علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی
مرتب: ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
(حضرت علی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کی منقبت میں ایک حدیث، جس کے بہانے سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر تنقید کی جاتی ہے، کا تحقیقی مطالعہ)
نوٹ:اصل تحریر علامہ شبیر احمد ازہر میرٹھی کے قلم سے ہے،البتہ بعض ضروری حوالوں کا اضافہ راقم خاک سارنے کردیاہے،بعض نوٹس بڑھائے ہیں اوراس کی تھوڑی تہذیب کردی ہے۔مصنف اورمرتب کی عبارتوں میں فرق کرنے کے لیے ’غ‘ سے اشارہ کردیاہے۔ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی )
امام مسلم رحمہ اللہ نے قتیبہ بن سعیدومحمدبن عبادسے، ان دونوں نے حاتم بن اسمٰعیل سے، اس نے بُکیر بن مسمار سے روایت کی ہے:
عن عامر بن سعد بن أبي وقاص عن أبیه قال: أمر معاویة بن أبي سفیان سعدًا (أن یسبّ علیًا فأبی) فقال: ما منعک أن تسب أبا التراب؟ فقال: أما ما ذکرتُ ثلاثًا قالهن له رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم فلن أسبه، لأن تکون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم، سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یقول له حین خلفه في بعض مغازیه، فقال له علي: یارسول اللّٰه، أتخلفني مع النساء والصبیان، فقال له رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: «أما ترضی أن تکون مني منزلة هارون من موسیٰ إلا أنه لانبوة بعدی». وسمعته یقول یوم خیبر: «لأعطین الرأیة رجلًا یحب اللّٰه ورسوله ویحبه اللّٰه ورسوله» قال: فتطاولنا لها فقال: «ادعوا لي علیًا» فأتی به أرمد فبصق في عینه ودفع الرأیة إلیه ففتح اللہ علیه. ولما نزلت هذہ الآیة: ﴿فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ﴾ دعا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم علیًا وفاطمة وحسنًا وحسینًا فقال: «اللهم هولاء أهلي». (مسلم ، رقم ۶۳۷۳)
’’حضرت معاویہ بن ابی سفیان (امیر المؤمنین )نے حضرت سعدبن ابی وقاص کوحکم دیاکہ ابوتراب، یعنی حضرت علی بن ابی طالب کوبراکہو، (یعنی ان پر دعاے لعنت کرو)سعدنے یہ حکم نہ ماناتومعاویہ نے ان سے کہا: ابوتراب کوبراکہنے سے آپ کوکیامانع ہے۔سعدنے کہا: آ گاہ باش، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کے متعلق جوتین باتیں کہی تھیں، جب تک وہ مجھے یاد ہیں، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا۔ان تین باتوں میں سے ایک بھی میرے متعلق فرمائی ہوتی تومجھے سرخ اونٹوں سے بھی بڑھ کرعزیزہوتی۔(سرخ اونٹ بہت قیمتی ہوتاتھا)میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جب کہ ایک جہادی سفرمیں آپ نے علی کوساتھ نہ لیا تھا، مدینہ میں ہی رہنے کا حکم فرمایاتھا۔علی نے دل گرفتہ ہوکرعرض کیا تھا: یارسول اللہ، آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑرہے ہیں، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایاکہ تم اس بات پر راضی نہیں ہوکہ تمھارامجھ سے وہی مرتبہ ہوجوحضرت ہارون کا حضرت موسی ٰعلیہ السلام سے تھا،مگریہ ہے کہ میرے بعدنبوت نہیں ہے، (یعنی حضرت ہارون علیہ السلام توحضرت موسیٰ علیہ السلام کے شریک کاراورنبی تھے، لیکن مجھے نبوت عطافرمانے کے بعدنبوت ختم کردی گئی ہے۔نہ میرے ساتھ کوئی نبی ہوسکتاہے نہ میرے بعد)۔نیز میں نے آپ کوخیبرکے دن یہ فرماتے ہوئے سناکہ میں ایک شخص کوعَلم دوں گاجواللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتاہے اوراس سے اللہ اوراس کا رسول محبت کرتے ہیں۔یہ سن کرہم سب اس کے آرزومندہوئے، (یعنی ہرصحابی کوآرزوہوئی کہ علم مجھے ملے۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی کو بلا کر لاؤ۔ وہ حاضرکیے گئے، حال یہ تھاکہ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔آپ نے ان کی آنکھوں میں لعاب کے ساتھ پھونک ماری اورعلم انھیں عطافرمایا۔نیز جب آیت ِمباہلہ نازل ہوئی جس میں: ’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ‘ ہے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اورفاطمہ اورحسن وحسین کو بلا کر فرمایا: خدایا، یہ میرے گھروالے ہیں۔‘‘
تراجم :
بکیربن مسمارزہری مدنی دروغ گورافضی تھا۔بخاری نے اس کی روایت کی ہوئی کوئی حدیث تخریج نہیں فرمائی۔مسلم نے دوحدیثیں تخریج کی ہیں، ایک تویہی ہے اوردوسری اس کے بعدآرہی ہے (علامہ میرٹھی نے اس پر بھی نقدفرمایاہے)۔
(تہذیب التہذیب میں ہے : ’قال البخاري: فیه نظر وقال العجلي: ثقة وقال النسائي: لیس به بأس وقال ابن عدي: مستقیم الحدیث‘۔ص ۴۳۴ (حرف الباء) المجلد الاول، دارالفکر بیروت، طبع: ۱۹۸۴ء۔
یعنی بخاری تواس کوثقہ خیال نہیں کرتے،عجلی کام چلاؤقراردیتے ہیں اورنسائی نے بھی کام چلاؤہی قرار دیا ہے۔ صرف ابن عدی نے ٹھیک قراردیاہے۔(ظاہرہے کہ امام بخاری کے مقابلے میں ان حضرات کا اس کوثقہ قرار دینا محل نظرہے)۔ ہماری تحقیق میں اس روایت کے دوجزدرست نہیں ہیں۔سنداًاس روایت پر یہ کلام ہے کہ اس کا راوی بکیربن مسمارضعیف ہے، جیساکہ اوپر گزرا، تاہم چونکہ اس کی تخریج مسلم نے کی ہے اوربعض ائمہ نے بکیر کو کسی درجہ میں قبول کیاہے توروایت کودرست مانا جا سکتا ہے، مگراس کے دو جز یقیناً غلط ہیں اوردرایتاً اس کے وجوہ درج ذیل ہیں۔غ):
۱۔ اس میں مذکورہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو سیدنا علی کوسب وشتم کرنے کا حکم دیاتھا۔ناظرین جانتے ہوں گے کہ حضرت سعدبن ابی وقاص عمرومرتبہ میں حضرت معاویہ سے بدرجہاافضل تھے۔وہ معاویہ سے تقریباً اٹھارہ سال عمرمیں بڑے تھے،نوجوانی میں، جب کہ سولہ سترہ سال کے تھے، مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ قدیم الاسلام ہیں، عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں اوران چھ اشخاص میں سے ایک ہیں جن کے متعلق حضرت عمر نے آخری وقت میں وصیت فرمائی تھی کہ خلافت کے لیے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کیاجائے۔بوقت انتخاب حضرت سعدنے حضرت عثمان کے حق میں راے دی تھی۔حضرت عثمان کے بعدجب بلوائیوں اورعام انصار مدینہ نے حضرت علی سے بیعت کرلی توعبداللہ بن عمرواسامہ بن زیدوغیرہم کی طرح سعدبھی ان کی بیعت سے کنارہ کش رہے۔حضرت علی کے بعدان کے فرزندارجمندحضرت حسن نے جب حضرت معاویہ سے صلح اور بیعت کرلی توتمام مسلمانوں کی طرح حضرت سعدنے بھی بطوع ورغبت حضرت معاویہ سے بیعت کرلی۔ حضرت معاویہ ایسے نادان نہ تھے کہ حضرت سعدکے مقام ومرتبہ سے آنکھ بندکرکے انھیں علی کوسب وشتم کرنے کا حکم دیتے، نہ وہ جاہل وبدزبان شخص تھے کہ حضرت علی کے بعدانھیں خود برا کہتے اوردوسروں سے براکہلواتے۔ بے شک، علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان زبردست وخون ریز جنگ ہوئی تھی، مگرمعاویہ اس میں حملہ آورنہ تھے۔ حضرت معاویہ نے دفاعی جنگ لڑی تھی۔بکیربن مسمارنے اپنی طرف سے یہ بات بنادی ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت سعدکوسب ِعلی کا حکم دیا تھا اور نہ ماننے پر ان سے ’ما منعک أن تسب أبا تراب‘ کہاتھااورسعدنے انھیں بتایاتھاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا علی کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں۔
ابن خلدون کہتے ہیں کہ کسی خبرکے بارے میں امکان وقوع راوی کے ثقہ ہونے سے زیادہ اہم ہے اور یہاں اس بات کا امکان نہیں معلوم ہوتاکہ یہ قصہ ہواہوگا۔غ )ایک نہایت افسوس ناک بات یہ ہے کہ علی و معاویہ کی زندگیوں میں ہی اصحاب علی واصحاب معاویہ کے درمیان سب وشتم اورلعن وطعن کا اورتبرابازی کا سلسلہ شروع ہوگیاتھا۔’’البدایہ و النہایۃ‘‘ اور ’’ تاریخ ابن جریر‘‘ میں تصریح ہے کہ اس کا آغازکوفہ میں اصحاب علی نے کیا تھا۔
(البدایہ والنہایۃ، طبع: دار ہجر، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی ۱۰ / ۵۷۵،تاریخ ابن جریرکے حوالے سے حافظ ابن کثیرنے اس کا تذکرہ کیاہے کہ حضرت علی نے اس کی ابتدا کی اور حضرت معاویہ نے جواب میں اس کوشروع کیا،مگر خودحافظ نے کہاہے: ’ولایصح هذا عنهم‘ حوالہ بالا،غ)جواب آں غزل کے طورپر اصحاب معاویہ نے بھی اسے اپنالیا۔اہل رفض وتشیع تواب تک تبرابازی کومذہبی شعارکی حیثیت سے اختیارکیے ہوئے ہیں، مگراہل سنت ہمیشہ اس سے محفوظ رہے۔کچھ مدت تک بنی امیہ اوراُن کے چمچے تبرابازی کرتے رہے، لیکن خلیفۂ راشدعمربن عبدالعزیز نے سختی کے ساتھ اس کو بند کرا دیا، بلکہ مٹا دیا۔
۲۔ اُن تین باتوں میں سے پہلی بات بکیربن مسمارنے حضرت سعدکے سرپہ منڈھی تھی کہ ایک سفر جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کومدینہ میں چھوڑاتھا۔انھوں نے عرض کیا:’یارسول اللّٰه، أتخلفني مع النساء والصبیان‘۔آپ نے ان کوتسلی دیتے ہوئے فرمایا:’أما ترضی أن تکون مني بمنزلة ہارون من موسیٰ إلا أنه لانبوة بعدي‘۔بکیربن مسمارنے نہ معلوم کیوں اس سفر جہاد کا نام نہیں لیا تھا، یقیناً وہ سفر تبوک تھا، اس لیے کہ اس کے علاوہ ہرسفرمیں حضرت علی آپ کے ساتھ رہے ہیں، مگراس دوردراز کے سفرکے موقع پر سخت اندیشہ تھاکہ منافقین کوئی فتنہ برپانہ کردیں، اس لیے آپ نے محمد بن مسلمہ انصاری کومدینہ میں اپناجانشین مقررکیاتھا۔نمازپڑھانااورعام دیکھ بھال رکھنااورمنافقین کی طرف سے چوکس رہنامحمدبن مسلمہ کے ذمے تھا۔سیدنا علی کوآپ نے حضرت فاطمہ اوران کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی نگہداشت کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دیاتھا۔’حتی إذا طلب الرسول صلی اللّٰه علیه وسلم من علي بن أبي طالب أن یخلفه في أهله‘ (د،اکرم ضیاء العمری، صحیح السیرۃ النبویہ ۲/ ۵۲۹)۔
لیکن یہ قطعاً غلط اور اہل تشیع کی گھڑی ہوئی بات ہے کہ اس موقع پر آپ نے حضرت علی کوتسلی دیتے ہوئے فرمایاتھا:’أما ترضی أن تکون مني بمنزلة ہارون من موسیٰ‘۔آپ نے سیدنا علی کومدینہ میں اپنا جانشین اور خلیفہ مقررنہیں کیا تھا۔ آپ کے جانشین تومحمدبن مسلمہ انصاری تھے۔آپ نے حضرت علی کو اپنا خلیفہ مقرر کیا ہوتا تو آپ کا ان سے یہ فرمانامعقول ہوتا۔(یٰسین مظہرصدیقی تویہ کہتے ہیں کہ کسی ہاشمی کویہ عہدہ پورے دور نبوی میں نہیں ملاتھا۔ملاحظہ ہو: عہد نبوی میں تنظیم ریاست وحکومت ۲۶۰، القاضی پبلشرز، نئی دہلی، طبع اول: ۱۹۸۸ء،غ)
بقول علامہ ابن خلدون واقعات کی خبروں کے تعلق سے اصل چیز امکان وقوع ہے، نہ راوی کا ثقہ وعادل ہونا۔ وہ کہتے ہیں :
’’وأما الأخبار عن الواقعات فلابد في صدقها وصحتها من اعتبار المطابقة فلذالک وجب أن ینظر في إمکان وقوعه وصار ذالک فیها أهم من التعدیل ومقدمًا علیه. (مقدمہ ابن خلدون ۱۵)‘‘
(یعنی جہاں تک واقعات کی خبروں کا تعلق ہے تو ان کی سچائی اور صداقت کے لیے صرف اتناکافی نہیں کہ راوی ثقہ ہے یا نہیں، بلکہ اس میں اس کے وقوع پذیر ہونے کے امکان پر غور کرنا چاہیے، اور یہ تعدیل سے زیادہ اہم ہے اور اس پر مقدم ہے۔ صفحہ ۱۵،غ)
۱۔ قرآن کریم میں تصریح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طورکے لیے روانگی کے موقع پر حضرت ہارون علیہ السلام سے فرمایاتھا:’اخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَاَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ‘ (الاعراف ۷: ۱۴۲)۔ روایت میں اِس فقرہ کا پیوندلگانے والوں کوسوچناچاہیے تھاکہ سعدبن ابی وقاص نے اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدنا علی کے متعلق یہ سناہوتاتوہ انتخاب خلیفہ کے موقع پر سیدنا علی کو چھوڑ کر سیدنا عثمان کے حق میں راے نہ دیتے۔اور سیدنا عثمان کے بعد سیدنا علی سے بیعت کرنے سے دست کش نہ رہتے، جب کہ حضرت معاویہ سے انھوں نے بغیرکسی ترددکے بیعت کرلی تھی۔
۲۔ رہی دوسری بات، یعنی غزوۂ خیبرمیں حضرت علی کو عَلم دے کرجنگ کے لیے بھیجناتویہ فی نفسہٖ صحیح قصہ ہے، لیکن یہ بات قطعی سمجھنے میں آنے والی نہیں کہ اس بات کوسعدرضی اللہ عنہ نے سیدنا علی کوسب نہ کرنے کی معذرت میں معاویہ سے اسے بیان کیاہو۔
۳۔ رہی تیسری بات تووہ نہایت نازیباجھوٹ ہے۔افسو س کہ ثقہ محدثین تک اس کونقل کرگزرے ہیں اورانھوں نے سورۂ آل عمران کی اس آیت پر غورنہیں کیاجس میں ’قُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ‘ ہے۔ میں ناظرین کے سامنے وہ آیت رکھ رہاہوں۔
قرآن مجیدمیں حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کی حقیقت روزروشن کی طرح واضح کردی گئی تھی، لیکن اہل کتاب کی اکثریت ان کے متعلق اپنی بدعقیدگی پر مصرتھی، یہودتکذیب وتفریط سے اورنصاریٰ افراط و غلو سے باز آنے کا نام نہ لیتے تھے اوراس مسئلہ میں کج بحثی پر کمربستہ رہتے تھے اوردل میں طے کیے رہتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارے میں کوئی بات مان کرنہ دیں گے، اس لیے اب ان کے ساتھ بحث میں الجھنا بے سود تھا، اس لیے اللہ تعالی ٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوہدایت فرمائی کہ مسیح بن مریم علیہ السلام کے متعلق جو یقینی باتیں ہم نے تمھیں بتادی ہیں، ان کے بعدبھی اہل کتاب یہود و نصاریٰ اپنی ہی بات ہانکتے رہیں اورآپ سے کج بحثی کریں توانھیں دعوت مباہلہ دوکہ آؤہم تم دونوں فریق میدان دعامیں کھڑے ہوں ہم اپنے بچوں اورعورتوں اور مردوں کولے آئیں اورتم اپنے بچوں اورعورتوں اورمردوں کولے آؤ، دونوں فریق اللہ کے حضورگڑگڑائیں کہ دونوں میں سے جوفریق بھی جھوٹا ہو، اسی پر اللہ کی پھٹکارہو۔چنانچہ ارشادہوا:
فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْۣ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْﵴ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ . (آل عمران۳ : ۶۱ )
’’پس اے نبی، جولوگ تجھ سے مسیح بن مریم کے بارے میں کج بحثی کریں اُس علم کے بعدبھی جو تجھے حاصل ہواہے (اورتونے انھیں اس سے خوب آ گاہ کردیاہے) تو کہہ دے کہ آؤہم اہل ایمان اپنے بیٹوں کو اور تم لوگ اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو، ہم اپنے برادران دین کواورتم اپنے برادران دین کوبلا لیں، پھرہم گڑگڑا کر دعا کریں، پس ہم جھوٹے فریق پر اللہ کی لعنت تجویز کریں۔‘‘
۹ھ میں نجران کے عیسائیوں کاجووفدآیاتھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ان کے سامنے توضیحات رکھیں اورانھیں قبول اسلام کی دعوت دی توانھوں نے ضدوعنادکی وجہ سے قبول اسلام سے اورحضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق بدعقیدگی سے بازآجانے سے انکارکردیاتوآپ نے انھیں دعوت مباہلہ دی، وہ اس پر آماد ہ ہوگئے، مگران کے ایک سردارنے کہاکہ ان سے مباہلہ نہ کرو، کیونکہ اگریہ فی الواقع نبی ہیں تو ان کی بددعا ہمیں نامرادکرکے رکھ دے گی اورہماری نسل کوبھی۔سب اس پر متفق ہوگئے، مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا اور دارالاسلام کے تحت ذمی بن کررہنے اورجزیہ اداکرتے رہنے کا اقرارکرلیااورعرض کیا کہ ہمارے ساتھ اپنے اصحاب میں سے ایک معتمدعلیہ شخص کوبھیج دیں۔آپ نے امین الامۃ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کوان کے ساتھ بھیج دیا(صحیحین)اوریہ خیال کرناقطعاً غلط ہے کہ وفدنجران کی آمد اور ان سے حضرت مسیح کے متعلق گفتگو ہونے پر یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی تھی۔یہ آیت تواس وفدسے کئی سال پہلے نازل ہو چکی تھی۔اس آیت کے مطابق ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر کار اس وفد کو دعوت مباہلہ دی تھی۔
اب بکیربن مسمارکی روایت کی طرف آئیے، اس نے حضرت سعدکے سریہ منڈھاہے کہ ’ولما نزلت هذہ الآیة: ﴿فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ﴾ دعا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم علیًا وفاطمة وحسنًا وحسینًا فقال: «اللهم هؤلاء أهلي» ‘۔
اب کوئی یہ بتائے کہ اس آیت کے نزول پر علی وفاطمہ وحسن وحسین کو بلا کر ’اللّٰهم أهلي‘ فرمانے کی کیا تک ہوسکتی ہے۔ماروں گھٹنا پھوٹے خیرآباد۔پھربکیربن مسمارکویہ بھی علم نہ تھاکہ جب مباہلہ نازل ہوئی ہے تو حسین بن علی پیدابھی نہیں ہوئے تھے۔حسن بن علی، ممکن ہے کہ پیدا ہوگئے ہوں، اس لیے کہ سورۂ آل عمران میں حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام سے متعلق آیات، آیت مباہلہ سمیت غزوۂ احد سے پہلے نازل ہوچکی تھیں۔ غزوۂ احدشوال ۳ھ میں ہواتھااورحسن بن علی بقول خلیفہ بن خیاط وغیرہ نصف رمضان ۳ھ میں اور بقول قتادہ ۱۵؍ شوال ۴ھ میں پیدا ہوئے (تہذیب التہذیب: طبع: دارالفکر، الطبعۃ الاولی، ۱۹۸۴ء، ۲/ ۲۵۷) اور حضرت حسین حضرت حسن سے ایک سال بعد پیدا ہوئے (قال جعفر بن محمد کان بین الحسن والحسین طهر واحد،ص ۲۹۹، نفس المصدر،غ)۔ الغرض بکیر بن مسمار کی روایت میں یہ تیسری بات قطعاً غلط ہے۔(اس سلسلہ میں مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’ تفسیر مفتاح القرآن‘‘ میں آیت مباہلہ کی تفسیر اور متعلقہ روایات کی تحقیق، ۱/ ۶۷۰ - ۶۷۳، شائع کردہ: فاؤنڈیشن فار اسلامک اسٹڈیز، نئی دہلی، طبع ثانی )۔
ـــــــــــــــــــــــــ