سعید، حضرت ضرار بن از دور ، حضرت نعیم بن عبد اللہ نحام ، حضرت سلمہ بن ہشام، حضرت عمرو بن سعید ، حضرت ہشام بن العاص، حضرت فضل بن عباس، حضرت طفیل بن عمرو دوسی، حضرت عبد اللہ بن عمرو دوسی اور حضرت حارث بن ہشام شامل تھے۔

وفات

حضرت سعید بن عمرو اور ان کے ماں جایے حضرت تمیم بن حارث جنگ اجنادین (۱۳ھ) میں داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق ان کی شہادت عہد صدیقی میں جنگ نخل (۱۳ھ) میں ہوئی۔

عائلی زندگی

حضرت سعید بن عمرو کی عائلی زندگی کے بارے میں معلومات موجود نہیں۔

مدینہ منورہ کے حی المبعوث میں ایک شارع حضرت سعید بن عمر و تمیمی کے نام سے موسوم کی گئی ہے۔

مطالعۂ مزید : السيرة النبويۃ ( ابن الحق) ، فتوح الشام (واقدی)، السيرة النبويۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ( ابن عبد البر، الکامل فی التاریخ ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابيۃ این اثر ، تاریخ الاسلام (ذہبی ، الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ ابن حجر)، بیز نظۃ والفتوحات الاسلاميۃ المبكرة، ترجمہ Byzantium and the Early Islamic Conquests (Walter Kaegi)۔

________


حضرت عدی بن نضلہ رضی اللہ عنہ

شجرۂ نسب

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آٹھویں جد کعب بن لوی کے تین بیٹے مرہ، عدی اور خصیص ہوئے۔ آپ کا شجرۂ نسب مرہ بن کعب سے ملتا ہے، جب کہ عدی بن کعب کی اولاد بنو عدی کہلاتی ہے۔ لوی بن غالب عدی کے تیسرے، مالک بن نضر پانچویں، مدرکہ بن الیاس نویں اور معد بن عدنان تیرھویں جد تھے۔ عدی کے دو بیٹے رزاح اور عویج ہوئے۔ رزاح بن عدی حضرت ابو بکر کی دادی قبیلہ کے پانچویں اور حضرت عمر فاروق اور حضرت شفا بنت عبد اللہ کے ساتویں جد تھے۔

حضرت عدی بن نضلہ عدی بن کعب کے دوسرے بیٹے عویج کی اولاد میں سے ہیں، ان کے والد کا نام نضلہ ، فضیلہ اور اسد بتایا گیا ہے۔ عبد العزیٰ بن حرثان ان کے دادا تھے۔ عوج بن عدی حضرت عدی کے چھٹے اور بانی قبیلہ عدی بن کعب ساتویں جد تھے (ابن سعد ، ابن حجر )۔ ابن عبد البر اور ابن اثیر نے عدی بن کعب کا ذکر نہیں کیا اور عوج بن کعب کو حضرت عدی کا چھٹا جد بتایا ہے۔ قبل اسلام کے موحد زید بن عمرو بن نفیل بھی بنو عدی سے تعلق رکھتے تھے۔

مسعود بن حذافہ سہمی کی بیٹی حضرت عدی بن نضلہ کی والدہ تھیں۔

قبول اسلام

حضرت عدی بن نضلہ ابتدائے اسلام میں مشرف بہ ایمان ہوئے۔

ہجرت حبشہ

حضرت عدی بن نضلہ ہجرت ثانیہ میں حبشہ گئے۔ بنو عدی کے دو اصحاب، حضرت عدی بن نضلہ کے چچازاد حضرت عروہ بن ابو اثاثہ اور ان کے بھتیجے حضرت معمر بن عبد اللہ سفر ہجرت میں ان کے رفیق تھے۔ بنو عدی کے حلیف حضرت عامر بن ربیعہ اور ان کی اہلیہ حضرت لیلی بنت ابو حشمہ ہجرت اولی میں حبشہ جاچکے تھے۔ حبشہ میں داخل ہونے کے بعد زیادہ تر مہاجرین نجاش کے قصبے میں مقیم رہے اور کچھ سمندر پار کر کے مشرقی ایشیا پہنچے۔ مہاجرین نے حبشہ میں نماز ادا کرنے کے لیے دو مسجدیں تعمیر کیں جو مسجد الصحابۃ اور مسجد نجاشی کے نام سے اب بھی موجود ہیں۔

وفات

قیام حبشہ کے دوران میں سات صحابہ اور تین صحابیات کا انتقال ہوا اور وہ حبشہ ہی میں سپرد خاک ہوئے۔ سب سے پہلے حضرت عدی بن نضلہ نے وفات پائی اور شاہ نجاشی نے خود ان کی تدفین کی۔ بنو عدی کے حضرت عروہ بن عبد العزیٰ نے بھی حبشہ میں وفات پائی۔ مسجد نجاشی کے عقب میں شارع صحابہ پر واقع احاطے میں دس صحابہ اور پانچ صحابیات کی قبریں تاحال موجود ہیں۔ حضرت عدی بن نضلہ ، حضرت حاطب بن حارث، حضرت حطاب بن حارث، حضرت عبد اللہ بن حارث، حضرت سفیان بن معمر، حضرت عروہ بن ابو اثاثہ حضرت مطلب بن از ہر اور حضرت فاطمہ بنت صفوان کی قبریں نشان زد ہیں۔

پہلا مورث کون ؟

حضرت عدی بن نضلہ عہد اسلامی کے پہلے مسلمان تھے جن کی وراثت اسلامی طریقے سے ان کے بیٹے حضرت نعمان کو منتقل ہوئی۔ بلاذری کا کہنا ہے کہ ان کے دو بیٹے نعمان اور امیہ ان کے وارث بنے۔ ابن سعد نے حضرت عدی بن نضلہ کی تین اولادوں حضرت نعمان، حضرت نعیم اور حضرت آمنہ کا ذکر کیا اور صرف حضرت نعمان بن عدی کا وارث ہو نا بتایا ہے (الطبقات الکبری، رقم ۳۹۸)۔ حضرت نعمان بن عدی کو خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق نے موجودہ ایران کی سرحد پر واقع عراقی صوبے میسان کا گورنر بنایا، پھر کچھ عشقیہ اشعار کہنے پر معزول کر دیا اور کہا: اب تو کبھی بھی میرا عامل نہیں بنے گا ( انساب الاشراف، بلاذری ۲۴۹/۱ المنتظم، ابن جوزی ۹۹۵)۔ ابن الحق کی روایت کے مطابق حضرت مطلب بن از ہر پہلے مسلمان تھے جن کی وراثت اسلامی طریق پر ان کے بیٹے حضرت عبداللہ نے پائی۔ ابن حجر کا یہ کہہ کر دونوں روایتوں کو جمع کرنا درست نہیں لگتا کہ حضرت مطلب کی وراثت حجاز میں اور حضرت عدی کی حبشہ میں منتقل ہوئی۔ دونوں اصحاب کا انتقال حبشہ میں ہوا اور مہاجرین حبشہ میں سے حضرت عدی بن نضلہ کے سب سے پہلے وفات پانے پر مورخین کا اتفاق ہے۔ کتب صحابہ میں یہ روایت بھی نقل ہوئی ہے کہ حضرت عمرو بن اثاثہ (حضرت عروہ بن ابو اثاثہ ) دور اسلام کے پہلے فرد تھے جن کی وراثت منتقل ہوئی۔ اس بات کا صحیح ہونا ممکن نہیں، کیونکہ حضرت عروہ کی اولاد نہ تھی، جو ان کی وارث بنتی۔

اہلیہ اور اولاد

بنو خزاعہ کے نعحہ بن خویلد ( بعجہ بن امیہ بن خویلد : نسب قریش، مصعب زبیری (۳۸۲) کی بیٹی سے حضرت عدی بن نضلہ کی شادی ہوئی اور حضرت نعمان، حضرت نعیم (امیہ : ابن حزم ) اور حضرت آمنہ کی ولادت ہوئی۔ اپنے والد کی وفات کے بعد حضرت نعمان بن عدی حضرت نبی ضرت نعیم بن م بن عبد الله نحام کی پرورش میں رہے ، انھوں نے اپنی بیٹی امہ کا نکاح ان سے کر دیا۔

مطالعۂ مزيد : السيرة النبويۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستيعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)، نسب قریش ( مصعب زبیری، انساب الاشراف (بلاذری)، جمہرة انساب العرب ( ابن حزم)، اسد الغابۃ فى معرفۃ الصحابۃ ( ابن اثير ) ، الاصابۃ فی تمييز الصحابۃ ( ابن حجر )۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B