HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : خورشید احمد ندیم

فلسطین کا مقتل اور مذہبی مقدمات

مذہب اپنے جوہر میں اُخروی ہے اور اپنے وجود میں اخلاقی۔

اِس سے مراد کیا ہے؟مذہبی آدمی کا ہر قدم اس فکر کے تحت اٹھتا ہے کہ کل جب خدا کے حضور میں پیشی ہو تو وہ سرخرو ٹھیرے اور دائمی خسارے سے محفوظ رہے۔وہ اسی احساس میں جیتاہے۔یہ مذہب کا جوہر ہے۔ دوسری طرف انسان ایک وجود رکھتا ہے۔یہ وجود حیاتیاتی بھی ہے اور اخلاقی بھی۔حیاتیاتی اعتبار سےوہ جانتا ہے کہ بقا کے لیے کس سامان کی ضرورت ہے۔یہ علم اس کے داخل میں ہے، جو ہر جان دار کو عطا ہوا ہے۔ انسان کے داخل سے، مگر ایک اور آواز بھی اٹھتی جو اسے بتاتی ہے کہ خیرکیا ہے اور شر کیا۔یہ اس کے اخلاقی وجود ہونے کی دلیل ہے۔دوسرے جان دار اس سے محروم ہیں۔اللہ کے پیغمبرانسان کو اسی آواز کی طرف متوجہ کرتے اور اس کے اخلاقی وجود کی تطہیر کا سامان کرتے ہیں۔

مذہب اگر سیاست میں یا معاشرت میں مداخلت کرتا ہے تو اسی مقدمے کے ساتھ۔یہ انسان ہی ہے جو سیاست دان ہے۔وہی ہے جو سماجی ادارے قائم کرتا ہے۔ مذہب اسے بتاتا ہے کہ اس دنیا میں اپنی بقا اور زندگی کو منظم بنانے کے لیے وہ جو قدم اٹھائے،مذہب کے اس مقدمے کو سامنے رکھے۔وہ متنبہ رہے کہ مذہب کسی گروہی عصبیت کا نام نہیں۔یہ پروردگار کی ہدایت ہے۔یہ اسے ’آخرت مرکز‘بناتا اوراس کے اخلاقی وجود کی پاکیزگی کا اہتمام کرتا ہے۔

انسان اس بات کو اکثر بھلا دیتا ہے۔کبھی اس پر گروہی عصبیت غالب آ جاتی ہے اور کبھی شخصی مفاد۔وہ گروہ کی محبت میں سب کچھ جائز اور اسے مذہب کا مطالبہ سمجھتا ہے۔ ذاتی مفاد کے لیے کی جا نے والی سعی وجہد کو’جہاد فی سبیل اللہ‘ قرار دیتا ہے،اسی لیے انسانوں کو تذکیر کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ کے پیغمبر اسی کے لیے آتے ہیں۔حضرت مسیح  علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں یہی ذمہ داری ادا کی، جو یہ گمان رکھتے تھے کہ وہ دین موسوی پہ قائم ہیں۔سید نا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ ذمہ داری ایک سطح پر عربوں کے لیے سر انجام دی، جو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ دین ابراہیمی پر کھڑے ہیں۔چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کے آخری نبی اور رسول تھے، اس لیے آپ نے عالمی پیمانے پر حق کی شہادت دی۔یہ آپ کی دعوت کی دوسری سطح تھی۔اللہ نےآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعدیہ کام اب امت کو سونپاہے کہ وہ دوسروں پر حق کی شہادت دے۔طریقہ یہ بتایا کہ ہر قوم میں سے کچھ لوگ اٹھیں، جودین سیکھیں اور پھر انذار کریں۔

یہ مقدمہ تو سب کے لیے قابل فہم ہے کہ مذہب کا پیغام جوہری طور پر آخرت سے متعلق ہے، مگراس باب میں وضاحت کی ضرورت ہے کہ وجودی اعتبار سے مذہب کا مقدمہ اخلاقی کیسے ہے؟ مذہب چند اخلاقی اقدار سے وابستگی کو لازم قرار دیتا ہے۔ایک فرد جب خود کو مذہبی کہتا ہے تو یہ اس کا شعوری فیصلہ ہے۔یہ اعلان ہے کہ میرے فیصلے کسی مادی سود و زیاں یا گروہی و شخصی مفاد کے بجاے ان اخلاقی اقدار کے پابند ہوں گے جن کا احساس میرے داخل میں ہے اور جن کی یاد دہانی اللہ کے پیغمبر کراتے رہے ہیں۔

مثال کے طور پر اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ تم کو ہر صورت میں عدل اور انصاف پر کھڑا رہنا ہے، یہاں تک کہ کسی گروہ کے ساتھ دشمنی بھی تمھیں عدل سے نہ ہٹا سکے(المائدہ ۵: ۸)۔اللہ کے آخری رسول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمان بھائی کی مددکے لیے فرمایا،وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکا جا ئے۔اسی طرح مسلح اقدام کے لیے ایک اجتماعی نظم یا ریاست کو ضروری کہا۔تصادم ناگزیر ہو جائے تو محارب اور غیر محارب میں تمیز کرنے کی ہدایت کی۔مذہب کو اس سے کم دل چسپی ہے کہ اس کے ماننے والے مادی طور پر فاتح ہیں یا مفتوح۔اسلام کو اس سے دل چسپی ہے کہ ان کی اخلاقی شکست کسی صورت میں نہ ہو۔انسان سے دیگر الہامی مذاہب کا مطالبہ بھی یہی ہے۔

اپنی اس اخلاقی حساسیت کی بنا پر،ظلم مذہب کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔وہ اپنے ماننے والوں کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہدایت کرتا ہے۔یہ آواز کیسے اٹھائی جائے گی،اس کا تعلق حالات اور وسائل سے ہے۔تاہم مذہب کے لیے ظلم قابل قبول نہیں ہے۔ وہ جس اخلاقی وجود کی بات کرتا ہے،وہ ظلم کو سند جواز دے کر باقی نہیں رہتا۔ مذہب انسان پر یہ بھی واضح کر تا ہے کہ ظلم کا جواب ظلم نہیں۔دفاع ہر کسی کا حق ہے۔یہ حق بھی کسی ظلم کے لیے جوازنہیں بن سکتا۔

رہا وہ مقدمہ جو غیر مذہبی بنیادوں پر قائم کیا گیا ہو تو اس کی بحث کا دائرہ دوسرا ہے۔ ایک گروہ کسی ریاست یا گروہ کے ظلم کا شکار ہے اوروہ یہ خیال کرتاہے کہ اپنے دفاع کے لیے اسے ہر قدم اٹھانے کا حق ہے تو اس بحث میں مذہبی دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔یہ گفتگو منطقی یا عقلی دائرے ہی میں ہو سکتی ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ مخالف ریاست کا طیارہ اغوا کر کے ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں تواس دلیل کا جائزہ عقل اور منطق کی بنیاد پر لیا جا ئے گا۔ مذہبی دلائل کا مطلب مذہب کے ماخذ سے دلیل لاناہے۔

مشرق وسطیٰ میں آج قیامت برپا ہے۔اس کی بنیاد سرزمین فلسطین پر اسرائیل نام کی ناجائز ریاست کا قیام ہے۔یہ اُس ظلم کی اساس ہے جو اب ایک مسلسل عمل ہے۔ اس کا شکار لوگوں کی اکثریت مسلمان ہے۔اگر وہ بحیثیت مسلمان اپنا مقدمہ لڑنا چاہتے ہیں توحکمت عملی بناتے وقت انھیں لازماً قرآن و سنت سے رہنمائی لینا ہے۔ اگر وہ اسے ایک قومی مسئلے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس میں ان کے ساتھ فلسطینی، مسیحی اور دوسرے گروہ بھی شریک ہیں تو انھیں موجودہ عالمی قوانین اور روایات کے مطابق کوئی لائحۂ عمل طے کر ناہوگا۔ماضی میں دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ حماس پہلے اور پی ایل او دوسرے کی نمایندہ ہیں۔

آج حماس نے جو راستہ اپنا یا ہے،یہ جواب میں مسلح اقدام کا راستہ ہے۔ایران اور ترکیہ وغیرہ اس کو درست سمجھتے ہیں۔اب لازم ہے کہ حماس کے حق میں ایرانی اورترکی افواج اور طیارے حرکت میں آئیں۔ترکیہ نے فلسطینیوں کی مرہم پٹی کے لیے امداد کا اعلان کیا ہے۔حماس کو مرہم پٹی کی نہیں،فوجی مدد کی ضرورت ہے۔اگر اس کو یہ مدد فراہم نہیں کی جاتی تو پھرایرانی اور دوسری حمایت محض نمایشی ہے۔

حماس کے مقابلے میں ریاست ہے۔جو ریاستیں حماس کے موجودہ اقدام کو درست سمجھتی ہیں، ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ عملاً ان کی تائید میں آئیں۔فلسطینیوں کی مرہم پٹی مدت سے ہورہی ہے، مگر ان کا زخم آئے دن تازہ ہو جاتا ہے۔ حماس کو آج اسرائیلی طیاروں کے مقابلے میں طیاروں اور فوج کے مقابلے میں فوج کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کی حمایت میں امریکا نے صرف مرہم پٹی کا سامان نہیں بھیجا، طیاروں سے لدا ہوا اس کا بحری بیڑا اسرائیل کی مدد کو پہنچ چکا۔جو لوگ انھیں یہ مدد نہیں دے سکتے،انھیں چاہیے کہ وہ فلسطینیوں کوتنہا مقتل میں بھی نہ دھکیلیں۔انھیں سیاسی جدو جہد کا راستہ دکھائیں۔بصورت دیگر،کل جب تاریخ فلسطینیوں کے قاتلوں کی فہرست بنائے گی تو اس میں بہت سے دوستوں کا بھی نام ہو گا۔

انسانی جانوں کا معاملہ کھیل تماشا نہیں۔اس کو گروہی مفادات یا سطحی جذباتیت کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔اس کے لیے مذہب کا استعمال توکہیں زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔(بشکریہ: روزنامہ دنیا، لاہور، ۱۲/ اکتوبر  ۲۰۲۳ء)

ـــــــــــــــــــــــــ

B